مسابقات جامعہ اور مولانا عبد الرحیم صاحب

قاری سید محمدعارف الدین /استادتفسیروحدیث جامعہ اکل کوا

مسابقات کا آغاز کب اور کیسے؟

            آج سے ٹھیک ۳۰/ سال قبل جامعہ کے رئیس ِمحترم نے مہبط ِوحی الٰہی ؛یعنی مکة المکرمة کی ارضِ مقدسہ پرمنعقدہ ”عالمی مسابقة القرآن“میں بتوفیق الٰہی شرکت فرمائی۔مسابقہ اوراس کی نوعیت سے متاثرہوکر جب اپنے عظیم اورمبارک جامعہ پہنچے توسب سے پہلے جامعہ میں زیرتعلیم درجہٴ عربی ششم کے ۲/ہونہارطلبہ مولوی شیرمحمدمکرانی اورقاری حسین مہواکاانتخاب کرکے سرزمین حرم پرہونے والے مسابقہ میں روانہ فرمایا۔بفضلہ تعالیٰ ان دونوں نے شرکت کی اوراُسی مسابقة القرآن کی برکت سے انھیں جوفِ کعبہ میں داخل ہوکرنمازاداکرنے کی سعادت عظمیٰ نصیب ہوئی۔

            اس کے بعدرئیس محترم نے اندرون جامعہ مسابقات کے اس زریں وحسین سلسلہ کاآغازفرمایا۔

حضرت مولاناعبدالرحیم  کابہ حیثیت ناظم مسابقات انتخاب:

            چناں چہ اِن مسابقات کے انتظام وانصرام کے لیے حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحی کاانتخاب عمل میںآ یا۔”حق بہ حق داررسید“آپ کی ذات واقعةًاس کی حق دارتھی ۔راقم الحروف بھی آپ کاروزاول ہی سے مُعین اورشریک ِکاررہا۔

ایں سعادت بزوربازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

            مولانا کوحق تعالیٰ نے بڑی خوبیوں سے نوازاتھا؛بل کہ اگرمیں یوں کہوں توشایدبے جانہیں ہوگاکہ آپ امت تھے،آپ اپنے آپ میں ایک انجمن تھے ۔بے شماراوصاف ِحمیدہ وحسنہ کے حامل تھے۔من جملہ اُن خوبیوں کے ایک حسنِ انتظام ہے ۔یہ کسی بھی کام کوخواہ وہ چھوٹاہویابڑا۔خوب سے خوب تربنانے کی حتی المقدور کوشش فرمایاکرتے تھے اورپوری لگن اوردل چسپی کے ساتھ اس کام میں پوری طرح منہمک ہی نہیں،بل کہ مستغرق ہوجاتے ۔

مولاناکاطریقہٴ کار:

            رئیس الجامعہ کی جانب سے جب مولاناکومسابقہ کااشارہ ہوتا،اسی آن سے حرکت میںآ جاتے ۔ ہشاش بشاش مسکراتے ہوئے راقم الحروف سے مل کرنجی گفتگوفرماتے اورمختلف نشستوں میں مسابقہ کی پوری نوعیت باہم طے کی جاتی ۔کیوں کہ ابتداتھی اورکوئی نمونہ سامنے نہیں تھا۔اس لیے نوعیت طے کرنے میں دشواریاں پیش آتیں۔تاہم

اٹھ باندھ کمرکیا ڈرتاہے

پھردیکھ خدا کیا کرتاہے

            اللہ کی نصرت شامل ِحال رہی ۔سب سے پہلے فروعات تشکیل دی جاتیں۔پھرہرفرع کے اعتبارسے مقدار ِمسابقہ مقررکی جاتی۔اسی طرح شرائط ِمساہمت برائے مسابقہ زیرتحریرلائے گئے۔الغرض مکمل لائحہ عمل تیارکیا جاتا ۔مثلاً:مساہمین کے لیے بیچ کیسے ہونے چاہیے؟ان کارنگ کیساہوناچاہیے؟ہرہر فرع کے لیے رنگ الگ الگ ،ہرایک کامضمون علاحدہ ۔اسی طرح حکم حضرات کے لیے وہ کاغذات ونقشہ جات ؛جن پروہ مساہمین کو نمبردیں گے۔ پھرحکم حضرات کے دیے ہوئے نمبرات کوجمع کرنے کے لیے الگ سے نقشہ جات،اس کے بعدآخری نتائج کاجدول۔

