مدارس اسلامیہ کے خلاف سازشیں اور ہماری ذمہ داریاں

اداریہ

مولانا حذیفہ وستانوی

            اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا کے ہر گوشے میں ملت ِاسلامیہ اور امت ِمسلمہ بے شمار داخلی اور خارجی مسائل سے جوجھ رہی ہے۔لیکن اس وقت سب سے اہم چیز ان مسائل کا حل ہے کہ ان چیلینجز کا ہم کس طرح مقابلہ کریں،تو مختصر الفاظ میں کہا جائے تو اس مجھدار سے نکلنے کے لیے ہمیں بیدار مغزی، حکمت ِعملی، اجتماعیت اور اپنی صف میں وحدت پیدا کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اور اس ملک میں یہ کام ایک طویل عرصے سے مدارسِ اسلامیہ بخوبی انجام دے رہے ہیں، جو اس ملک میں مسلمانوں کی تعلیم کے ذمہ دار ہیں، بریں بنا ان کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنا بھی وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔

مدارس اسلامیہ کا تاریخی پس منظر:

            اگر ہم مدارسِ اسلامیہ کا پس منظر دیکھیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مدارس 1857ء کے بعد وجود میں آئے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ 1857ء سے پہلے مدارس نہیں تھے؛ بلکہ 1857ء سے پہلے بھی مدارس موجود تھے۔ فرق یہ تھا کہ اُس وقت اس ملک پر ہماری حکمرانی تھی، اور تعلیمی نظام براہِ راست ہمارے حکمرانوں کے زیرِ اثر اور علما کی نگرانی میں جاری و ساری تھا۔

انگریزوں کا تعلیمی نظام:

            انگریز جب اس ملک میں آئے تو انہوں نے 1857ء سے پہلے ہی اس ملک میں اپنی تعلیم کا آغاز کر دیا۔ ہندوستان میں تعلیم کی تاریخ سے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انگریزوں نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں اپنے اسکولوں کا قیام بنگال سے شروع کیا اور پھر انیسویں صدی کے اوائل میں یونیورسٹیاں بنانا شروع کیں۔ ملک کے مختلف خطوں میں انہوں نے اپنی یونیورسٹیاں قائم کیں۔

تعلیمی نظام کے متعلق انگریزوں کا آپسی اختلاف:

            انگریزوں میں ایک طبقہ ایسا تھا جو کہتا تھا کہ ہندوستانیوں کو ان کی زبان (اردو) میں تعلیم دی جائے، جب کہ دوسرا طبقہ انگریزی میں تعلیم دینے کا قائل تھا۔ آخرکار یہ فیصلہ کیا گیا کہ اگر ہمیں ہندوستانیوں کی فکر، معاشرت اور عقیدے پر اثر انداز ہونا ہے، تو پہلے انہیں اپنی زبان (انگریزی) سکھا نی ہوگی۔ اس کے بعد سیکولر ایجوکیشن کے نام پر انہیں اس طرح دین سے دور کرنا ہوگا کہ انہیں خود اس بات کا احساس نہ ہو کہ وہ اپنے دین سے دور ہو چکے ہیں۔

سیکولر تعلیم کے نام پرمغالطہ:

            انگریزوں نے ایسا پروگرام ترتیب دیا، جس میں تعلیم کو ”سیکولر“ کا نام دیا گیا۔ شیخ عبدالرحمن حبنکہ المیدانی نے اپنی کتاب” غزو فی الصمیم “کے مقدمے میں یورپ اور امریکہ کے ماہرینِ تعلیم کے حوالے سے ایک بہت اہم بات نقل کی ہے کہ” دنیا میں کوئی بھی نظامِ تعلیم سیکولر ہو ہی نہیں سکتا“۔ تو یہ سوال پیدا ہوا کہ ساری دنیا سیکولر تعلیم کہہ رہی ہے، اور آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی نظامِ تعلیم سیکولر ہو ہی نہیں سکتا؟؟!!

