عبد المتینؔ اشاعتی کانڑگاؤں
(بچپن میں چوں کہ انسان کو کھیل سے فطری طور پر دل چسپی ہوتی ہے، اس لیے بچے زیادہ تر موبائل وانٹرنیٹ پر ویڈیو گیموں کا شکار ہوتے ہیں،اس لیے نوعمر بچوں کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر ہی یہ مضمون لکھا گیا، ورنہ اگر کوئی عمر دراز شخص اس طرح کے گیموں میں مشغول رہتا ہے، تو وہ بھی اس میں شامل ہے۔عم)
موجودہ دور کے فتنوں میں سے ایک سنگین فتنہ ’’موبائل وانٹرنیٹ گیم‘‘ہے، جس میں مشغول ہونے والا شخص خود اپنے آپ کو بھول جاتا ہے، کہ وہ کہاں ہے، کیا کررہا ہے، گیم کھیلنے والا نوجوان خود کو مجرم تصور کرتے ہوئے گیم کھیلتا ہے، جس کی وجہ سے وہ حد سے زیادہ متشدد ہوجاتا ہے، بہت سارے ادارے جو نفسیات پر کام کرتے ہیں مثلاً؛ ’’ہارورڈ میڈیکل سینٹر فارمینٹل ہیلتھ‘‘، ’’جرنل آف ایڈولسینٹ ہیلتھ‘‘، ’’برٹش میڈیکل جرنل‘‘ وغیرہ نے اپنی تحقیق میں یہ ظاہر کیا ہے کہ زیادہ تر گیمز میں دکھائے جانے والے تشدد کو بچے اور نوجوان اسکول یا گھر سے باہر اسی طرح نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جارحیت اور تشدد پر مبنی ویڈیو گیمز پُرتشدد رویے، مجرمانہ سوچ اور محسوسات، اسکولوں اور کھیل کے میدانوں میں لڑائی جھگڑا، بڑھتے ہوئے جسمانی طاقت کے استعمال کا رجحان اور بہترسماجی رویوں کی کمی میں گہرا تعلق ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ چند وہ گیمز جو ہمارے موبائل اور کمپیوٹرز میں موجود ہوتے ہیں، یا پلے اسٹور(Play Store) سے لوڈ اور انسٹال(Install) کیے جاسکتے ہیں،اُن کاتعارف، نقصان اور کھیلنے والوں کی نفسیات کا ذکر کردیا جائے؛ کیوں کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ان مہلک وخطرناک گیموں کو بڑے شوق سے کھیلتے ہیں، اور سرپرستان بھی انہیں مشغول رکھنے کے لیے موبائل اُن کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں، جس سے اُن کی تعلیم و تربیت اثر انداز ہوتی ہے۔گویا مستقبل کے معماروں کے لیے ویڈیو گیمز جدید دور کے تحفہ کی شکل میں درحقیقت ایک ’’فتنہ‘‘ ہے۔
بلو وہیل گیم(Blue Wheel Game):
کچھ دنوں پہلے بلو وہیل (Blue Wheel) نامی گیم نوعمر بچوں، بڑوں میں بڑا مشہور ہوا تھا، جس کا موجد ایک روسی نوجوان تھا، اُس نے گیم اسی لیے بنایا تھا تاکہ جو نوجوان اپنی نجی زندگی میں مایوسی کا شکار ہیں، وہ اس دنیا کو اپنے وجود سے پاک وصاف کردیں۔پوری دنیا میں بشمول ہندستان کے کئی بچوں کے لیے یہ گیم جان لیوا ثابت ہوا۔کئی نوعمرو نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے چھتوں سے کود کر اپنی جانیں گنوائیں۔ گھروں سے بھاگ کر والدین ومتعلقین کو حیرانی وپریشانی میں مبتلا کیا۔