            یہ بات جان کرآپ کوحیرت ہوگی کہ اس زمانے میں کمپیوٹرنہیں تھا۔اسی طرح پورے اکل کوامیں زیراکس مشین تک نہیں تھی۔آج جوجدیدآلات اورسہولتیں موجودہیں،ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا۔تمام چیزوں کی تیاری دستی طورپرکی جاتی۔بیچ قینچی سے کاٹ کرہم خودبناتے۔تمام نقشہ جات بھی اسی طرح تیارکیے جاتے ۔ان پرنقش ونگاراورعمدہ حاشیے اسکیچ قلم سے بنائے جاتے ۔ رات دیرتک دفترتجویدمیں بیٹھ کر یہ سارے کام انجام دیے جاتے۔حتی کہ مولانا اپنے ساتھیوں کوجن سے مرادراقم الحروف،قاری سلیمان صاحب،مولاناحسن صاحب اور مولانا عبد الرحمن صاحب گوئما ہیں۔فرماتے کہ اپنااپناکھانااپنے گھرسے منگوالو،پھرسب کام سے فارغ ہوکرکھاناتناول کرتے توبڑاعجیب لطف آتا۔اس زمانے میں جامعہ کے پہلے شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیمان شمسی بھی بعض دفعہ ہمارے ساتھ بیٹھ کربیچ وغیرہ کی تراش خراش میں لگ جاتے اورلکھ کرنمونے بتلاتے ۔کیوں کہ حضرت بڑے زبردست کاتب تھے۔

            مسابقہ کاکوئی بھی کام ہوتا۔مثلاً:دعوت نامہ تیارکرنایاکوئی مضمون لکھناہوتاتوہم اولاً خام تیارکرتے ۔ پھرحضرت شمسی کوضروربتلاتے ۔جب حضرت نظرثانی فرمالیتے اورتصدیق کردیتے ،پھرہم بلاتردداُسے حتمی اور آخری شکل دیتے ۔

            یہ مولاناکی خصوصیت تھی ۔وہ ایسے مواقع پراپنے بڑوں کوبالکل فراموش نہ کرتے ۔اسی طرح اپنے چھوٹوں کوبھی نظراندازنہ کرتے ۔ہرایک کے ساتھ اس کے مرتبے اورمقام کے لحاظ سے پیش آتے ۔اورجوآدمی جس فن کاماہرہوتا،اس سے وہ کام ضرورلیتے ۔ہرایک کواعتمادمیں لے کرکام کرنا مولانا کاامتیازی وصف تھا۔

            اس کے بعدپورے جامعہ میں”اعلان برائے شرکت مسابقہ“آویزاں کیاجاتا۔اورشرکت ومساہمت کے لیے بعدنمازعصرخودمولاناتشجیعی بات کرتے ۔مساہمت مسابقہ کی طلبائے عزیزسے درخواستیں لی جاتیں۔پھر ان مساہمین کے درمیان انتخابی مسابقہ ہوتااوریہ سلسلہ بعدنمازمغرب وعشاجاری رہتا۔خودمولاناسوالات کرتے،ان کی پختگی ،روانی،صحت تلفظ اوراستحضارقواعدپرپوری توجہ دی جاتی ۔جوطلبہ اچھے ثابت ہوتے ،انھیں داخلی مسابقہ کے لیے یقینی کرلیاجاتا۔

            پھران شرکاپرخارج میں محنت کی جاتی ۔دیگراساتذہٴ تجویدکوبھی مکلف کیاجاتااورماشاء اللہ سب ہی خوش دلی کے ساتھ تعاون کرتے ۔خودمولاناعصرکے بعدمختلف فروعات کے مختلف بچوں کومنبرکے پاس بٹھاتے اوران سے اختیاری اورمشقی سوالات فرماتے ۔جس سے بچوں میں جرأت وہمت پیداہوتی اوروہ مسابقہ کے لیے اپنے آپ کوتیارکرتے ۔

            داخلی مسابقہ کی کام یابی کے لیے دعاوٴں اوراعتکاف کابھی اہتمام کیاجاتا۔حکم کے فرائض انجام دینے کے لیے گجرات،مہاراشٹرودیگرعلاقوں کے ناموراورماہرقرائے کرام کارئیس جامعہ کے ساتھ بیٹھ کرمولانا انتخاب فرماتے ،پھران کی آمدورفت نیزان کے قیام وطعام کامکمل نظام بہ خوبی انجام دیاجاتا۔

ریاستی مسابقات کاسلسلہ:

            مسابقات کایہ عظیم سلسلہ رحابِ جامعہ سے تجاوزکرکے ریاستی اورصوبائی پیمانے پرپورے ملک ہندستان میں تدریجاً پھیلتاگیا۔مختلف صوبوں کے عظیم اداروں نے اپنی اپنی خواہش کااظہارکیاکہ ہمارے یہاں یہ نورانی وقرآنی محفلیں منعقدکی جائیں۔لوگوں میں رغبت اورشوق پیداہوا۔مسابقات کے فوائداورنتائج سے متاثرہوکرعلما، طلبا،قراء اورنظما؛سب ہی منسلک ہوتے گئے ۔چناں چہ ریاستی مسابقات کاآغاز۱۹۹۴ء سے ہوا۔جس کاملک ہندستان کی مختلف ۷/ریاستوں میں انعقادہوا۔اور۱۹۱/مدارس کے ۴۳۴/ طلبانے حصہ لیا۔جوں ہی رئیس الجامعہ کی طرف سے مولاناکوریاستی مسابقات کی ہدایت دی جاتی ،مولانافوری طورپرکمربستہ ہوجاتے ۔سب سے پہلا اوراہم کام یہ انجام دیاجاتاکہ حضرت رئیس محترم کے ایمااورمنشاکے مطابق مراکزِمسابقہ متعین کیے جاتے کہ کس صوبہ کامسابقہ کس مقام پراورکس ادارہ میں مناسب رہے گا۔

            بعدہ حضرت مولانا ان مراکزکے منتظمین ومہتممین سے فون کے ذریعہ رابطہ فرماتے اوران سے اِس سلسلے کی مکمل گفتگوفرماتے ۔ان کے سامنے مسابقہ کی مکمل نوعیت رکھتے ۔جب وہ حضرات اپنی رضامندی کااظہارکر دیتے توان مراکزسے ذمہ داراورفکرمندرجال کارکوجامعہ بلایاجاتا۔ان کے ساتھ بیٹھ کرانھیں نوعیت مسابقہ سمجھایا جاتا۔اولاً ہرصوبہ کے تمام بڑے مدارس میں مسابقہ میں شرکت کادعوت نامہ اورفارم مع شرائط ونوعیت مسابقہ روانہ کردیاجاتا۔مولانا تمام مراکزسے ہمیشہ مربوط رہاکرتے اورانھیں قیمتی ہدایات سے نوازتے اورمعلومات لیتے رہتے کہ کتنے دعوت نامے روانہ ہوئے؟کتنوں کے جوابات موصول ہوئے؟وغیرہ وغیرہ۔پھران سے ایک رجسٹر تیارکروایاجاتا،جس میں مساہمین کے اسمامع اُن کے مدارس اورفروعات کے اندراج کیے جاتے ۔پھرہرہر فرع کے مساہمین کے اسماالگ الگ تحریرکروائے جاتے ۔نیزمساہمین کی رہائش، اسی طرح طعام وغیرہ کی پوری فکرفرماتے تاکہ اُنھیں کوئی پریشانی کاسامنانہ کرناپڑے ۔رہائش گاہ کی تعیین کی جاتی۔اسی طرح سرپرستان مساہمین کے قیام گاہوں کاتعین ہوتا۔دفترمسابقہ اورحکم حضرات کی رہائش وغیرہ؛ ساری باتوں کوطے کیاجاتا۔

            مساہمین کو کام یابی پرشہادتِ امتیاز ،شہادت شرکت اورفائز مدارس کوسندِتوصیف وغیرہ کانظم توکئی سالوں تک من جانب جامعہ ہی ہوتارہا۔مولانا ان اسنادکی طباعت کانظم کرکے اس کی پوری نگرانی فرماتے ۔

             ابتداء اً جامعہ کے موٴقرقرائے عظام کاایک مختصروفد؛جوپانچ سات افرادپر مشتمل ہوتاتھا،تحکیم اوردیگر کارہائے بسیارکوانجام دیتاتھا۔اورملکی پیمانے پرتمام ریاستوں میں یکے بعددیگرے یہ قافلہٴ قرآنی مولاناعبدالرحیم صاحب کی قیادت وسیادت میں سفرکرتا۔مولانابڑے نشیط اورچست انسان تھے۔تھکن توغالباًڈرکران سے دورہی رہتی تھی۔شب وروزکایہ تھکادینے والاسفر۔پھرجائے مسابقہ پرپہنچ کرابھی سانس اوردم بھی نہیں لیاکہ مولانا فرماتے:بھائی!مسابقہ کی تیاری کے ذمہ دارکون تھے؟انہیں بلائیے۔انھیں بلایاجاتااوران سے مکمل معلومات لی جاتی،بل کہ دوران سفرہی مولانارابطہ کرکے اجمالی معلومات تولے چکے ہوتے ۔

