الامام محمد قاسم نانوتوی
تحقیق تشریح:حکیم فخرالاسلام مظاہری
گزشتہ روز علمی سطح پر تبادلہٴ خیالات کے دورانیہ میں ایک عقلی اصطلاح”محال “کی حقیقت سے متعلق کچھ گفتگو سامنے آئی۔ اِس باب میں خود راقم سطور کے ذہن میں ابتدا ہی سے ، یعنی دورانِ تعلیم درسیات اساتذہ کے بتانے سے اورما بعد ادوار میں مطالعہ تصنیفاتِ حکیم الامت کے نتیجے میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ کسی چیز کے محال ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں: ۱-اِجتماعِ نقیضین۔۲-اِرتفاعِ نقیضین۔
پھر مزید مطالعہ سے یہ معلوم ہوا کہ بعض جدید مفکرین مثلاً علامہ شبلی نے ”الکلام“ وغیرہ میں ان دو صورتوں میں حصر کا انکار کیا ہے مگر انکار کی دلیل اْنہوں نے نہیں دی؛بل کہ دلیل کے نام پر جو کچھ لکھا، اْن کی حقیقت محض مغالطے ہیں۔دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ’محال‘ کے مذکورہ دو صورتوں میں حصر کی بھی طبعیاتی تجزیاتی استدلالی نوعیت کی گفتگو بھی نہیں ملی چناں چہ اْس کی تشنگی اورتلاش،بہرحال رہی۔بعد ازاں اِدھر دس ،گیارہ سال قبل پہلی مرتبہ یہ گفتگو حسب دل خواہ الامام محمد قاسم نانوتوی کے ہاں ”تقریر دل پذیر“ کے اندر ملی۔
ملنے کے ساتھ ہی مسئلہ کو سمجھنے کی فکر لگ گئی اور دسیوں، بیسیوں مرتبہ مطالعہ کرکے ،کسی بھی طرح، مسئلہ کو قابو میں کرنے کی کوشش جاری رہی،یعنی ترقیمات؛ معکوفینی اضافات، پیرا گراف، ذیلی عنوانات و حواشی کے سہارے بساط بھر اپنی سی کاوش مسئلہ کو حل کرنے کی ہوتی رہی۔اور اس طرح ہر بار کی کوشش کے نتیجہ میں اپنی ہی حل و تشریح کے بعض بعض اجزا میں خط نسخ، محوو اثبات کا پیہم سلسلہ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک قائم رہا،تا آں کہ اب حالت موجودہ میں ہیئت موجودہ پرجو آپ کے سامنے ہے ،فی الجملہ قرار ہوکر تعدیہ اور اشاعت کی جرائت ہوگئی ۔
مسئلہ اہم بھی ہے اور دشوار بھی،اِس کا اندازہ اْس ایک فقرہ سے ہوتا ہے جو”محال“ کے مسئلہ پرسر سید احمد خاں کو خطاب کرتے ہوئے الامام محمد قاسم نانوتوی کی زبان سے ادا ہوا ،اْنہوں نے فرمایا تھا:
”…مگراتنا ملحوظ رہے کہ محال و ممکن کی تعریف کسی کسی کو معلوم ہے ،یہی وجہ ہوئی کہ بڑے بڑے آدمی اکثر ممکنات کو محال سمجھ بیٹھے ۔“(۱)
————————————————————
حاشیہ: (۱)تصفیة العقائد مکتوب دوم ص۴۵، شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند اگست۱۵ ۲۰
اسی سے ظاہر ہے کہ بحث دقیق ہے اور”محال“ کے اِس مسئلہ کے متعلق اگرامام الطبیعیین اور خاتم المتکلمین محقق نانوتوی نے تحقیق فرمائی ہے ،تو اْس کا ہر لفظ قیمتی ہے اوریہ گفتگو اہل علم کے لیے خاصہ کی چیز ہے۔ بنابریں،راقم کی جانب سے توضیح و تفہیم کے وقت متن کے الفاظ میں حذف و تبدیلی سے گریز کیا گیا ہے ، یعنی اصل مضمون میں کسی تصرف کے بغیرحل و تفہیم کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے ۔اِس حل و تفہیم سے اگر اصل مضمون کے مفہوم کی ادئیگی میں کچھ خلل پیدا ہو گیا ہو، تو نا چیز راقم ظلوم وجہول کے قصور فہم پر محمول کرنا چاہیے ۔آگے محال کے متعلق الامام محمد قاسم نانوتوی کی تحقیق ملاحظہ فر مائیے :
تحقیق الامام محمد قاسم نا نوتوی
محال کی ماہیت:
محال ہونے کی بجز اِس کے کوئی صورت نہیں کہ:
جو دو چیزیں آپس میں ایسی مخالفت رکھتی ہوں کہ وہ دونوں نہ ایک وقت میں ایک شی میں مجتمع ہو سکیں اور نہ دونوں سے وہ شی ایک وقت میں خالی ہوسکے ۔ جیسے ہونا، نہ ہونا، کہ یہ دونوں ایک وقت میں ایک شی میں نہ اکٹھے ہو سکیں اور نہ یہ ہو سکے کہ کوئی شی اِن دونوں سے ایک وقت میں خالی ہو۔ایسی دو چیزوں کا یا تو ایک جگہ، ایک وقت میں مجتمع ہونا محال ہے ، یا ایک شی کا ایک وقت میں اِن دونوں سے خالی ہونا محال ہے ۔(۱)
