۲۱ویں قسط: مولانا عبد العظیم امراوتی
زمانہٴ نوح علیہ السلام سے ابراہیم السلام تک کے واقعات وحوادث
حضرت ہود علیہ السلام :
۱- قرآن عزیز میں ہود علیہ السلام کا ذکر
۲- ہود علیہ السلام کا نسب
۳- عاد کی بستیاں اور ان کا طریق عبادت
۴- عاد کی ہلاکت
۵- قوم ہود کے واقعات سے حصول عبرت
۱- قرآن عزیز میں ہود علیہ السلام کا ذکر :
سات جگہ آیاہے ، جو ذیل کے نقشہ سے ظاہر ہوتا ہے ۔
نمبر
سورہ
آیات
۱
اعراف
۶۵
۲
ہود
۵۰، ۵۳، ۵۸،۶۰،۸۹
۳
شعراء
۱۴۲
قرآن عزیز میں عاد کا ذکر :
قرآن کریم کی ۱۱/ سورتوں میں ہوا ہے ۔ سورہٴ اعراف ، ہود، موٴمنون، شعراء، فصلت ، احقاف ، الذاریات ، النجم ، القمر، الحاقہ ، الفجر۔(البدایة والنہایة، وقصص القرآن)
۲- ہود علیہ السلام کا نسب نامہ :
حضرت ہود علیہ السلام کا پورا نام ہود بن شالخ بن اَرْفَخْشَد بن سام بن نوح علیہ السلام ہے۔
انہیں ”ہود “کے علاوہ عابر بن شالخ بن ار فخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بھی کہا جاتاتھا ۔جب کہ کچھ لوگ انہیں ہود بن عبد اللہ بن رباح بن الخلود بن عاد بن عوض بن ارم بن سام نوح علیہ السلام بھی کہتے ہیں اور کچھ لوگ انہیں یکے بعد دیگرے وقتاً فوقتاً پہلے دو ناموں سے پکارتے تھے ۔(تاریخ طبری :ص ۲۵۲، البدایہ والنہایہ )
قوم عاد:
اس سے قبل کہ قوم عاد کے متعلق تفصیلی بحث کریں، یہ بتلادینا ضروری ہے ۔ قرآن عزیز کے علاوہ کوئی بھی تاریخ کی کتاب یا تورات ”عاد “کے متعلق روشنی نہیں ڈالتی ۔ اس لیے اس قوم کے حالات کا نقشہ یا قرآن عزیز کے ذریعہ بن سکتا ہے یا پھر ان اثریات کے ذریعہ؛ جو محققین علم آثار نے اس راہ میں حاصل کی ہیں ۔
پہلا ذریعہ: چوں کہ قطعی اور یقینی ہے اس لیے اس کے بیان کردہ حقائق کو بلاشبہ قطعیت حاصل ہے ۔ اور دوسرا ذریعہ: تخمینی اور قیاسی ہے۔ اس لیے اس کے بیان کردہ واقعات کی حیثیت ظن و تخمین سے آگے کسی حال میں نہیں جاتی ۔
عاد؛ عرب کے قدیم قبیلہ یا امم سابقہ کے صاحب قوت واقتدار افراداور جماعت کا نام ہے۔ تاریخ قدیم کے بعض یورپی مصنفین عاد کو ایک فرضی کہانی (میتھا لوجی ) یقین کرتے ہیں۔ مگر ان کا یہ یقین بالکل غلط اور سراسر وہم ہے ۔ اس لیے کہ جدید تحقیقات کا یہ مسلَّم فیصلہ ہے کہ عرب کے قدیم باشندے کثرت افراد وقبائل کے اعتبار سے ایک باعظمت وسطوت جماعت کی حیثیت میں تھے ۔ جوعرب سے نکل کر شام ، مصر اور بابل کی طرف بڑھے اور وہاں زبردست حکومتوں کی بنیادیں قائم کیں۔اب فرق صرف اس قدر ہے کہ عرب ان باشندوں کو امم بائدہ (ہلاک ہونے والی قومیں) یا عرب عاربہ (خالص عرب) اور ان کی مختلف جماعتوں کے افراد کو عاد ، ثمود، جرہم، طسم اور جدیس کہتے ہیں اور مستشرقین یورپ (امم سامیہ ) نام رکھتے ہیں ۔
پس اصطلاحات وتعبیرات کے فرق سے حقیقت وواقعہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوجاتی ۔ اس لیے قرآن کریم نے ان کو عاد اولیٰ کہا ہے کہ یہ واضح ہوجائے کہ عرب کی قدیم قوم ؛بنو سام اور عاد اولیٰ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔
