۲۳ویں قسط:
مولانا عبد العظیم اشاعتی امراوتی / استاذ جامعہ اکل کوا
قوم ِعاد کے حالات قرآن عظیم الشان کی زبان میں :
(دوسرا حصہ)
سورہٴ شعراء:
﴿کَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِینَ َ﴿۱۲۳﴾ إِذْ قَالَ لَہُمْ أَخُوہُمْ ہُودٌ أَلَا تَتَّقُونََ﴿۱۲۴﴾ إِنِّی لَکُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ َ﴿۱۲۵﴾ فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیعُونَ﴿۱۲۶﴾ وَمَا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَیٰ رَبِّ الْعَالَمِینَ َ﴿ ۱۲۷﴾ أَتَبْنُونَ بِکُلِّ رِیعٍ آیَةً تَعْبَثُونَ﴿۱۲۸﴾ وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّکُمْ تَخْلُدُونَ َ﴿۱۲۹﴾ وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِینَ﴿۱۳۰﴾ فَاتَّقُوا اللَّہَ وَأَطِیعُونَ﴿۱۳۱﴾وَاتَّقُوا الَّذِی أَمَدَّکُم بِمَا تَعْلَمُونََ﴿۱۳۲﴾ أَمَدَّکُم بِأَنْعَامٍ وَبَنِینََ﴿۱۳۳﴾ وَجَنَّاتٍ وَعُیُونٍَ﴿۱۳۴﴾ إِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیمٍ َ﴿۱۳۵﴾ قَالُوا سَوَاءٌ عَلَیْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَکُن مِّنَ الْوَاعِظِینَ َ﴿۱۳۶﴾إِنْ ہَٰذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِینَ﴿۱۳۸﴾ وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِینَ َ﴿۱۳۹﴾ فَکَذَّبُوہُ فَأَہْلَکْنَاہُمْ إِنَّ فِی ذَٰلِکَ لَآیَةً وَمَا کَانَ أَکْثَرُہُم مُّؤْمِنِینَ َ﴿۱۴۰﴾ وَإِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمَُ﴿۱۴۱﴾
ترجمہ: عاد کی قوم نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔جب کہ ان کے بھائی ہود نے ان سے کہا کہ: کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟یقین جانو کہ میں تمہارے لیے ایک امانت دار پیغمبر ہوں۔لہٰذا تم اللہ سے ڈرواور میری بات مانو۔اور میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا۔میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے، جو سارے دنیا جہان کی پرورش کرتی ہے۔کیا تم ہر اونچی جگہ پر کوئی یاد گار بنا کر فضول حرکتیں کرتے ہو؟ اور تم نے بڑی کاریگری سے بنائی ہوئی عمارتیں اس طرح رکھ چھوڑی ہیں، جیسے تمہیں ہمیشہ زندہ رہنا ہے؟ اور جب کسی کی پکڑ کرتے ہو تو پکے ظالم و جابر بن کر پکڑ کرتے ہو۔ اب اللہ سے ڈرو اور میری بات مانو۔اور اس ذات سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے نواز کر تمہاری قوت میں اضافہ کیا ہے جو تم خود جانتے ہو۔
اس نے تمہیں مویشیوں اور اولاد سے بھی نوازا ہے اور باغوں اور چشموں سے بھی۔حقیقت یہ ہے کہ مجھے تم پر ایک زبردست دن کے عذاب کا اندیشہ ہے۔
وہ کہنے لگے: چاہے تم نصیحت کرو یا نہ کرو، ہمارے لیے سب برابر ہے۔یہ باتیں تو وہی ہیں جو پچھلے لوگوں کی عادت رہی ہے اور ہم عذاب کا نشانہ بننے والے نہیں ہیں۔
غرض ان لوگوں نے ہود کو جھٹلایا، جس کے نتیجے میں ہم نے ان کو ہلاک کردیا۔یقینا اس سارے واقعے میں عبرت کا بڑا سامان ہے، پھر بھی ان میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار صاحب اقتدار بھی ہے اوربڑا مہربان بھی۔
(سورہٴ شعراء : ۱۲۳-۱۴۰)
ان آیات پاک میں عاد کی تباہی کے تین اسباب بیان کیے گئے ہیں، جو ہمیشہ ہر قوم کی تباہی کے باعث ہوتے ہیں۔