پب جی گیم (PUBG):
PUBGیعنی Player Unknown Battle Ground/ نامعلوم کھلاڑی کی جنگ کا میدان۔
دسمبر ۲۰۱۷ء میں ’’برینڈن گرین‘‘ نے یہ گیم متعار ف کروایا، یہ گیم ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء میں ہندستان میں سب سے زیادہ کھیلا جانے والا گیم ہے، ۲۰۱۸ء میں کمائی کے معاملے میں یہ گیم پہلے نمبر پر ہے، 1.84بلین ڈالر کی کمائی اس گیم سے ہوئی ہے۔خاص کر نوعمر بچے اور نوجوان اس لت کا شکار ہیں،اس گیم کو بیک وقت کئی لوگ مل کر کھیلتے ہیں، ایک طرف جہاں ہمارے نوجوان بے روزگاری سے پریشان ہیں، وہیں دوسری طرف اس طرح کے گیموں کو کھیل کر وہ بے کار وناکارہ بنتے جارہے ہیں۔ درج ذیل چند واقعات سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ گیم کتنا تباہ کُن ہے۔
پب جی گیم (PUBG)نے دو کی جان لے لی،پربھنی مہاراشٹر کی ایک خبر:
پربھنی کے علاقے میں پٹری پر بیٹھ کر PUBGکھیل رہے دو نوجوان ٹرین کی زد میں آکر ہلاک۔شام سات بجے کے قریب پب جی گیم موبائل پر کھیلتے ہوئے بیٹھے تھے، اتنے مگن ہوگئے کہ ٹرین کی دہاڑ بھی اُن کو سنائی نہیں دی، وہ گیم کھیلنے میں مصروف رہے اور ٹرین نے اُنہیں کچل دیا۔انہیں محض پب جی کی دُھن سوار تھی جس نے انہیں موت کے گھاٹ اتار کر ہی دم لیا۔
شادی کی مجلس میں پب جی گیم(PUBG):
کچھ دنوں پہلے ایک ویڈیو منظرِ عام پر آیا، جس میں شادی کے منڈپ میں دولہا دولہن صوفے پر بیٹھے ہوئے ہیں، دولہن سجی سنوری سنجیدہ انداز میں دولہے کے بازو میں بیٹھ کر اس کی طرف سے ایک مسکراہٹ اور لائک کا انتظار کررہی ہے، اور حضرت والا دولہے میاں پب جی گیم کھیلنے میں مصروف ہیں، کسی نے اس کو اشارہ بھی کیا، تو وہ بے چارہ نہ اس آواز کی طرف متوجہ ہورہا ہے، نہ اُس نئی نویلی دلہن کی طرف ، دولہن بھی اسے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر نروس ہورہی ہے، خدا جانے شادی کے بعد گھر پر وہ بے چاری کیا محسوس کرے گی، اس لڑکے کے ساتھ رہ پائے گی بھی یا نہیں!
بیت الخلاء میں پب جی گیم(PUBG):
ابھی کچھ روز پہلے ایک ہندی اخبار میں ایک عجیب وغریب خبر یہ شائع ہوئی کہ ایک لڑکا جو پب جی گیم (PUBG) کا دیوانہ تھا، جب اُسے اس کے والدین نے گیم کھیلنے سے منع کیا، اور اس کی نگرانی کرنے لگے، تو اس نے بیت الخلا میں جاکر یہ گیم کھیلنا شروع کیا، جب دو گھنٹے گزر گئے اور وہ باہر نہ نکلا، تو والدین کو تشویش ہوئی کہ آخر کیا بات ہے اپنا بچہ نظر نہیں آتا، چنانچہ جب بیت الخلا کا دروازہ بار بار کھٹکھٹایا گیا، تو وہ بڑی مشکل سے باہر نکلا، معلوم ہوا کہ صاحب زادے اندر ’’پب جی گیم‘‘ میں مصروف تھے۔ لاحول ولا قوۃ إلا باللہ!
