نائب رئیس الجامعہ حضرت حافظ اسحاق رحمہ اللہ
نتیجہٴ فکر: مفتی رشید الدین معروفی#
ہوگیا روپوش خورشید فلک پیما کہیں
ٹوٹ کر بکھرے ہوئے ہیں مشتری زھرا کہیں
چھاگئے ہیں غم کے بادل اور وحشت ہر طرف
غم میں ڈوبے ہیں ستارے چاند بھی ڈوبا کہیں
دلکشی صبح چمن کی اور شام دلربا
اے چمن اب ڈھونڈ ایسا منظرِ رعنا کہیں
حلقہ افلاک میں چھائی ہے ہر سو مردنی
چرخِ عالم دے سراغِ ماہِ ضوافزا کہیں
گلشن اکل کوا کا تھا چراغ ضوفشاں
ڈھونڈ کر بھی نہ ملے گا ایسا مستانہ کہیں
دامن ست کوہ میں جس نے جلائی شمع دل
چرخِ دوراں تو نے دیکھا ایسا دیوانہ کہیں
پیکر صدق و صفا تھا مرکزِ مہر و وفا
اب بھلا پائیں گے ایسا پیرِ میخانہ کہیں
جس نے بھر بھر کر پلائے جامِ الفت اور وفا
رورہے ہیں ساغر و صہبا کہیں، مینا کہیں
جس کی گلبانگِ سحر سے شادماں تھے برگ وگل
کیا ملے گا باغباں ایسا نوا پیرا کہیں
یاد رکھیں گے تجھے اسحاق بام و در سدا
بھول سکتے ہیں تجھے ناہید اور زھرا کہیں
ہے رشید الدیں# دعا گو خلد ہو تیرا مکاں
جرعہ کوثر کہیں ہو سایہ طوبی کہیں
#…#…#