اہل جغرافیہ کا قول ہے کہ لفظ عرب دراصل عربہ تھا ،جس کے معنی صحرا اور بادیہ کے ہیں ۔ خود عربی زبان میں اعراب اہل بادیہ کو کہتے ہیں ۔ اور عرابہ کے معنی بدویت کے ہیں ۔اور بعض اہل تحقیق کی رائے یہ ہے کہ عرب اصل میں غرب (غین معجمہ کے ساتھ ) تھا اور چوں کہ اس کا جائے وقوع فرات غرب میں ہے ، اس لیے وہ آرامی قومیں (امم سامیہ ) چوں کہ فرات غربی پر آباد تھیں ۔ اول غرب اورپھر غین کے نقطہ کے سقوط کے بعد عرب کہلائیں۔
ان میں سے عرب کی وجہ تسمیہ جو بھی صحیح ہو، یہ حقیقت ہے کہ یہ مقام قدیم امم سامیہ یا بدوی جماعتوں یا عاد کا مسکن تھا ۔ اس لیے عاد بغیر کسی اختلاف کے عرب تھے ۔ اور لفظ عاد عربی ہے نہ کہ عجمی ۔ جس کے معنی عبرانی زبان میں بلند ومشہور کے ہیں ۔ قرآن عزیز میں عاد کے ساتھ ارم کا لفظ لگا ہوا ہے اور ارم (سام) کے معنی بھی بلند ومشہور کے ہیں۔ اِن ہی عاد کو تورات کی غلط پیر وی میں کہیں کہیں عمالقہ بھی کہا گیا ہے۔
عاد کا زمانہ : عاد کا زمانہ تقریباً دو ہزار سال قبل حضرت مسیح علیہ السلام مانا جاتا ہے ۔ اور قرآن عزیز میں عاد کو” من بعد قوم نوح“ کہہ کر قوم نوح کے خلفا میں شمار کیا ہے ۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ شام کی دوبارہ آبادی کے بعد امم سامیہ کی ترقی عاد ہی سے شروع ہوتی ہے۔
عاد کا مسکن ، محل وقوع:عاد کا مرکزی مقام احقاف ہے ۔ (ریت کے ٹیلے والے علاقہ کو احقاف کہا جاتا ہے )یہ حضرموت شمال میں اس طرح واقع ہے کہ اس کے مشرق میں عمان ہے اور شمال میں ربع الخالی ، مگر آج یہ ریت کے ٹیلوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔اور بعض موٴرخین کہتے ہیں کہ ان کی آبادی عرب کے سب سے بہترین حصہ ؛حضر موت اور یمن میں خلیج فارس کے سواحل سے حدود عراق تک وسیع تھی ۔ یمن ان کا دار الحکومت تھا ۔(قصص القرآن ص ۸۲-۱۸)
قوم عاد کے حالات اجمالاً قرآن کریم کی زبان میں:
قرآن کریم میں ان کے یہ حالات آئے ہیں۔
۱- عاد عرب تھے اور احقاف کے باشندے تھے۔﴿واذکر اخا عاد اذ انذر قومہ بالاحقاف﴾(سورہ احقاف: ۲۱)
۲- یہ لوگ بڑی قد و قامت کے مالک تھے ۔﴿وزادکم فی الخلق بسطة﴾(الاعراف: ۶۹)
۳- بہت زیادہ طاقت ور تھے اسی قوت وطاقت نے انہیں سرکش اور گھمنڈی بنادیا تھا۔ ﴿فاما عاد فاستکبروا فی الارض بغیر الحق وقالوا من اشد منا قوة ﴾(فصلت: ۱۵)
۴- کمزوروں پر ظلم ڈھاتے تھے۔ ﴿واذا بطشتم بطشتم جبارین﴾(الشعراء: ۱۳۰)
۵- بت پرست اور مشرک تھے ۔ ﴿والی عاد اخاہم ہودا قال یقوم اعبدو ا اللہ مالکم من الہ غیرہ ﴾(اعراف: ۶۵)
۶- خیمے ہونے کے باوجود ہر اونچائی پر مضبوط محل بناتے اور اس پر فخر کرتے ۔ گویا مال و دولت کو بے کار میں ضائع کرتے ۔ ﴿اتبنون بکل ریع آیة تعبثون وتتخذون مصانع لعلکم تخلدون ﴾(الشعراء :۱۲۹-۱۲۸)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں﴿ الم تر کیف فعل ربک بعاد ﴾کیا تم نے دیکھا نہیں تمہارے پرور دگار نے عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا۔﴿ارم ذات العماد ﴾اونچے ستونوں والے قوم ارم کے ساتھ ﴿التی لم یخلق مثلہا فی البلاد﴾ (الفجر)
جن کے برابر دنیا کے ملکوں میں کوئی اور قوم پیدا نہیں کی گئی ہے ۔ یہ قوم بڑی زور آور، قوی الجثہ ستونوں کی طرح طویل القامت تھی۔ ایسی قد و قامت والی اورطاقت ور قوم نہ اس سے پہلے پیدا کی گئی اور نہ بعد میں ۔(جاری…)