            حضرت مولاناخودبھی بہت تیزوطراراورچست وچابک تھے اوراپنے سبھی رفقاکوبھی ہمیشہ متحرک رکھا کرتے ۔ سب کوجاتے ہی کام میں مصروف کردیتے ۔باری باری سب غسل سے فارغ ہوتے،کپڑے تبدیل کرتے۔ہم مولاناکوبڑے اصرارکے ساتھ غسل وغیرہ کے لیے تیارکرتے ۔مولاناکامزاج تھاکہ تمام چیزوں پر کام کومقدم رکھتے ۔بہرحال کام کامکمل جائزہ لے کرناظم مسابقہ ،ناظم مدرسہ اوردیگرمنتظمین سے ملاقات کرکے ہرچیز کامذاکرہ فرمالیتے ۔ایک منٹ توکیاایک سیکنڈکے لیے بھی فارغ نہ رہتے اوراپنے ساتھیوں کوبھی بلاتفریق وامتیازالگ الگ کاموں میں مشغول کردیتے اورخودبھی پوری طرح مصروف ہوجاتے۔مولاناکھانے پینے کی زیادہ فکرنہ کرتے۔ان کے دل ودماغ پرکام ہی کام سواررہتا۔

            البتہ دوران سفرمولانا اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت ہی خوش مزاجی سے پیش آتے اورایک ہم درد دوست کی طرح معاملہ کرتے ۔کھل کرتمام ساتھیوں سے بات چیت کرتے ۔کبھی مزاح بھی فرمالیتے۔الغرض عَبُوس بن کرنہ رہتے ،بل کہ ہمیشہ خوش خرم نظرآتے اورتمام ساتھیوں کے طعام اورآرام کاپوراخیال فرماتے۔دوران سفر نمازوں کامکمل اہتمام کرتے ۔اکثرسفرسے پہلے راقم الحروف سے دوستانے میں کہتے کہ قاری صاحب کچھ توشہ لے لیجیے ۔الحمدللہ!میں گھرسے کچھ نہ کچھ بناکرساتھ رکھ لیتا،اسے سفرمیں تناول فرماکرکھانے کی بڑی تعریف کرتے ۔کسی کواُن کے ساتھ سفرکرنے میں بوریت محسوس نہیں ہوتی تھی۔بڑے مرنجاں مرنج آدمی تھے۔ہمیشہ مسکراناتوآپ کی طبیعت تھی۔اگردوران سفرکسی کوکوئی تکلیف یاکوئی ادنیٰ سابھی بیمارہوجاتاتومولانااس کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیارہوجاتے اورپوری خبرگیری فرماتے ۔

            بہرحال!مقام مسابقہ پرپہنچ کرتمام تیاری مکمل کروالیتے ۔مساہمین کی آمدکے بعداندراج کاکام ؛ جو سب سے مشکل کام ہوتاتھا،انجام دیاجاتا۔مولانادفترمسابقہ کے دروازے پرکھڑے ہوکرمساہمین اوران سرپرستان کوقطارمیں کھڑاکرتے اورباری باری جس مدرسہ کانام لیاجاتااُسے اندرداخل ہونے کی اجازت ہوتی۔ بڑے مہذب طریقہ پرسارے کام انجام دیے جاتے ۔پھراس سے فارغ ہوکرمولاناہمیں لے کرمسابقہ گاہ پہنچتے ۔ حکم حضرات کی نشستوں اورمساہمین کی نشستوں کانظم اپنی نگرانی میں کرواتے۔مراکزوالے توبے چارے اس کام سے ابتداء اًبالکل ناواقف تھے،اس لیے بعض مقامات پرتواپنے ہاتھوں سے مولانانے گدیاں وغیرہ بچھائی ہیں۔ یہ مولاناکی انتہائی تواضع اورخاکساری تھی۔خدمت قرآ ن کے لیے انھوں نے اپنے کومٹارکھاتھا۔

