مدرسہ ”باغِ سعادت “کوسمبہ

            26- اکتوبر بروز ہفتہ بعد نماز ظہر ”جامعہ اکل کوا“ سے کوسمبہ ضلع سورت کے لیے روانہ ہوئے۔عصر کی نماز کوسمبہ میں ادا کرنے کے بعد حاجی غلام حسین صاحب بانی باغِ سعادت کے مکان پر تشریف لے گئے، تین چار دن پہلے حاجی صاحب اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔ گھر والوں سے تعزیت اور مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی۔ حضرت حاجی غلام حسین صاحب کاغذی بڑے نیک دل انسان تھے، انہوں نے کوسمبہ دادری میں جہاں ہزار سے زائد مکانات ان لوگوں کے آباد ہیں، جو مختلف ریاستوں سے آکر یہاں بسے ہوئے ہیں، ان کے بچوں کے تعلیم کے لیے مدرسہ باغ سعادت کی بنیاد رکھی اور حال ہی میں حضرت رئیس الجامعہ کی خدمت میں آکر باغ سعادت کومکمل طور پرجامعہ کی نگرانی اور سرپرستی میں دینے کی درخواست پیش کی۔

             حضرت نے مولانا معوذ وستانوی کو یہاں بحیثیت ناظم یہاں روانہ کیا۔26/ اکتوبر بروز ہفتہ بعد نماز مغرب ایک عظیم الشان جلسہ تعلیمی بیداری کے نام سے رکھا گیا تھا، جس میں اکل کوا سے حافظ سلیمان وستانوی ، مولانا بنیامین وستانوی اور علاقہ کے نامور علمائے کرام بحیثیت مہمان خصوصی شریک تھے۔

بیان کا خلاصہ

            ابتدائیہ: بیان کی ابتدا اللہ کی حمد اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے کی گئی ہے۔ بیان میں مسلمانوں کو ایمان کی نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔انسان کی تخلیق اور مقام: اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے دیگر مخلوقات سے زیادہ علم و عقل عطا کیا، جس کی وجہ سے انسان کو سرداری کا مقام عطا ہوا ہے۔

دیگر مخلوقات کی صلاحیتیں: اللہ نے ہر مخلوق کو اس کے مخصوص علم سے نوازا ہے، مثلاً چیونٹی اور پرندے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کا علم رکھتے ہیں، مگر انسان کو اپنی ضروریات کے حصول کے لیے مزید محنت کرنی پڑتی ہے۔

علم و تربیت کی ضرورت: انسان کو دنیا میں محنت سے علم حاصل کرنے اور تربیت پانے کا حکم دیا گیا ہے۔ بغیر علم و تربیت کے انسان اپنے معاشرتی فرائض نہیں نبھا سکتا۔

قرآنی تعلیمات: قرآن میں ذکر ہے کہ اللہ نے انسان کو ماوں کے پیٹ سے بغیر کسی علم کے پیدا کیا اور اسے اپنی عقل و شعور کے ذریعے علم حاصل کرنے کا راستہ عطا کیا۔

انسانی احتیاج: انسان کو اللہ نے محتاج بنایا تاکہ وہ عاجزی اور اللہ کی رضا کے ساتھ زندگی گزارے۔ اگر انسان بے نیاز ہوتا تو فرعونیت اور تکبر کا شکار ہو جاتا۔

مسلمانوں کی زوال کی وجوہات: مسلمانوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہے، مگر دینی و دنیاوی تعلیم کی کمی اور اسلامی اصولوں سے دوری کی وجہ سے ان کا وقار دنیا میں کم ہوتا جا رہا ہے۔

علم سے دوری: امت مسلمہ کی بدحالی کا سب سے بڑا سبب دینی و دنیاوی تعلیم سے دوری ہے۔ مسلمانوں کو اپنے عقائد اور دینی احکامات کا علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

اولاد کی تربیت: والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی دینی اور اخلاقی تربیت کریں، جیسے حضرت عمر نے فرمایا کہ والدین کو اپنی اولاد کے لیے نیک ماں، اچھا نام اور اچھی تربیت کا اہتمام کرنا چاہیے۔

اخلاقی تعلیم: امام غزالی نے فرمایا کہ مسلمان کو دین کے ضروری علم، عبادات کے احکام، اور حلال کمائی کا علم حاصل کرنا فرض ہے۔

معاشرتی مسائل: مسلمانوں کو آج اپنے کردار اور علم کی کمی کی وجہ سے دنیا میں مشکلات کا سامنا ہے، کیونکہ بغیر تعلیم اور اخلاق کے معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔

تاریخی پس منظر: مسلمانوں نے اپنے وقت میں بہترین تعلیمی و معاشی نظام قائم کیا تھا، مگر آج تعلیمی نظام کے بگاڑ نے ان کے معیار کو گرا دیا ہے۔

مغربی نظام تعلیم کا اثر: لارڈ میکالے کی تعلیمی سازش نے ہندوستان میں مسلمانوں کو دین سے دور کرنے کی کوشش کی۔ مسلمانوں نے اپنے ایمان کو بچانے کے لیے مدارس کا قیام کیا۔

مسلم حکومتی نظام: مسلم حکمرانوں نے انصاف کے ساتھ حکومت کی اور دیگر اقوام کے ساتھ عدل کا معاملہ کیا، مگر تاریخ کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔

علم اور خدمت کا تعلق: مسلمانوں کے نزدیک علم کا مقصد انسانیت کی خدمت اور اللہ کی رضا ہے، جب کہ دیگر اقوام میں علم کو تجارت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

دینی تعلیم کی اہمیت: دینی تعلیم کے ذریعے مسلمان اپنی آخرت کی تیاری کرتے ہیں اور دنیا میں بھی ایک نیک معاشرہ قائم کرتے ہیں۔

والدین کا کردار: بچوں کی اخلاقی و دینی تربیت میں والدین کا کردار اہم ہے، خاص طور پر ماوں کو بچوں کے لیے پہلا مدرسہ قرار دیا گیا ہے۔

عورتوں کی تعلیم: خواتین کی تعلیم پر بھی زور دیا گیا ہے کیونکہ وہ نسلوں کی تربیت کرتی ہیں۔ مرد پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کو دینی علم سکھائے۔

تواضع کی ضرورت: امت کو اتحاد کے لیے تواضع اپنانے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ اختلافات ختم ہو سکیں اور مسلمانوں میں تنظیم و ترقی آئے۔

تعلیم میں تعاون: مسلمانوں کو چاہیے کہ تعلیمی میدان میں ایک دوسرے کا تعاون کریں اور اپنے معاشرتی و دینی اداروں کے ذریعے تعلیم و تربیت کو فروغ دیں۔