خدا کی معرفت کا دوسرا طریقہ
خدا کو پہچان کر اور اُس پر ایمان لاکر اُس کی عبادت کرنا انسان کے دنیا میں آنے کا اصل مقصد ہے۔ دوسرے مذاہب کے مقابلے میں صرف اسلام کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ عقل و نقل ہر دو طریقے سے وہ باری تعالیٰ کے وجود اور اپنی حقانیت کو ثابت کرتا ہے۔ حق و صداقت کو ثابت کرنے کے لئے یہ طریقہ اس لئے زیادہ سود مند ہے کہ اس کی بدولت انسان کا ذہن عقائد کی گندگی سے پاک ہو کر عمل کے اس راستے کو اختیار کرتا ہے، جس پر خدا نے دنیا اور آخرت کی کامیابی اور اپنی خوشنودی کا وعدہ فرمایا ہے؛ جبکہ عقل زیادہ سے زیادہ اتنا کر سکتی ہے کہ خالق ِکائنات سے متعلق انسان کے ذہن کو صاف کر کے خدا کا صحیح تصور دل میں پیدا کر سکتی ہے، لیکن ایسے دستور کا فراہم کرنا عقل کا کام نہیں، جس پر عمل کر کے انسان کفرو شرک کی آلائش سے پاک و صاف ہو کر اپنے نفس اور اخلاق کی اصلاح کرے۔ اپنے رب کو راضی کرنے والے اعمال سیکھ کر انہیں اختیار کرے اور دنیا میں سکون اور آخرت میں جہنم کے عذاب سے نجات حاصل کرے۔
مذہب کی رہنمائی کا یہ ہلکا سا تعارف ہے۔ اس تعارف کے بعد، لیکن اس کی تفصیل اور طریق کار کا ذکر کرنے سے پہلے دو باتوں کا اعتراف ضروری ہے:
(۱) اس دنیا میں اور ان مادی آنکھوں سے خدا کو دیکھنا ممکن نہیں؛ لہٰذا ہر شخص کو کم از کم یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اپنی حقیقت اور ماہیت کو باری تعالیٰ جتنا جانتا ہے، اور جس طرح اپنا تعارف کراتا ہے، کوئی دوسرا نہ اتنا جان سکتا ہے نہ اُس کے جیسا تعارف کرا سکتا ہے۔
(۲) دوسرے اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہو گا کہ حق تعالیٰ نے خود اپنے تعارف کے لئے دو انتہائی معتبر ذرائع، یعنی پیغمبروں اور ان کی لائی ہوئی آسمانی کتابوں کو خاص طور پر منتخب فرمایا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ انسانی ذہن خدا کی معرفت کا جس حد تک متحمل ہے، اس حد تک سمجھانے میں اس کے پیغمبروں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی اور نہ آسمانی کتابوں نے اس موضوع کو تشنہ یا نا مکمل رکھا ہے۔ چناں چہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا کی معرفت اس کے اسماء اس کی صفات اور اس سے متعلق جس قسم کی وضاحت پیغمبروں اور آسمانی کتابوں کی زبانی دنیا والوں کو ملتی رہی ہے، یہ صرف اس کا نتیجہ ہے کہ ہر دور میں خدا کے بندوں کا خدا سے تعلق استوار رہا ہے، اس کی محبت اور اطاعت کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن رہا ہے۔ اور جس طرح انہیں اپنے وجود کا یقین ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ حق تعالیٰ کے موجود ہونے کا یقین ہوتا ہے۔ آسمانی کتابوں خصوصاً سب سے آخری مکمل اور محفوظ کتاب: قرآن پاک میں حق تعالیٰ نے اپنے تعارف کے لئے ذیل کے مختلف انداز کو اختیار کیا ہے:
(۱) کہیں کافر اور مومن کا امتیاز کئے بغیر روئے سخن تمام انسانوں کی طرف ہے، جس میں اپنی ذات کا مناسب الفاظ میں تعارف کرانے کے بعد بندوں کو ضروری احکام سے نوازا ہے۔
(۲،۳) کہیں روئے سخن پیغمبروں کی طرف ہے، لیکن عمومی طور پر ساری اُمت بھی وحی الٰہی اور احکام خداوندی کی مخاطب ہے۔
(۴) کہیں وحی کا انداز قصے اور حکایات کا ہے اور مخاطب کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ حق تعالیٰ نے ابتداء آفرنیش سے پیغمبروں کا طویل سلسلہ جاری فرمایا، ان پر کتابیں نازل فرمائیں اور ضرورت لاحق ہونے پر ایسے خارقِ عادت معجزات سے ان کی تائید و حمایت کی جو عام انسانی عقل و شعور سے بالاتر ہیں۔ جن سے انسانی عقلیں دنگ رہ گئیں، اور ان کا ابطال تو در کنار ان کی نظیر لانے سے زمانہ قاصر رہا۔
ذیل میں ہر انداز بیان سے متعلق بطور نمونہ چند آیتیں پیش کی جاتی ہیں:
(۱) قرآن کا خطاب تمام انسانوں سے:
باری تعالیٰ نے قرآن پاک کے آغاز میں سب سے پہلے اس کتاب کے وحی الٰہی ہونے کو بیان کیا اور اس کی یہ خاصیت بتائی کہ اس سے نیک فطرت لوگوں کو نیکی کا راستہ ملتا ہے۔ اس کے بعد متقیوں، کافروں اور منافقوں کا ترتیب وار ذکر کیا تاکہ قرآن پڑھنے والوں پر نیکی اور بدی دونوں کی راہیں کھل جائیں۔ اس وضاحت کے بعد تمام انسانوں کو مخاطب کر کے خدا کی معرفت کا طریقہ اور توحید الٰہی کا درس دیا۔ کیوں کہ دنیا و آخرت کی سعادت خدا کی عبادت اور شرک سے نجات کی بنیاد خدا کی معرفت اور اس کی توحید پر ہے۔ ساتھ ہی ان امور کی طرف بھی بطور خاص نشاندہی فرمائی کہ دیکھو اللہ تعالیٰ ہی ہے، جس نے تم کو اور تمام انسانوں کو پیدا کیا، اس نے تمہاری پرورش کے لئے طرح طرح کے سامان مہیا کئے۔ تمہاری آسائش کے لئے تمہارے پیروں تلے فرش خاکی بچھایا، سروں پر نیلگوں آسمان کا سائبان بنایا! بادل بنا کر آسمان سے پانی برسایا اور زمین سے قسم قسم کے میوے اور دانے اُگائے، تاکہ تم کھاؤ پیو اور زندگی کی قدر کرو۔ اس عام خطاب کے ساتھ ساتھ براہ راست انسانی عقل کو ان دو نکتوں کی طرف توجہ دلائی:
(۱) خلق و تکوین اور نظام ربوبیت کا تمام تر دارومدار صرف باری تعالیٰ کی ذات پر ہے۔ اس لئے اس کے سوا کل کائنات اور دنیا کی ایک ایک چیز حادث اور فانی ہے۔
(۲) دوسرا نکتہ باری تعالیٰ کی نوازش اور اس کی مہربانی کا اظہار ہے، جس کی تفصیل گذر چکی اللہ سبحانہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”یٰأَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَأَخْرَجَ بِہِ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًالَکُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلّٰہِ أَنْدَادًا وَّأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ“(البقرة:۲۱،۲۲)
ترجمہ: ”اے لوگو! اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان لوگوں کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم پر ہیز گار بن جاؤ۔ وہ پروردگار ایسا ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسا کر تمہارے کھانے کے لئے طرح طرح کے میوے پیدا کئے۔ پس کسی کو اللہ کا ہمسر اور شریک نہ بناؤ حالاں کہ تم جانتے ہو (کہ اس جیسا کوئی نہیں ہے)۔“
قرآنِ پاک تمام بنی نوع انسان کو یاد دلاتا ہے کہ ان کی عقلمندی کا تقاضا ہے کہ اس کتاب ِ الٰہی کے اثر سے ان کے اندر پرہیز گاری آئے اور وہ خدا کے راستے کو چھوڑ کر کفر اور شرک کا راستہ ہرگز اختیار نہ کریں۔ نیز انہیں اپنے خدا سے اس لئے ڈرنا چاہئے کہ وہی ان کا خالق مالک اور روزی رساں ہے۔ اس نے سب سے پہلے آدم کو اور ان کی بائیں پسلی سے حواء کو پیدا فرمایا۔ اور یہ اس کی نوازش اور مہربانی ہے کہ انہیں کے ایک رشتہ پر انسانی آبادی کے پورے سماجی نظام کی بنیاد ہے۔ ذیل کی اس آیت میں ذات باری کا تعارف اور دنیا کے حادث ہونے کا ذکر ہے۔ ارشاد ہے:
”یَأَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا کَثِیرًا وَنِسَآء“(النسآء:۱)
ترجمہ: ”لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا۔ (یعنی پہلے) اس سے اس کا جوڑا بنایا۔ پھر ان دونوں سے بہت سے مرد و عورتیں (پیدا کر کے زمین میں پھیلا دیئے)۔“
تمام انسانوں خصوصاً دانشوروں کو اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا اپنی عقل سے تصور کرنا چاہئے کہ یہ اس کی ذات مجمع صفات ہے جس نے ادنیٰ سے اعلیٰ تک ساری کائنات کو پیدا کیا اور وہی اس کو چلا رہا ہے۔ آسمان زمین، سورج چاند، تارے درخت اور پتھر سب کو اس نے تنہا پیدا کیا؛ لہٰذا وہی اس لائق ہے کہ تم صرف اس کو کار ساز مانو اس کے حکموں پر چلو اور صرف اسی کی پرستش کرو۔ اور اگر اتنی موٹی بات بھی بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تو یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ وہ خدا کو چھوڑ کر اس کی مخلوق میں سے بعض کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ اوصاف ذات باری تعالیٰ اور اس کے وجود کی سچی نشانیاں ہیں۔ ورنہ ادنی ہوش والا بھی غور کرے کہ کل کائنات جب ایک نظام کے مطابق حرکت و عمل میں مصروف ہے تو اس کائنات کے بنانے والے کا موجود ہونا لازمی ہے۔ اس لئے کہ عقلاً یہ محال ہے کہ کام ہو اور کام کرنے والے کا وجود نہ ہو! چناں چہ ارشاد باری ہے:
”إِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ فِی سِتَّةِ أَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہ أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبٰرَکَ اللَّہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ“(الاعراف:۵۴)
ترجمہ: ”بلاشبہ تمہارا پروردگار اللہ ہی ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ پھر وہ عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ وہ رات سے دن کو ڈھانک لیتا ہے، کہ رات دن کے پیچھے جلدی جلدی آتی ہے۔ اور اسی نے سورج اور چاند اور ستاروں کو پیدا کیا، اس طور پر کہ یہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ (یاد رکھو) اللہ ہی کا کام پیدا کرنا اور حکم فرماناہے۔ اللہ جو تمام عالم کا پروردگار ہے، بڑی برکت والا ہے۔“
اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی نعمتوں پر غور کرو۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے آسمان اور زمین میں ایسا عظیم الشان انتظام کر رکھا ہے جس کے ذریعہ تم کو روزی ملتی ہے اور تمہاری بقا کا سامان ہوتا ہے۔ سوچو کہ کائنات میں اس کے سوا کون ہے جو ایسا انتظام کر سکے؟ ظاہر ہے کوئی نہیں۔ لہٰذا اس علم کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو۔ پھر بڑی حیرت کی بات ہے کہ تم کدھر پھرے جارہے ہو؟ آیت میں حسب سابق عالم کا حدوث اور اللہ کا تعارف مذکور ہے۔ ارشاد ہے:
”یٰأَیُّہَا النَّاسُ اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ہَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ فَأَنّٰی تُؤْفَکُون۔“ (فاطر:۳)
ترجمہ: ”لوگو! اللہ کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو، کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق) ہے؟ جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے سکے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں! پھر تم کہاں الٹے جارہے ہو؟۔“
ساتھ ہی ان آیتوں میں عقلِ انسانی کو خطاب کر کے باری تعالیٰ کا وجود اس کی عنایات و مہربانی اس کے نظام ربوبیت اور خلق و تکوین کے مختلف مظاہر کی طرف بھی موقع موقع پر اشارہ کیا گیا ہے۔
باری تعالیٰ اپنی ایک ایک صفات کو گناتا ہے۔ اپنی زبر دست قوتِ تخلیق، حکمت و تدبیر، شانِ غفاری اور زور آوری کے ایک ایک نمونہ کو پیش کرتا ہے اور اس کے جلو میں اپنی بے شمار نعمتوں کو شمار کراتا ہے اوربتاتا ہے کہ یہ اس کی قدرت کا کرشمہ ہے جو تم دیکھ رہے ہو کہ رات اور دن ایک دوسرے کے پیچھے آتے جاتے رہتے ہیں، اور اس نظام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سورج نکلتا ہے تو رات اپنی سیاہ چادر لپیٹ کر چل دیتی ہے۔ اور جب ڈوبتا ہے تو دن اپنی نورانی چادر لپیٹ لیتا ہے اور رات اپنی سیاہ چادر تان دیتی ہے۔ یہ اس کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے سورج اور چاند کو تمہارے کام پر لگا رکھا ہے۔ چاند اور سورج کی یہ وہ منظم گردش ہے جس کے ذریعہ تم روز و شب ماہ و سال اور موسموں کی تبدیلی کا اندازہ کرتے ہو۔ سورج اور اس کا سرگرم نظام نہ ہوتا تو زمین برف کی قاش ہوتی! جس پر زندگی اجیرن اورحیات ناپید ہوتی۔ تمہارے فائدے اور راحت کے لئے اس نے اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں پیدا فرمائی کہ تم ان کا دودھ پیتے ہو، گوشت کھاتے ہو، ہڈیوں اور چڑے سے بہت ساری چیزیں بناتے ہو۔ گویا یہ جانور باری تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لئے گوشت، دودھ، اون بال اور کھال کا چلتا پھر تا خزانہ ہیں، جن سے جب تم چاہتے ہو اپنی مطلوبہ شئی بقدر ضرورت لے کر اپنا کام چلا لیتے ہو، تمہیں خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ساری بلند صفات اس کی ہیں جس کا نام”اللہ“ ہے۔
منکرین و ملحدین پر حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے باری تعالیٰ اپنی خالقیت کی صفت کی طرف ان کی توجہ منعطف کراتا ہے، جس کا نشان بندہ اپنے میں اور ساری کائنات میں دیکھ سکتا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا، جب کہ تم کچھ بھی نہ تھے، پھر وہی ہے جو زندگی کے بعد موت طاری کرتا ہے اور موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشے گا۔ اور پھر تم اپنے اعمال کی جزا یا سزا پانے کے لئے اس کے سامنے حاضر ہوگے۔ جس ذات میں خالقیت کی اتنی بڑی صفت ہو اس کے وجود اور اس کے پیغام کا انکار کرنا سخت تعجب کی بات ہے۔
”کَیْفَ تَکْفُرُونَ بِاللّٰہِ وَکُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْیَاکُمْ ثُمَّ یُمِیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ إِلَیْہِ تُرْجَعُونَ۔ہُوَ الَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا ثُمَّ اسْتَوَی إِلَی السَّمَآءِ فَسَوَّہُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْء عَلِیمٌ (البقرة: ۲۸،۲۹)