            پھرمسابقہ کی پہلی فرع کااعلان ہوتا۔مولاناتمہیدی باتیں اپنے پیارے اندازمیں پیش فرماتے اورضمناً بہت ساری ہدایات،جومسابقہ سے متعلق ہوتی تھیں،پیش کرتے اورسارے ضابطے سمجھاتے۔ اورپھرمساہم نمبر ایک کااعلان ہوتا اورفرع شروع ہوجاتی۔ہرفرع میں۳/حکم اورایک سائل ہوتے ۔کسی کے سامنے کسی طالب علم کا نام پتاکچھ نہیں ہوتا۔صرف اورصرف مساہم نمبرہوتا۔نام اورپتے کی فائل وفدکے ایک امین شخص کے پاس ہوتی، جواخیرمیں نتائج کے وقت نکالی جاتی ۔اسی طرح ابتدامیں توہرجگہ سائل مولانا ہی ہوتے تھے اورسوالات فرماتے تھے۔مگربعدمیں مختلف وفودمیں سے ہروفدمیں ایک سائل الگ طے کیے جاتے اورسوالات کی پرچیاں پہلے سے تیارکرکے صیغہٴ رازمیں رکھی جاتی۔پھربروقت ہرفرع کالفافہ کھولاجاتااورمساہم کواختیارہوتاکہ ان میں سے کوئی ایک پرچی اٹھاکرسائل کودے ،پھرسائل اس میں درج سوالات کرتے ۔یہ سب مولاناکاذوق تھا۔اس طرح تمام فروعات اپنے انجام کوپہنچ جاتی ۔مسابقة القرآن کی یہ نشستیں انتہائی طویل ہوتیں۔مولانا ابتدائی برسوں میں توہر جگہ سائل بھی ہوتے اورتحکیم کے فرائض بھی انجام دیتے ۔میں توکہتاہوں کہ وہ کرسی؛جس پرمولانابیٹھتے تھے ،پناہ مانگتی ہوگی اورآزادی کی زبانِ حال سے دعاکرتی ہوگی ۔کیوں کہ مولانااٹھنے کانام ہی نہیں لیتے۔تمام بشری تقاضوں کو دباتے اورجب تک فارغ نہ ہوجاتے اپنی جگہ سے ہلتے تک نہیں تھے۔جزاہ اللہ خیراً فی الآخرة!

             سوالات کرنے کا اسلوب اتنا دل کش ہوا کرتا تھا کہ پوری محفل کی توجہ مولانا اورقاری قرآن پر مرکوز ہو جاتی۔ ختم محفل کے بعد کافی لوگ مولانا کے قریب آکر ان کی ہمت افزائی کرتے اورایک خاص بات یہ کہ مولانا کی گرفت اور نظر سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا تھا۔ قانونی گرفت عجیب انداز سے کرتے۔ شرائط کی خلاف ورزی اگر کسی نے کی تو مولانا پتا نہیں کیسے معلوم کرلیتے۔ ایک مرتبہ ہاپوڑ یوپی میں مسابقہ جاری تھا اور ایک طالب علم پڑھ رہا تھا پتا نہیں مولانا نے کیسے بھانپ لیا کہ یہ لڑکا نہیں ،بل کہ لڑکی ہے۔ بعد میں ہم سب نے دیکھا تو حیران ہوئے کہ وہ واقعتا لڑکی ہی تھی۔ اس قسم کے اور بھی واقعات ہیں۔

            دودن میں مسابقہ مکمل ہوجاتا۔اخیری مجلس نتائج کے لیے رکھی جاتی اوریہ بڑی اہم مجلس ہوتی تھی۔اس لیے بھی کہ اس میں رئیس جامعہ بہ نفس نفیس شریک ہوتے ۔مولانا مائک تھام لیتے اورتاثرپیش کرنے والوں کوحسب ایمارئیس جامعہ باری باری مدعوکرتے ۔رئیس جامعہ کے قیمتی کلمات اورتاثرات کے بعدنتائج کااعلان ہوتا،جس میں مولانا کااندازبڑااچھوتااورالبیلاہوتاتھا،جودیکھنے اورسننے سے تعلق رکھتاتھا۔اللہ آپ کوغریقِ رحمت کرے ۔ آمین!

