انوار نبوی ا
سالار ِنظامت وبلبل ہند: حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ-رَضِیَ اللّٰہُ تعالٰی عَنْہُمَا-أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ لاِٴَشَجِّ عَبْدِالْقَیْس
”اِنَّ فِیْکَ لَخَصْلَتَیْنِ یُحِبُّہُمَااللّٰہُ:اَلْحِلْمُ وَالْاَنَاةُ “
(أخرجہ مسلم،کتاب الایمان، باب الأمربالایمان باللہ ورسولہ:۱/۳۵)
ترجمہٴ حدیث:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد عبد القیس کے سردارسے ارشادفرمایا کہ ”تمہارے اندر دوایسی خصلتیں ہیں جواللہ تبارک وتعالیٰ کوپسندہیں،ایک ” حلم“ یعنی بردباری ۔
دوسری ”اناة“ یعنی انجام پر نظر۔
حل مفردات:
الأشج:سردارقبیلہ ٴ عبدالقیس کالقب،جن کانام منذربن عائذ یا منذر بن حارث تھا۔
خصلتین:خصلةکاتثنیہ ہے،دو عادتیں۔
یحبہما:یحبفعل مضارع ازافعال۔
محبت کامعنی”مَیْلاَنُ الْقَلْبِ إلٰی شَئٍ“کے ہیں،لیکن یہاں مراد مقتضائے محبت ہے(کیوں کہ باری تعالیٰ قلب سے پاک ہیں)۔
حِلْم:مصدر ازسمع”ضَبْطُ النَّفَسِ عِنْدَ ہَیْجَانِ الْغَضَبِ“کوحلم کہتے ہیں ، یعنی سخت غصہ کے وقت نفس کوقابومیں رکھنا۔
ألاناة:انجام بینی،جلد بازی نہ کرنا۔
شان ورودحدیث:
اس ارشاد کاپس ِمنظر یہ ہے کہ وفد عبد القیس جب مدینہ منورہ پہنچاتووفدکے سب لوگ بعجلت شوق ِلقاء ِرسول میں مسجدنبوی پہنچ کر دیدارنبوی سے اپنے آپ کو تسکین دینے لگے،مگرقافلے کے سالارنے سارے رفقاء کے سامان اورسواری کومرتب کیا،اپنی اونٹنی کوباندھا،پھر بہترین لباس زیب تن کیا،اس کے بعد رسالت مآب ﷺکی خدمت میں حاضری دی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کواپنے پاس بٹھایا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمانوں سے دریافت فرمایاکہ آپ لوگ اپنی طرف سے اوراپنی قوم کی طرف سے، جویہاں نہیں پہنچے بیعت کر لیں گے؟
وفدکے سب لوگوں نے سوائے اشج(سالار)کے اثبات میں جواب دیا،مگرسردار قوم حضرت منذرنے کہا یارسول اللہ!آپ بخوبی جانتے ہیں کہ آدمی کے لئے اپنا دین چھوڑنا سب سے زیادہ مشکل ہوتاہے،ہم اپنی طرف سے تو آپ سے بیعت کرلیں گے اوراپنی قوم کے لوگوں کے پاس دعوت ِاسلام کے لئے آدمی بھیجیں گے،جوہماراپیغام مان لے اس کواپنا سمجھیں گے، اورجولوگ انکار کریں گے،ان سیجنگ کریں گے،اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
”صَدَقْتَ-اِنَّ فِیْکَ لَخَصْلَتَیْنِ یُحِبُّہُمَااللّٰہُ”ألْحِلْمُ والأنَاةُ“۔
فقہ الحدیث:
(۱) عدمِ خوفِ فتنہ کے وقت کسی انسان کے سامنے اس کی تعریف کی جاسکتی ہے۔
(۲) تحمل مزاجی اوردوراندیشی ،دانشمندی اورہوشمندی، امر مستحسن ہے۔
(۳) عجلت،جلد بازی،عدم تحمل، مذموم وغیر مستحسن ہے۔
(۴) اس روایت میں اصالةً اشج عبد القیس کی تعریف،ضمناً انسانیت کواس طرح کے اوصاف حسنہ سے متصف ہونے کی ترغیب ہے۔
(۵) انسان طاعات وافعال میں وقاروتمکنت کے ساتھ جمارہے اورعواقب وانجام پر نظر رکھے۔
(ماخوذ از: ہدیة المتسابقین فی کلام سید المرسلین)