محرم الحرام ، اللہ کا مہینہ ہے

مولانا افتخار احمد قاسمی ؔ بستویؔ/استاذ جامعہ اکل کوا

            اللہ رب العزت کے ارادۂ ازلی کی جہت فاعلی کو وہ زمانہ کہتے ہیں جس کو حدیث میں کہا گیا ہے کہ ’’ زمانہ میں خود ہوں ‘‘ اور ’’ زمانے کو گالی نہ دو ‘‘ اور اس ارادۂ ازلی کی جہت مفعولی کو وہ زمانہ کہتے ہیں جس کو دن ، تاریخ اور مہینوں سے جانا جاتا ہے اورعربی میں ۱۲؍ مہینے محرم الحرام سے شروع ہوکر ذی الحجۃالحرام پر مکمل ہوتے ہیں ۔

            اسلامی سال کا آغاز تواتر علمی وعملی دونوں سے ثابت ہے کہ محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے جس کی فضیلت کے بارے میں حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار دریافت کیا گیا ، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس وقت مجلسِ نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اے اللہ کے رسول ! رمضان المبارک کے بعد میرے لیے کس مہینے میں روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :  ’’ان کنت صائما بعد شہر رمضان ، فصم المحرم ، فإنہ شہر اللہ ، فیہ یوم تاب اللہ فیہ علی قوم ویتوب فیہ علی قوم آخرین ‘‘ (ترمذی شریف : ۱/۱۵۷)یہ حدیث بتلاتی ہے کہ آپ نے دریافت کرنے والے صاحب کو جواب دیا کہ رمضان کے بعد اگر روزہ رکھنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے تو سب سے بہتر یہ ہے کہ آپ محرم الحرام کے مہینے میں روزہ رکھا کریں ۔ محرم الحرام کا مہینہ عظمت ومرتبت میں اللہ کا مہینہ کہلاتا ہے ۔ اس مہینے میں ایک دن ایسا آتا ہے جس میں اللہ نے بنی اسرائیل کی توبہ قبول فرمائی تھی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی اللہ رب العزت قبول کرنے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ قرآن کا اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے ۔{اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد}، اسی طرح ایک دوسری حدیث جو حضر ت عبد الرحمان بن صخر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’ اَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ شَہْر رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰہِ الْمُحَرَّم ‘‘ (ترمذی : ۱/۱۵۷)رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ محرم الحرام کا روزہ ہے ، اسی طرح حدیث کی کتاب الترغیب والترہیب : ۲/۱۱۴ میں رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ من صام یوما من المحرم فلہ بکل یوم ثلاثون یوما‘‘۱ ؎   جوشخص محرم کے مہینے میں ایک دن روزہ رکھے تو اس کو ایک روزے کے بدلے تیس دن روزے رکھنے کا ثواب ملے گا ۔


   ۱؎  ثلاثون حسنۃ : جامع صغیر میں علامہ سیوطی ؒ سے حدیث ۸۳۶۳ کے ساتھ منقول ہے ، اس میں ثلاثون یوماً کے بجائے ’’ ثلاثون حسنۃ ‘‘ ہے۔ اس پر حدیث صحیح کا حکم ہے ۔

مندرجہ بالا احادیث میں مذکور حقائق کی روشنی میں ایک مسلمان کو زندگی کے ایام غنیمت جان کر آنے والے محرم کے مہینے کے شب وروز کی حد درجے قدر کرنا چاہیے ۔ راتوں کو عبادت میں گزاریں اورکم از کم عشاکی نماز باجماعت ادا کرنے کے ساتھ فجر کی نماز بھی باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کریں ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ عشا اور فجر کو باجماعت اداکرنے والے مسلمان کو رات بھر عبادت کرنے کا انعامی ثواب دیا جاتا ہے اور محرم کے دنوں میں جتنا ہوسکے روزوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ ایک روزے کا ثواب ایک ماہ کے روزوں کے حساب سے اعمال نامے میں جمع ہوتا رہے ، کیوں کہ ایک مسلمان کی اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ۔ ارشاد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’اَللّٰہُمَّ لَاعَیْشَ إلَّا عَیْشُ اْلآخِرَۃِ‘‘  اے اللہ ! اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے ۔ اسی کی تیاری کی ہمارے اندر فکر پیدا فرما ۔ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے۔ ایک مسلمان کے لیے دنیا توقید خانہ ہے ، اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُوْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ یہ دنیا کافرکے لیے جنت ہے ۔