            ممتازاورفائز طلباسے خصوصاًاورتمام ہی مساہمین مسابقہ سے عموماً بڑی شفقت سے پیش آتے ۔ اس کے بعد مولانا خود اپنے رفقائے کار کے ہمراہ تقسیم اسناد اورتقسیم کرایہ میں مشغول ہوجاتے۔ اندار ج کرایہ اور تقسیم کرایہ کے وقت کبھی مولانا خفا بھی ہوجایا کرتے اور آپ کی یہ خفگی بالکل بجا ہوتی تھی۔ تاہم آپ نے راقم الحروف کو تنہائی میں کہہ دیا تھا کہ اگر میں خفا ہوجاوٴں تو مجھے کنٹرول کر لیا کرو۔ چناں چہ یہ حقیر مختلف مقامات پر حسب موقع ومحل اس پر عمل کرتا۔

            ریاستی مسابقات کو رب ذو الجلال نے خوب ترقی عطا فرمائی۔ پورے ملک کے مدارس نے ان مسابقات کے عمدہ اور بہتر نتائج اورثمرات کی بنا پر اسے صرف پسندیدہ نظروں سے دیکھا ہی نہیں،بل کہ ان کی پذیرائی کی۔

            ہر صوبہ کے بڑے مدارس کے مہتممین ونظما نے بڑھ چڑھ کر پیش کش کی کہ ہماری ریاست کا مسابقہ ہمارے ادارے میں رکھا جائے۔

            چناں چہ ریاستی مسابقات میں جب اضافہ ہوا اور طلبہ جوق در جوق حصہ لینے لگے۔ فروعات میں مساہمین کی تعداد کا خوب اضافہ ہوا، تو حضرت رئیس مکرم اور آپ کے صاحب زادے جامعہ کے ناظم تعلیمات حضرت مولانا حذیفہ صاحب طول عمرہ نے حکم حضرات کی تعداد میں اضافہ کیااور درجات حفظ کے جید حفاظ اورکتب کے وہ اساتذہ ؛جن کے ذمہ تفسیر وحدیث کے اسباق ہیں ،فعال رجال کا انتخاب فرمایا اور ریاستوں کے مختلف حصوں میں بانٹاگیا ۔ مختلف تاریخوں میں مسابقات رکھے گئے اور تقریباً ۸/ وفود اس کام کی انجام دہی کے لیے تشکیل دیے گئے، جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ جامعہ میں تعلیم کا حرج نہ ہو اور کم وقت میں اس عظیم ترین کام کو بہ سہولت تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔

کل ہند مسابقات:

            ریاستی مسابقات کے مکمل ہوجانے کے بعد کل ہندمسابقہ کی تیاریاں پورے زور وشور کے ساتھ کی جاتیں۔ حضرت مولانا  پورے جوش وخروش کے ساتھ تمام رفقائے کار کی ہمراہی میں کل ہند کے جملہ امور کو انجام دینے کی کے لیے کمر بستہ رہتے۔ مراکز سے رابطہ کرکے مساہمین کی جامعہ اکل کوا آمد کاپورا نظام بناتے ، ان کے ٹکٹوں کا پوری سہولت کے ساتھ نظم فرماتے۔ متعین تاریخ پر وہ مساہمین اورسر پرستان کس جگہ اتریں گے اورپھر وہاں سے جامعہ کس طرح پہنچیں گے، حضرت رئیس محترم اور ناظم تعلیمات صاحب کے منشا کے مطابق ان کا نظام بناتے۔

            آنے کے بعد ان کا استقبال کیا جاتا۔ مساہمین کو ان کی قیام گاہ پر اور سرپرست حضرات کو ان کی جگہ پورے اکرام واحترام کے ساتھ پہنچایا جاتا۔ مولانا  ہر کام کے لیے الگ الگ رجال مقرر فرماتے۔جو جس شعبہ کا ہوتا اس کا استعمال اسی میں کرتے ،جس کو جس کام سے دل چسپی ہوتی اس کو اس کے ذوق کے مطابق کام میں مشغول کرتے۔یہ مولانا کی حکمت عملی بڑی کار گر ثابت ہوتی۔

            ملک ہندستان کے مختلف صوبہ جات سے آنے والے ان معزز وفودِ قرآنیہ کے لیے حضرت رئیس محترم کی طرف سے تا قیام جامعہ جیب خرچ دیا جاتا۔ حضرت مولانا  بہت ہی امانت داری کے ساتھ ہر مساہم تک وہ رقم اپنے ہاتھوں عنایت فرماتے اور ساتھ ہی ان کی دستخط بھی لیتے۔ نیز میں نے اور تمام قریب رہنے والے حضرات نے بچشم سر اس کا مشاہدہ کیا ہے کہ مولانا  ان آنے ولے مساہمین کے لیے اپنے متعلقین ومحبین سے رابطہ کرکے مختلف طور پر انعامات کا نظم فرماتے۔ مثلاً انہیں تو الیں بھی دی جاتیں۔ اسی طرح انہیں نہانے کا صابن اورسر میں لگانے کا ناریل تیل، مسواک ، برش ، فائلیں اور مختلف کتابوں کا بڑی جد وجہد کرکے نظم فرماتے۔ ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ آنے والے خوش ہوکر جائیں۔ حتی کہ ان کے لیے صوبہ مہاراشٹر کی سِم کارڈ برائے موبائل بھی انتظام کیا جاتا۔ جامعہ کی جانب سے مساہمین ودیگر مہمانان عظام کے کپڑوں کے دھونے اور صفائی کا نظم دھوبی کے ذریعہ بہت ہی اچھے انداز میں کیا جاتا۔ مساہمین وغیرہ اپنے کمروں ہی میں میلے کپڑے اتار دیتے اوردھوبی آکر کپڑے لے جاتااوردھوکر استری کرکے ہرصوبہ اور ہر کمرہ کے مساہمین کے لیے ایک مخصوص تھیلی ہوتی اس میں رکھ کر پہنچائے جاتے۔