پب جی گیم(PUBG)کا نشہ اور قتل:
پڑھائی کے نام پر ’’مہرولی‘‘ میں رہائش پذیر ’’سورج‘‘ نامی ۱۹؍ سالہ طالبِ علم، جو اسکول میں کم اور کمرہ پر بیٹھ کر ویڈیو گیمز کے ساتھ زیادہ وقت گزارتا تھا، جس پر اس گیم کا نشہ سوار تھا، پولیس کے مطابق پب جی گیم سے متأثر ہوکر اس نے اپنے ہی گھر میں والدین اور بہن کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔
کچھ روز قبل جموں میں ایک شخص اس گیم کا اتنا عادی ہوگیا تھا کہ مسلسل دس روز تک وہ پب جی گیم کھیلتا رہا، اپنے آپ کو مکے مارنا شروع کردیئے اور زخمی ہوگیا، ڈاکٹروں کے مطابق اس کا دماغی توازن پب جی گیم کھیلنے کی وجہ سے بگڑگیا ہے۔ڈاکٹر ایسوسی ایشن کشمیر کے مطابق یہ گیم منشیات کی لت سے زیادہ خطرناک ہے، اس سے نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اس گیم سے دور رکھیں۔
(بحوالہ: خبر اردو ڈاٹ کام)
اسی طرح… گن وار (Gun War)،شوٹنگ گیمس (Shooting Games)، فائر وار (Fire War)، اینٹی ٹیر رِزم شوٹر (Anti Terrorism Shooter)، اسٹوپڈ زومبیس (Stupid Zomies)، کاؤنٹر ٹیر ارِسٹ گن شوٹنگ گیم (Counter Terrorist Gun Shooting Game)،وغیرہ… شوٹر اسٹوڈیو کی طرف سے بنائے گئے گیمز، سب اسی قبیل سے ہیں۔
ٹارگیٹ کلنگ گیم(TARGET KILLING) اور نیوزی لینڈ دہشت گردانہ کارروائی میں مماثلت:
وہ گیم جن میں گیم کھیلنے والوں کو ایک ٹارگیٹ یعنی ہدف ونشانہ دیا جاتا ہے، کہ دہشت گردوں کو مارنا ہے، اس ہدف کو پورا کرنے پر پوائنٹ کی تعداد بڑھ جاتی ہے، بونس پوائنٹ بھی ملتے ہیں، بسا اوقات مخصوص مقدار میں پوائنٹ پورے کرنے پر گیم بنانے والی کمپنی کی طرف سے انعام کا وعدہ بھی ہوتا ہے، اُن گیموں کو خاص کر اسی لیے بنایا جاتا ہے،کہ آپ اپنے دشمن کو کس طرح اپنا نشانہ بناسکتے ہیں، اور بعض گیموں میں تو ہدف کی جگہوں کو مسجد کے مشابہ (مثلاً مسجد نبوی کے دروازے کے مشابہ ایک دروازہ نظر آتا تھا) بتایا گیا تھا، جو آخری ہدف ہوتا ہے، یعنی اُس دروازے کو کھول کر اندر موجود لوگوں کو نشانہ بنالینے کے بعد وہ گیم کھیلنے والا شخص جیت جاتا ہے۔اور مزید بونس پوئنٹ کا مستحق ہوجاتا ہے۔
اکثر نوجوان تو اس طرح کے گیموں کو محض وقت گذاری کے طور پر کھیلتے ہیں، لیکن نیوزی لینڈ میں پیش آمدہ حالیہ واقعہ سے اندازہ ہوا کہ اسلامو فوبیا سے متأثر نوجوان’’برینٹن ٹیرینٹ‘‘ نامی دہشت گرد بھی اس طرح کے کھیلوں کا شوقین تھا، دہشت گردانہ کارروائی کی ویڈیو دیکھ کر تو ایسا ہی لگتا ہے کہ یہ کوئی مصنوعی گیم ہے، لیکن یہ حقیقت میں کھیلا گیا گیم تھا، جس کو منظم طریقے پر انجام دیا گیا تھا، اور بہت پہلے سے اس کی تیاری کی جارہی تھی؛بلکہ گیم اور کارٹون بنانے والی ایک کمپنی تو ایسی ہے کہ جو چند سالوں پہلے ہی بشکل گیم یا بشکل کارٹون وہ چیزیں بنادیتی ہے، جو بعد میں ہو بہو ویسے ہی انجام پذیر ہوتی ہیں۔
۱۹۹۲ء میں ’’مورٹل کمباٹ‘‘ نامی گیم میں سرکاٹنے اور شہ رگ علیحدہ کرنے کے مناظر دکھائے گئے۔
۱۹۹۷ء میں خون خرابہ والا گیم ’’پوسٹل‘‘ ریلیز ہوا، جس میں سامنے آنے والی ہر چیز کو ختم کردیا جاتا ہے۔
الغرض! اس طرح کے گیموں میں انسانوں کو ہر طرح کے ہتھیار واَوزار وغیرہ سے مارنے کا مشن ملتا ہے۔ان گیموں کے ذریعے نسلی امتیاز وفساد کو فروغ دیا جارہا ہے۔
اینگری برڈ گیم(ANGRY BIRD):