سیکولر تعلیم کامطلب:

             شیخ عبدالرحمن حبنکة المیدانی نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا کہ سیکولر کا مطلب ایک ایسا نظامِ تعلیم ، ایک ایسا نصاب ہے، جس میں کسی بھی نظریے کو نہ پڑھایا جائے؛ بغیر کسی نظریے کے سائنس، فزکس، کیمسٹری، بایولوجی، قانون، اور دیگر تمام علوم کو پڑھایا جائے، مگر یہ ممکن ہی نہیں۔ اس لیے کہ ہر نظریہٴ تعلیم اپنی بنیاد میں کوئی نہ کوئی عقیدہ رکھتا ہے۔ کوئی بھی نظامِ تعلیم کسی نظریے اور عقیدے سے عاری نہیں ہو سکتا۔

نظریات اور تعلیم کا تعلق:

            اگر کوئی یہ کہے کہ یہ ایسا نظامِ تعلیم ہے، جس میں کوئی نظریہ پڑھایا نہیں جاتا، تو یہ ممکن نہیں ہے۔ ہر نظامِ تعلیم کے پیچھے دو بنیادی عقیدے ہوتے ہیں۔

 پہلا: کائنات اور دنیا کے بارے میں ایک نظریہ، جسے انگریزی میں ”ورلڈ ویو“ کہا جاتا ہے۔

            یہ دنیا کیا ہے؟ کس نے بنائی؟ اور یہ کیسے چل رہی ہے؟ ان تمام سوالات کا ہر نظامِ تعلیم سے ایسا ہی تعلق ہے؛ جیسے چولی دامن کا ساتھ۔

 دوسرا: انسان کے بارے میں نظریہ۔

            اسی طرح انسان کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟کیوں آیا ہے؟ کہاں جائے گا؟ اوراسے دنیا میں کیا کرنا ہے؟ یہ سوالات بھی ہر نظریہٴ تعلیم کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔

            اور جس نظامِ تعلیم کو سیکولر کہا جاتا ہے، اس میں درحقیقت یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس کائنات کو نہ کوئی بنانے والا ہے اور نہ چلانے والا؛لہٰذا یہ کہنا کہ” اس کائنات کو نہ کوئی بنانے والا ہے اور نہ کوئی چلانے والا“ یہ بھی ایک عقیدہ اور نظریہ ہے۔ اس لیے اسے سیکولر کہنا غلط ہے۔ جو اسے سیکولر مانتے ہیں، وہ بے وقوف ہیں، اس لیے کہ حقیقت کو سمجھنے والے ہی اہل عقل ہوتے ہیں۔

مدارس کے قیام کا مقصد:

            یہ بات واضح ہونا اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے مدارس اسی نظامِ تعلیم کا مقابلہ کرنے کے لیے، اس ملک میں قائم کیے گئے ہیں۔ جب تک ہم اس حقیقت کو نہیں سمجھیں گے، ہماری بات مکمل نہیں ہو سکتی۔

سیکولر تعلیم کا نظریہ اور انسانی تخلیق:

            پورے سیکولر نظامِ تعلیم میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ دنیا خود بخود وجود میں آئی، اس کا کوئی خالق نہیں ہے۔ انسان بندر سے بذریعہ ٴارتقاء وجود میںآ یا ہے۔ اور انسان کے آبائے و اجداد میں مینڈک سے لے کر دیگر ادنیٰ مخلوقات کو شامل کیا گیا ہے۔اور کہا گیا کہ وہ پہلے پانی میں تھا، پھر جرثومہ بنا، اور پھر ارتقاء کے مراحل طے کرتے ہوئے مینڈک اور بندر بنا۔

اسلام کا نقطہٴ نظر:

            قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ“ کہ ہم نے انسان کو مکرم بنایا، تخلیقِ کائنات اور انسان کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ کائنات کو اللہ تعالیٰ نے بنایا، اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی تخلیق کے ذریعے پیدا کیا۔ یعنی انسان کی تخلیق اسپیشل کریشن ہے۔

1857ءء: مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا لمحہ:

            1857ءء کے بعد دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ میدان میں آیا۔ اس وقت مقابلے میں ہندوستان کے مختلف طبقے تھے، مگر مسلمانوں نے سب سے مضبوط کردار ادا کیا۔ اسی بنا پر دشمن کی پوری کوشش رہی کہ مسلمانوں کو اس ملک سے ختم کر دیا جائے۔ اور اس کے لیے سب سے پہلے انہوں نے اپنا نظامِ تعلیم نافذ کیا اور طاقت کے زور پر اسے رائج کرنے کی کوشش کی۔

جنگ آزادی میں علما کا کردار اور مدارس کی بربادی:

            1857ء کی جنگِ آزادی میں علماء پیش پیش تھے، لہذا دشمن نے علما اور ان کے اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔پورے ہندوستان سے مدرسوں کو ختم کیا گیا، صرف دہلی میں سینکڑوں مدارس تھے، جنہیں ختم کیا گیا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے صرف تاج محل اور لال قلعہ بنایا اور کچھ نہیں کیا، یہ ایک غلط پروپیگنڈا ہے۔ یہ عمارتیں نہ ہوتیں تو شاید یہ کہا جاتا کہ مسلمانوں نے 700 سال حکومت ہی نہیں کی۔ حقیقت میں، مسلمانوں نے اس ملک کا تعلیمی اور اقتصادی نظام دنیا بھر میں متعارف وممتازکیا۔

مسلم دور حکومت میں ہندوستان کی خوشحالی:

            مسلمانوں کے عروج کے دور میں ہندوستان تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سے دنیا میں سب سے ممتاز مقام رکھتا تھا۔ آج اس ملک کی جی ڈی پی صرف 7 فیصد ہے، جبکہ اورنگزیب رحمة اللہ علیہ کے دور میں یہ 27 فیصد تھی، جبکہ آج دنیا میں کسی بھی ملک کی جی ڈی پی اتنی نہیں ہے، امریکہ جو سب سے زیادہ مالدار ہے اس کی جی ڈی پی تقریباً 24فیصد ہے۔ انگریز یہاں اس ملک کی خوشحالی اور دولت کو لوٹنے کے لیے آئے تھے، ورنہ وہ یہاں کیوں آتے؟ آج ان کے مضبوط ڈالر اور طاقت اسی لوٹی ہوئی دولت کی وجہ سے ہیں، لہذا ہمیں ہر قسم کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

1857ءء کے بعد مسلمانوں کا لائحہ عمل:

            1857ءء کے بعد مسلمانوں کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ اللہ رب العزت نے ہمارے علما کو یہ بصیرت عطا کی کہ ہمارے علما نے اس مشکل وقت میں قوم کی رہنمائی کے لیے اور اسلامی شناخت کو باقی رکھنے کے لیے مدارس قائم کیے۔

علما پر معاشرتی زوال کی ذمہ داریوں کا الزام:

            آج ہمارے معاشرے میں جو زوال ہے، اس کا الزام علما پر عائد کیا جاتا ہے، خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہر معاشرتی پستی کے لیے علما کو ہی ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ دینی اور دنیاوی تعلیم میں تفریق کے ذمہ دار علما ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ علما اس کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ اس لیے کہ جب انگریزوں نے سیکولر تعلیم کو فروغ دے کر اسلامی تشخص کو مٹانے کی کوشش کی، تو علما نے اسلامی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے مدارس قائم کیے، اگر علما اُس وقت یہ قدم نہ اٹھاتے اور صرف دینی تعلیم پر توجہ نہ دیتے، تو آج ہم اپنی اسلامی شناخت کے ساتھ یہاں موجود نہ ہوتے۔

اسلامی شناخت کی حفاظت میں مدارس کا کردار:

            اللہ ہمارے علما کو بہترین بدلہ عطا فرمائے کہ انہوں نے اسلامی تشخص کو برقرار رکھا۔ میں نے دنیا کے تقریباً 40 ممالک کا سفر کیا ہے، اور ایسے ممالک دیکھے ہیں جہاں 100 فیصد مسلم آبادی ہے، مگر وہاں اسلامی تشخص ناپید ہے۔ یہاں، ہم 15-20 فیصد ہو کر بھی اسلامی شناخت کے ساتھ زندہ ہیں، یہ ہمارے علما کی قربانیوں اور مدارس کا دین (احسان ) ہے، تو اس بات کو اچھی طرح سمجھیں کہ اگر اُس وقت صرف اسلامی تعلیم پر توجہ نہ دی جاتی، تو ہمارا تشخص اور ہمارا وجود خطرے میں تھا۔

لارڈ میکالے کا منصوبہ:

            1835ءء میں لارڈ میکالے نے کہا تھا کہ وہ ایسا نظام ِتعلیم لائے گا کہ 50 سال بعد یہاں ایک بھی مسلمان نظر نہیں آئے گا۔ اس کے الفاظ آج بھی تاریخی ریکارڈ میں موجود ہیں اور گوگل پر بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں؛اسی سازش کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمارے مدارس وجود میں آئے۔

مدارس کی عالمی سطح پر خدمات:

            الحمدللہ، نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے برصغیر کے مدارس کے فارغ التحصیل افراد نے دنیا کے ہر کونے میں جا کر اسلامی تشخص کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی ہے۔ چاہے وہ افریقہ کا کوئی غریب ملک ہو یا دنیا کا امیر ترین ملک امریکہ یا برطانیہ ہو، آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ ہو، ہر جگہ پر ہمارے مدارس ہی نے اسلام کا صحیح تشخص برقرار رکھا ہے۔

مدارس کے خلاف دشمنوں کے پروپیگنڈے:

            دشمنوں کو بخوبی معلوم ہے کہ یہ مدارس ہی اسلام کے بقا کے محافظ ہیں؛ اسی لیے کبھی ان پر دہشت گردی کا الزام لگانے کی کوشش کی جاتی ہے(لیکن الحمدللہ آج تک کسی مدرسے سے دہشت گردی ثابت نہیں ہو سکی اور ان شاء للہ قیامت تک یہ کبھی ثابت بھی نہیں کر سکیں گے) دشمن کبھی ہمیں قدامت پسند اور رجعت پسند قرار دیتا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی لچک ہمارے مدارس نے اپنے نظامِ تعلیم میں رکھی ہے، کسی اور ادارے نے نہیں رکھی۔

مدارس والوں کو احساسِ کمتری سے بچنا چاہیے!

            ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مدارس کے طلبا اور اساتذہ احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہوں، اور کسی قسم کے پروپیگنڈے سے نہ گھبرائیں۔ حکومت کی ایجنسیاں جب سوالات اٹھاتی ہیں کہ مدارس کہاں سے افیلیٹڈ ہیں؟ یا ان کی پہچان کہاں سے ہے؟ تو ہمیں اعتماد کے ساتھ کہنا چاہیے کہ ملک کے آئین کے آرٹیکل 301 کے تحت ہمیں اپنی زبان اور مذہب کی تعلیم دینے کا پورا حق ہے، لہٰذا مدارس کو کہیں سے افیلیشن کی ضرورت نہیں ۔ اور ہمیں دفعہ 301 کو اچھی طرح پڑھ کر کسی ماہر وکیل سے سمجھناچاہیے۔

            ارشاد باری تعالی ہے:إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَةُ اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ۔(سورہ فصلت:۳۰)

            ”جن لوگوں نے (دل سے) اقرار کرلیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر مستقیم رہے، ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور تم جنت کے ملنے پر خوش رہو، جس کا تم سے پیغمبروں کی معرفت وعدہ کیا جایا کرتا تھا۔“

مولانا سعید الرحمان اعظمی صاحب کا قول:

            آیت کے ذیل میں مولانا سعید الرحمان اعظمی فرماتے ہیں ”قرآن کریم کی یہ بشارت بہت عظیم ہے، اس کی اہمیت کا صحیح ادارک اسی مرد مومن کو ہوگا، جس نے قرآن کی روشنی میں دین اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کی حتی الوسع کوشش کی ہو اور انفرادی واجتماعی زندگی میں اس کے اصول و ضوابط کو برتاہو، اسی ایمانی حقیقت سے سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں، مشکل سے مشکل قفل کھل سکتے ہیں، آج یہی ایمانی حقیقت تہذیبی چیلنجوں سے بر سرِپیکار ہے۔مادی دل فریبیاں اور خوبصورت نعرے اور آوازیں ہر چہار جانب سے سنائی دے رہی ہیں، لیکن اس کی قطعیت میں کوئی شک نہ پیدا ہوا اور نہ ہوگا، باطل طاقتوں کا تو حال یہ ہے اسلامی شعائر پر یلغار کرنے کی جان توڑ کوشش کررہی ہیں،جب ان کا کوئی حربہ ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے تو دوسرے نئے خطرناک ہتھیاروں کے ذریعہ ازسرنو یلغار شروع کردیتی ہیں اور مسلمانوں کو ان کے سرچشمئہ حیواں سے دور رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتیں، لیکن جس قدر ان کی سازشیں رو بعمل آتی ہیں ،اسی قدر اسلام کی کرنیں پورے عالم کو بقعہٴ نور بناتی جارہی ہیں۔“

            مذکورہ اقتباس سے واضح ہوجاتا ہے کہ تہذیبی چیلنجز اور شعائر کے تحفظ میں استقامت کی طاقت کیا کردار ادا کرسکتی ہے۔ موجودہ حالات میں شعائر اسلام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ ہم بھی اسی استقامت کا مظاہرہ کریں، جس کا نبی کریم ﷺ نے کیا، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور اسلاف نے کیا، ان کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے شعائر اسلام کا دفاع کرنے کا مکمل حوصلہ رکھنا ہوگا۔

            مدارس اپنے دامن میں آنے والے طلبہ کو ملت کی قیادت کے لیے تیار کرنے کا پروگرام بنائے۔

            ہمیں اپنی تاریخ سے اچھی طرح واقف ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تشخص اور پہچان کے ساتھ مکمل جرات اورعظیم حکمت کے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی ملت کو ساتھ لے کر چلیں۔ اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔

قانون سے آگاہی اور دستور کی دفعات:

            ہمیں ملک کے قانون کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دستور کی دفعات 27، 28 اور 29 ہمیں مذہبی اور تعلیمی آزادی فراہم کرتی ہیں، اگرچہ آئین میں تضاد بھی موجود ہے، جیسے دفعہ 40 کے بعد ایسی دفعات شامل کر دی گئی ہیں، جو ایک جیسی یکسانیت مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں، جو کہ قدرت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ اسی لیے جب ملک کا آئین بنا تو ہمارے بعض علما نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا کہ اس میں بعض تضاد آمیز چیزیں موجود ہیں انہیں ہٹانا چاہیے، لیکن نہیں ہٹایا گیا تو علما نے اپنے تحفظات کے ساتھ اس پردستخط کیا۔

عصری تعلیم کے تقاضے اور دینی مدارس کی ذمہ داریاں:

            ہمیں دینی تعلیم کو مکمل اور جامع انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنے طلبہ کو عصری علوم اور موجودہ دور کی ضرورتوں سے بھی روشناس کرانا چاہیے، تاکہ ہمارا طالب علم کسی بھی میدان میں اجنبی نہ ہو۔ تحقیق کے میدان میں ان اصطلاحات اور تصورات سے بھی واقفیت ضروری ہے، جو آج کی دنیا میں استعمال ہوتی ہیں۔ الحمدللہ، ہم انگریزی پڑھا رہے ہیں، توہمیں کچھ ایسے علما تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو بہترین انگریزی میں مناظرے کرسکیں، موثر انداز میں تقریر کر سکیں اور سوالات کے جوابات دے سکیں۔ صرف انگریزی ہی نہیں، بلکہ جس خطے، صوبے، یا علاقے میں ہمارا ادارہ ہے، اس علاقے کی زبان کے ماہرین تیار کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے؛ تاکہ وہاں کے مسائل پر ہم قلم اور زبان دونوں کے ذریعے اپنا دفاع کر سکیں۔

