ملفوظاتِ وستانوی
عزیز طلبائے کرام!
قرآن کریم اللہ کی مقدس کتاب ہے، اللہ نے آپ کو اور ہم کو اور ہمارے والدین کو یہ توفیق عطا فرمائی، کہ ہم اللہ کی مقدس کتاب کے پڑھنے پڑھانے سیکھنے سکھانے جیسے با برکت عمل میں اپنے آپ کو لگا ئیں۔
اس دنیا میں کتنے ہی مسلمان آپ کو ایسے ملیں گے کہ جن کی زندگی میں سب کچھ ہے، لیکن وہ الف ، با سے بھی نابلد ہیں۔ ان کو یہ بھی نہیں پتہ کہ الف باء کیا ہے۔ تو قرآن کریم پڑھنے کی تو بات ہی بہت دور ہے ؟
جامعہ کی شاخ کھلنے سے پہلے اور بعد کا وشاکھا پٹنم:
تقریباً۲۶،۲۷ سا ل پہلے میرا وشاکھا پٹنم کا سفر ہوا، وہاں کے دوستوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے بہت سارے گاوٴں ایسے ہیں جہاں کوئی آدمی آپ کو ایسا نہیں ملے گا، جس کو قرآن پڑھنا آتا ہو! میرے لیے یہ بات بڑی تعجب کی تھی کیوں کہ جس علاقہ اور جس ضلع میں‘ میں نے آنکھ کھولی تھی، وہاں تو ماشاء اللہ بچہ بچہ قرآن پڑھتا تھا اور پڑھتاہے۔ سورت اور بھروچ ضلع، یہاں مکاتبِ قرآنیہ کا جال بچھا ہوا ہے۔ یہیں سے بچے دارالعلوم جاتے ہیں، کوئی حافظ بنتا ہے، کوئی قاری بنتا ہے، کوئی عالم بنتا ہے، کوئی مفتی بنتا ہے۔
وشاکھا پٹنم کے مدرسہ کے قیام کا واقعہ:
میرے پاس وہاں سے ایک آدمی آیا، کہ ایک زمین خریدنی ہے، اس کا تعاون کریں! چنانچہ میں نے کچھ لوگوں سے بات کی، کہ بھائی وشاکھاپٹنم آندھرا پردیش کا ایک صوبہ ہے وہاں دینی حالات ناگفتہ بہ ہیں،لہذا وہاں ایک مدرسہ کھولنا ہے۔ اللہ نے اسباب مہیا فرمادیے اور وہاں مدرسہ شروع ہوگیا۔اور اس علاقے کے نوجوانوں کو جامعہ میں ٹریننگ کے لئے بلایا، ان کو نورانی قاعدہ ، پارہٴ عم پڑھا دیا، پھر ان کویہ کہ کر دیہاتوں میں بھیج دیا، کہ آپ کو تنخواہ ہم دیں گے ، آپ نورانی قاعدہ پارہٴ عم بچوں کو پڑھائیے ۔اللہ نے وہ گھڑی مقبولیت کی رکھی ہوگی، ان بچوں نے اچھی محنت کی۔ پھر ہم نے وہاں مدرسہ شروع کر دیا، اس مدرسے کا کارنامہ یہ ہوا کہ وہاں سے طلباء پڑھ کر یہاں آئے اور وہ عالم بن کر وہاں گئے۔ آج جامعہ کے فضلاء ماشاء اللہ اس علاقہ میں بہترین کام کر رہے ہیں۔ وہاں سال دو سال میں میرا جانا ہوتا ہے، ہاں ابھی دو سال سے طبیعت کی علالت کی وجہ سے وہاں میرا جانا نہیں ہوا۔
مدرسہ کا تأثر:
ایک بندہ اسی شہر کا اس مدرسہ سے بڑا متاثر ہوا،کہ وستانوی صاحب نے جو مدرسہ کھولاہے، اس سے بڑا فائدہ ہورہا ہے، اس نے کہا کہ میری نیت ایک مسجد بنانے کی ہے، چالیس لاکھ کا میرا بجٹ ہے،لیکن اس کے افتتاح کے لئے آپ کو آنا پڑے گا۔ الحمدللہ پرانی مسجد شہید کر کے توسیع کرتے ہوئے نئی مسجد تعمیر ہوئی۔
دنیامیں کام کی بڑی ضرورت ہے:
میرے بچو!دنیا میں کام کی بڑی ضرورت ہے، آپ اپنے اندر ایک داعیہ پیدا کرو، کہ ان شاء اللہ ہم اللہ کے کلام کی خدمت کریں گے، تو پھر دیکھو اللہ تمہیں کیسے نوازتا ہے۔
﴿إنَّا نَحْنُ نَزَلْنَاالذِّکْرَ وَإنَّا لَہ لَحفِظُوْن﴾(الحجر،آیت نبمر۹)
قرآن اپنے بار ے میں گویا ہے، اللہ کہتے ہیں: کہ ہم نے قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے، یہ حفاظ بچے”وانا لہ لحفظون“ کا مصداق ہیں۔اللہ تعالی نے تمہارے سینوں کو اپنے قرآن کے لئے منتخب کر لیا ہے۔
ایلور کے مدرسے کے قیام کا واقعہ:
پھر ایک اور جگہ ہے ایلور، جب ہم وشاکھاپٹنم گئے تو وہاں کے کچھ احباب آئے۔