ایک گیم ہے’’ اینگری برڈ ‘‘ جس کا مطلب ہے غصیلا پرندہ، جس میں چڑیا وغیرہ کی شکل کے پرندوں کی، چہرے کے ساتھ، گول دائرے کی طرح کھوپڑیاں بنی ہوتی ہیں، گلیل کے ذریعے ان کو نشانہ بناکر مار گرانا ہوتا ہے، اس گیم کو کھیلنے والے بچے عموماً غصیلے مزاج اور چڑچڑے پن میں مبتلا ہوجاتے ہیں؛اسی گیم کی ایک اور قسم ہے، جسے ناک ڈاؤن (Knock Down)کہتے ہیں۔
کینڈی کراش گیم(CANDY CRASH GAME):
اس گیم کے اندر مختلف پھل، پھول، چاکلیٹ، پرندوں وغیرہ کی صورتیں بنی ہوتی ہیں، جس میں سیب کو سیب کے ساتھ، جام کو جام کے ساتھ، آم کو آم کے ساتھ کراش کرنے پر پوائنٹ ملتے ہیں، ایک درجہ پورا ہونے پر دوسرا درجہ شروع ہوتا ہے، بعض درجے آسان ہوتے ہیں، جن میں جلدی ہدف پورا ہوجاتا ہے، تو گیم کھیلنے والے کو ایک طرح کا شوق پیدا ہوتا ہے کہ جب میں نے اتنے درجے پورے کرلیے تو آگے اور بھی کھیل کر دیکھتا ہوں، حتی کہ دو سو، تین سو، چار سو تک درجات پہنچ جاتے ہیں، لیکن کھیلنے والے کا شوق پورا نہیں ہوتا، وہ اس گیم میں بالکل مشغول ہوجاتا ہے، پھر کھیلنے والے کو بس تھوڑا سا وقت بھی مل جائے، چاہے وہ دوستوں کی مجلس میں ہو، یا گھر میں بھائی بہنوں اور والدین یا رشتہ داروں کے ساتھ تو وہ فوراً کھیلنا شروع کردیتا ہے، ارد گرد بیٹھے لوگوں کی اسے کوئی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ کوئی اس سے بات کررہا ہے یا نہیں۔کینڈی بومب (Candy Bomb) گیم بھی اسی قبیل سے ہے۔
ٹیمپل رَن گیم(TEMPLE RUN)اور ماب لنچنگ(MOB LYNCHING):
اس میں ٹیمپل کے اندر سے ایک شخص بھاگتا ہوا باہر آتا ہے، پھر کوئی خطرناک جان لیوا جاندار، بھوت پریت کی شکل کا کوئی مانَْو (جان دار) اُس گھبرائے ہوئے شخص کا پیچھا کررہا ہوتا ہے، اُس شخص کو گیم کھیلنے والا شخص بھگا رہا ہوتا ہے، اسکرین ٹچ موبائل پر یہ گیم موجود ہے، جب وہ آدمی بھاگتے ہوئے گرجائے تو وہ مانَوْ اُس پر ہلہ بول دیتا ہے اور اسے پکڑ کر اُس کی جان لے لیتا ہے، ہندستان میں کچھ دنوں سے ماپ لنچنگ میں ہونے والے واقعات ، بھیڑ کے تشدد میں مسلم ودلت نوجوانوں کی ہلاکتیں خاص کر اسی گیم کے مقصد کو آشکارا کرتی ہیں، اِس گیم میں یہ سوچنے والی بات ہے کہ آخر وہ نوجوان گھبرایا ہوا، ٹیمپل یعنی عبادت گاہ سے ہی کیوں نکلتا ہے!؟
جب اس گیم میں ایک ٹارگیٹ پورا ہوجاتا ہے، تو دوسرا ٹارگیٹ دیا جاتا ہے، اس گیم کو کھیلتے وقت راستے میں بہت سی ڈراؤنی چیزیں بتائی جاتی ہیں، اُن سے انسان کو بچ کر نکلنا ہوتا ہے، ورنہ وہ ماب لنچنگ (Mob Lynching)یعنی بھیڑ کے تشدد کا شکار ہوجاتا ہے۔
ٹیکسی یا موٹر سائیکل شوٹر گیم(SHOOTER GAME):
ایک شخص اپنی موٹر سائیکل یا کار پر یا پیدل چل کر آتا ہے، پھر پولیس کی گاڑی میں سے اُس کی مشین گن، رائفل نکال کر مختلف عوامی مقامات کو نشانہ بناتا ہے، اور فرار ہوجاتا ہے، پولیس اُس کا پیچھا کرتی ہے، اگر وہ شخص نکلنے میں کامیاب ہوگیا، تو اسے پوائنٹ ملتے ہیں، اورگیم آور (Game Over) یعنی ختم مانا جاتا ہے، پھر آگے دوسرا اس سے مشکل ٹارگیٹ وہدف دیا جاتا ہے، گویا ہر گیم میں عام لوگوں کی جانیں لینا اس گیم کے ذریعے سکھایا جارہا ہے، بچوں کو متشدد اور غصیلا بنایا جارہا ہے۔ ایسا گیم کھیلنے والے بچے بات بات پر والدین اور قریبی لوگوں پر غصہ کرنے لگ جاتے ہیں۔ برداشت کا مادہ اُن کے اندر سے ختم ہوکر وہ عدمِ برداشت، جنونیت وحیوانیت کی صفت سے متصف ہوجاتے ہیں۔
