از قلم :محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی#
ماہِ دسمبر میں انتظامی وتدریسی ذمے داریوں کے باوجود مولانا حذیفہ صاحب کو ملک اور قوم و ملت کے پستہ حالات ، نوجوانوں کی غفلت ، ان کی بیداری کے پیش نظر چند اہم پروگرام میں شرکت کرنا پڑی۔
۱۶/ دسمبر ۲۰۲۲ جامع مسجد اورنگ آباد:
آپ کا یہ سفر ۱۶/ دسمبر بروز جمعہ صبح ۴/ بجے اکل کوا سے اورنگ آباد کے لیے شروع ہوتا ہے۔ اورنگ آباد سے ۱۰/ کیلو میٹر قبل اعظم بھائی کملاپور والے جو جامعہ کے محبین میں سے ہیں؛موصوف نے اس موقع سے مولانا کو اپنے مکان میں ناشتہ کے لیے مدعو کیا اور مولانا کے کام کو دیکھتے ہوئے فرط ِمحبت میں شاندار استقبال کرتے ہوئے اپنے مکان لائے۔آپ کی آمد کی خبر سن کر اطراف و اکناف کے کافی لوگ جمع ہوگئے تھے، اس مناسبت سے مولانا حذیفہ صاحب نے ان کے درمیان مختصر پر اثر اصلاحی باتیں کیں اور فوراً اورنگ آباد کے لیے روانہ ہوگئے؛کیوں کہ آج اورنگ آباد کی تاریخی جامع مسجد میںآ پ کا جمعہ کا خطاب ہونا تھا۔ مولانا حذیفہ صاحب بروقت جامع مسجد پہنچ گئے، آپ کی آمد کی اطلاع عوام کو پہلے سے تھی، مسجد عوام وخواص سے بھری پڑی تھی۔ آپ نے حالات ِحاضرہ پر عمدہ خطاب کرتے ہوئے لوگوں کو ایک سوچ دیا، ایک تحریک دی اور اس کو بڑھانے کا جذبہ بیدار کیا۔
مدرسہ کاشف العلوم اور لائبریری کا معائنہ:
جمعہ کے بعد جامع مسجد میں واقع قدیم و تاریخی مدرسہ کاشف العلوم کے صدر حاجی عبد الجبار صاحب واساتذہ نے مولانا کا استقبال کیا، مدرسے کے معائنہ کی دعوت دی۔ آپ نے مدرسے کے دفتر میں تمام اساتذہ ومنتظمین سے ملاقات کی، اس کے بعد آپ کی ہر دل عزیز شئ کتب خانہ کا معائنہ کیا، پہلے قدیم کتب خانہ دیکھا اور پھر زیر تعمیر جدید کتب خانے کی بھی زیارت فرمائی۔
ایجوکیشن ایکسپو ۲۰۲۲ کا افتتاح:
کاشف العلوم سے فراغت کے بعد اس سفر کا ایک اہم ترین پروگرام ہفت روزہ ایجوکیشن ایکسپو کا افتتاح مولانا کے ہاتھوں طے تھا۔ یہ پروگرام اورنگ آباد کے وسیع وعریض عام خاص میدان میں منعقد کیا گیا تھا۔ افتتاح کے موقع پر ہر طرح کے مفکرین موجود تھے۔ آپ نے اس اردو میلے کا افتتاح فرمایا اور کچھ کتابوں کی دکان پر تشریف لے گئے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ کو وہاں سے روانہ ہونا پڑا، کیوں کہ آگے ایک کافی بڑا اور اہم پروگرام شیونہ میں طے ہے۔
مکتب ِمحمد یہ شیونہ:
اورنگ آباد سے آپ شیونہ کے لیے روانہ ہوئے اورمغرب بعد مکتب ِمحمدیہ کے زیر ِانتظام وہاں ایک بڑا پروگرام تیار تھا، جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔
آپ نے مجمع کے مناسب حال نہایت عمدہ اور ضروری خطاب کرتے ہوئے فرمایا :کہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایاہے۔لیکن کیوں بنایا؟ کیا ذمے داریاں دیں؟ یہ قیمتی زندگی جو ہمیں عطا کی اس کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں روز ِقیامت اس زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہوگا۔
نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”جوانو! روزِ قیامت تمہارے پیر اس وقت تک نہیں ٹلیں گے؛ جب تک کہ تم اپنی جوانی کا حساب نہ دے دو کہ تم نے اپنی عمر کے سب سے اہم حصے کو مقصد عظیم میں لگایا یا فضولیات وشہوانیت میں جھونک دیا۔
آپ نے بتایا کہ نوجوان ہمارے قوم کا اصل سرمایہ ہے، ہمیں اس سرمایے کو استعمال کرنا ہوگا، ضائع ہونے سے بچانا ہوگا۔ اسی طرح قرآن کا سمجھنا ہماری ذمے داری اورفریضہ ہے؛ جب تک ہم قرآن کو نہیں پڑھیں گے، اسے نہیں سمجھیں گے دین کے تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے۔
اسی طرح آپ نے لوگوں کو توجہ دلائی کہ آج اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے… دنیا کی کامیابی عارضی ہے؛اس سوچ کو زندہ کرنا ہوگا۔اور سب سے زیادہ زور آپ نے اس طرف دلایا کہ تعلیم اور شخصیت سازی نوجوانوں اور اس قوم کے لیے نا گزیر ہے۔
وہاں سے فراغت کے بعد آپ قریب میں واقع جامعہ کی اہم ترین شاخ ریاض العلوم انوا تشریف لے گئے معائنہ اور ملاقات کے بعد رات ہی میں جامعہ کی شاخ جامعہ محمدیہ احمد نگر کے لیے روانہ ہوئے۔ ۲/ بجے رات احاطہٴ جامعہ میں داخل ہوئے ، یہاں فجر کے بعد ایک اہم پروگرام میں آپ کی شرکت ہے۔
۱۷/ دسمبر جامعہ محمدیہ احمدنگر:
۱۷/ دسمبر جامعہ محمد یہ احمد نگر میں ایک نہایت اہم اجلاس مدرسہ ہذا کے ۳۰/ طلبہ کی دستار بندی ہے اور مدرسہ کے احاطے میں ہی ضلع کا اجتماع بھی ہے۔ فجر بعد ہی یہ پروگرام حفاظ طلبہ کی دستاربندی سے شروع ہوا، حضرت نے حفظ ِقرآن اور حفاظ ِقرآن کی فضیلت پر گفتگو فر مائی۔ اس موقع سے مرکز نظام الدین کے اکابرین بھی اسٹیج پر موجود رہے۔ مدرسہ اور دعوت و تبلیغ کا حسین امتزاج دیکھتے بن رہا تھا۔
ایم بی بی ایس کالج بدناپور:
احمد نگر سے فارغ ہوکر آپ جامعہ ابوہریرہ ایم بی بی ایس کالج بدناپور پہنچے؛ یہاں بھی ایک اہم استقبالیہ پروگرام ۱۵۰/ سیٹ پر ایڈمیشن کے موقع سے ہوناطے تھا۔
اب تک جامعہ کے کالج میں ایم ۔بی ۔بی۔ ایس کی صرف ۱۰۰/ سیٹ تھی۔ امسال ۱۵۰/ کی پرمیشن اور داخلہ ہونے پر یہاں استقبالیہ اجلاس کا انعقاد ہوا۔ جس میں حضرت مولانا نے ڈاکٹر حضرات اور طلبہ کو خطاب کرتے ہوئے انسانیت کو ڈاکٹر کی اہمیت بتائی۔ اور ساتھ ساتھ ڈاکٹر کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے، اس کی طرف توجہ دلائی اور اس پر زور دیا کہ یہ کام خدمت کے جذبے سے ہوناچاہیے۔ کوئی غریب و نادار علاج کا خرچہ نہ اٹھاسکتا ہو تو مفت میں علاج کرنے کا جذبہ ہونا چاہیے۔اور بتایا کہ تعلیم صرف پیسے کمانے کی غرض سے نہ ہو، پیسہ تو جو مقدر میں ہوگا وہ مل کر ہی رہے گا۔ ہمیں خدمت ِانسانی کی نیت رکھنی چاہیے؛ تاکہ ہمارا یہ عمل بھی عبادت بن جائے۔ مسلمان اپنی نیت سے ہر عمل کو عبادت بناسکتا ہے۔ اور آپ نے کہا کہ پرسنا لٹی ڈیولپمنٹ کے ساتھ ساتھ اسپریچویل ڈیولپمنٹ بھی بہت ضروری ہے۔