            محرم الحرام کے مہینے میں روزہ ، نمازاورتلاوت کے ذریعے ہم آخرت کی زندگی کی تیاری اور اپنے اندر قوت ایمانی اعمال صالحہ کی کثرت کے ذریعہ پیدا کریں تاکہ ہماری کمزوری اور ظاہری لاچاری سے دنیا فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ آج جو کچھ کمزوری ہے وہ قوت ایمانی کی کمزوری ہے جو دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کی بنیاد پر پیدا ہوگئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بہت پہلے ہی فرما دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب تم پر دوسری قومیں ایسے انداز میں ٹوٹ پڑیںگی جیسے کھانے کے پیالے پر کھانے والے ٹوٹے پڑتے ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! کیا اس وقت ہم تھوڑے ہوںگے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں تم کثیر تعداد میں ہوگے ، لیکن تمہارے اندر ’’ وَہْن‘‘ داخل ہوچکا ہوگا ۔ صحابہ ؓ نے دریافت کیا : اے اللہ کے حبیب ! ’’ وَہْن‘‘ کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ’’ وَہْن‘‘ہے ’’ حب الدّنیا وکراہیۃ الموت‘‘ ،  ’’ وَہْن‘‘ یہ ہے کہ تمہارے اندر دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کی بات بیٹھ چکی ہوگی ۔ اس وقت تم کو کھیرے ککڑی کی طرح کاٹا جائے گا ۔

            آج کے حالات میں اسلام کا پیغام بالعموم اور آنے والا محرم کا مہینہ بالخصوص ہم کو دعوت دے رہا ہے کہ ہم اللہ کے احکام پر عمل کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں ۔ روحانی وجسمانی قوت و طاقت سے لیس ہوکر ’’المومن القوي خیر من المومن الضعیف ‘‘ کا نمونہ اور مجسم پیکر بن کر امت کے سامنے آئیں ۔

آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا

آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا

            محرم کے مہینے کی تاریخی واسلامی اہمیت کو پیشِ نظر رکھیں اور اس کی دسویں تاریخ کو نویں یا گیارہویں سے ملاکر یوم عاشورا کا روزہ بھی رکھیں۔ رسم و رواج سے ہٹ کر یہ یاد رکھیں کہ یہی دسویں تاریخ محرم کی ہے جس میں اللہ نے دنیا میں پہلی مرتبہ بارش برسائی ، اس نیت وعزم سے روزہ رکھیں کہ اے اللہ دسویں تاریخ کو آپ نے دنیا میں پہلی مرتبہ بارانِ رحمت کی نعمت عطا فرمائی تھی ، ہمارے صوم عاشورا کے صدقے میں امت مسلمہ سے بالعموم اور مسلمانانِ فلسطین و کشمیر سے بالخصوص مصائب کے پہاڑ ہٹا کررحمتوں کی بارش نازل فرما ۔ اے اللہ ! اسی دسویں محرم کو آپ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت عطا فرمائی تھی ہمارے روزوں کی برکت سے مسلمانانِ عالم کو تسلط وغلبہ عطا فرما’’ اَللّٰہُمَّ لَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لَّا یَرْحَمُنَا ‘‘ اوریہی دسویں تاریخ ہے اور محرم کا مبارک ومحترم مہینہ ہے جس میں یہودیوں کی شرارتوں سے بچاکر آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر بلا لیا تھا ، اے اللہ ! اپنی قدرت ونصرت کا مظاہر ہ فرمادے ۔ اور ہمارے روزوں کی برکت سے اے رب العزت کفار و مشرکین کے اتحاد کی چادر کو پارہ پارہ کردے ۔ مسلمانوں میں عزم جواں اور فولادی ایمان پیدا فرمادے ۔