کار یا موٹل سائیکل ریسنگ گیم(RACING GAME):
اس طرح کے گیموں کے کھیلنے کی وجہ سے سے بچوں کے اندرقانون کی خلاف ورزی کا مادہ پیدا ہوتا ہے، وہ اپنی گاڑی کو ریسنگ میں دوڑا کر، ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں، حد سے زیادہ تیز گاڑی چلانے کا نشہ اُن کے ذہنوں میں بھر جاتا ہے، جیسا کہ کچھ سالوں پہلے ہندستان کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر نوجوانوں میں’’دھوم‘‘ اسٹائل میں گاڑی چلانے کا ایک رَواج سا ہوگیا تھا، جس میں کئی نوجوان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔
ویڈیو گیمز میں پہلا متنازعہ گیم ۱۹۷۶ء جو پرتشدد مناظر کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا …ایکس ڈی ڈویلپر کا گیم ’’ڈیتھ ریس‘‘ تھا، جس میں گیم کھیلنے والے کھلاڑیوں کو کار کا کنٹرول سنبھالنا ہوتا ہے، اور کار کے سامنے آنے والے کرداروں کو روند بھی سکتے تھے، ان کے ہاتھ پاؤں توڑ سکتے تھے، بعض مناظر میں خون کی چھینٹیں کار کی ونڈو اسکرین پر بھی پھیل جاتی ہیں۔
بائک اسٹنٹ گیم (BIKE STUNT GAME):
اسی طرح بائک اسٹنٹ گیم (BIKE STUNT GAME) جس میں گاڑی کو نیچے اوپر کودانا، ہاتھ چھوڑ کر چلانا، کلانچی(چھلانگ) مارنا، وغیرہ بتلایا جاتا ہے، اس گیم کو کھیل کر ہمارے نوجوان قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خود اپنی جانوں کو بھی ہلاکت میں ڈالتے ہیں، دہلی اور بمبئی شہروں میں کئی مرتبہ نوجوان حادثوں کا شکار ہوئے، پولیس کی طرف سے سخت کارروائی اور تنبیہ کے باوجود نوجوان اس سے باز نہیں آرہے ہیں۔اس طرح کے گیم گویا خود کشی کے مترادف ہے، اپنی جانوں کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالنا لازم آتا ہے، اس لیے اس طرح کے گیموں کو موبائل ، ٹیبلیٹ یا کمپیوٹر وغیرہ پر، یا حقیقت وریئل میں کھیلنے سے بچنا چاہیے، والدین اپنی اولاد کو اس طرح کے گیمز کھیلنے سے بچائیں۔
ویڈیوگیم کھیلنے والے بچوں اور نوجوانوں کی نفسیات:
’’جنریشن نیکسٹ (Generation Next) ۲۰۱۰ء بلوگ پوسٹ‘‘ کے حوالے سے ویڈیو گیمز کے بارے میں بہترین تحقیق پیش خدمت ہے:
مغربی مفکرین ونفسیات دان کے مطابق جدید دور میں بنائے جانے والے گیمز(Games) بچوں اور نوجوانوں میں جارحیت پیدا کررہے ہیں۔
بعض ویڈیو گیمز کمپنیاں اپنے گیمز کو حقیقت سے قریب تر دکھانے اوراس میں دل چسپی پیدا کرنے کے لیے کچھ ایسے عنصر شامل کرتی ہیں، جن میں مار دھاڑ، تشدد، خون خرابہ، جزوی یا مکمل عریانیت، جنسی تشدد،گیم کے کردار کا مجرمانہ طرزِ عمل، یا دیگر اشتعال انگیز اور قابلِ اعتراض مواد رکھنے والے ویڈیو گیمز بچوں اور نوجوانوں میں نشہ اور جارحیت جیسے مسائل پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
نفسیات کی اصطلاح میں جارحیت سے مراد ایسا رویہ ہے جو کسی بھی چیز کو نقصان پہنچائے اور ایسا ارادہ جو بدنیتی بر مبنی ہو۔
مذکورہ گیموں کو کھیلنے والوں کی نفسیات میں جو جارحیت کا مزاج پیدا ہوتاہے، اس کی تین قسمیں ہیں:
(۱)زبانی جارحیت: یعنی گیم میں کسی کردار کے ذریعے گالی گلوچ یا فحش الفاظ کا استعمال بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
