۱۸؍ ویں قسط:
مفتی نجم الحسین اشاعتی آسامیؔ
حضرت نوح علیہ السلام نے تقریباً ایک ہزار سال دعوت دینے کے بعد اپنی قوم کے خلاف بد دعا کی اور نبی کی بددعا کب رائیگا جاتی ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ آپ ایک کشتی بنائیے ، یہ کشتی عام عذاب کے وقت آپ کے لیے ذریعہ نجات ثابت ہوگی ۔ صاحب روح المعانی نے اس کشتی کے بارے میں متعدد اقوال ذکر کیے ہیں ۔من جملہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کشتی ساگوان کی لکڑی سے بنائی گئی تھی جس کو حضرت نوح علیہ السلام نے خود ہی لگایا تھا اور روز اس کو پانی دیتے تھے اور آپ نے اس درخت کو اس وقت تک نہیں کاٹا جب تک کہ وہ درخت چار سوگز لمبا نہ ہوگیا۔ اور ایک روایت کے مطابق جس کے راوی عمر بن حارث ہیں ۔یہ ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اس درخت کو خود نہیں لگایا، بل کہ حضرت نوح علیہ السلام جبل لبنان سے کاٹ کر لائے تھے ۔ اور ایک روایت کے مطابق حضرت نوح علیہ السلام نے اس درخت کو کاٹنے کے لیے کچھ لوگوں کو اجرت پر رکھا تھا ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنانے کا حکم دیا ، اس وقت حضرت نوح علیہ السلا م کو کشتی کے نام سے تعجب ہوا، کیوں کہ خود حضرت نوح علیہ السلام کشتی سے ناواقف تھے ، اس لیے حضرت نوح علیہ السلام نے سوال کیا : یارب ومال الفلک ؟ قال بیت من خشب یجری علی وجہ الماء ، قال یارب وأین الماء؟ قال إنی علی ما اشاء قدیر ۔
اے میرے پرور دگار! یہ کشتی کیا چیز ہے ؟ ارشاد ہوا کہ وہ لکڑیوں کا ایک گھر ہے جو پانی پر چلے گی ، پھر حضرت نوح علیہ السلام نے سوال کیا کہ اے میرے پروردگار پانی کہاں ہے ؟ تو ارشاد ہوا کہ میں جو چاہتا ہوں اس پر قادر بھی ہوں۔سو جب نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کشتی بنانا شروع کی تو جب نوح علیہ السلام کی قوم کے کسی فرد کا ان کے پاس سے گزر ہوتا تو وہ مذاق کرتا اور ہنسی اڑاتے ہوئے کہتا کہ اے نوح! تم تو نبی تھے پھر تم نجار کب سے بن گئے ۔چلو ہم نے مان لیا کہ تم نے ایک کشتی اگر بنابھی لی ، تو تم اس کو چلاؤگے کہاں ؟ خشکی میں یا اور کہیں؟ ۔ (روح المعانی ج ۱۲ ص ۳۴۸)
باطل کا ہمیشہ یہ طریقہ کار رہا ہے کہ وہ حق کو ہمیشہ اپنی انتھک کوشش سے دبانے کی ناکام سعی کرتا ہے ، جو یہاں نوح علیہ السلام کی قوم نے بھی کیا اوریہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، کیوں کہ کافروں کے معاصی پرقائم رہنے کی وجہ سے ان کے دلوں میں ایک ایسامہر لگ جاتا ہے ،جس سے حق اورناحق کے درمیان فرق کرنا تو دور کی بات، بل کہ وہ ہمیشہ حق کو ناحق سمجھتا ہے اوردبانے کی کوشش کرتا ہے ، خواہ پھر ان کے سامنے حق روز روشن ہی کی طرح واضح کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ مستقل اور دوام کے ساتھ حق کو جھٹلانے کی وجہ سے حق ان کو مذاق اور گمراہ نظر آتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ انسان اپنے زعم میں جس کو گمراہ گرداننے لگے ، کبھی بھی اس کی پیروی نہیں کرے گا، کیوں کہ تابع متبوع کی پیروی اسی وقت کرے گا جب کہ تابع کو متبوع حق نظر آئے گا ، لہٰذا دن بہ دن ان کی سرکشی بڑھتی گئی ، پھر کریلا نیم چڑھا یہ ہے کہ ایک توقوم نوح علیہ السلام پر ایمان نہیں لائی اور پھر قوم کے سرغنہ لوگوں کو ان لوگوں سے بھی شکوہ تھا، جنہوں نے نوح علیہ السلام پر ایمان لایا وہ نوح علیہ السلام سے کہنے لگے کہ تمہاری پیروی تو صرف قوم کے حقیر لوگوں نے کی، جن کا ہمارے معاشرے میں کوئی وزن نہیں ہے اور نہ ہی قوم کے لوگ ان سے مرعوب ہوتے ہیں ۔ اگر تم حق پر ہوتے تو ان اراذل کے بجائے ہم حق قبول کرلیتے ۔ نیز تم کب سے نبی بن گئے؟ اگر تم نبی ہوتے تو تم ہماری طرح چلتے پھرتے نہیں ، بل کہ تم ہم سے ممتاز رہتے ، پھر مزید انہوں نے ایک ایسا مطالبہ کیا جس کو پورا کرنا مشکل نہیں بل کہ شرعی رو سے ناجائز تھا ،وہ یہ کہ اے نوح تم پر جن لوگوں نے ایمان لایا ہے ان کے پاس مال کی نہ تو ریل پیل ہے اور نہ ہی ان کے پاس خزانہ کی بہتات ہے اور وہ لوگ دنیاوی جاہ و مال سے بالکل عاری ہیں ، لہٰذا پہلے آپ ان اراذل لوگوں کو اپنی مجلس سے نکالو تو شاید ہم ایمان لے آئیں ، لیکن نوح علیہ السلام نے ان کے ان واہیات سوال کو پورا کرنے سے صاف انکار کردیا ، جس کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ۔
{ وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖٓ ز اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْر’‘ مُّبِیْن’‘ o اَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اَلِیْمٍ o فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ مَا نَرٰئکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰئکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیْنَ ھُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِج وَمَا نَرٰی لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍم بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیْنَ o قَالَ ٰیقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰئنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ ط اَنُلْزِمُکُمُوْھَا وَاَنْتُمْ لَھَا کٰرِھُوْنَ o وَ ٰیقَوْمِ لَا ٓ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مَالًا ط اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ وَمَآ اَنَا بِطَارِدِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط اِنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَلٰکِنِّیْٓ اَرٰئکُمْ قَوْمًا تَجْھَلُوْنَo وَ ٰیقَوْمِ مَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللّٰہِ اِنْ طَرَدْتُّہُمْط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ o وَلَا ٓ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَلَا ٓ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا ٓ اَقُوْلُ اِنِّیْ مَلَک’‘ وَّلَا ٓ اَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ تَزْدَرِیْٓ اَعْیُنُکُمْ لَنْ یُّؤْتِیَھُمُ اللّٰہُ خَیْرًاط اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ صلے ج اِنِّیْٓ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَo قَالُوْا ٰینُوْحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَاَکْثَرْتَ جِدَا لَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ ہ۳۲ قَالَ اِنَّمَا یَاْتِیْکُمْ بِہِ اللّٰہُ اِنْ شَآئَ وَمَآ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ o وَلَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ ط ھُوَ رَبُّکُمْ قف وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ o اَمْ یَقُوْلُوْنَ افْتَرٰئہُ ط قُلْ اِنِ افْتَرَیْتُہٗ فَعَلَیَّ اِجْرَامِیْ وَاَنَا بَرِیْٓء’‘ مِّمَّا تُجْرِمُوْنَ o وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلاَ تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ جصلے وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِیْ فِی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج اِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَ وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ قف وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْہِ مَلَا’‘ مِّنْ قَوْمِہٖ سَخِرُوْا مِنْہُط قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُوْنَ }(سورہ ہود)
ترجمہ: اور ہم نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ : میں تمہیں اس بات سے صاف صاف آگاہ کرنے والا پیغمبر ہوں (۲۵) کہ تم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ یقین جانو مجھے تم پر ایک دکھ دینے والے دن کے عذاب کا اندیشہ ہے ۔ (۲۶) اس پر ان کی قوم کے وہ سردار لوگ، جنہوں نے کفر اختیار کر لیا تھا ، کہنے لگے کہ : ہمیں تو اس سے زیادہ تم میں کوئی بات نظر نہیں آرہی ہے کہ تم ہم جیسے ہی ایک انسان ہو ، اور ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ صرف وہ لوگ تمہارے پیچھے لگے ہیں جو ہم میں سب سے زیادہ بے حیثیت ہیں ۔ اور وہ بھی سطحی طور پر رائے قائم کرکے ۔ اور ہمیں تم میں کوئی ایسی بات بھی دکھائی نہیں دیتی جس کی وجہ سے ہم پر تمہیں کوئی فضیلت حاصل ہو، بل کہ ہمارا خیال تو یہ ہے کہ تم سب جھوٹے ہو۔ (۲۷)نوح نے کہا: اے میری قوم !ذ رامجھے یہ بتاؤکہ اگر میں اپنے پروردگار کی طرف سے آئی ہوئی ایک روشن ہدایت پر قائم ہوں اور اس نے مجھے خاص اپنے پاس سے ایک رحمت (یعنی نبوت) عطا فرمائی ہے، پھر بھی وہ تمہیں سجھائی نہیں دے رہی، تو کیا ہم اس کو تم پر زبردستی مسلط کر دیں جب کہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ (۲۸) اور اے میری قوم !