            اسی ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی کشتی کو سیلاب سے بچا کر کوہِ جودی پر لنگر انداز فرمایا ۔ دسویں تاریخ کو صوم عاشورا رکھ کر یہی دعا کریںکہ اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کی کشتی کو فتنوں کے سیلاب سے بچا کرمحفوظ مقام پر لنگر انداز فرما دیجئے اورہندستان کے مسلمانوں کی حفاظت کا فیصلہ کردیجئے جس طرح پانی کے ایک قطرے کو پانی کے مجموعے میں ملانے سے وہ پانی ہی بن جاتا ہے ، کسی طرح کا امتیاز باقی نہیں رہتا ، لیکن اگر پانی کے کسی حصے کو ’’ امتیاز نوعی ‘‘ کے ذریعہ کوئی اور مشروب بنادیا جائے تو وہ اپنے مجموعۂ آب سے ممتاز رہتا ہے ۔ اسی طرح زمانہ جو ’’ تتابع تعلقات ارادۂ ازلی ‘‘ کا نام ہے اس کے مجموعے کے اجزا کو پھر سے پانی کی طرح اس کے مجموعے میں شامل کردیا جائے تو وہ زمانہ ہی کہلا ئے گا لیکن اگر امتیازنوعی کے ذریعے زمانے کے کسی جز کو الگ کردیا جائے تو مختلف اسما کے ذریعے مجموعۂ زمانہ سے ممتاز رہتا ہے ۔

            یہی بات زمانے کے مجموعے کے اجزا یعنی محرم، صفر، ربیع الاول وغیرہ مہینوں کی ہے کہ انہیں امتیاز نوعی کے ذریعے مختلف ناموں کے سہارے مجموعہ زمانہ سے ممتاز بنا لیا گیا ہے اور مختلف صفات وامتیازات کی وجہ سے اسے مختلف القاب سے نوازا گیا ہے چناں چہ محرم الحرام کو ’’ شہر اللّٰہ ‘‘ کہہ کر جزوی زمانہ کو نوعی امتیاز دے کر مجموعہ زمانے سے الگ کرلیا گیا ہے ۔ پھر اسی شہر اللّٰہ المحرم میں مختلف واقعات کو رونما فرماکر اس کی اہمیت وفضیلت کو اوربھی نمایا ں کیا گیا ہے ۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیںکہ

            حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی بیماری سے محرم کی دسویں تاریخ کو شفائے کاملہ نصیب ہوئی ۔ اب زمانے کے اس جز میں امتیازِ نوعی کے پیشِ نظر تبرکاً ایک مسلمان کی دعا اور نیت یہی ہو نی چاہیے کہ اے اللہ ! جس طرح آپ نے حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی ظاہری سخت قسم کی بیماری سے محرم کے دسویں دن میں شفا عطا فرمائی اسی طرح ہماری اور پوری امت کی روحانی بیماری کو اسی دن کی برکت اور حضرت ایوب علیہ السلام کی شفا کے صدقے میں شفائے عاجلہ مستمرہ سے بدل دے ۔

            یہیں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سال کے بارہ مہینوں میں سے محرم الحرام ، رجب المرجب ، ذی قعدۃ اورذی الحجۃ الحرام کو ’’ اشہر حرم ‘‘ بنا کر نوعی امتیاز کا ایک خاص تمغہ عنایت فرمایا ہے جس میں پہلے جنگ و جدال کی حرمت کا فیصلہ ایک مدت تک کے لیے سناکر بعد ازاں قیامت تک کے لیے انہیں اعمال صالحہ کے لیے بابرکت بنایا ہے کہ ان چاروں مہینوں میں نیک اعمال کا ثواب دیگر ایام اور مہینے میں اعمال صالحہ کے ثواب سے بڑھ جاتا ہے ۔خداوند قدوس کا یہ فیصلہ بھی اسی مجموعۂ زمانے میں سے اس کے چند اجزا کو نوعی امتیاز دے کر عبادات خداوندی میں بندوں کو زیادہ مشغول کرنے کی ترغیب کی ایک مشفقانہ شکل ہے جو خداوند ذوالجلال ہی کا حق ہے ۔ دوسروں کو اس حاکمیت کا حق کیسے پہنچ سکتا ہے جب کہ دوسروں کا حکم بھی پرتوِ حکم خداوندی اوردوسروں کا ارادہ بھی پرتو ارادۂ ازلی ہے ۔