(۲)جسمانی جارحیت: یعنی تشدد اور مارپیٹ جس کے نقصان دہ اور سنگین ہونے کا امکان ہوتا ہے، بچے اور نوجوان ایسے مناظر کی دیکھا دیکھی اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(۳)تعلقاتی جارحیت: یعنی عریانیت، جنسی تشدد، غیر اخلاقی افعال،جو نفسیاتی ہیجان کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں گیم کھیلنے والے لوگوں میں ۲۵؍ فی صد گیمرز (Gamers)۱۸؍ سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔۳۲؍ فی صد وہ ہیں جو مکمل طور پر بالغ شعور رکھتے ہیں۔اور ۳۵؍ فی صد وہ نوجوان ہیں جو مراہق یعنی بچپن اور بلوغت کی سرحد پر کھڑے ہیں، یہی وہ دور ہے جب شعور وذہنی سطح کے ساتھ رویوں میں بھی گروتھ اور پروان ہوتی ہے۔
ویڈیو گیم کھیلنے والے بچوں کا ذہنی توازن، جسمانی نقصان اور فساد پر آمادگی :
کثرت سے گیم کھیلنے والے بچے مرگی کا شکار ہوتے ہیں۔
ہاتھوں میں رعشہ پیدا ہوتا ہے۔
گیم کھیلتے وقت مزید برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہڈیوں میں تکلیف لاحق ہوتی ہے۔
گیم کھیلتے وقت آنکھوں کی حرکت تیز ہوجانے کی وجہ سے آنکھوں پر برا اثر پڑتا ہے۔
گیم کھیلنے والوں میں خود اعتمادی کی کمی کے ساتھ نفسیاتی مرض پروان چڑھتا ہے۔
گیم کھیلنے والے بچے جرائم کے لیے نئے طریقے اور ترکیبیں سیکھتے ہیں۔
تشدد اور مار دھاڑ کے نئے نئے حربے سیکھتے ہیں۔
کولمبین ہائی اسکول کے ۱۷؍ اور ۱۸؍سالہ دو طالبِ علموں نے ۲۰؍ اپریل ۱۹۹۹ء کو اپنے ہی اسکول کے ۱۲؍ طلبہ اور ایک استاذ کو قتل کردیا۔
اپریل، ۲۰۰۰ء میں اسپین کے ۱۶؍ سالہ لڑکے نے اپنے والدین اور بہن کو تلوار سے کاٹ دیا۔
نومبر، ۲۰۰۱ء میں ۲۱؍ سالہ امریکی ’’شان وولی‘‘ کی والدہ کے بیان کے مطابق وہ ایک گیم ’’ایورکوئسٹ‘‘ کو نشہ کی حد تک کھیلتا تھا، جو اس میں گیم کے لیول(درجے) کے ساتھ بڑھتا گیا، لیکن جب اس نے گیم ختم کرلیااور اس کو وہ نشہ حاصل نہ ہوا جس کی اسے عادت ہوگئی تھی، تو اس نے خودکشی کرلی۔
اس طرح کے بے شمار واقعات وحادثات ہیں جو گیم کے عادی نوجوانوں کے ساتھ پیش آئے، اور ان میں اکثر بچے ۱۵؍سے ۱۸؍ سال کے ہیں۔
ویڈیو گیم کھیلنے والے بچوں کا دینی نقصان:
الٰہی فرائض یعنی نماز، روزے میں کوتاہی ہوتی ہے۔
انسانی فرائض وواجبات یعنی جس ادارے میں مزدوری ونوکری کرتا ہے ،اس ادارے کی مفوضہ ذمہ داریوں کی انجام دہی میں کوتاہی ہوتی ہے۔
واجبات مثلاً حلال کمائی وکاروبار میں کوتاہی ہوتی ہے۔
والدین کے حقوق کی ادائیگی وخدمت میں کوتاہی ہوتی ہے۔
اولاد کی پرورش وتربیت متأثر ہوتی ہے۔
رشتہ داروں اور قرابت داروں سے صلہ رحمی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
دوست واحباب کے ساتھ حسنِ سلوک میں کوتاہی ہوتی ہے۔
غریبوں اور فقیروں کے ساتھ ہم دردی کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے۔
دینی مجلسوں اور محفلوں میں شرکت سے گریز کرنے لگ جاتا ہے۔
دنیوی زندگی کے لہو ولعب میں مشغول ہوکر اُخروی زندگی کی لطف اندوزی سے محروم ہوجاتا ہے۔
اکابر ومشایخ کی صحبت سے گھبراہٹ ہونے لگتی ہے۔
قساوتِ قلبی (قلب کی سختی) کا شکار ہوجاتا ہے۔
تعلیم وتعلُّم کا سلسلہ بڑی حدتک متأثر ہوجاتا ہے۔
لایعنی وفضول کاموں کا ارتکاب لازم آتا ہے۔
وقت جیسی عظیم نعمت کی ناشکری لازم آتی ہے۔
