مستند اسلامی تاریخ

۲۰ویں قسط:                                                                    مولانا عبد العظیم امراوتی

اس ترتیب وار مضمون کی ۱۹ویں قسط ماہ اپریل۲۰۱۹ میں شایع ہوئی تھی

طوفان کا ختم ہونا اور کشی کا جودی پہاڑ پر ٹھہرنا :

            حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر پانی کا طوفان آیا ،جو خوب زیادہ تھا۔ پہاڑوں کی چوٹیوں سے اوپر پانی پہنچ گیا اور اس کی موجیں بھی پہاڑوں کی طرح تھیں ۔ اتنے کثیر پانی سے کون بچ سکتا تھا سوائے ان مومن اورمخلص بندوں کے؛ جو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔

طوفان کتنے دن رہا ؟

            اس کے بارے میں جو روایات ہیں ، ان میں اختلاف ہے ۔ایک قول یہ ہے کہ کشتی ایک سوپچاس دن تک پانی پر رہی اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چھ مہینے تیرتی رہی ۔ صحیح علم اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کو طوفان ختم کرنا منظور ہوا تو زمین کو حکم دیا :

            {یا ارض ابلعی مائک ویاسماء اقلعی وغیض الماء وقضی الامر واستوت علی الجودی وقیل بعدا للقوم الظالمین}(ہود)

            اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان پانی برسانا بند کردے اور پانی کم ہوگیا اور حکم پورا ہوا۔ اور کشتی چلتے چلتے جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا دی گئی کہ ظالموں کے لیے اللہ کی رحمت سے دوری ہو۔

            کشتی تو جودی پہاڑ پر ٹھہر گئی ، لیکن اس سے اترنا کب نصیب ہوا اس کے بارے میں مؤرخین ومفسرین نے لکھا ہے کہ ایک ماہ تک جودی پہاڑ پر رہے۔ جب حضرت نوح علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ پانی ختم ہوگیا اور زمین اس لائق ہوگئی ہے کہ اس پر قیام کیا جائے تو وہاں سے نیچے اتر ے۔ اور پھر اُن سے دنیا بسنا شروع ہوئی اور ان کے تینوں بیٹوں (جو کشتی میں سوار تھے)سے آگے دنیا میں نسل چلی ۔ جن کے یہ نام مشہور ہیں ۔ سام ، حام اور یافث۔

اور اسی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام کا لقب ابو البشر ثانی یا آدم ثانی یعنی انسانوں کا باپ مشہور ہوا۔

            قرآن کریم نے بھی{ وجعلنا ذریتہ ہم الباقین }سے اشارہ کیا ہے۔ طوفان کے بعد جو نسل آگے بڑھی وہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہی بڑھی ہیں۔

طوفان نوح عام تھا یا خاص؟

طوفان نوح تمام کرۂ ارضی پر آیا تھا یا کسی خاص خطہ پر ؟

            اِس کے متعلق علمائے قدیم و جدید میں ہمیشہ سے دورائے رہی ہیں ۔علما ئے اسلام میں ایک جماعت ، علمائے یہود ونصاریٰ اور بعض ماہرین علوم فلکیات ، طبقات الارض اور تاریخ طبیعات کی یہ رائے ہے کہ یہ طوفان تمام کرۂ ارضی پر نہیں آیا تھا، بل کہ صرف اسی خطہ میں محدود تھا ،جہاں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم آباد تھی ۔اور یہ علاقہ مساحت کے اعتبار سے ایک لاکھ چالیس ہزارمربع کیلو میٹر ہوتا ہے۔ان کے نزدیک طوفان نوح کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ طوفان عام تھا تو اس کے آثار کرۂ ارضی کے مختلف گوشوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ملنے چاہئے تھے ،حالاں کہ ایسا نہیں ہے ۔ نیز اس زمانہ میں انسانی آبادی بہت ہی محدود تھی اور وہی خطہ تھا ،جہاں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم آباد تھی ۔ ابھی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کا سلسلہ اس سے زیادہ وسیع نہ ہوا تھا ، جو کہ اس علاقہ میں آباد تھا ۔ لہٰذا وہی مستحق عذاب تھے اور ان پر طوفان کا یہ عذاب بھیجا گیا ۔ باقی کرۂ زمین کو اس سے کوئی علاقہ نہ تھا ۔

            اور بعض علمائے اسلام ، ماہرین طبقات الارض اور علمائے طبیعات کے نزدیک یہ طوفان تمام کرۂ ارضی پر حاوی تھا۔ اور یہی ایک نہیں ،بل کہ ان کے خیا ل میں اس زمین پر ایسے متعددطوفان آئے ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی تھا۔

             وہ پہلی رائے کے تسلیم کرنے والوں کو آثار سے متعلق سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ جزیرہ یا عراقِ عرب کی اس سر زمین کے علاوہ بلند پہاڑوں پر بھی ایسے حیوانات کے ڈھانچے اور ہڈیاں بکثرت پائی گئی ہیں، جن کے متعلق ماہرین علم طبقات الارض کی یہ رائے ہے کہ یہ حیوانات صرف اور صرف پانی میںہی زندہ رہ سکتے ہیں۔پانی سے باہر ایک لمحہ بھی ان کی زندگی دشوار ہے ۔