            لہٰذا محرم الحرام کو اشہر حرم کی نوعی خصوصیت کے ساتھ اس کو ایک اورخصوصیت سے نوازا کہ اسی مہینے سے عربی سال کی ابتدا کا قانون صحابہ کے اجماعی فیصلے سے طے کروایا تاکہ اشہر حرم میں بھی محرم کو ایک الگ نوعیت سے اوربھی ایک امتیاز ی خصوصیت حاصل ہوجائے اورمحرم الحرام کو ’’ شہر اللہ ‘‘ کا لقب دے کر اس کی دسویں تاریخ کو روزے کے لیے اس طرح متعین کیا جائے کہ اہل کتاب کے روزوں سے اسے امتیاز نوعی اس طرح حاصل ہوجائے جس طرح آب و آتش اورخاک وباد جیسی غیر قابل قسمت چیزوں میں امتیاز نوعی پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔

            چناں چہ دسویں محرم کے روزے کو گیارہویں یا نویں محرم سے مربوط کرکے روزہ رکھنے کا حکم دینے میں یہی راز کار فرما ہے کہ اہلِ اسلام کے روزے پانی ، آگ اور مٹی وہوا کی مانند یہودیوں کے روزوں کی طرح نہ ہوجائیں ، بل کہ اہلِ اسلام کے روزوں کو نوعی تشخص دے دیا جائے تاکہ اہلِ کتاب کے روزوں سے مسلمانان عالم کے روزے ممتاز رہیں ۔

            اس بات کی تائید مسلم شریف : ۱/۳۵۹ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے ، جس میں آقائے نامدار تاج دار سرتاجِ دوجہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

            ’’ فاذا کان العام المقبل ان شاء اللہ صمنا الیوم التاسع قال: فلم یأت العام المقبل حتی توفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘

            یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا اورصحابہ ؓ کو بھی اس کو حکم فرمایا تو بعض صحابہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! اس دن کو یہود و نصاریٰ روزہ رکھتے ہیں اوراسے بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہـلِ اسلام کے روزوں کو ’’ امتیازِنوعی ‘‘ عطا کرنے کے لیے فرمایا جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیںگے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ جب اگلا سال آیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پردہ فرماچکے تھے ۔

            اس پس منظر میں فقہائے احناف رحمہم اللہ کا فیصلہ ہے کہ عاشورا کا روزہ نویں یا گیارہوں کو ملاکر رکھنا ہی مسنون ہے ، تا کہ اہلِ اسلام کو نوعی تشخص کا تمغہ حاصل رہے اور کسی نے عذر سے صرف دسویں تاریخ کو روزہ رکھ لیا تو گنجائش ہے اورصرف دسویں تاریخ کا روزہ مکروہ تنزیہی کہلائے گا ۔

            ماہ محرم کی برکت وفضیلت کے پیش نظراس ماہ میں شریعت سے ثابت شدہ تمام نیک اعمال کا ثواب دوسرے مہینوں کی بہ نسبت بڑھ جاتا ہے ، اس لیے اعمال صالحہ کے اہتمام کے ساتھ امت میں مجلس ماتم منعقد کرنا، تعزیہ کے جلوس نکالنا، دسویں محرم کو تعطیل کا اعلان کرنا ، کھچڑا پکانا، کھلانا ، ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا ، پانی یا شربت کے لیے سبیل لگانا، مٹھائی بانٹنا محرم میں شادی کا  اہتمام کرنا اوردیگر رسوم ورواج کا اہتمام کرنا جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے ، ان تمام امور سے اجتناب ضروری ہے ۔

            اخیرمیں اللہ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو بالعموم اورہندستانی مسلمانوں کو بالخصوص اللہ تعالیٰ محرم الحرام اور دیگر مہینوں کے شرعی تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے اورر سوم ورواج سے امت کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !