از:مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی (مدیرمسابقات قرآنیہ)
ہم جس ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں،یقینا بہت ترقی یافتہ دور سمجھا جارہا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیاوی اعتبار سے انسان بہت آگے نکل چکا ہے،اور مزید ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور کیوں نہ ہوکہ اللہ تبارک وتعالی نے انسان کے اندر تنافس کا جذبہ ودیعت کررکھاہے،لیکن یہ تنافس کتناصحیح ہے اورکتناغلط؟یہ فیصلہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں قرآن وحدیث سے موازنہ کرکے دیکھناہوگا،کہ اللہ رب العزت اس تنافسی صلاحیت سے کس چیزکے اندرایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا مطالبہ کرتاہے اورکس چیزمیں تنافس مطلوب ومحبوب ہے؟
تودیکھئے!قرآن کریم نے ابراروصالحین کے اخروی اورجنتی انعامات کوبتلاتے ہوئے فرمایاہے:
’’اِنَّ الْاَبْرَارَلَفِیْ نَعِیْمٍo عَلَی الْاَرَائِکِ یَنْظُرُوْنَo تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْہِہِمْ نَضْرَۃً نَّعِیْمِo یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ oخِتٰمُہُ مِسْکٌo وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَا فَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَo‘‘(تطفیف۲۲-۲۶)
اہل جنت ان نعمتوںکے حصول میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریںگے۔
اسی طرح فرمایا: ’’فَاسْتَبِقُوْاالْخَیْرَات‘‘(مائدہ:۴۸) توکہیںفرمایا’’فَفِرُّوْااِلَی اللّٰہِ‘‘(ذاریات: ۵۰)’’فَاسْعَوْااِلٰی ذِکْرِاللّٰہِ‘‘(جمعہ:۹)
سب کا حاصل یہ ہے کہ اہل ایمان کواللہ تعالی کی رضاکے حصول میں تگ ودوکرنی چاہیے نیزیہ محمودومطلوب اورمقصودزندگی بھی ہے۔
آمدم برسرمطلب:
تنافسی سلسلے کی ایک کڑی قرآنی مسابقات بھی ہیں،جسے ہم خانوادۂ جامعہ اکل کوانے ایک تحریک کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیااورہرتین سال پرملکی سطح پر مسابقات کا منعقدکیے جاتے ہیں جن کے بہت عمداوراچھے نتائج اورفوائد ثابت ہورہے ہیں۔
مسابقات قرآنیہ کی مشروعیت:
توآئیے!ایک سرسری جائزہ لیاجائے کہ ان مسابقات کی شرعی حیثیت کیاہے؟کیوںکہ قرآن و حدیث میںاشارۃً تویہ بات ملتی ہے کہ خیرکی چیزوںمیں مسابقہ ہوناچاہیے،چناںچہ قرآنی آیات توابھی گذریں ،حدیث پاک میں بھی مسابقہ کاایک واقعہ بہت مشہورہے،کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غزوہ کے موقع پردو کم سن صحابی کے درمیان کُشتی کروائی،اسی طرح زیادہ قرآن یاد کرنے والے کو بہت سے معاملات میں آگے بڑھانابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔
ہم نے بھی قرآن وحدیث پرعمل پیراہوتے اور’’الدال علی الخیرکفاعلہٖ‘‘ کوعملی جامہ پہناتے ہوئے،۲۷؍سال قبل ان مروجہ مسابقات کی بنیادرکھی اوروقت کے معتبراورقابل اعتماد دارالافتاء سے اپنے طریقۂ کار کوواضح کرتے ہوئے اربابافتاء سے استفتاء کیا جنہوںنے حدودشرعیہ میں رہتے ہوئے ان مسابقات کے انعقادکی اجازت دی ۔جوجسب ذیل ہے ،ملاحظہ فرمائیں:
استفتاء اوراس کا جواب:
محترمی ومکرمی جناب مفتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعدتسلیمات! خیریت ِطرفین مطلوب۔