لوگو! تم اللہ کا کیوں کر انکار کر سکتے ہو حالاں کہ تم بے جان تھے۔ اس نے تم کو زندگی بخشی، پھر وہ تم کو مارے گا پھر دوبارہ زندہ کرے گا، بالآخر اس کی طرف تم سب لوٹائے جاؤ گے۔ وہی تو ہے جس نے تمہارے فائدے کے لئے زمین میں تمام چیزیں پیدا کیں، پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو عمدہ سات آسمان بنائے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔
ان تمام آیتوں میں حق تعالیٰ کے وجود اس کی عنایات اور کائنات کے حادث اور فانی ہونے کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔
(۲) قرآن کا خطاب پیغمبروں سے:
انبیاء اور رسول خدا کے برگزیدہ بندے ہیں۔ جن کے منہ میں اللہ تعالیٰ اپنا کلام ڈالتا ہے، کبھی ان کے پاس فرشتوں کو بھیجتا ہے، کبھی براہ راست ان پر وحی نازل کرتا ہے، اور ان کے ذریعہ دنیا والوں کے سامنے اپنا تعارف کراتا ہے۔ دنیا کے اولین انسان حضرت آدم ہیں۔ انہیں حکم ہوتا ہے:
یٰآدَمُ اسْکُنْ أَنتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّةَ وَکُلَا مِنْہَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا ہُذِہِ الشَّجَرَةَ فَتَکُونَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (البقرة:۳۵)
ترجمہ:اے آدم! تم اور تمہاری بیوی دونوں بہشت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو خوب کھاؤ پیو لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ زیادتی کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔
حضرت آدم کی بزرگی کو ظاہر کرنے کے لئے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم کوسجدہ کریں۔ سب نے حکم کی تعمیل کی، لیکن شیطان نے انکار کیا اور اسی وقت سے حضرت آدم اور ان کی اولاد کا دشمن ہو گیا۔ آدم اور اولادِ آدم کو ان کے پروردگار نے بتلا دیا اور بار بار توجہ دلائی کہ شیطان ان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔ اور ہر لمحہ ان کو گمراہ کرنے کے درپے ہے۔ وہ اس کی جان توڑ کوشش کرے گا کہ آدم کو کسی نہ کسی طرح جنت سے نکال باہر کرے۔ اس لئے انہیں اس درخت کے قریب نہ جانا چاہئے جس کا پھل کھانے سے انہیں اللہ نے منع کیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَلَقَدْ عَہِدْنَا إِلٰٓی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہ عَزْمًا إِذْ قُلْنَا لِلْمَلٓئکَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِیْسَ اَبٰی فَقُلْنَا یآ اٰدَمُ إِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَی إِنَّ لک الَّا تَجُوْعَ فِیہَا وَلَا تَعْرِیٰ وَاَنَّکَ لَا تَظْمَأُ فِیْہَا وَلَا تَضْحٰی(طہٰ:۱۱۵تا ۱۱۹)
ترجمہ:اور بلا شبہ ہم نے پہلے آدم سے عہد لیا تھا مگر وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم نہ پایا۔ اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، کہ اس نے انکار کیا۔ پھر ہم نے کہا اے آدم! بلاشبہ یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، تو کہیں یہ تم دونوں کو جنت سے نہ نکلوا دے، پھر تم تکلیف میں پڑ جاؤ۔ بلا شبہ جنت میں تمہارے لئے یہ آرام ہے کہ تم اس میں نہ کبھی بھوکے رہو گے اور نہ ننگے ہو گے اور بلاشبہ اس میں تم نہ پیاسے ہو گے اور نہ دھوپ میں تپو گے۔
اسلام تمام انبیاء کا دین ہے:
ان میں سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے:
”وَأُوحِیَ إِلَی نُوحٍ أَنَّہُ لَنْ یُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَا تُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِنَّہُمْ مُّغْرَقُوْنَ“(ھود:۳۶،۳۷)
ترجمہ:اور نوح علیہ السلام کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں ان کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ تو جو کام یہ کر رہے ہیں، ان کی وجہ سے تم غم نہ کھاؤ اور ہمارے حکم کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ۔ اور جو ظالم ہیں، ان کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا کیوں کہ وہ ضرور غرق کر دیئے جانے والے ہیں۔
نیز فرمایا:یٰنُوْحُ اہْبِطْ بِسَلٰمٍ مِنَّا وَبَرَکٰتٍ عَلَیْکَ وَ عَلٰی أُمَمٍ مِّمَّنْ مَّعَکَ(ہود:۴۸)
ترجمہ:اے نوح! ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ، جو تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہے) کشتی سے اتر جاؤ۔
آج سے ہزاروں سال پہلے اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کو دنیا جہان کے لوگوں کے لئے مرکز اور عبادت گاہ قرار دیا، اور اس کی تولیت حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہما السلام کے سپرد کی، اور ان کو حکم دیا کہ عبادت کرنے والوں اور طواف کرنے والوں کے لئے اس گھر کو ہر قسم کی گندگیوں سے پاک و صاف رکھیں:
﴿ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لَا یَنَالُ عَہْدِی الظَّلِمِینَ ﴾
(بقرہ: ۱۲۴)
ترجمہ: (اس وقت) اللہ نے فرمایا کہ (اے ابراہیم) میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ (ابراہیم نے) عرض کیا (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی ارشاد ہوا کہ میرا یہ عہد ظالموں تک نہ پہنچ سکے گا۔
﴿ وَعَہِدْنَا إِلٰی إِبْرَاہِیمَ وَ اسْمٰعِیْلَ أَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ﴾(البقرة:۱۲۵)
ترجمہ:اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کی طرف حکم بھیجا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے اس گھر کو پاک و صاف رکھو۔
”وَنَادَیْنٰہ أَنْ یٰٓا إِبْرَاہِیمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ“(الصٰفٰت:۱۰۴،۱۰۵)
ترجمہ:”ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچا کر دکھایا ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔“
”وَأَوْحَیْنَا إِلٰی إِبْرَاہِیْمَ وَ إِسْمٰعِیْلَ وَ إِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْأَسْبَاط“(النسآء:۱۶۳)
ترجمہ: ”اور جس طرح ہم نے ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب اور اولاد یعقوب کی طرف وحی بھیجی تھی۔“
حضرت موسیٰ نے ایک غیبی آواز سنی، جس نے اپنا تعارف یوں کرایا:
یٰمُوْسٰی(11)اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ-اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی0 وَ اَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی0 اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ(14)(طٰہٰ:۱۱تا ۱۴)
ترجمہ:” اے موسیٰ! میں تمہارا پروردگار ہوں، پس تم اپنی جوتیاں اتار دو کیوں کہ تم طوی کے مقدس میدان میں ہو اور میں نے تم کو (نبوت کے لئے) منتخب کر لیا ہے۔ تو جو وحی کی جاتی ہے اسے غور سے سنو! بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس تم میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کے لئے نماز پڑھو۔“