میں اس (تبلیغ) پرتم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا جر اللہ کے سوا کسی اور نے ذمے نہیں لیا۔ اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، میں ان کو دھتکارنے والا نہیں ہوں، ان سب کو اپنے رب سے جاملناہے۔ لیکن میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم ایسے لوگ ہو جو نادانی کی باتیں کر رہے ہو۔ (۲۹) اور اے میری قوم! اگر میں ان لوگوں کو دھتکار دوں تو کون مجھے اللہ( کی پکڑ) سے بچائے گا؟ کیا تم پھر بھی دھیان نہیں دو گے؟ (۳۰) اور میں تم سے یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ میرے قبضے میں اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب کی ساری باتیں جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہہ رہا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں۔اور جن لوگوں کو تمہاری نگاہیں حقیرسمجھتی ہیں، ان کے بارے میں بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ اللہ ا نہیںکبھی کوئی بھلائی عطا نہیں کرے گا۔ ان کے دلوں میں جو کچھ ہے، اسے اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے۔ اگر میں ان کے بارے میں ایسی باتیں کہوں تو میرا شمار یقینا ظالموں میں ہوگا۔(۳۱) انہوں نے کہا کہ: اے نوح! تم ہم سے بحث کر چکے اور بہت بحث کر چکے۔ اب اگرتم سچے ہوتو لے آ وہ (عذاب) جس کی دھمکی ہمیں دے رہے ہو۔(۳۲) نوح علیہ السلام نے کہا کہ:اسے تو اللہ تمہارے پاس لے کر آئے گا، اگر چاہے گااور تم اسے بے بس نہیں کر سکتے۔ (۳۳) اگر میں تمہاری خیر خواہی کرنا چاہوں تو میری خیر خواہی اس صورت میں تمہارے کوئی کام نہیں آسکتی جب اللہ ہی نے (تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے) تمہیں گمراہ ہی کرنے کا ارادہ کرلیا ہو۔وہی تمہارا پروردگار ہے اور اسی کے پاس تمہیں واپس لے جایا جائے گا۔(۳۴) بھلا کیا (عرب کے یہ کافر) لوگ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے؟ (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ: اگر میں نے اسے گھڑا ہوگا تو میرے جرم کا وبال مجھ ہی پرہوگا، اور جو جرم تم کررہے ہو، میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں (۳۵) اور نوح کے پاس وحی بھیجی گئی کہ:تمہاری قوم میں سے جولوگ اب تک ایمان لا چکے ہیں، ان کے سوا اب کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔ لہٰذاجوحرکتیں یہ لوگ کرتے رہے ہیں تم ان پر صدمہ نہ کرو۔ (۳۶) اور ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کی مددسے کشتی بناؤ، اور جولوگ ظالم بن چکے ہیں ان کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا۔ یہ اب غرق ہو کر رہیں گے۔ (۳۷)چناںچہ کشتی بنانے لگے۔ اور جب بھی ان کی قوم کے کچھ سرداران کے پاس سے گزرتے تو ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ نوح نے کہا کہ اگرتم ہم پر ہنستے ہوتو جیسے تم ہنس رہے ہو، اسی طرح ہم بھی تم پرہنستے ہیں۔ (۳۸)
ان آیتوں میں نوح علیہ السلام کی قوم نے کچھ اعتراضات کیے جس کا جواب قرآن نے اپنے انداز میں دیا ۔
ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ آپ تو ہمارے ہی جیسے ایک انسان ہو، ہماری طرح کھاتے پیتے ہو، بازاروں میں چلتے ہو ، سوتے جاگتے ہو، پھر ہم آپ کا فوق العادات امتیاز کیسے تسلیم کرلیںکہ آپ خدا کے رسول اور پیغمبر ہیں ؟ ان جاہل نادانوں کا خیال یہ تھاکہ پیغمبر اور رسول ایسا ہونا چاہیے جو کہ جنس بشریت میں سے نہ ہو بل کہ وہ فرشتہ ہو جن کو پوری دنیا تسلیم کرلیں،حالاں کہ اگر انبیا اور رسل ملائکہ میںسے ہو تو سب سے پہلے انبیا اور رسل کی مخالفت یہی جاہل اور نادان کریںگے ، تب وہ یہ کہیںگے کہ آپ اللہ کی عبادت کے لیے اس لیے یکسو رہتے ہیں، کیوں کہ آپ کو نہ طعام کی ضرورت ہے اور نہ منام کی۔ آپ تو بیوی اور بچوں کی پرورش کی بوجھ سے بالکل آزاد ہیں، اس لیے آپ کا عبادت کرنا کوئی کمال اور تعجب نہیں اگر ہم بھی فرشتے ہوتے اور ہمارے بھی بیوی بچے نہ ہوتے تو ہم بھی ایسی ہی عبادت کرتے جیسی کہ آپ کرتے ہیں بل کہ ہم آپ سے زیادہ عبادت میں مگن رہتے ۔
(جاری …)