عرض ہے کہ عصر حاضر میں جب کہ ہرچہارجانب سے اسلام اوراہل اسلام کی سرکوبی ا وراس کے شعائر وعلامت کو مٹانے کی پیہم کوششیں کی جارہی ہیں،اورجوںجوںزمانہ، شمع رسالت سے دور ہوتا جارہاہے، مسلمانوں کی دینی وشرعی کمزوریاںبھی بڑھتی جارہی ہیں،خصوصاً قرآن پاک جوشریعت اسلامیہ کا منبع اوراصل ہے ،علمی اعتبار سے تو درکنار، قراء ت وتلاوت سے بھی اپنے حقوق حاصل کرنے سے محروم ہے،جب کہ رب ذوالجلال کے فرمان مبارک ’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘پر عمل کرنے میں عوام وخواص دورہوتے جارہے ہیں،ایسے موقع پر صرف قرآن پاک کی تعلیم کو عام اورتام کرنے کے لیے،حاملین قرآن کی ایک جماعت ،مسابقۃ القرآن کے عنوان سے ملکی صوبائی اورضلعی سطح پر مجالس منعقد کرکے قرآن پاک کوتجویدوصحت کے ساتھ پڑھنے والے شرکاء کو استحقاق کی بنیاد پر انعامات تقسیم کرتی ہے،نیزمجالس میں اکابر علماء وصلحاء کی شرکت ہوتی ہے،جس میںشرکائے مسابقہ کی حوصلہ افزائی کے ساتھ حاضرین مجلس کے لیے ترغیبی کلمات بھی ہوتے ہیںاور حقوق قرآن مجیدسے متعلق ضروری احکام بھی بتائے جاتے ہیں ، ویڈیو کیسٹ ،تصویرکشی نیز اس طرح کی دیگرخرافات سے بالکلیہ اجتناب کیا جاتاہے، توکیاارباب افتاء کے نزدیک اس قسم کی مجلس کے انعقاد کی شرعاًاجازت ہے یانہیں،تفصیلی جواب سے مستفیض فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرالجزاء
جوابات ِ مفتیان کرام مدظلہم:
حامداًومصلیاًومسلماً!
جب کہ مستندعلمائے حق کی موجودگی میں،ان کے مشوروںاورہدایات کی روشنی میں ایک نیک جذبے کے تحت یہ عمل انجام پارہاہے،تواس کی صحت نیزافادیت میںترددکرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ فقط
واللہ اعلم بالصواب
(حضرت مولانا مفتی )عبدالرحیمؒ( صاحب لاج پوری راندیری)
اگراس طرح کے جلسوںمیںصرف مقصدیہ ہے کہ ان لوگوںکوقرآن پاک تجویدکے ساتھ پڑھنے کی طرف ذوق وشوق اوررغبت پیداہو، فیشن ،نام ونموداورشہرت وناموری وغیرہ مقصدنہ ہو توتجوید وقراء ت میںاس طرح کا مسابقہ کرنے میںکوئی مضائقہ نہیں،خواہ یہ مسابقہ ضلعی سطح پرہویاصوبائی اورملکی سطح پرہو،اہل فن اوراہل علم ہی اس میں جج بنائے جائیں،ہرقسم کے منکرات سے محفل پاک وصاف ہوتو یہ مسابقہ درست ہے،بل کہ باعث اجروثواب بھی ہے۔واللہ اعلم۔۔۔۔(حضرت مولانا مفتی حبیب الرحمن صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند)
مسابقۂ قراء ت قرآن چوںکہ قرآن کریم کی عمدہ تلاوت ،قواعد قراء ت کی رعایت اورقرآن سے زیادہ تعلق کوعام کرنے لیے ہوتا ہے اس لیے شرط صحت ِ سوال اس مسابقہ میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے،البتہ اخلاص نیت ضروری ہے۔
نوٹ:اس نام سے جورقم جمع کی جاتی ہے ،اسی مصرف میںصرف کی جائے۔واللہ اعلم۔
(حضرت مولانا مفتی محمداحسان صاحب نائب مفتی وقف دارالعلوم دیوبند)
فقہا نے تقویت ِدین اوراعلائے کلمۃ اللہ کے لیے مسابقہ جائز قراردیاہے،اس لیے مذکورہ صورت میں مسابقۂ قرآن کے لیے ایسی مجلس منعقدکرنا جوغیرشرعی امور سے خالی ہودرست ہے۔واللہ اعلم۔
(حضرت مولانا مفتی نصراللہ صاحب مظاہری امارت شرعیہ بہار واڑیسہ ،خانقاہ مونگیر)
غرض تلاوتِ کلام اللہ سے حق تعالیٰ کے تقرب کی نیت ہو۔