کہا: حضرت! آپ نے یہاں وشاکھاپٹنم میں مدرسہ کھول دیا، ہمارے یہاں بھی مدرسہ کھولیے ،تو وہاں ہم نے زمین خریدلی۔اور مدرسہ بنوادیا وہ مدرسہ بھی الحمدللہ اپنے علاقے میں بہت اچھا کام کررہا ہے۔
بیجاپور کی شاخ کا قیام:
ایک وفد بیجاپور کرناٹک سے آیا وہاں کے حالات سنائے، کام کا تقاضہ رکھا۔الحمدللہ اللہ نے وہاں بھی ایک پورا دارالعلوم بنادیا ۔ مدرسہ ،مسجد ، دارالاقامہ اسکول ساری چیزیں۔
مولانا صدیق صاحب اور مولانا شکیل صاحب یہ دونوں جامعہ کے ہونہار فاضل ہیں۔ میرے ذہن میں آیا کہ یہ مدرسہ ان کے حوالہ کردوں اور مولانا صدیق کو وہاں کا ناظم بنادوں، میں نے صدیق کو فون کیا، تواس نے کہا کہ میں یہاں (جہاں وہ پہلے خدمت کررہے تھے)پر برابر ہوں(یہاں میرے لیے سب مناسب ہے اور مجھے یہاں سے انسیت ہوگئہے)۔ میں نے کہا یہاں تمہارا کام نہیں بننے والا، تم ایسی جگہ جاوٴ ،جو ویران ہے اس کو آباد کرو، ویرانوں میں بہار لاوٴ۔ الحمدللہ انہوں نے میرے حکم کی تعمیل کی اور ایک علاقہ کھڑا ہوگیا۔
گھر کی فکر نہیں کام کی فکر کرو!!
میرے بچو! کام کرنا ہے کام ،اور وہ بھی جہاں کام کی ضرورت ہے وہاں ،گھر پر بسنے کی فکر نہیں کرنا ہے۔آپ ﷺ ہجرت نہیں کرتے صحابہ حرمین سے نہیں نکلتے تو ہم تک دین کیسے پہنچتا؟! اگر ہم اکل کوا نہیں آتے،اپنا وطن نہیں چھوڑتے تو آپ یہاں ہوتے؟ ہم اگر وہیں گجرات میں بڑے مدرسوں میں ٹھاٹھ سے پڑھا کر گھوما کرتے،وہیں آرام کی زندگی گذارتے تو اس جنگل میں منگل ہوتا؟
لیکن ہم یہاں آئے۔ جھونپڑے سے مدرسہ شروع ہوا ہے، وہ جھونپڑا مکرانی پھلی میں ابھی بھی ہے ۔ تو اللہ نے آج اسے محل بنادیا، یہ کتاب اللہ کی برکت ہے۔ اگر تمہیں بھی کوئی کام کرنا ہے تو کتاب اللہ کے ساتھ محبت کرو!کتاب اللہ کو پڑھنے کا داعیہ پیدا کرو! روزانہ ایک پارہ اقل قلیل قرآن پڑھو!تو ایک مہینے میں ایک قرآن شریف آپ پورا کریں گے۔ وہ قرآن شریف اپنے مشائخ ،اساتذہ ٴ مرحومین اپنے متعلقین، معاونین جامعہ کو ایصال ثوال کر دو، تو اللہ تمہیں ڈبل اجر دے گا، اور ان کو بھیثواب پہنچے گا۔
کرونا اور جامعہ میں تعلمی نظام:
میرے بچو! آپ مدرسے میں ہیں،تو آپ کا داعیہ صرف تعلیم کا ہونا چاہیے۔ اورنگ آباد کے اندر کورونا ہے اور میں چھٹی کر دوں کہ جاوٴ!حالاں کہ مسئلہ تو یہ ہے کہ جس شہر میں وبا پھیلی ہو، تو وہاں جاوٴ بھی مت اور وہاں سے نکلو بھی مت۔ اب آپ یہاں رک گئے ہیں اور آپ یہاں محفوظ جگہ پر ہیں؛ ہرطرح کی صاف صاف قانونی ہدایت کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام احتیاط کو برتتے ہوئے ،آپ یہاں ہیں اور ساتھ ساتھ آپ کی تعلیم بھی جاری ہے اور آپ کو یہاں کوئی تکلیف بھی نہیں ہے۔
اپنا ذہن تعلیمی بناوٴ! اثباتی بناوٴ! کورونا کی و جہ سے مدرسے بند ہیں، اللہ نے آپ کو مجھ کو جامعہ جیسی نعمت دی ہے، اساتذہ پڑھا رہے ہیں، منتظمین آپ کو کھلا رہے ہیں، آپ کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ گھر جانے کے لئے چھٹی تو ملنی ہی والی ہے، جو طلبہ جامعہ کی بسوں سے جانا چاہیں گے، ان کے لئے کنسیشن کا انتظام اور واپسی میں بھی انتظام ہوگا؛لہذا طالب علم کا ذہن جانے کا نہیں ،پڑھنے کا ہونا چاہیے، تلاوت کا ہونا چاہیے !اور رمضان میں جو بچے یہاں رہیں گے، ان کے لئے سحری اور افطاری کا سارا انتظام جامعہ نے بنارکھا ہے۔