            مولانا  تمام مساہمین؛ نیز سرپرستان، اسی طرح مہمانان خصوصی اور حکم حضرات سب ہی کے لیے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ہر چیز کا انتظام فرماتے۔مولانا چوں کہ بڑے باذوق تھے ، اس لیے اپنے ذوق طبع کے مطابق پورے شوق کے ساتھ نظام بناتے اور بہ نفس نفیس ہر ایک کی خبر گیری کرتے ۔ کھانے کے وقت کا خیال سب کا خیال ،مگر خود اپنے کھانے کی فکر نہ کرتے۔ فرع ختم ہونے پر ہر ہر حکم سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات، مزاج پرسی اوران کی ضروریات کی پوری فکر بلا تکلف کیا کرتے ۔

            مولانا  اکثر وبیشتر تفسیر وحدیث کی فرع میں حکم کے فرائض انجام دیتے ۔ آپ کو اس سلسلے کی بڑی مہارت تھی۔ ہرشریک مسرور وخوش رہتا۔

            سوالات کرنے کی نوعیت مولانا نے اپنے ذوق کے مطابق یہ رکھی تھی کہ تفسیر ، حدیث اسی طرح حفظ قرآن کے سوالات کی پرچیاں قبل از وقت کسی امین سے تیار کرواکر لفافے میں ملفف رکھ دی جاتی ،پھر ہرفرع کا مسابقہ شروع ہوتا۔ سب کے سامنے اس لفافے کو کھول کر پرچیاں نکالی جاتیں۔ ان میں سے مساہم اپنے اختیار سے جو بھی پرچی سائل کو دیتا وہ سوالات کیے جاتے۔ پرچیوں کے رکھنے کے لیے بھی مولانا نے عجیب وغریب نظم کیا تھا ، ایسی چیزبنائی تھی جو گھومتی رہتی ۔ منظر بڑا خوش نما ہوتا تھا۔ یہ سب مولانا  کے ذوق سلیم کا نتیجہ تھا۔ اسی طرح طالب علم کو اشارہ کرنے کے لیے سبز اورسرخ لائٹ سامنے رکھی جاتی۔

            جو فرع مکمل ہوجاتی اس کے نتائج فوری طورپر مکمل کرنے کی فکر فرماتے۔ مجموعہ اورحساب کے لیے راقم الحروف اور مولانا حسن عبد اللہ صاحب تو ضرور رہتے اورمولانا خود بھی اس سلسلہ کی رہ نمائی فرماتے ۔ مہینہ پہلے سے حکم حضرات اوردیگر مہمانان کرام کے لیے کچھ نہ کچھ امتیازی علامت کے طور پربہ صورت ہدیہ پیش کرنے کی پوری کوشش فرماتے۔مثلاً : خوب صورت اور قیمتی بیگ کا نظم ،پھر ہرایک کو پورے اعزاز کے ساتھ دینا وغیرہ۔

            اسی طرح مساہمین کے لیے بھی ہرمسابقہ کے موقع پر کپڑوں کے علاوہ ہر ایک کے لیے ایک بیگ کا تحفہ بہ طور یاد گار دیا جاتا تھا۔

            امتیازی شہادت اورتوصیفی سند وغیرہ کی تیاری کی جاتی۔

            اور اخیری مجلس دیکھنے اور سننے کے قابل ہوتی ۔ مولانا  اپنے مخصوص اورنرالے انداز ہی میں فائزین کو آواز دیتے اور جامعہ کے طرف سے دیے جانے والا انعامات ؛جو خطیر رقم کی شکل میں ہوتی اسی طرح دیگر انعامات مہمانان خصوصی اورحضرت رئیس محترم کے ہاتھوں مساہمین کو دیے جاتے۔