(حضرت مفتی عبدالقدوس صاحب ومفتی محمدامین صاحب مظاہرعلوم ،وقف سہارن پور)
بات اگراس حدتک رہے جوسوال میںمذکورہے ،توگنجائش ہے۔
(حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہ دارالعلوم دیوبند)
ان مقاصدکے حصول کے لیے ایسی مجلس قائم کرنا اورمسابقے کرنا ،انعام تقسیم کرنامستحسن ہے ، بالخصوص جب کہ اس کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے کہ خلاف شرع اموراورخرافات سے اجتناب کیاجارہاہے ، ارباب اعتمادکو اس پر اعتراض نہیں ہوناچاہیے ۔ (حضرت مفتی محمدظہورصاحب ندوی مدظلہ العالی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ)
افادیت ومقبولیت:
ان مسابقات کی افادیت توروز روشن کی طرح عیاں اورظاہر ہے،تاہم اکابرین امت کے تاثرات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ،جس سے مسابقات کی افادیت بالکل واضح ہوجاتی ہے۔
چناںچہ سرپرست جامعہ حضرت مولاناعبداللہ صاحب کاپودروی مدظلہ‘ اپنے ایک تاثراتی بیان میں فرماتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔آج سے چندسال پہلے بہت کم علاقوں میں تجویدوقراء ت کاسلسلہ دیکھنے میں آتاتھا،مگر اِس جلسے میں آئے ہوئے طلبائے عزیزکی قراء توںنے بتلادیاکہ پس ماندہ علاقوں کے بچے بھی بہترین تلاوت کرسکتے ہیں،گویایہ کہاجاسکتاہے ؎ ذرانم ہوتویہ مٹی بڑی زرخیزہے ساقی‘‘۔
اسی طرح دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین حضرت مولانامفتی سعید احمدصاحب پالن پوری دامت برکاتہم نے آسام کے ایک مسابقہ میںتشریف لائے اوردیکھ کرارشادفرمایا:
’’میںنے اس سے پہلے کسی مسابقہ کونہیںدیکھاتھا،لیکن اگر مسابقہ اسی کا نام ہے تو کروڑہاکروڑ مبارک ہو،ایسے مسابقے ہروقت اورہرجگہ زیادہ سے زیادہ تعدادمیںہوناچاہیے‘‘۔
ایسے ہی حضرت مولانامحمدحنیف صاحب ملیؒ نے آل مہاراشٹرمسابقۃ القرآن کے پروگرام میںایک تاثراتی بیان کرتے ہوئے فرمایا’’۔۔۔ ۔ بلاشبہ پوری ریاست مہاراشٹر میںعربی مدارس پہلے بھی تھے اوراب بھی ہیں،لیکن قرآن پاک کوہدف بنا کر خالص حجازی لَے میںتجویدوقراء ت کی رعایت کرکے تلاوت ،کہ سماں بندھ جائے اور پوری فضا تیارہوجائے،یہ مولانا غلام محمدوستانوی رئیس جامعہ کامنفردتجدیدی کارنامہ اوراقدام ہے کہ ریاست کے چھوٹے چھوٹے دیہات کی فضا تجوید و قراء ت کے نغمہ سے عطربیزہے،جس سے لطف اندوز ہونے کے لیے دوردرازسے لوگ ہونے والے مسابقۂ قرآن میں کشاںکشاں شرکت کررہے ہیں‘‘۔
مقبولیت اورمحبوبیت:
مقبولیت اورمحبوبیت کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ جہاںکہیںریاستی اورصوبائی سطح پرمسابقات کے انعقادکے سلسلے میں کسی ادارہ کے ذمہ داران سے بات ہوئی توانہوںنے سعادت سمجھ کر فوراًقبول کرلیااورریاستی پیمانے پرتصورسے زیادہ مدارس عربیہ اسلامیہ نے شرکت فرماکر اس تحریک دینی کا حصہ بنے۔
چناںچہ سال رواں۲۰۱۸ء کے نویںآل ریاستی مسابقات میں شریک ہونے اوران میں امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوکر کل ہندمیں شرکت والے مدارس وطلباء عزیزکی ایک جھلک پیش خدمت ہے،اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل وکرم سے ان سعی جمیل کو مقبولیت سے نوازکربارآورفرمائے۔(آمین)