نفرت کے ماحول میں حکمت ِعملی:

            حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جہاں نفرت کا ماحول ہو، وہاں مسلمانوں کو دو کام کرنے چاہیے:

            1:         نفرت کو کم کرنے کے لیے اسلام کی خوبیاں لوگوں کے سامنے بیان کریں۔

            2:         اپنے اخلاق کو ایسا بنائیں کہ لوگ ہمارے اخلاق دیکھ کر متاثر ہو جائیں۔

            بدقسمتی سے، آج ہمارے پاس ان دونوں چیزوں کی کمی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اسلام کی خوبیوں کو اجاگر کریں اور اپنے اخلاق سے لوگوں کے دل جیتیں۔

مدارس کو قانونی طور پر مضبوط بناناضروری ہے:

            ہماری قانونی مضبوطی بھی ضروری ہے۔ اگر ہمارے مدارس چیریٹیبل ٹرسٹ کے تحت چلتے ہیں تو اس کے کاغذات مرتب ہونے چاہیے۔ اگر ہمارے پاس اکاؤنٹ ہے تو ہمیں سالانہ آڈٹ کامضبوط نظام کرنا چاہیے۔ اس کے لیے حکومت سے منظور شدہ اکاؤنٹنٹ سے اپنی رپورٹ آڈٹ کرانا چاہیے ،اگر کسی مدرسے کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے تو اس کے لیے زمین کے قانونی کاغذات، تعمیراتی نقشے، اور دیگر قانونی اسناد مکمل ہونے چاہیے؛ تاکہ قانونی اعتبار سے ہمیں کسی بھی چیلنج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

عزم اور ایمان کی مضبوطی:

            ہمارا حق پر ہونا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں دنیا میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔ مشکلات اور آزمائشیں آتی ہیں، اور ان کے آنے سے ہی ایمان کی سچائی ثابت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنوں سے ڈرو نہیں! کیوں کہ ان سے منافقین کا پردہ فاش ہو جاتا ہے؛ لہذا ہمیں اپنے ایمان کو مستحکم کرنا ہے، اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہے، اور ہر مشکل کا سامنا حوصلے اور یقین کے ساتھ کرنا ہے۔

علم و تقویٰ کی اہمیت اور اصلاح ِنفس:

            وہبةالزحیلی صاحب کا ایک نہایت عمدہ مقولہ پڑھا انہوں نے فرمایا: ”میں نے علم سیکھا اظہر سے، اور عمل و تقویٰ ملک شام کے علما سے۔“ اس کے بعد انہوں نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے لکھا کہ ”زندگی میں نجات کا راز اگر کوئی ہے، تو وہ اللہ کے ساتھ تعلق کی مضبوطی ہے“۔ لہذا ہم بھی اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں۔

            الحمدللہ، اسلام نے ہمیں ہر قسم کے عقلی اور علمی سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ ہمارے متکلمین نے مسائل ِعقائد کو نہایت عمدہ اصولوں کے تحت حل کیا ہے، اور مزید کسی اصول کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؛ اسی طرح ہمارے فقہا نے اصولِ فقہ کو مدون کرکے انسانی زندگی کے ہر پہلو کا حل ہمارے سامنے رکھا ہے، اگر ہمارے سامنے کوئی مسئلہ پیش آئے، تو ہمارے پاس اسلامی اصول موجود ہیں، جن کی روشنی میں ہم ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔

تزکیہٴ نفس اور روحانیت کے اصول:

            آج کی دنیا میں روحانیت کا چرچا بہت ہے، لیکن ہمارے متصوفین نے تزکیہٴ نفس کے لیے حقیقی اور درست اصول بیان کر دیے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مطالعہ کریں اور اپنے آپ کو بزرگانِ دین کے ساتھ وابستہ رکھیں۔ ہمیں اپنے اکابرین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اخلاص اور للہیت کے ساتھ کام کرنا چاہیے،جب اخلاص کے ساتھ طریقہ بھی مطابق شریعت ہوگا، تو اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔

اخلاص اور صحیح نیت کی اہمیت:

            کام میں نیت کی درستگی اور اخلاص کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ کام میں نہ تو شہرت مقصودہو اور نہ ہی منصب کی خواہش، بلکہ ہر عمل اللہ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ امام غزالی فرماتے ہیں: کہ حسد کی بیماری سب سے زیادہ علما میں پائی جاتی ہے اور کبر کی بیماری بادشاہوں میں۔ اسی طرح امام ماوردی نے لکھا ہے کہ: حسد اور کبر دونوں صفات علماء اور بادشاہوں میں پائی جاتی ہیں؛ کیوں کہ علما لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں اور بادشاہ جسموں پر حکمرانی کرتے ہیں، جس کے سبب ان میں کھینچاتانی رہتی ہے۔

            ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دلوں کو ایسی کھینچاتانی سے پاک رکھیں۔ اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کریں، اور اللہ کی مدد کو طلب کرتے ہوئے صحیح منہج کو اختیار کریں۔ ان ہی اصولوں کے ذریعے ہم اللہ کی مدد اور نصرت حاصل کر سکتے ہیں۔

حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی ایک اہم بات:

             سید الطائفہ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ کے ہاتھ پرحضرت گنگوہی نے بیعت کی۔ کچھ دنوں کے بعد جب ملاقات ہوئی، تو حضرت حاجی امداد اللہ صاحب نے پوچھا کہ بھئی آپ نے بیعت کی اور تصوف کے سلسلے سے منسلک ہوئے تتو طبیعت اور زندگی میں آپ کو کچھ فرق محسوس ہوا؟

            حضرت نے بڑی عجیب بات کہی، فرمایا: ویسے تو ایسا کوئی فرق مجھے نہیں لگا، البتہ میرے اندر تین چیزیں آئیں ہیں جو مجھے محسوس ہو رہی ہیں۔

            حضرت حاجی صاحب نے پوچھا: کیا ہیں وہ تین چیزیں؟

            حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا:

            1          شریعت طبیعت بن گئ ہے:

            پہلی چیز یہ کہ شریعت طبیعت بن گئی۔ جیسے کھانا کھائے بغیر اورپانی پیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، ایسے ہی میں نماز، روزہ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

             2         مادح اور ذام برابر ہو گئے ہیں:

            دوسری چیز یہ کہ کوئی میری تعریف کرے یا مذمت، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ (تعریف کرنے سے بھی میں چنے کے جھاڑ پر نہیں چڑھتا اور مذمت کرے تو بھی مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی)۔

            3           شریعت میں کوئی اشکال نہ رہا:

             شریعت کی کسی چیز پر اشکال اور اعتراض باقی نہیں رہا۔ ہر چیز شریعت کی ایسی نظر آ رہی ہے جیسے فطرت اور عقل کے بالکل مطابق ہو، اور کوئی چیز عقل اور فطرت کے خلاف نہیں ہے۔

            حضرت حاجی امداد اللہ صاحب نے کہا: بھائی، جس کو یہ تین چیزیں مل گئیں، پھر اب بچا ہی کیا؟ اس کو اس دنیا کے اندر سب کچھ مل گیا۔

            حضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کی اس بات میں ہماری زندگیوں کے لیے ایک بہت بڑا پیغام ہے۔ کہ ہم اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ رب العزت ہمیں مدارس ، ملک اور ہمارے تشخص کے تمام مسائل کو مل بیٹھ کر سلجھانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اور ہر قسم کے شرورو فتن سے ہمیں محفوظ فرمائے۔ اللہ ہم سے راضی ہو جائے اور ایسے اعمال کی توفیق مرحمت فرمائے، جن سے ہمیں قرب خداوندی نصیب ہو!