نبوت اور سلطنت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد لوگوں میں عدل و انصاف قائم کرنا بہت ضروری بھی ہے اور بے حد مشکل بھی۔ اس لئے حضرت داؤد کو خطاب کر کے نصیحت فرمائی:
” یٰدَاودُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ.“(ص:۲۶)
ترجمہ:”اے داؤد! ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کرو اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی مت کرو (اگر ایسا کرو گے) تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی۔“
اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کے مال و دولت اور اہل و عیال میں بڑی برکت عطا فرمائی تھی، چناں چہ وہ بڑی بے فکری سے زندگی بسر کرتے تھے۔ لیکن اللہ نے ان کی آزمائش فرمائی مال و متاع برباد ہوا اہل و عیال ہلاک ہوئے، اور جسم کو سخت روگ لگ گیا۔ اس پر بھی انہوں نے صبر کیا اور جناب باری میں کوئی شکایت نہیں؛بل کہ نہایت ادب کے ساتھ اپنا حال ِزار اس طرح عرض کیا کہ پروردگار، شیطان نے مجھے ایذا اور تکالیف میں ڈال دیا ہے۔ جب حضرت ایوب آزمائش میں پورے اترے تو اللہ نے ان کی ساری تکلیفیں دور فرما دیں:
”وَ اذْکُرْ عَبْدَنَآ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ() اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ہٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ(42) وَ وَہَبْنَا لَہ اَہْلَہ وَ مِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِکْرٰی لِاُولِی الْاَلْبَابِ(43) وَ خُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہ وَ لَا تَحْنَثْ-اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا-نِعْمَ الْعَبْدُاِنَّہ اَوَّابٌ“(صٓ:۴۱تا۴۴)
ترجمہ:” اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو۔ جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا (اور عرض کیا) کہ شیطان نے مجھ کو رنج اور تکلیف پہنچائی ہے۔ (ہم نے کہا زمین پر) اپنا پاؤں مارو۔ (دیکھو) یہ (چشمہ نکل آیا جو) نہانے کو ٹھنڈا اور پینے کو (شیریں ہے) اور ہم نے ان کو (اہل و عیال) اور ان کے ساتھ ان کے برابر بخشے (یہ) ہماری طرف سے رحمت اور عقل والوں کے لئے نصیحت تھی۔ اور اپنے ہاتھ میں جھاڑو لو اور اس سے مارو اور قسم نہ توڑو۔ بے شک ہم نے ان کو صابر پایا وہ اچھے بندے تھے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔“
حضرت زکریا کی کوئی اولاد نہ تھی کیوں کہ ان کی بیوی بانجھ تھیں۔ بڑھاپے میں ان کو خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ میرے بعد میرے عزیز و اقربا دینِ حق کو برباد کر دیں۔ اس لئے ایک رات بارگاہ ایزدی میں اپنا حال پیش کیا، آواز آئی:
﴿یٰزَکَرِیَّا اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمِ اسْمُہ یَحْیٰی لَمْ نَجْعَلْ لَّہ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا﴾(مریم:۷)
ترجمہ:”اے زکریا! ہم تم کو ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص نہیں بتایا۔“
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا کی دعا قبول فرمائی اور ان کو انوکھے ڈھنگ کا ایک لڑکا پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی تو ان کو یقین آگیا۔ حضرت زکریا نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا:
”قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْ اٰیَةً قَالَ اٰیَتُکَ اَلَّا تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّا“(مریم:۱۰)
ترجمہ:” زکریا نے کہا اے پروردگار! میرے لئے کوئی نشانی مقرر فرما۔ اللہ نے فرمایا: نشانی یہ ہے کہ تم صحیح سالم رہتے ہوئے تین رات (دن) لوگوں سے بات نہ کر سکو گے۔“
اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے اور ملک میں پیغمبروں کو بھیجا۔ بہت کم لوگوں نے ان بزرگوں کی نصیحتوں کو سنا اور ان پر عمل کر کے اپنی زندگیوں کو سدھارا۔ لیکن بہت سے بندوں نے اپنے پروردگار کے پیغام سے منہ پھیر لیا، اور پیغمبروں کی نافرمانی کی۔ اس کے علاوہ اہل کتاب نے پیغمبروں کی اولاد ہونے پر بڑا غرور کیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر بہر صورت ان کو عذاب الٰہی سے بچالیں گے۔ خاص کر عیسائیوں نے کفارہ کا عقیدہ گھڑ کر اپنے خیال میں اللہ سے نجات کا پروانہ لکھوا لیا اور بے فکر ہو کر بیٹھ گئے۔ ان عیسائیوں کی تنبیہ کے لئے خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر نمایاں اور طویل فرمایا، چنانچہ فرمایا:
”یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَ عَلٰی وَ الِدَتِکَ اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ“(المآئدة:۱۱۰)
ترجمہ:”اے عیسی بن مریم! میرے ان احسانات کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے، جب کہ میں نے روح القدس سے تمہاری مدد کی۔“
نیز فرمایا:”یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ“(آلِ عمران: ۵۵)
ترجمہ:”اے عیسی! میں تمہاری (دنیا میں رہنے کی) مدت پوری کر دوں گا۔ اور تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں (کی تہمتوں) سے پاک کر دوں گا۔ اور جن لوگوں نے تمہاری پیروی کی ہے، ان کو قیامت تک کافروں پر غالب رکھوں گا۔“
اللہ کے آخری نبی اور رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی تو خدا کے اس آخری پیغمبر نے کم و بیش تئیس سال تک دشمنوں کے ہجوم میں رہ کر کامل صداقت اور وفاداری، عزم و ہمت صبر و استقلال اور جانفشانی کے ساتھ اللہ کے احکام بندگانِ خدا تک پہنچائے۔ اس پورے زمانے میں کفر و اسلام کی کشمکش انتہائی عروج پر تھی۔ ہجرت کے بعد بھی مکہ والوں کی فوج کشی کا خطرہ الگ رہا۔ خود مدینہ میں یہودیوں اور منافقوں نے خطرناک سازشوں کا جال بچھا رکھا تھا، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مقدس کے بارے میں ان کی نیتیں خراب ہو چکی تھیں۔ اس زہریلے ماحول اور مخالفتوں کے ہجوم میں حق تعالیٰ نے مختلف انداز سے آپ کی ڈھارس بندھائی اور تسلی دی اور سارے جہان والوں کے سامنے آنحضرت کی شانِ رسالت کا اعلان فرمایا اور منصب رسالت کی اہمیت کو واضح کیا۔ اور فرمایا کہ اس منصب کا تقاضہ یہ ہے کہ جو کچھ اے پیغمبر! تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کا ایک ایک حرف بندگانِ خدا کو پہنچا دو۔ اور اس بات کی فکر مت کرو کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے!
”یٰاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ“(المآئدة:۶۷)
ترجمہ:”اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دو۔ اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھا جائے گا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔
سورہ احزاب میں فرمایا:
”یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ-اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا(1) وَّ اتَّبِعْ مَا یُوْحٰی اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ-اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(2) وَّ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا(3)“(احزاب :۳،۱)
ترجمہ:”اے پیغمبر! اللہ سے ڈرو اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مانو! بیشک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اور اس حکم کی پیروی کرو جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے۔ جو کچھ تم کرتے ہو بلاشبہ اللہ اس سے باخبر ہے۔اور اللہ پر بھروسہ رکھو اللہ ہی کافی و کارساز ہے۔
سورہ جاثیہ میں فرمایا:
”ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَ لَا تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(18) اِنَّہُمْ لَنْ یُّغْنُوْا عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا“(جاثیہ: ۱۸،۱۹)
پھر (اے پیغمبر!) ہم نے تم کو دین کے کھلے راستے پر قائم کر دیا۔ پس تم اس پر چلتے رہو۔ اور ان لوگوں کی خواہشوں پر نہ چلو جو کچھ نہیں جانتے۔ یہ لوگ اللہ کے مقابلے میں تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے۔
(۳) قرآن کا خطاب ایمان والوں سے:
کہیں عام مسلمانوں اور ایمان والوں کو براہِ راست خطاب کیا گیا اور ان کو حسب موقع نصیحتیں کی گئیں۔ چناں چہ سورہ آلِ عمران میں مسلمانوں کی یہ شان بتائی گئی کہ:
”یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102) وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا“(آل عمران: ۱۰۲،۱۰۳)
ترجمہ:”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور اسلام کے سوا کسی اور دین پر نہ مرو۔ اور سب مل کر اللہ (کے دین) کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو اور متفرق مت ہو۔“
سورہ حج میں فرمایا:
”یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(77)وَ جَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہ“ (الحج:۷۷،۷۸)
ترجمہ:”اے ایمان والو! (اللہ کی جناب میں) رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیکی کرتے رہو تا کہ کامیاب رہو اور اللہ (کی راہ) میں خوب کوشش کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔
سورہ زخرف میں فرمایا:
”یٰعِبَادِ لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ وَ لَااَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ(68) اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ(69) اُدْخُلُوا الْجَنَّةَ اَنْتُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ تُحْبَرُوْنَ(70)“(الزخرف:۶۸تا۷۰)
ترجمہ:”(ہم ان سے کہیں گے)اے میرے بندو! آج تمہیں نہ کچھ خوف ہے، اور نہ تم غمگین ہوگے۔ (یعنی) وہ بندے جو ہماری آیتوں پر ایمان لائے اور فرماں بردار تھے۔ (ان سے کہا جائے گا کہ) تم اور تمہاری بیویاں عزت و احترام کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ۔
(۴) پیغمبروں کے واقعات:
عام انسانوں کی ہدایت کے لئے باری تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو نبی اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا۔ خدا کے یہ مخلص اور پاکباز بندے اپنے اپنے وقت پر دنیا میں تشریف لائے۔ خدا کا پیغام اس کے بندوں تک ٹھیک ٹھیک پہنچایا۔ جن لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا انہیں نجات اور رضاء الٰہی کا مژدہ سنایا۔ اور جنہوں نے نافرمانی کی انہیں اس کے عذاب سے ڈرایا دھمکایا۔
حضرت نوح علیہ السلام سلسلہٴ نبوت کے عظیم المرتبت پیغمبر گزرے ہیں۔ سورہٴ نوح میں ان کی حکایت قرآن پاک اس طرح بیان کرتا ہے:
”اِنَّا اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(1) قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ لَکُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ(2) اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوْہُ وَ اَطِیْعُوْنِ(3) یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَ یُؤَخِّرْکُمْ اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ لَوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(4)“( ۱تا۴)
ترجمہ:”بلاشبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجا کہ اپنی قوم کو (کفر کے وبال سے) ڈراؤ قبل اس کے کہ ان پر درد ناک عذاب آئے۔ انہوں نے کہا کہ اے میری قوم! میں تمہارے لئے کھلے طور پر ڈرانے والا ہوں۔ (اور کہتا ہوں کہ) تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اور میرا کہنا مانو تو وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور تم کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دے گا۔ جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجائے گا تو وہ نہیں ملے گا۔ کاش تم سمجھو۔“
حضرت ہود اور حضرت صالح قوم عاد اور قوم ثمود کی طرف مبعوث ہوئے۔ اسی ترتیب سے قرآن پاک ان کے قصے بیان کرتا ہے:
”وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ(50) یٰقَوْمِ لَا اَسْلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًااِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی الَّذِیْ فَطَرَنِیْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(51)“(ھود:۵۰،۵۱)
ترجمہ:”اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا ہود نے کہا اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تم (شرک کرکے) اللہ پر بہتان باندھتے ہو۔ اے میری قوم! میں اس (وعظ و نصیحت) کا تم سے صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اس (اللہ) کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ پس تم کیوں نہیں سمجھتے۔“
”وَ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ ہُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَ اسْتَعْمَرَکُمْ فِیْہَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہِ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ(61)“(ھود:۶۱)
ترجمہ:”اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے (قوی) بھائی صالح کو (پیغمبر بنا کر بھیجا) صالح نے کہا کہ اے میری قوم اللہ ہی کی عبادت کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور پھر اسی میں تم کو آباد کیا تو تم اس سے اپنے گناہوں کی معافی،مانگو، پھر اس کی طرف متوجہ رہو۔ بے شک میرا پروردگار نزدیک ہے اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔“
حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اسی زرین سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ قرآن پاک جستہ جستہ ان میں سے ایک ایک کا واقعہ اپنے مخصوص رنگ میں پیش کرتا ہے:
”وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰہِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْکِتٰبَ فَمِنْہُمْ مُّہْتَدٍ وَ کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ(26)“(حدید:۲۶)
ترجمہ:”اور ہم نے نوح اور ابراہیم کو پیغمبر بنا کر بھیجا اور ان کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب (کے سلسلے) کو (جاری) رکھا تو بعض ان میں سے ہدایت پر ہیں اور ان میں سے بہت سے نا فرمان ہیں۔“
”وَ اِنَّ لُوْطًا لَّمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(133) اِذْ نَجَّیْنٰہُ وَ اَہْلَہ اَجْمَعِیْنَ(134) اِلَّا عَجُوْزًا فِی الْغٰبِرِیْنَ(135) ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَ(136) وَ اِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُّصْبِحِیْنَ(137) وَ بِالَّیْلِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(138)“(الصٰفٰت:۱۳۳تا۱۳۸)
ترجمہ:” اور لوط بھی پیغمبروں میں سے تھے جب کہ ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو سب کو نجات دی مگر ایک بڑھیا کہ پیچھے رہ جانے والوں میں تھی۔ پھر ہم نے اور سب کو ہلاک کر دیا اور (اے مکہ والو!) بیشک تم ان (کے مقامات)پر کبھی صبح کو اور (کبھی) رات کو گزرتے ہو کیا تم نہیں سمجھتے۔“
”وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاہُمْ شُعَیْبًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ قَدْ جَآئَتْکُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَہُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85)“(اعراف: ۸۵)
ترجمہ:”اور ہم نے مدین (والوں) کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا۔ اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو کیوں کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، (دیکھو) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے، تو (دیکھو) ناپ اور تول پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو۔ اور اصلاح کے بعد زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اگر تم ایماندار ہو تو (یقین کرو کہ) یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
ٍ ”وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ(96) اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَائہ فَاتَّبَعُوْا اَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ مَااَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ(97) یَقْدُمُ قَوْمَہ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَ وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ(98)“(ھود:۹۶تا۹۸)
ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور روشن دلیل کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا مگر ان لوگوں نے فرعون کے حکم کی پیروی کی حالاں کہ فرعون کا حکم درست نہ تھا۔ وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا اور ان کو دوزخ میں اتارے گا یہ برا گھاٹ ہے جس پر وہ پہنچیں گے۔
”وَ اِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰیةِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ اَحْمَدُ فَلَمَّا جَآئَہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(6)“(صف:۵،۶)
ترجمہ:اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب کہ مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں تمہارے پاس اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں اور جو کتاب مجھ سے پہلے آچکی ہے ایعنی (تورات) اس کی تصدیق کرتا ہوں اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمدہو گا ان کی بشارت سناتا ہوں۔ پھر وہ ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تو انہوں نے کہہ دیا کہ”یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔“
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم دیوارِ نبوت کی آخری اینٹ اور ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ کی نبوت ہمہ گیر اور تا قیامت قائم و دائم رہے گی۔ قرآن پاک نے جابجا اس حقیقت کا اظہار کیا ہے:
”قُلْ یٰاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا“(الاعراف:۱۵۸)
ترجمہ:(اے محمد!) تم کہہ دو کہ لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔
” یٰاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(45) وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ بِاِذْنِہ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(46) وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَہُمْ مِّنَ اللّٰہِ فَضْلًا کَبِیْرًا(47) وَ لَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰیہُمْ وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا(48)“(الاحزاب:۴۵تا۴۸)
ترجمہ:” اے پیغمبر! ہم نے تم کو گواہی دینے والا خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور (سب کو) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن چراغی (بنایاہے) اور ایمان والوں کو خوشخبری سنا دو کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے اور کافروں اور منافقوں کا کہنا نہ مانو اور ان کی طرف سے جو تکلیف پہنچے اس کا خیال نہ کرو۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھو اور اللہ ہی کافی کارساز ہے۔
یہ انبیاء کرام وہ ہیں جن کا قرآن کریم نے مختصر یا مفصل ذکر کیا۔ ان کے علاوہ ایسے بھی پیغمبر گزرے ہیں جن کا قرآن کریم نے کہیں ذکر نہیں کیا۔ بہر کیف نبیوں اور رسولوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جن کی طرف حق تعالیٰ نے وحی بھیجی اپنے علوم و معرفت سے انہیں نوازا اور مختلف قوموں اور ملکوں کی طرف انہیں مبعوث فرمایا۔ کبھی ان پیغمبروں پر کوئی برا وقت آیا تو انہوں نے اپنے رب کو آواز دی۔ حق تعالیٰ نے فوری طور پر ان کی فریاد رسی کی۔ معجزات کی ضرورت لاحق ہونے پر خارقِ عادت معجزات سے نوازا۔ پھر کیا ان برگزیدہ ہستیوں اور ان کے مقدس کارناموں کا قریب سے جائزہ لینے کے بعد کسی سمجھ دار با ہوش آدمی کے لئے اس بات کی گنجائش باقی رہتی ہے کہ وہ باری تعالیٰ کے وجود اس کی معرفت، اس پر ایمان لانے، اس کی اطاعت کرنے اور اس سے ڈرنے کے لئے دلائل یا مزید ثبوت تلاش کرے؟ نہیں! ہرگز نہیں!
(۵) آسمانی کتابیں:
علاوہ ازیں حق تعالیٰ نے وحی والہام کے ساتھ ساتھ بے شمار صحیفے اور چھوٹی بڑی کتابیں نازل فرمائیں، جو معرفت الٰہی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ چناں چہ بعض صحیفے حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ پر نازل ہوئے۔ توریت، زبور، انجیل اور قرآن پاک ترتیب وارحضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی حضرت محمد علی نبینا و علیہم الصلوٰة والسلام پر نازل ہوئیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ حق تعالیٰ نے مذکورہ کتابیں انبیاء سابقین پر نازل فرمائیں۔ اور ان کی امتوں کے گنے چنے خوش نصیب اور باسعادت افراد نے ان آسمانی کتابوں کو بسرو چشم قبول کیا۔ ان کے احکام و نواہی اور دستور کی پابندی کی اور وعدے وعید اور زجر و توبیخ کو اپنے دلوں میں جگہ دی۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ آگے چل کر اُمت کی اکثریت نے لاپرواہی برتی اور ان کتابوں میں کتربیونت، تبدیلی اور تحریف کے مرتکب ہوئے۔ لیکن ہر قسم کے ردو بدل اور حک و اضافے سے اگر کوئی آسمانی کتاب محفوظ رہی تو بلاشبہ وہ”قرآن کریم “ ہے۔
اس کتاب کی خصوصیات بے شمار ہیں۔ جن میں سے بعض یہ ہیں کہ یہ کتاب حضور اکرم ﷺ کا سب سے عظیم اور زندہ و تابندہ معجزہ ہے! آسمانی کتابوں میں سے یہی وہ کتاب ہے جس کے نزول پر چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود یہ حال کی نازل شدہ اور انتہائی ترو تازہ معلوم ہوتی ہے۔ مضبوط اور منضبط ایسی کہ ایک لفظ نہیں، بلکہ کسی نقطہ اور شوشے کا فرق بھی نہیں نکالا جاسکتا۔ یہ روشن چراغ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کی رسالت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
اس لئے کہ ایک یتیم جس نے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا! کسی استاد کے سامنے کبھی زانو تہہ نہیں کیا! اس نے دنیا والوں کے سامنے ایسی کتاب پیش کی جس نے بڑے بڑے أدباء، شعراء، فلاسفہ اور حکماء کو عاجز و درماندہ کر دی
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا جو نکتہ وروں سے حل نہ ہو
وہ رازاک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
علوم و فنون اور حکمت و معرفت جن کا تعلق ذات باری سے ہو یا انسانی معلومات سے۔ ان کا ایسا کونسا گوشہ ہے جس کے متعلق کلی یا جزئی اصولی یا ذیلی طور پر ان کا ذکر یا اشارہ اس کتاب میں موجود نہیں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ایجادات اور بیشتر اہم ترقیات حالیہ برسوں یا اس صدی کی دَین ہیں؟ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ امتیاز و خصوصیت بھی صرف اسی منفرد کتاب کو حاصل ہے کہ برس ہا برس پہلے سے یہ ان کی طرف واضح اور صاف صاف اشارات کرتی چلی آرہی ہیں۔ چناں چہ جدید سائنس نے بسیار کاوش کے بعد جس ذرے کو تلاش کیا، قرآن پاک نے بہت پہلے اس چھوٹی سے چھوٹی مقدار کا ذکر کیا ہے(۱)۔ علم الحیوان(۲) یا علم الاشیاء(جیسے: زمین آسمان، رات اور دن وغیرہ کا علم) زمین کا مدور ہونا(۳)۔ کائنات اور افلاک کا وسیع ہونا(۴)۔ اصولِ حفظانِ صحت(۵) عدل و مساوات(۶) آداب معیشت و معاشرت اور اخلاق فاضلہ(۷)۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(۱) فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْراًیَّرَہُ (زلزال:۷) تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔
(۲) (Zoology) وَمِنْ کُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ (ذاریات:۴۹) اور ہر چیز کی ہم نے دو دو قسمیں بنائیں۔
(۳) ”یُکَوِّرُ الَّیْلَ عَلَی النَّہَارِ وَیُکَوِّرُ النَّہَارَ عَلَی الَّیْلِ“(الزمر:۵)ترجمہ:وہی رات کو دن پر لپیٹتا ہے اور دن کو رات پر لپیٹتا ہے۔
(۴)”وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَہَا بِأَیْدٍ وَ إِنَّا لَمُوْسِعُونَ“ (ذاریات:۷ ۴)ترجمہ: اور ہم ہی نے آسمانوں کو اپنی قدرت سے بنایا اور ہم کو سب طرح کی قدرت ہے۔
(۵)”کُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا“(الاعراف: ۳۱) اور کھاؤ اور پیو مگر فضول خرچی مت کرو۔
(۶)”وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْکُمُوا بِالْعَدْلِ“(نساء:۵۸) اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔
(۷)”إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ(نحل:۹۰)بے شک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ (ہر معاملہ میں) انصاف کرو اور (سب کے ساتھ) بھلائی کرو۔
اور بے شمار ضروری علوم جن کا تعلق الٰہیات، فلکیات، کائنات و موجودات یا انسانی زندگی کے کسی گوشے یا شعبے سے ہو۔ جن سے انسانی دنیا اب تک ناواقف تھی! اور جن کا اجمالی ذکر بھی کافی تفصیل طلب ہے، اس کتاب میں موجود ہے؛ یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب دنیا کی جامع اور مکمل ترین کتاب اور اس کا لانے والا دنیا کا اعلیٰ و ارفع ترین صادق و امین اور کامل و اکمل ترین انسان ہے۔(صلی اللہ علیہ وسلم)
غور کرنا چاہئے کہ اس قدر اوصاف کی حامل کتاب آخر کہاں سے آسکتی ہے؟ کیا اس کا کوئی ماخذ یا سرچشمہ نہ ہو گا؟ یا پیغمبر علیہ السلام نے خود اسے ترتیب دیا؟ ظاہر ہے دونوں میں سے کوئی جواب درست نہیں! لہٰذا یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ اس کی نسبت ذات باری کے سوا کسی اور کی طرف ممکن نہیں۔ اور اس کا لانے والا بھی خدا کا فرستادہ اور پیغمبر ہو سکتا ہے، کوئی اور نہیں۔ اور اگر انسانی دنیا کو راحت و سکون عدل و مساوات اور حق و صداقت کی تلاش ہے تو وہ صرف اس کتاب میں مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کہیں نہ یہ گمشدہ سرمایہ مل سکتا ہے، نہ ہی سعادت ابدی نجات اور ہدایت نصیب ہو سکتی ہے!
(۶) معجزات معرفت کا ایک دروازہ:
باری تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو کچھ ایسی نشانیاں مرحمت فرمائیں، جو خرقِ عادت کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں، جن سے باری تعالیٰ کی معرفت اور اس کے وجود کا ثبوت ملتا ہے۔ معجزات کی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے عادی نظام کے خلاف صرف اپنی قدرت سے ظاہر فرماتا ہے، تاکہ یہ ثابت کر دے کہ نظام ِفطرت اس کے قدرتی نظام کے تابع ہے۔ وہ کسی کا محکوم نہیں، بلکہ وہ جس طرح چاہے ان میں تصرف کر سکتا ہے۔ ان معجزات میں سے ایک معجزہ موحدین کے پیشوا انبیاء کے سردار حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ ہے۔ جن کا احترام دنیا کی تمام اہل کتاب قو میں یکساں طور پر کرتی ہیں۔ حق و صداقت اور توحید و رسالت کے دشمن منکرین اور مشرکین نے آپ کے خلاف ایک محاذ قائم کر لیا۔ اور آپ کا قصہ تمام کرنے – آپ سے انتقام لینے اور آپ سے نجات پانے کے لئے آپ کو جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا۔ ظاہری آنکھیں دیکھتی ہیں کہ آگ جلاتی ہے۔ اور آگ اگر جلاتی ہے تو بے شک یہ اس کی فطرت ہے۔ مگر اس میں جلانے کی فطرت کس نے پیدا کی؟ اس کے خالق نے۔ یہ آگ کی فطرت کا طبعی تقاضہ نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نے چاہا سالار انبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے اس خاصیت کو بدل ڈالا۔ چناں چہ کہتے ہیں کہ جس رسی سے آپ کے دونوں ہاتھ پیر باندھے گئے تھے وہ جل گئی، لیکن آپ کا بال تک بیکا نہ ہوا:
”قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰی اِبْرٰہِیْمَ“(انبیاء: ۶۸،۶۹)