            اول، دوم آنے والوں کا رئیس محترم انٹر ویو لیتے ۔ ان سے بہ طور نمونہ کچھ پڑھواتے ۔ اورجب وہ مجمع پر چھا جاتے تو مولانا  کے چہرے پر عجیب رونق اور چمک ہوتی جو محسوس کرنے والے ہی محسوس کرسکتے تھے۔آدمی کی محنت اور امانت داری جب رنگ لاتی ہے تو طبعی طورپر اس انسان کو فرحت اورمسرت ہوتی ہے۔

            اسی طرح مسابقہ دعاپر مکمل ہوتا۔ اس کے بعد حضرت مولانا  ان مساہمین کی روانگی کی فکر فرماتے ۔ جب تک تمام لوگ روانہ نہیں ہوجاتے ، مولانا  کو سکون نہ ملتا۔ آپ بے چین نظر آتے حتی کہ جانے والوں سے فون کے ذریعہ رابطہ کرتے اور پوچھتے کہ سفر میں تکلیف تو نہیں ہوئی۔

نوٹ: تمام مساہمین کو آمد و رفت کا مکمل کرایہ من جانب جامعہ دیا جاتا اورمسابقہ ختم ہونے تک ان کے خورد و نوش کا معقول نظم کیا جاتا ۔ صبح ناشتہ پھر غدائیہ پھر عشائیہ ۔

            بہر کیف یہ سب کام کرنا اور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دینا جگر گردے کا کام ہے۔اللہ رب العزت حضرت مولانا  کو اپنی شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔ آمین!

خلاصہ:

            الحمدللہ مسابقات کا یہ سلسلہ رئیس جامعہ کی مخلصانہ توجہات، حضرت مولانا مرحوم کی جدوجہد اور سعی مسلسل کے نتیجہ میں پروان چڑھتا رہا اور برق رفتار ترقی کرتا گیا۔

            سب سے پہلے ۱۹۹۶ء میں پہلے ریاستی مسابقات ملک کے ۷/ صوبوں میں منعقد کیے گئے ، جن میں ۱۱۹/ مدارس کے ۴۳۴/ طلبہ نے شرکت کی اوراُن میں سے ۵۴/ مدارس کے ۱۵۶/ طلبا نے امتیازی کام یابی حاصل کرکے پہلے کل ہند میں شرکت کے نہ صرف مستحق ہوئے، بل کہ کام یابی سے ہم کنار ہوئے۔

            ۱۹۹۸ء میں ۱۱/ ریاستوں کے ۵۸۵/مدارس کے ۳۰۳۱/ طلبہ نے شرکت کی ۔ اوردوسرے کل ہند کے لیے ۱۳۶/ مدارس کے ۲۱۳/ طلبہ منتخب ہوئے۔

            تیسرے ریاستی مسابقات ۱۸/ ریاستوں کے ۲۱/ مدراس میں منعقد ہوئے، جن میں ۵۹۰/ مدارس کے ۴۷۶۰/ طلبہ شریک ہوئے ۔ البتہ تیسرا کل ہند حالات کے ناساز گار ہونے کی وجہ سے منعقد نہ ہوسکا۔ اس طریقہ سے مدارس ، مراکز اورمساہمین کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔

            چھٹے ریاستی مسابقات کا ۲۰۰۹ء میں ہندستان کے ۲۱/ صوبوں کے ۲۷/ مراکز میں انعقاد ہوا، جن میں ۱۵۸۴/مدارس کے ۵۶۸۸/ طلبا نے شرکت کی اور ان میں سے ۲۳۳/ مدارس کے ۳۶۹/ فائز طلبہ نے کل ہند میں مساہمت کی ۔

            یہاں تک کہ ۲۰۱۸ء میں ۲۵/ ریاستوں کے ۱۶۴۶/ مدارس کے ۳۲۷۹/طلبہ شریک رہے اور نویں کل ہند میں ۱۲۸/ مدارس کے ۱۸۹/ طلبہ نے حصہ لے کر کام یابی حاصل کی۔

            اس طرح ۱۹۹۶/ سے لے کر ۲۰۱۸ء تک ۹۹۵۶/ مدارس کے ۳۳۴۲۷/ طلبہ نے ریاستی مسابقات میں حصہ لیا اور ۱۳۹۳/ فائزین مدارس کے ۲۳۰۰/ طلبہ کل ہند مسابقات میں مساہم بن کر کامران ہوئے۔