26/اکتوبربعد نماز عشا ہتورن ضلع سورت میں مکتب کے تین طلبہ کرام کے تکمیل حفظ قرآن کےموقع پر جلسہ دستار بندی کا انعقاد کیا گیا تھا،جس میں ناظم جامعہ مولانا حذیفہ صاحب وستانوی بطور مہمان خصوصی ومقرر خصوصی مدعو تھے۔مولانا کے خطاب سے قبل طلبہ مکتب نے عمدہ تعلیمی پروگرام پیش کیا۔اس کے بعد ناظم جامعہ کا پر مغز خطاب ہوا جس کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
اقتباسات بیان:
1. – قرآن کی عظمت اور اس کا وزن: ناظم جامعہ نے بیان کا آغاز اللہ کی طرف سے قرآن کریم کی عظمت کے بیان سے کیا۔ قرآن کریم کو اللہ کا کلام بتایا، جسے کسی مخلوق نے نہیں بنایا بلکہ یہ اللہ کی صفت ہے۔ یہاں اس کی قدر اور عظمت کو اجاگر کیا گیا کہ اگر یہ پہاڑ پر نازل ہوتا تو پہاڑ بھی اس بوجھ کو نہ سہہ پاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا۔ اسی عظیم کلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا اور 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول اتنا بھاری ہوتا تھا کہ کبھی آپ پر غشی طاری ہوجاتی اور کبھی سواری کا جانور تک اس بوجھ سے جھک جاتا۔
2. – قرآن کا حفظ اور تلاوت: بیان میں حفظ قرآن اور تلاوت قرآن کی فضیلت اور اہمیت کو خوبصورتی سے بیان کیا گیا۔ بتایا گیا کہ قرآن اللہ کا وہ کلام ہے جسے اللہ نے انسان کے لیے آسان کردیا۔ اور جب ایک شخص قرآن حفظ کرتا ہے یا اسے اپنی زندگی میں شامل کرتا ہے تو وہ اللہ کی رحمت اور برکت کے حصار میں آجاتا ہے۔ اس موقع پر مقامی بچوں کے حفظ قرآن مکمل کرنے پر انہیں اور ان کے والدین کو مبارکباد دی گئی اور ان کے اس عظیم عمل کی قدر کی گئی۔
3. – معاشرتی مسائل اور روحانی زوال: بیان میں آج کے دور کے چند بڑے مسائل جیسے موبائل کا غلط استعمال، بے پردگی، فلموں اور ڈراموں کی جانب مائل ہونا وغیرہ پر تنقید کی گئی۔ بتایا گیا کہ ان برائیوں کی وجہ سے مسلمان دین سے دور ہوتے جارہے ہیں اور گناہوں کی جانب زیادہ راغب ہو رہے ہیں۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ یہ تنہائی میں کیے جانے والے گناہ زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ اس سے اللہ کی عبادت کا مزہ اور لذت چھن جاتیی ہے۔ اللہ سے یہ دعا بھی کی گئی کہ ہمیں ان گناہوں اور برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
4. – دنیاوی عیش و عشرت اور دین سے دوری: مال و دولت اور دنیاوی آسائشات کے فتنوں پر بات کی گئی کہ جب انسان ان چیزوں میں گم ہو جاتا ہے تو دین اور اللہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واقعے کو بیان کیا گیا کہ ایک موقع پر تین دن کے بھوکے ہونے کے بعد حضرت جابر کے گھر تشریف لے گئے اور کچھ کھجوریں کھائیں، مگر ساتھ ہی فرمایا کہ قیامت کے دن ان کھجوروں کا بھی حساب دینا ہوگا۔ اس واقعے سے سمجھایا گیا کہ اگر انبیاء کرام دنیا کی معمولی آسائشات کا حساب دینے کی فکر میں ہوں تو ہمیں اپنی دنیاوی زندگی میں ان چیزوں کا کتنا دھیان رکھنا چاہیے۔