۱- غرور وقوت : عاد کو اپنی قوت بازو پر بڑا ناز تھا۔اور اس طرح ہر قوم جو مجد وتفوق پر قابض ہوتی ہے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی اپنی قوت پر مغرور رہتی ہے۔
متکبرین عاد نے کہا اے ہود ! ہمیں کس سے ڈراتے ہو؟ ﴿من اشد منا قوة ﴾ قوت وزور میں ہم سے کون بڑا ہے؟ حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا : تمہاری قوت مُسلَّم، لیکن اگر صلاح و تقویٰ کی دعوت قبول کروگے توپھر ﴿یزدکم قوة الی قوتکم ﴾ تو خدا تمہاری قوت اور بڑھا دے گا۔ لیکن وہ نہ سمجھے۔
﴿اولم یروا ان اللہ الذی خلقہم ہو اشد منہم قوة ﴾ کیا وہ نہ سمجھے جس خدانے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے بھی زیادہ قوی ہے۔
ان کو نہ صرف اپنی فوجی و سیاسی قوت پر ناز تھا، بل کہ اپنی تعداد اور اپنے مویشی کی کثرت اور اپنے باغوں کی بہتات پر بھی ناز تھا،جو اس عہد کی سب سے بڑی دولت تھی۔
حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا : یہ شکر کی بات ہے نہ کہ استکبار کی۔ ﴿واتقوا الذی امدکم بما تعملون، امدکم بانعام و بنین وجنات وعیون ﴾
(شعراء)
وزادکم فی الخلق بسطة
۲- ظلم و جور : قوم کی حاکمانہ زندگی کے لیے سب سے زیادہ زہر قاتل ظلم وجور اور ستم ہے۔ اور اقوام کی تاریخ اس دعویٰ پر بہترین شاہد ہے۔ عاد اپنے ممالک مقبوضہ میں اکڑتے پھر تے تھے۔بغیر کسی استحقاق کے قوموں کو چھیڑتے تھے، جیسا کہ ہر عہد کے عاد زمین کے ہر قطعہ پر اکڑتے تھے۔ اور معصوم قوموں کو چھیڑ چھیڑ کر فنا کرتے رہے ہیں۔
﴿ فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَکْبَرُوا فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّ اللَّہَ الَّذِی خَلَقَہُمْ ہُوَ أَشَدُّ مِنْہُمْ قُوَّةً وَکَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُون﴿۱۵﴾﴾
لیکن عاد نے زمین میں بلا استحقاق غرور کیا اور کہا کہ کون ہم سے زور قوت میں بڑا ہے؟
عاد کی اس جباری وستمگری کا ثبوت مصر کی مفتوح اقوام کی زبان سے ملتا ہے۔
خدا ہم سے ناراض تھا۔ ایک عجیب طریقہ سے اطراف مشرق سے شریر الخلقت لوگ چلے آئے، وہ اس قدر قوی تھے کہ ہمارے ملک میں گھس گئے۔ اور بزور نہایت آسانی سے اس کو مسخر کرلیا۔ جب انہوں نے ہمارے سرداروں کو گرفتار کرلیا، ہمارے شہروں کو جلا دیا، ہمارے دیوتاوٴں کے مندر گرادیے اور ہمارے باشندوں کے ساتھ وحشیانہ طریقے سے سلوک کیا اور نہ صرف یہ بل کہ بعض کو ہتھیاروں سے مار ڈالا اور ان کے بیوی بچوں کو غلام بنایا۔
(تاریخ ارض القرآن)
۳- سب سے آخری چیز جو انتہائی بربادیٴ عالم ہے ،خدائے واحد کا انکار اورمعبودان باطل کی پرستش ہے۔
ہود علیہ السلام نے فرمایا :﴿ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَٰہٍ غَیْرُہُ أَفَلَا تَتَّقُون﴾
(الاعراف)
﴿ یَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّہَ مَا لَکُم مِّنْ إِلَٰہٍ غَیْرُہُ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا مُفْتَرُون﴾
(ہود)
جواب وہی ملا جو اکثر ملتا رہتاہے۔
﴿ قَالُوا یَا ہُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِکِی آلِہَتِنَا عَن قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ ﴾۔
(تاریخ ارض القرآن)
#…#…#
(جاری…)