تعاونِ باہمی کا جذبہ ماند پڑجاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ …مقاصدِ شرعیہ خمسہ (حفاظتِ دین، حفاظتِ نفس، حفاظتِ نسل، حفاظتِ مال اور حفاظتِ عقل )بری طرح متأثر ہوتے ہیں،جب کہ ان مقاصد کی حفاظت کرنا ہر مسلمان شخص ؛ مرد وعورت پر لازم وضروری ہے۔
والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی فکری، دینی واصلاحی تربیت کریں، اور اگر وہ کھیل کے شوقین ہوں، تو انہیں درج ذیل مباح ومستحب کھیلوں اور مقابلوں کی ترغیب دلائیں، مثلاً:تیز دوڑ مقابلہ… پیراکی مقابلہ …کشتی تیز دوڑانے کا مقابلہ… کُشتی… تیر اندازی… (بندوق وغیرہ سے) نشانہ بازی… نیزہ بازی… گھوڑ سواری… تلوار بازی…جسمانی صحت وورزش وغیرہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۳۵/۲۶۸)
اور والدین ابتدا ہی سے اپنے بچوں کو یہ ذہن نشیں کرادیں کہ ان کھیلوں کامقصد ، ضرورت پڑنے پر، دینِ اسلام کی خدمت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی تیاری ہے، اگر محض اپنی بڑائی اور بہادری کا اظہار مقصود ہو، یا صرف لہو ولعب پیش نظر ہو، تو مکروہ ہے۔در اصل اس کا مدار نیت اور مقصد وارادے پر ہے۔
لہو ولعب میں فرق:
لہو: ایسی چیز یا کام کو کہتے ہیں جو آدمی کے ذہن کو مشغول کردے۔گانے بجانے کے آلات کو اسی لیے ’’ملاہی‘‘ کہا جاتا ہے۔
لعب: ایسے کام کو کہتے ہیں جس میں کوئی نفع نہ ہو۔
تنبیہ: کُشتی سے مراد صرف وہ کُشتی ہے جس میں فریقِ مقابل کو زمین پر گرادیا جائے، وہ فری اسٹائل کشتی نہیں جس کا آج کل اولمپک کھیلوں میں رواج ہے، جس میں فریقِ مخالف پر آزادانہ تکلیف دہ وار کیے جاتے ہیں، بعض دفعہ شدید جسمانی نقصان پہنچایا جاتا ہے، حتی کہ کبھی موت بھی واقع ہوجاتی ہے، اخلاقی اور انسانی حدود سے متجاوز ایسی کشتیاں اور باکسنگ بالکل جائز نہیں، بلکہ حرام ہیں۔
موجودہ زمانے میں جوڈو کراٹے بھی کشتیوں کے حکم میں ہیں، کیوں کہ اس کا مقصد بھی جسمانی ورزش اور مدافعانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہے، البتہ کراٹے کا ایسامقابلہ جائز نہیں جس میں دوسرے فریق کو ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی اجازت ہو۔ (قاموس الفقہ:۴/۵۸۸)
تفریحی کھیلوں سے متعلق ایک شبہ :
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں مذہبِ اسلام میں بہت زیادہ تنگی ہے، حتی کہ تفریحی کھیلوں سے بھی منع کیا جاتا ہے، تو واضح ہو کہ شریعتِ اسلامیہ میں وقت کی حفاظت اور بامقصد زندگی کے قیام کا حکم دیا گیا، لہو ولعب اور لغو کی ممانعت کی گئی، ممانعت کا یہ مقصد ہر گز نہیں کہ تفریح کی بھی ممانعت ہے ، بلکہ شرعاً ایک حد تک مستحسن ومطلوب ہے ، تاکہ اس تفریح کے ذریعے جسم وروح کی سستی دور ہوکر طبیعت میں نشاط وچستی، حوصلہ وہمت پید ا ہو، اور انسان مکمل طور پر زندگی کے اعلیٰ مقصد عبادت کی طرف متوجہ ہوسکے ، لہٰذا تفریحی کھیل کود کے سلسلے میں فقہا وعلما نے قرآن وحدیث سے چند ضوابط اخذکیے ہیں:
(۱)ایسا کھیل جس میں دینی ودنیوی کوئی مصلحت ومقصد نہ ہو، نہ اس کی غرض ، غرضِ صحیح ہو، بلکہ محض وقت گذاری ہو تو ایسا کھیل ناجائز ہے۔
(۲)ایسا کھیل جس میں کوئی مصلحت وغرضِ دینی یا دنیوی تو ہو مگر اس کی ممانعت کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہ سے ثابت ہو، تو وہ بھی ناجائز ہے۔