ایجوکیشن ایکسپو ۲۰۲۲:
بدناپور کے پروگرام سے فارغ ہوکر آپ فوری اورنگ آباد ایجوکیشن ایکسپو ۲۰۲۲/ کے لیے روانہ ہوئے، جو اس سفر کا سب سے اہم ترین پروگرام تھا۔ جسے سوشل میڈیا فاوٴنڈیشن کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔ جس میں مختلف تعلیمی ،ثقافتی پروگرام کرائے گئے۔
۱۷/ دسمبر ۲۰۲۲ء بروز سنیچر کے پروگرام کو دو سیشن میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلا ۰۰:۱۱ /تا ۰۰:۱/ اور دوسرا ۰۰:۲/ تا ۰۰:۴/ ۔اور سب سے اہم پروگرام ۷/ بجے رات میں ہونا طے تھا، جس میں مہمانان خصوصی کی حیثیت سے حضرت مولانا حذیفہ صاحب نے اپنے تین اہم ترین دوستوں کی شرکت یقینی بنائی تھی۔
مفتی محمد سلمان صاحب مظاہری مدراسی کو ”۲۱/ ویں صدی میں مسلمان تجارت کے میدان میں حلال طریقہ اختیار کرکے کیسے ترقی حاصل کرسکتا ہے“کے عنوان کے تحت گفتگو کرنی تھی۔
آپ نے اپنے اچھوتے انداز میں نئے نئے اور جدید مسائل کو قرآن وحدیث اورشریعت کی روشنی میں بالکل صاف صاف بیان کیا۔ حرام وحلال کو کھول کر سمجھایا اور مسلمان کو حلال تجارت کی ترغیب وراہ دکھاکر دین و دنیا کی ترقی کے حصول کی راہ فراہم کی۔
جناب امتیاز صاحب بنگلور نے ”مسلمان معاشرہ میں مسجد کے کردار کو کیسے موٴثر بنایا جائے“ اس عنوان کے تحت مسجدون مومینٹ کی روشنی میں مسلمانوں کے ۴۰/ سے زائد مسائل کو مساجد سے حل کرنے کی راہ دکھائی اور طریقہ بتلایا اورسکھلایا۔
اور دوسرے سیشن میں مولانا حذیفہ صاحب اور مشہور موٹیویشنل اسپیکر منور زماں صاحب نے وقت کے اہم ترین موضوع ”موجودہ صدی کے سب سے بڑے دو چیلنج تعلیم و تربیت اور مسلمان والدین اساتذہ ونوجوان کی کیا ذمہ داریاں“ کے تحت فکری ارتداد اورعلمی ہنگامہ آرائی کے اس طوفان کا بھر پور مقابلہ کرنے کے لیے مسلمان معاشرہ کو موٴثر اسلوب میں تعلیم وتربیت پر ابھارا۔
مولانا حذیفہ صاحب نے سب سے پہلے بتایا کہ یہ دنیا دار الاسباب ہے، اسباب اختیار کیے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے علما اور تاجروں کو خلوص ِنیت کے ساتھ میدان ِعمل میں آنے کی دعوت دی اور بتایا کہ معاشی اعتبار سے مسلمانوں کا مضبوط ہونا نہایت ضروری ہے۔
اور قوم کی خرابی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ آج ہم ہر اعتبار سے کمزور ہیں، ہمارا پولیٹکل وجود نہ کے برابر ہے، کوئی کوشش کرتا ہے تو ہم ٹانگیں کھینچ کر گرادیتے ہیں۔ آپ نے کہا ہمیں خلوص کے ساتھ جاہ و منصب کی پرواہ کیے بغیر امانت داری، دیانت داری کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔
صرف تقاریر سے کام نہیں چلے گا، عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ایک جماعت کو اس طرح کھڑا ہونا ہوگا جو قوم کے تمام لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پرجمع کرے اور لے کر چلے۔