5. -خاندان اور نسل کی اصلاح: نیک لوگوں کی نسلوں کو بھی اللہ کا فضل اور برکت حاصل رہتا ہے۔ حضرت خضر اور موسیٰ علیہما السلام کے واقعے سے وضاحت کی گئی کہ کس طرح نیک والدین کی برکت سے اللہ ان کی اولاد کے لیے فلاح کا بندوبست فرماتا ہے، چاہے وہ نسلیں بعد میں بھی آئیں۔ اس لیے زور دیا گیا کہ ہر مسلمان کو اپنے بچوں اور خاندان میں دین کی تعلیم و تربیت کو فروغ دینا چاہیے تاکہ دین نسلوں تک محفوظ رہے۔
6. – قرآن کا فتنوں سے تحفظ کا ذریعہ ہونا: بیان میں یہ پیغام دیا گیا کہ جب معاشرہ فتنوں اور بگاڑ میں مبتلا ہو تو قرآن کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ نقل کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ان فتنوں سے بچنے کا ذریعہ قرآن بتایا۔ اس لیے اس بات پر زور دیا گیا کہ قرآن کو نہ صرف پڑھا جائے بلکہ اس کے معانی اور تفسیر کو بھی سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تاکہ یہ ہماری حفاظت کا ذریعہ بن سکے۔
7. – بزرگوں کی تعلیمات اور ان سے جڑے رہنے کی ضرورت: بیان میں ہمارے نیک بزرگوں اور اسلاف کے طرزِ عمل کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا۔ ان کی مساجد سے محبت، دین کی خدمت، اور علم سے لگاو کو قابلِ تقلید قرار دیا گیا۔ بتایا گیا کہ جب تک ہم ان کی روایات اور دینی رویات کو برقرار رکھیں گے، تب تک ہماری نسلوں میں بھی دین زندہ رہے گا۔
8. – معاشرتی تربیت اور دینی ماحول کی اہمیت: بیان میں ذکر کیا گیا کہ پچھلے دور کے لوگ قرآن کی تلاوت اور دینی اعمال کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے تھے، لیکن آج موبائل اور دوسری غیر ضروری چیزوں کی وجہ سے گھروں سے نورانی ماحول ختم ہوتا جارہا ہے۔ نماز، تلاوت قرآن اور دینی تعلیم کے لیے گھر میں وقت نکالنے اور بچوں کو موبائل کی بجائے قرآن سے جوڑنے کی نصیحت کی گئی۔
9. -آخری پیغام: بیان کا اختتام ایک دعائیہ پیغام کے ساتھ ہوتا ہے کہ اللہ اس اجتماع کو قبول فرمائے اور ہم سب کو قرآن کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ سے یہ بھی دعا کی گئی کہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری نسلوں میں دین کو زندہ رکھے۔
”بھگوت گیتا قرآن کی روشنی میں“
27/ اکتوبر 2024 اے ٹی ٹی ہائی اسکول قدوائی روڈ مالیگاوں میں ڈاکٹر ساجد صدیقی صاحب کی لکھی گئی کتاب ”بھگوت گیتا قرآن کی روشنی میں“کے آڈیو اور ویڈیو ورزن کا اجراء ناظم جامعہ مولانا حذیفہ صاحب کے زیر صدارت رکھا گیا تھا،جس میں ملک کی بہت ساری عظیم شخصیات مدعو تھیں، نیزدیگر مذاہب کے اسکالر، سنسکرت زبان کےماہرین اور اعلی عہدیدارن شریک تھے۔
مولانا نے اپنے صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ساجد صاحب کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے،اس کتاب کا مختصر تعارف کراتے ہوئے تقابل ادیان پر روشنی ڈالی اور قرآن کا خلاصہ بھی پیش کیا آپ کے بیان کے اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں:
اقتباسات بیان:
الحمدللہ رب العالمین، اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں زندگی اور دین کی نعمت سے نوازا اور ہمیں سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امتی بنایا۔ آج کا یہ بیان موجودہ حالات میں ایک انتہائی اہم مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے منعقد کیا گیا ہے۔ یہ مسئلہ انسانی سکون اور خوشحالی سے متعلق ہے، جسے مادیت اور مغربی ثقافت کے زیر اثر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں ترقی اور سائنس کے فروغ کے باوجود، انسان کے دل سے سکون غائب ہو چکا ہے، کیونکہ سکون محض دولت، آرام دہ بستروں، گاڑیوں، اور آسائشات میں نہیں ملتا بلکہ یہ انسان کی روحانی صحت اور اس کے اللہ کے ساتھ تعلق میں پوشیدہ ہے۔
دین فطرت انسانی ہے:
اس بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دین ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے اور مذہب کے بغیر انسان کی زندگی نامکمل ہے۔ جب مغربی تہذیب نے دنیا پر اپنے اثرات پھیلائے تو اس کا سب سے منفی پہلو یہ تھا کہ اس نے انسان کو دین سے دور کر دیا۔ مغرب کی ترقی نے بلاشبہ زندگی کو سہل بنایا، مگر اس نے انسان کو حقیقی سکون سے دور کر دیا۔ یہ سکون نہ دولت سے ملتا ہے، نہ آسائشات سے، بلکہ یہ اس وقت ملتا ہے جب انسان کا تعلق اپنے خالق سے مضبوط ہو۔
راہ حق دکھانے کے لیے ہر قوم میں پیغمبر آئے:
اللہ رب العزت نے ہر قوم کی طرف ایک پیغمبر بھیجا تاکہ لوگوں کو حق کا راستہ دکھایا جا سکے۔ تمام مذاہب میں چند بنیادی مشترکہ عناصر پائے جاتے ہیں، جیسے توحید، جنت، جہنم، اور موت کا تصور۔ مختلف مذاہب میں یہ نظریات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ جیسے کہ ہندو مذہب میں ”یمراج” کا تصور ملتا ہے، جو موت کے فرشتے کی علامت ہے۔ یہ چیزیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ دنیا کے تمام مذاہب میں کچھ مشترک ہے، اور اس مشترکہ تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے سے ہمیں سکون مل سکتا ہے۔
موازنہ مذاہب:
اس بیان میں تقابلِ ادیان یعنی مختلف مذاہب کا موازنہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہاں زور دیا گیا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے نظریات کو سمجھنا چاہیے اور ان میں مشترکہ اقدار کو اپنانا چاہیے۔ دوریاں اور غلط فہمیاں ہی نفرت کو جنم دیتی ہیں، اور اگر ہم ان دوریوں کو ختم کریں اور ایک دوسرے کے قریب آئیں تو معاشرے میں امن اور محبت کا فروغ ممکن ہو سکے گا۔
مترجم کی حوصلہ افزائی:
یہاں ڈاکٹر ساجد صاحب کی کاوشوں کی بھی تعریف کی گئی ہے جنہوں نے مختلف مذاہب کی مشترکہ تعلیمات کو سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی۔ تقریباً آٹھ دس سال قبل بھی انہوں نے اسی موضوع پر گفتگو کی تھی، اور آج ایک مرتبہ پھر ان کے دل میں یہی بات آئی کہ قرآن اور دیگر مذاہب کی تعلیمات میں مشترکہ نکات کو اکٹھا کیا جائے۔
قرآن کا خلاصہ:
مولانا احمد علی لاہوری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اگر کوئی ان سے قرآن کا خلاصہ پوچھے تو وہ اسے چند سیکنڈ میں سمجھا سکتے ہیں، کیونکہ پورے قرآن کا تین باتوں میں خلاصہ کیا جا سکتا ہے: ایک اللہ کی عبادت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، اور اللہ کی مخلوق کی خدمت۔