ترجمہ:”ہم نے حکم دیا کہ اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم پر سلامتی (کا موجب) بن جا۔“
حضرت موسیٰ علیہ السلام ہاتھ میں ایک لاٹھی لئے کھڑے ہیں، اور اس کے متعلق صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہ ان کا سہارا اور بکریوں کے لئے پتے جھاڑنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس معمولی سی لکڑی سے متعلق حکم ہوا کہ اس کو زمین پر ڈال دو۔ چناں چہ انہوں نے دیکھا کہ اس کے پیدا کرنے والے نے اس کی فطرت کو بدل کر اسے ایک مہیب حیوان بنا ڈالا:
”فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ“(اعراف:۱۰۷)
تب موسیٰ نے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی تو وہ اسی وقت ایک نمایاں اژدہا بن گئی۔
پانی کی فطرت سیلان ہے۔ مگر اس کی یہ فطرت اور خود پانی باری تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ اس لئے جب اس نے چاہا اپنے کلیم حضرت موسیٰ کے لئے روانی اور میلان کی فطرت کو ٹھہراؤ اور انجماد سے بدل ڈالا؛ چناں چہ جب موسیٰ علیہ السلام نے سمندر پر اپنی لاٹھی ماری تو وہ پھٹ کر پہاڑوں کی طرح الگ الگ کھڑا ہو گیا۔ ان دو معجزوں کا منکر کوئی حسی اور بدی امور کا منکر ہی ہو گا جس کا انکار بھی نا قابل اعتماد ہے۔ ارشاد ہے:
”فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ“(شعراء:۶۳)
ترجمہ:”تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا (یوں) ہو گیا (کہ) گویا بڑا پہاڑ (ہے)۔“
بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دست ِقدرت نے عجیب شانِ مسیحائی سے نوازا تھا۔ آپ خدا کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اچھا کر دیتے تھے۔ خدا کے حکم سے مردوں کو زندہ فرما دیتے تھے۔ شیر خوار اور پالنے میں پرورش پانے والا بچہ کبھی بات نہیں کر سکتا، لیکن حضرت عیسی علیہ السلام نے اس وقت بات کی جب آپ ماں کی گود میں ابھی انگوٹھا چوستے تھے:
”اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَ کَہْلًا وَ اِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَةَ وَ التَّوْرٰةَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْئَةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْہَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ وَ تُبْرِءُ الْاَ کْمَہَ وَ الْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ“(المآئدة:۱۱۰)
ترجمہ:”جب کہ میں نے روح القدس سے تمہاری مدد کی اور جب کہ تم جھولے میں اور بڑے ہو کر لوگوں سے یکساں گفتگو کرتے تھے۔ اور جب تم میرے حکم سے مٹی سے پرند کی صورت بنا کر اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا تھا۔اورجب کہ تم مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کر دیتے تھے۔“
دنیا کے سب سے آخری نبی اور رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو حق تعالیٰ نے بے شمار معجزات سے نوازا تھا۔ آپ کا سب سے بڑا اور درخشاں معجزہ جس سے افق عالم جگمگا اٹھا وہ قرآن کریم ہے۔ اس کے علاوہ چند معجزات یہ ہیں:معراج(۱) کا واقعہ، غزوہ (۲)احد میں حضرت قتادہ کی آنکھ جو رخسار پر لٹک آئی تھی، آپ نے آنکھ کے ڈھیلے کو اوپر اٹھایا اور اس کو اس کی جگہ پر جما کر اپنی ہتھیلی سے ذرا دبا دیا۔ پھر ان کے انتقال تک یہ حال تھا کہ ان سے جو بھی ملتا اس کو کبھی یہ معلوم نہ ہوتا کہ ان کی کس آنکھ میں زخم لگا تھا۔ کنکریوں(۳) کا سلام کرنا اور کیکر(۴) کے درختوں کا آپ کے لئے رونا اور شہادت(۵) دینا۔ آپ کی انگشت مبارک(۶) سے پانی کا چشمہ ابل پڑنا جس سے لق و دق صحرا میں کم و بیش چودہ سو پر مشتمل لشکر نے سیراب ہو کر پانی پیا۔ ان کے علاوہ بے شمار معجزات ہیں جن کا ذکر دشوار ہے۔ یہ معجزے صحابہ کی ایک بڑی جماعت کے سامنے ہوا کرتے تھے، جن سے زیادہ پاک باز پاک باطن اور بندہ مولی صفات انسانوں کو چشم فلک نے بھی کم دیکھا ہو گا۔!
مذکورہ بالا ایک ایک معجزہ قدرت کے تکوینی نظام کے برخلاف اور خارقِ عادت ہے، لیکن کیا ان میں سے کوئی معجزہ حق تعالیٰ کے سوا کسی اور خدا کے وجود اس کی الوہیت اس کی ربوبیت اور اس کے بے پناہ اوصاف کی نشاندہی کرتا ہے؟ خدایا نہیں، ہرگز نہیں، یہ سب بس تیری ذات کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ تو اولین و آخرین کا رب ہے۔ تو وہ پاک ذات ہے جس کا منکرین بھی انکار نہ کر سکیں گے۔ انصاف پسند بتائیں کہ وہ کس خدا کو ماننا چاہتے ہیں؟ کیا اس کو جو تخلیق، رزق رسانی، تدبیر، نفع و ضرر اور موت و حیات پر قادر ہے، جس نے پیغمبر بھیجے، ان پر کتابیں نازل کیں۔ قوانین وضع کئے جو ہدایت دیتا اور گمراہ کرتا ہے، جسے چاہتا ہے کمبخت یا بد بخت بناتا ہے۔
(۱)سورہ اسراء، اللولو(۱/۳۵،۳۹) بخاری (۱/۹۲،۹۴) مسلم (۱/۹۹،۱۰۷)
(۲)سیرت ابن ہشام (۳/۳۳)۔
(۳)ترمذی ۹،بخاری(۲/۱۱)
(۴)ترمذی(۸/ ۲۶۳)
(۵)مسلم (۸/۵۸،۵۹)
(۶)بخاری (۷/ ۱۴۸)
جس سے چاہتا ہے دوستی یا دشمنی کرتا ہے۔ یا راضی یا ناراض ہوتا ہے۔ جس نے بے شمار معجزات و کرامات بخشے۔ جس کے ننانوے اسماء حسنی اور اعلیٰ صفات ہیں۔ جو گویا دانا بینا اور سننے والا ہے۔ جو پست و بالا کرتا ہے۔ عزت و ذلت دیتا ہے۔ عدل و احسان کا معاملہ کرتا ہے۔ اور ظلم سے روکتا ہے۔ یا وہ بے شعور، گونگے بہرے اندھے اور نکمّے مادے کو خدا تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔ جو سننے، بولنے پسند کرنے نہ کرنے، اور نفع و ضرر غرض ہر چیز سے خالی ہے۔ جس نے پیغمبر نہیں بھیجے کتابیں نازل نہیں کیں۔ قوانین نہیں بنائے جس کا کوئی نام، کوئی وصف نہیں، جس کا مقدر گونگا بہرہ رہنا اور فنا کے گھاٹ اتر جانا ہے۔
مادہ پرست ہمیں بتائیں؟ یا پھر ہماری سنیں! ہم اس خدائے واحد پر ایمان رکھتے ہیں۔ جس نے کائنات اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ جس کا عرش پانی پر تھا۔ جس نے آدم کو مٹی سے بنا کر اس میں جان ڈالی ناپاک قطرے کے جوہر سے ان کی نسل بڑھائی۔ جو ہر چیز کا خالق و مالک بڑی قدرت اور بڑی حکمت والا ہے، جس نے پیغمبر بھیجے، انہیں کتابوں سے نوازا جو سننے اور قبول کرنے والا ہے۔ جو بخشش کرتا اور فتح و ظفر سے شاد کام کرتا ہے۔ اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ گمراہ کرتا ہے تو انصاف کے ساتھ گمراہ کرتا ہے۔ اس کے بندوں کے سینے اس کی محبت سے معمور ہوتے ہیں۔ خدا کی یاد ان کی غذا اور اس کی خوشنودی ان کی زندگی کا سرمایہ ہے۔ اس کی بندگی کے بغیر ہر گھڑی وبال، ایمان کے بغیر ان کی زندگی اجیرن ہے۔ ان کا ایمان امید و بیم کے درمیان ہوتا ہے۔ اس کی رضا کے آگے وہ سب کچھ ہیچ سمجھتے ہیں اس کی معرفت اور محبت سے ان کے دلوں کو ڈھارس ہوتی ہے۔ اور اس کے علاوہ انہیں کسی اور چیز کی حاجت اور خواہش بھی نہیں ہوتی۔
خدایا! تو نے ہمیں جس طرح اپنی معرفت اور ایمان سے نوازا اپنی عبادت اور بندگی کے لئے بھی ہمیں قبول فرما اور اس کی بیش از بیش توفیق مرحمت فرما۔ اپنی محبت اور خوشنودی عنایت فرما اپنے عفو و درگزر کے دامن میں ہمیں پناہ دے اور اپنی خوشنودی اور رضا مندی کی خلعت ہمیں مرحمت فرما۔ آمین!