(۳)ایسا کھیل جس میں لوگوں کے لیے مصلحت وفوائد تو ہوں ، مگر تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہوکہ اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں، اور ان کا کھیلنا انسان کو اللہ کی یاد، نمازاور فرائضِ شرعیہ سے غافل کردیتا ہے، تو یہ کھیل بھی ناجائز ہے۔
(۴)ایسا کھیل جس کا مقصد دینی یا دنیوی مصلحت وفوائد کو حاصل کرنا ہو تو مباح ہے، بشرطیکہ یہ کھیل کفار وفساق کا شعار نہ ہواور اس میں ہارجیت پر مال کی شرط نہ ہو۔ (بحوالہ: المسائل المہمۃ فیما ابتلت بہ العامۃ)
کھیل کے بارے میں بنیادی اُصول:
فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ دامت برکاتہ رقم طراز ہیں:
(۱) کھلاڑی ایسا لباس اختیار کریں، جو ساتر ہو، یعنی مرد ہو تو ناف سے گھٹنے تک کا حصہ ڈھکا ہوا ہو، خواتین مردوں کے درمیان نہ کھیلیں، خواتین کے لیے خواتین کے سامنے پردہ کی حدود وہی ہیں جو مردوں کے لیے ہیں، کہ ناف سے گھٹنے تک کا حصہ چھپا ہوا ہو، اس کی رعایت کیے بغیر کھیلنا حرام ہے، کیوں کہ حصۂ ستر کو چھپانا شرعاً واجب ہے۔
(۲) ایسا کھیل ہو جو مختصر وقت میں پورا کیا جاسکتا ہو، جیسے فٹ بال، والی بال، ایسا طویل الوقت کھیل نہ ہو ، جو آدمی کو شرعی فرائض اور اپنی متعلقہ ذمہ داریوں سے غافل کردے، جیسے شطرنج، فی زماننا کرکٹ، تاش، ایسے کھیل مکروہ ہیں، لوڈو بھی کراہت سے خالی نہیں ہے۔
(۳)ایسا کھیل نہ ہو جو اپنے یا دوسروں کے لیے ایذا رسانی کا باعث ہو، اور جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا کافی امکان ہو، جیسے فری اسٹائل کشتی اور باکسنگ وغیرہ، ایسے کھیل بھی جائز نہیں ہیں۔
(۴)مردوں کے لیے زنانہ کھیل اور عورتوں کے لیے مردانہ کھیل جیسے کشتی، کبڈی درست نہیں ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔
(۵)کھیل خواہ کوئی بھی ہو، اگر اس میں جوا اور قمار وسٹہ ہو، تو جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ جوا حرام ہے۔
(۶)ایسا کھیل جس میں جسمانی ریاضت ہوتی ہو، جو صحتِ انسانی کے لیے مفید ہو، اور جس سے انسان کے اندر قوتِ مدافعت بہم پہنچتی ہو، مستحب ہے، اور اسلام ایسے کھیل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
(قاموس الفقہ: ۴/۵۸۷، ۵۸۸)
شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ آیتِ کریمہ {ومن الناس من یشتري لہو الحدیث لیضل عن سبیل اللّٰہ بغیر علم ویتخذہا ہزوا اولئک لہم عذاب مہینo} (سورۂ لقمان:۶)کے تحت فرماتے ہیں:
’’آیتِ مذکورہ میں یہ اُصول بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دِل بہلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پروا کرے، ناجائز ہے۔ کھیل اور دل بہلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں، جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً: جسمانی یا ذہنی ورزش، یا تھکن دُور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو کوئی تکلیف پہنچے، اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کریں۔ ‘‘ (توضیح القرآن)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے معاشرے وسماج کے نوعمر بچوں اور نوجوانوں کو موجودہ دور کے اس فتنے سے محفوظ فرمائے، والدین کو اپنی اولاد کی صحیح تربیت وتعلیم کی توفیق مرحمت فرمائے! آمین یا رب العالمین!