            ان کا ثبوت اس بات کی دلیل ہے کہ کسی زمانہ میں پانی کا ایک ہیبت ناک طوفان آیاتھا، جس نے پہاڑوںکی چوٹیوں کو بھی اپنی غرقابی سے نہ چھوڑا۔

            ان ہر دو خیالات وآرا کی اُن تمام تفصیلات کے بعد محققین کی یہ رائے ہیں ۔اور صحیح مسلک یہی ہے کہ طوفان خاص تھا عام نہ تھا ۔(قصص القرآن /علامہ حفظ الرحمن سیوہاروی)

کوہ ِجودی (جودی پہاڑ ):

            قرآن کریم کے مطابق کشتیٔ نوح جودی پہاڑی پر آکر ٹھہری تھی ۔ جودی پہاڑ مشرقی ترکی میں واقع برف سے ڈھکی ہوئی ایک چوٹی ہے۔یہ آرمینیا کی سرحد سے ۳۰۰؍ کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔

نوح علیہ السلام کی کشتی پر چند شبہات کا جواب :

            ۱۹۷۷ء میں ترکی کے اس پہاڑ پر کچھ مہم جوؤں نے اس کشتی کو دریافت کیا ۔

            اخبارات میں اس کی تصویر شائع ہوئیں تو یہودیوں ، عیسائیوں اور ملحدین کے درمیان ایک نئی بحث چھڑ گئی ۔

            ملحدین اور روشن خیالوں نے اس پر چار بڑے اعتراض اٹھائے ۔ یہود اور نصاریٰ اس کا جواب نہ دے سکے ۔ مگر قربان جائیے کہ قرآن مجید میں ان کے تمام اعتراض کا جواب پہلے سے موجود ہے ۔

پہلا اعتراض :

            بغیر کسی ٹکنا لوجی کے چھ ہزار سال قبل ایسی عظیم الشان کشتی بنانا کیسے ممکن ہوا ، جو اتنا وزن اٹھاکر ایک لمبے عرصے تک سمندر میں سفر کرتی رہے؟

            جواب:  {وحملناہ علی ذات الواح  ودسر} (القمر)

            اور ہم نے اسے تختوں اور کیلوں والی (کشتی ) پر سوار کیا ۔ تحقیق کے بعد اس کشتی سے دھاتی کیلوں اور تختوں کے آثار ملے ہیں ۔ کیلوں اور تختوں کی وجہ سے ہی یہ ممکن ہوا ۔ اللہ جل شانہ نے نوح علیہ السلام کو اس کا علم عطافرمایا تھا ۔

دوسرا اعتراض :

            اس زمانے میں اتنی بڑی کشتی کیسے بنائی جاسکتی تھی ، جس میں دنیا بھر کے جانوروں کے جوڑے سوار ہوئے ؟

            جواب :{حتی اذا جاء امرنا وفار التنور قلنا احمل فیہا من کل زوجین اثنین واہلک الا من سبق علیہ القول ومن اٰمن وما اٰمن معہ الا قلیل }(الہود: ۴۰)

            یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آپہنچا اور تنور ابلنے لگے توہم نے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جانداروں میں سے جوڑے ،یعنی ایک نر اور ایک مادہ اوراپنے گھر کے لوگوں کو بھی سوارکرالے۔ سوائے ان کے جن پر پہلے سے بات پڑچکی ہے ۔اور سب ایمان والوں کو بھی سوار کرالے۔ ان کے ساتھ ایمان لانے والے بہت ہی کم تھے ۔

            یعنی یہ کشتی کوئی عام کشتی نہ تھی ،بل کہ بڑی کشتی تھی ۔یہ کشتی تین منزلہ تھی اور بہت لمبی چوڑی تھی ، اس میں  پانچ سو بائیس ریل کے ڈبے سوار کیے جاسکتے تھے اورپچیس ہزار جانوروں کی گنجائش موجود تھی ۔

تیسرا اعتراض :

            اتنی بڑی کشتی اتنے عظیم طوفان میں بغیر لنگر کے کیسے تیر سکتی ہے ؟

            جواب{وقال ارکبوا فیہا بسم اللہ مجریہا ومرساہا ان ربی لغفور رحیم } (الہود: ۴۱)

            نوح علیہ السلام نے کہا اس کشتی میں بیٹھ جاؤ، اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے۔ یقینا میرا رب بڑی بخشش اور بڑے رحم والا ہے ۔

            حیرت انگیز طور پر جس پہاڑ پر یہ کشتی ٹھہری ہے، اس کے نیچے وادی میں چٹانوں کے نیچے بڑے بڑے لنگر دریافت ہوئے ہیں وہ اسی کشتی کے لنگر ہیں ۔

چوتھا اعتراض : 

            ایک لکڑی کی کشتی اتنے لمبے عرصے تک ایک پہاڑ کی چوٹی پر کیسے باقی رہی ؟

            جواب:   {ولقد ترکنا ہا آیۃ فہل من مدکر }(القمر: ۱۵)

            اور ہم نے اسے اہل دنیا کے لیے اپنی قدرت کی نشانی بنایا ہے۔ تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا؟

            حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس پورے پہاڑی سلسلے میں صرف اسی پہاڑ کی چوٹی پر برف ہے، جہاں یہ کشتی ہے ۔ برف کی وجہ سے یہ کشتی محفوظ رہی ۔

 (ماخوذ از واقعہ نوح علیہ السلام /محمد انس عبد الرحیم ، صفہ اسلامک ریسرچ سینٹر)

حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ سے حاصل ہونے والے نتائج:

            (۱)…  ہر ایک انسان اپنے کردار وعمل کا خود ہی جواب دہ ہے۔ اس لیے باپ کی بزرگی بیٹے کی نافرمانی کا مداوا اور علاج نہیںبن سکتی اور نہ ہی بیٹے کی سعادت باپ کی سرکشی کا بدل ہوسکتی ہے ۔

            حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت وپیغمبری کنعان کے کفر کی پاداش کے آڑے نہ آسکی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیغمبرانہ جلالت ِقدر ؛شرکِ آزر کے لیے نجات کا باعث نہ ہوسکی ۔

            ’’ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلیٰ شَاکِلَتِہٖ ‘‘  ہر شخص اپنے اپنے ڈھنگ پر کام کرتا ہے ۔

            (۲) …بری صحبت زہر ہلاہل سے بھی زیادہ قاتل ہے اور اس کا ثمرہ ونتیجہ ذلت وخسران اورتباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ انسان کے لیے جس طرح نیکی ضروری شئ ہے اس سے کہیں زیادہ نیکوں کی صحبت ضروری ہے ۔اور جس طرح بدی سے بچنا اس کی زندگی کا نمایاں امتیاز ہے ، اس سے کہیں زیادہ بروں کی صحبت سے خود کو بچانا ضروری ہے ۔

پسر نوح با بداں بہ نشست

خاندانِ نبوتش گم شد

              حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا بروں کی صحبت میں بیٹھنے لگا ، تو نبوت کے خاندان سے ہونے کے باوجود اس کو فائدہ نہیں ہوا۔

سگِ اصحاب کہف روزے چند

پئے نیکاں گرفت مردم شد

             اور اصحاب کہف کا کتا کچھ دن نیکوں کی صحبت میں رہا تو اس کی عزت بڑھ گئی ۔

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح ترا طالح کند

            نیکوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اوربروں کی صحبت تجھے برا بنائے گی۔ 

            (۳)…اللہ تعالیٰ پر صحیح اعتماد اور بھروسے کے ساتھ ظاہری اسباب کا استعمال توکل کے منافی نہیں ہے، بل کہ توکل علی اللہ کے لیے صحیح طریق کار ہے ۔ تب ہی تو طوفان نوح سے بچنے کے لیے کشتیٔ نوح ضروری ٹھہری ۔

            (۴)…انبیا علیہم السلام سے پیغمبر خدا اور معصوم ہونے کے باوجود بہ تقاضائے بشریت لغزش(چوک) ہوسکتی ہے ۔ مگر وہ اس پر قائم نہیں رہتے، بل کہ من جانب اللہ ان کو تنبیہ کردی جاتی ہے اور اس سے ہٹا لیا جاتا ہے ۔

            حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات اس کے لیے شاہد عدل ہیں ۔ نیز وہ عالم الغیب بھی نہیں ہوتے جیسا کہ اس واقعہ میں {فَلاَ تَسْئَلْنِ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ }سے واضح ہے ۔

            (۵)…اگر چہ پاداشِ جرم کا خدائی قانون کا ئنات کے ہر گوشے میں اپنا کام کررہا ہے ، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر جرم اور ہر طاعت کی سزا و جزا اسی عالم میں مل جائے ۔

            کیوں کہ یہ کائنات عمل کی کشت زار ہے ۔ اور پاداشِ کردار کے لیے معاد اور عالم آخرت کو مخصوص کیا گیا ہے ۔ تاہم ظلم اور غرور اُن دو بد عملیوں کی سزا کسی نہ کسی نہج سے دنیا میں بھی ضرور ملتی ہے۔

            امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ظالم اور متکبر اپنی موت سے قبل ہی اپنے ظلم وکبر کی کچھ نہ کچھ سزا ضرور پاتا ہے ۔

ذلت ونامرادی کا منہ دیکھتا ہے ۔ چناں چہ خدا کے سچے پیغمبر وں سے الجھنے والی قوموں اور تاریخ کی ظالم ومغرور ہستیوں کی عبرت ناک ہلاکت وبربادی کی داستانیں اس دعوے کی بہترین دلیل ہیں۔

            آئندہ شمارے میں ان شاء اللہ ’’ذکرا لاحداث التی کانت بین نوح وابراہیم علیہما السلام‘‘ (زمانہ نوح علیہ السلام سے ابراہیم علیہ السلام تک کے واقعات وحوادث شروع کریںگے۔

 (قصص القرآن: ص ۷۰)