ہمیں اپنے ہر اقدام اور عمل میں شریعت ِاسلام کو راہ بر بنانا ہوگا، اسلام زندگی کے ہر موڑاور گو شے میں ہماری مکمل راہ نمائی کرتا ہے ،اس کی روشنی میں کام کرنا ہوگا،اس کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔
اس پروگرام میں اورنگ آباد کے لوگوں کا سیلاب امنڈ پڑا تھا، عام خاص میدان اپنی وسعت کے باوجود تنگی کا رونا رورہا تھا اور اس سے متصل شاہراہ بھی پیاسی امت سے اٹی پڑی تھی۔ اللہ امت کے حق میں ان اجلاس کو خوب قبول فرمائے۔
ادارہ لطیف نارے گاوٴں:
اسی دن آپ عصر بعد ادارہ لطیف نارے گاوٴں میں، فضلائے جامعہ مفتی عبد العلیم صاحب ومولانا عبد الماجد صاحب کی دعوت پر حاضر ہوئے۔ معائنہ کیا دعاؤں اورمشوروں سے نوازا۔ اس ادارے کے تحت مکاتب کا بڑا منظم نظام چل رہا ہے اور ملفوظات حضرت باندوی پر جمع و ترتیب کا کام ہورہا ہے۔
مدرسہ فلاح دارین نارے گاوٴں:
وہاں سے آپ بوقت ِمغرب مدرسہ فلاح دارین نارے گاوٴں پہنچے ، مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد طلبہ میں مختصر خطاب ہوا اور اس کے بعد جامعہ کی شاخ ”مرکز جاسم“ چکل ٹھانہ اورنگ آباد کا معائنہ فرمایا ۔ آپ کے یہ اسفار اردو ایکسپو کے تیسرے سیشن ۰۰:۷/ تا ۰۰:۹/ سے قبل ہوئے تھے، وہاں سے آپ عام خاص میدان پہنچے جس کی روداد اوپر بیان ہوئی۔
اردو ایکسپو کے پروگرام سے فارغ ہوکر رات کے قیام کے لیے جامعہ کی شاخ ابو ہریرة بدناپور پہنچے۔
۱۸/ دسمبر پلس ایکیڈمی اورنگ آباد:
بدناپور سے ناشتہ کرکے آپ پلس اکیڈمی اورنگ آباد کے پروگرام میں شرکت کے لیے پہنچے۔ وہاں بھی تعلیمی، تربیتی اور تعمیری عنوان سے خطاب ہوا ۔ دوپہر کے کھانے کے بعد اورنگ آباد سے دھولیہ کے لیے روانہ ہوئے۔ دھولیہ میں مغرب کے بعد ایک بڑا پروگرام مولانا کا منتظر ہے۔
شہر دھولیہ:
اس پروگرام کی تیاری کافی دنوں سے شروع تھی، اس میں شرکت کے لیے عوام، نوجوان، بچے، بچیاں، سماجی، سیاسی، علمی، ہر طرح کے لوگ موجود تھے۔
مولانا نے اپنے خطاب میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ عظیم نعمت عقل کی اہمیت جتلاتے ہوئے نشہ کے ذریعہ اسے ضائع کرنے پر نوجوانوں کو جھنجھوڑا۔
حسن ِاخلاق اختیار کرنے پر کافی زور دیتے ہوئے فرمایا :
”انسان اپنے اخلاق سے ہی پہچانا جاتا ہے اور حسن ِاخلاق علم ِدین کی بغیر ممکن نہیں، اس لیے کہ اصل اخلاق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق ہے۔ آپ خلق عظیم پر فائق تھے۔“
اس کے لیے دینی تعلیم اورسیرت کے مطالعہ کی ترغیب دی اور ترقی کی روح” حسن اخلاق“ کو قرار دیا۔
آپ کی مفید تر گفتگو نے اسٹیج پر موجود ایس پی صاحب کو بہت زیادہ متاثر کیا، ایس پی صاحب نے کہا کہ اس طرح کے پروگرام نوجوانوں کو تعلیم کی طرف راغب اور معاشرے کو نشہ سے مکت کرانے کے لیے بہت زیادہ ضروری ہیں۔
پروگرام کے بعد آپ ”اکل کوا“ سالما غانما لوٹ آئے۔
۲۷/ دسمبر شیر پور:
۲۷/ دسمبر شیر پور آر سی پٹیل کالج میں حضرت مولانا حذیفہ صاحب اور جناب منور زماں صاحب کا پروگرام شیر پور کے نوجوان عالم دین مولانا اکرم صاحب اور ان کی پوری ٹیم کی کوششوں سے طے تھا۔
اس پروگرام کے اصل مخاطب نوجوان، بچے اور بچیاں تھیں۔
حضرت مولانا نے اپنے خطاب میں بتایا کہ:
”یہ اکیسویں صدی سائنسی اعتبار سے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صدی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انسان کو مقصد ِحیات کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں کہ آپ کتنی ہی ترقی کرلیں، لیکن اللہ کی قدرت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
اس میں ہمیں یہ پیغام اور میسج ملتا ہے کہ ہم اس دنیا میں صرف تجربات کے لیے نہیں آئے، بل کہ اس دنیا میں آنے کا ایک عظیم مقصد طاعت وعبادات ہے۔“
آپ نے والدین کو فکر دلاتے ہوئے تربیت ِاولاد کی طرف متوجہ کیا کہ ہم اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر دھیان نہیں دیں گے تو یہ ضائع ہوجائیں گے۔ بیٹیوں اوربہنوں کی تعلیم کے ساتھ خصوصی تربیت اور نگہداشت کی فکر دلائی کہ آج ہماری بچیاں دشمنان اسلام کی ہدف ہیں۔
اکابرین کی تعلیمات و واقعات کی روشنی میں تربیت ِاولاد کی فکر دلائی، گھر میں تلاوت اوردعاوٴں کا نظام بنانے پر زور دیا۔
مشرقی خرافات سے نوجوانوں کو ہوشیار کیا، خصوصاً تین یوم کے بعد آنے والے ”نیو ئیر “کی خربیاں بتائیں اور اسلامی تقاضوں پر چلنے کی دعوت دی۔
آپ کا یہ پروگرام اہلیان شیر پور کے حق میں نہایت مفید وموٴثر رہا۔
۳۰/ دسمبر ویجاپور:
۳۰/ دسمبر جمعہ کی نماز سے فارغ ہوکر آپ جامعہ اکل کوا سے بیجاپور کے لیے نکلے، یہاں آج مغرب کے بعد ”دوانائیک“ تاریخی مسجد کی جدید تعمیر کا سنگ ِبنیاد ہے۔
مغرب کے بعد اس تعلق سے ایک بڑا پروگرام رکھا گیاتھا، جس میں آپ نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے تعمیر ِمسجد کی فضیلت اور مسجد کے تحت دینی ضرورت کو بیان کیا۔ اس مسجد کا تعمیری خرچ تخمیناً ۱/ کروڑ بتایا گیاتھا۔ الحمدللہ مولانا کے بیان سے اسی مجلس میں ۷۵/ لاکھ کا عوام کی طرف سے چندہ ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تعمیر کے تمام مراحل آسان فرمائے اور علاقے والوں کے لیے دینی مرکز بنائے۔ آمین!
اسٹیج پر جامعہ کی شاخ کے ناظم مولانا صابر صاحب موجود تھے ۔پروگرام کے بعد آپ کی دعوت پر آپ خالد بن ولید ویجاپور تشریف لے گئے ۔ناظم صاحب اور اساتذہ نے پر تپاک استقبال کیا۔ آپ نے مدرسے کا معائنہ فرمایا، اس کے بعد آپ کے ہاتھوں مدرسے کی لائبریری کی بنیادر کھی گئی۔
وہاں سے فارغ ہوکر رات ہی آپ جامعہ کے لیے روانہ ہوئے اور رات کے آخری پہر۴/ بجے کے قریب اللہ کے فضل وکرم سے بخیر وعافیت جامعہ پہنچ گئے ۔
اللہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب کے ان تمام پروگرام واجلاس کو امت کے حق میں بے حد مفید ومقبول ثابت فرمائے۔