مستند اسلامی تاریخ

۱۹؍ ویں قسط :

مفتی نجم الحسین / استاذ جامعہ اکل کوا

عذاب :

            {حَتّیٰٓ اِذَا جَآئَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُلا قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ  سَبَقَ  عَلَیْہِ  الْقَوْلُ  وَمَنْ اٰمَنَ ط وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗٓ اِلَّا قَلِیْل’‘o وَقَالَ  ارْکَبُوْا  فِیْھَا  بِسْمِ  اللّٰہِ مَجْرٖؔئھَا  وَمُرْسٰھَا ط اِنَّ  رَبِّیْ لَغَفُوْر’‘  رَّحِیْم’‘ o وَھِیَ  تَجْرِیْ  بِہِمْ  فِیْ  مَوْجٍ  کَالْجِبَالِ قف وَنَادٰی  نُوْحُ نِ  ابْنَہٗ  وَکَانَ  فِیْ مَعْزِلٍ  یّٰبُنَیَّ  ارْکَبْ مَّعَنَا وَلَا تَکُنْ مَّعَ الْکٰفِرِیْنَo قَالَ سَاٰوِیْٓ اِلٰی جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآئِ ط قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ج وَحَالَ بَیْنَہُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ o وَقِیْلَ ٰٓیاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَ کِ وَ ٰیسَمَآئُ  اَقْلِعِیْ  وَغِیْضَ  الْمَآئُ  وَقُضِیَ الْاَمْرُ وَاسْتَوَتْ  عَلَی الْجُوْدِیِّ   وَقِیْلَ   بُعْدًا  لِّلْقَوْمِ  الظّٰلِمِیْنَ }

            ترجمہ:  ’’ یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا ، تو ہم نے (نوح سے ) کہا کہ : اس کشتی میں ہرقسم کے جانوروں میںسے دو دو کے جوڑے سوار کرلو اور تمہارے گھر والوں میں سے جن کے بارے میں پہلے کہا جا چکا ہے (کہ وہ کفر کی وجہ سے غرق ہوںگے )ان کو چھوڑ کر باقی گھر والوں کو بھی ، اور جتنے لوگ ایمان لائے ہیں ان کو بھی (ساتھ لے لو)اور تھوڑے ہی سے لوگ تھے جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ (۴۰)اور نوح نے (ان سب سے ) کہا کہ : اس کشتی میں سوار ہوجاؤ، اس کا چلنا بھی اللہ ہی کے نام سے ہے اور لنگر ڈالنا بھی ، یقین رکھو کہ میرا پرور دگار بہت بخشنے والا ، بڑا مہربان ہے ۔ (۴۱)اور وہ کشتی پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان چلی جاتی تھی ۔ اور نوح نے اپنے اس بیٹے کو جو سب سے الگ تھا ، آواز دی کہ : بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ، اور کافروں کے ساتھ نہ رہو ۔ (۴۲)وہ بولا میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوںگا جو مجھے پانی سے بچا لے گا ، نوح نے کہا : آج اللہ کے حکم سے کوئی کسی کو بچانے والا نہیں ہے ، سوائے اس کے جس پر وہ ہی رحم فرماوے ۔ اس کے بعد ان کے درمیان موج حائل ہوگئی اور ڈوبنے والوں میں وہ بھی شامل ہوا ۔ ‘‘(۴۳)

قصۂ عذاب :

            حضرت نوح علیہ السلام جیسے ہی کشتی بنانے سے فارغ ہوئے تو عذاب ِخداوندی نے قوم نوح کو آدبوچا۔ تنور کا ابلنا اورپانی سے بھر جانا یہ عذاب کے آمد کی علامت تھی ۔ اس تنور کے بارے میں مورخین اور مفسرین کے مختلف اقوال ہیں کہ یہ تنور کیا تھا ؟

            ۱-  جمہور کے نزدیک تنور سے مراد روٹی کا تنور ہے ۔

            ۲-  حضرت حسن ؒ نے مجاہد سے روایت کی کہ حضرت حوا علیہا السلام اس تنور پر روٹی پکاتی تھی ، بعد میں یہ تنور حضرت نوح علیہ السلام کے قبضہ میں آیا تھا اوریہ پتھر کا تھا ۔

            ۳-  یہ کوفہ کی ایک مسجد میں دائیں جانب رکھا ہوا تنور تھا ؛ بہر حال جو بھی تنور سے آگ کے بجائے پانی کا ابلنا قدرت خداوندی کی دلیل ہے ۔ (روح المعانی )

            بہر حال جب پانی کا سیلاب آیا تو نوح کو حکم ہوا کہ آپ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں اور ایمان والوں کو کشتی پر سوار کر لیجیے ۔ سو نوح علیہ السلام نے ایمان والوں سے فرمایا کہ تم کشتی پر سوار ہوجاؤ اور چوں کہ کشتی کی سواری ان لوگوں کے لیے نئی تھی ، اس لیے نوح علیہ السلام نے بھروسہ دلایا کہ اللہ کے نام سے سوار ہوجاؤ اور خوف وغم نہ کرو ،اس کشتی کا چلنا اوررکنا اللہ کی طرف سے ہوگا ۔ اسی بیچ پانی بڑھنے لگا یہاں تک کہ پانی کی موجیں پہاڑ کی طرح لگنے لگی ، لیکن کشتی ان ایمان والوں کو لے کر بہ اطمینان چلتی رہی ۔ اب کشتی میں کتنے لوگ تھے اس کی تعداد قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہے ۔

            حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ کل تعداد ۸۰؍ تھی ، جن میں نوح علیہ السلام کے کے ۳؍ فرزند سام ، حام، یافث اور ان کی ۳؍ بیویاں تھیں ۔چوتھا بیٹا چوںکہ ایمان نہیں لایا تھا اس لیے وہ سوار بھی نہیں ہوا ۔ اس کا نام کنعان تھا ، جب وہ سوار ہونے سے رہ گیا تو نوح علیہ السلام کے دل میں پدرانہ شفقت جوش مارا اور نوح علیہ السلام نے اس کو پکارکر کہا کہ ہمارے ساتھ سوار ہو جاؤ اورکافروں کے ساتھ نہ جاؤ ورنہ پانی میں غرق ہوجاؤگے ، لیکن اس نے نہیں مانا اور طوفان کو اس نے سرسری سمجھا اور نوح علیہ السلام کو کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں میں کسی اونچے پہاڑ پر پناہ لے لوں گا اور پانی سے بچ جاؤںگا ۔نوح علیہ السلام نے پھر اسے متنبہ کیا کہ تو کس خیال میں ہے ؟ آج کوئی اونچی عمارت یا کوئی بلند بالا پہاڑ یا کوئی لمبا درخت اللہ کے عذاب سے کسی کو بچا نہیں سکتا ۔ اور بچنے کی کوئی صورت نہیں بجز اس کے کہ اللہ کسی پر رحم فرمائے اور نجات دے دے ۔ باپ بیٹے کی یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ ایک زور دار موج آئی اوراس کو بہا لے گئی ۔

            تاریخی روایت میں ہے کہ طوفان نوح علیہ السلام کا پانی بڑے سے بڑے پہاڑ کی چوٹی سے پندرہ گز اور بعض روایت کے مطابق چالیس گز اونچائی پر تھا اور اونچی سے اونچی چیز کو بھی بہا کر لے جاتا تھا ۔ یعنی جن لوگوں کو اپنے فلک بوس عمارت یا بلند پہاڑ پر پناہ لے نے کی خوش فہمی تھی وہ بھی ختم ہوگئی اور عذاب الٰہی سے سوائے مؤمنین کے کوئی بچ نہ سکا ۔ غرق ہونے والوں کو نہ ان کی دولت کام آئی اور نہ ہی کافروں کو ان کے سرغنہ لوگوں نے دست گیری کی ؛کیوں کہ اس وقت سرغنہ خود بھی اس عذاب میں مبتلا تھے ۔ اپنے مال و دولت پر ناز کرنے والے مع اپنے جائداد واہل خانہ تہس نہس ہوگئے۔ اور اپنے سرداری کے غرور میں چور لوگ مع حشم و خدم کے عذابِ الٰہی کی وجہ سے لقمۂ اجل بن گئے ۔ (جاری …)