سوا اِس کے اور کوئی صورت محال ہونے کی نہیں۔(۲) اور شاید اِس میں کوئی نیم ملا تامل کرے ، سو ”ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے ؟“(۳)تجربہ کرلیں، خدا نے چاہا تو ہر محال کاانجام اِن ہی دو باتوں پرقرار پائے گا۔(۴)
————————————————————
حواشی(۱) ”تقریر دل پذیر“کے گزشتہ صفحات میں موجود اصلی کے معدوم ہونے کی مثال گزری جس کا مطلب یہ ہے کہ ”وجود“ہے بھی اور”وجود“نہیں بھی ہے ۔حالاں کہ یہ دونوں(وجود و عدم)نہ ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں،نہ مرتفع ہو سکتے ہیں، کہ کسی شی کو ایک ہی وقت موجود بھی کہا جائے اور معدوم بھی ۔
(۲)بلکہ ایک مقام پراور مختصر تعبیر میں زیاہ سہل طرز پر یوں فرمایا”سوائے کسی کے وجود اور اْس کے عدم کے (جمع ہو جانے کے )اور کوئی مفہوم اپنی ذات سے محال ہی نہیں۔اگر محال ہے ،تو وہ اِنہی دونوں کے اِشتمال کے باعث محال ہے ۔“(تقریر دل پذیرشیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبندص۳۰۹)(۳)ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے ؟یہ ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ عیاں را چہ بیاں۔آرسی ایک چھوٹا سا انگوٹھی نما زیور کو کہا جا تا ہے جسے عورتیں ہاتھ کے انگوٹھے میں اپنا چہرہ دیکھنے کے لیے پہنتی ہیں،یا پہنا کرتی تھیں۔(۴)یعنی”محال ہونے کی بجز اِجتماعِ نقیضین و اِرتفاعِ نقیضین اور کوئی صورت نہیں۔“(فخرالحسن گنگوہی :”تقریر دل پذیر“حاشیہ احمدی ص:۳۰)
مسئلہ کی وضاحت:
مع ہذا ہم سے بھی سنیے ! کہ جو دو باتیں بایں صفت ( وجود اور اْس کے عدم کے ساتھ)موصوف نہ ہوں گی، تو وہ یا تو ایسی ہوں گی کہ ایک وقت میں ایک جگہ مجتمع ہوسکیں،تو اْن کا مجتمع ہونا تو ممکن ہی ہے ، دونوں کے دونوں کا نہ ہونا (بھی)ممکن ہوگا(کیوں کہ امکان کا مطلب یہی ہے کہ دوسری جانب بھی محال نہیں ہے )۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسی شی ہو، کہ اْس میں یہ دونوں نہ ہوں،(بالکل ایسے ہی) جیسے ایک شی میں دونوں اکٹھے ہیں۔
اِجتماع کی حقیقت:
وجہ اِس کی یہ ہے کہ ایک جگہ مجتمع ہونے کے ، حقیقت میں یہ معنی ہیں کہ دونوں کو ایک وجود گھیر ے ہوئے ہے ۔ جیسے اجسام میں رنگ اور مقدار، کہ ایک جسم واحد میں دونوں پائے جاتے ہیں۔سو ،اِس کے یہی معنی ہیں کہ اِن دونوں( رنگ اور مقدار) کو ایک وجود محیط ہے ۔(دونوں کا وجودایک ہے ،)یہ نہیں کہ ہر ایک کا وجود جدا جدا ہے ۔ نہیں تو(اگر دونوں کا وجود جدا جدا ہوتا،تو) یہ دونوں بھی (ایک جسم کے ساتھ وابستہ نہ ہوتے ؛بلکہ)مثل دو جسموں کے جدا جدا دو چیزیں ہوتیں۔
غرض،(رنگ و مقدار میں سے ہر ایک کی ذات جدا ہے ،دونوں کسی ایک وجود سے وابستہ ہو گئے ہیں اور)ایک وجود میں دونوں باہم اِس طرح صلح سے گذارتے ہیں کہ جیسے دو فقیر ایک گدڑی میں گذارہ کر لیں،یہ نہیں کہ مثل دشمنوں کے ایک، دوسرے کا ہونا نہیں چاہتا۔
اجتماع کی شکلیں:
پھر جب اِن (دونوں رنگ و مقدار میں سے ہر ایک)میں اتنی موافقت ہے (کہ ایک وجود میں دونوں گزارہ کر لیں)، تو اِن کی طرف سے اس بات میں بھی انکار نہ ہوگا کہ دونوں کے دونوں عدم میں بھی ساتھ رہیں، یعنی کسی شئ میں دونوں نہ پائے جائیں،کیوں کہ دونوں کے ایک جگہ موجود ہونے سے اِتنی بات نکل آئی کہ اِن دونوں کی ذات میں کچھ مخالفت نہیں۔ سو ،جو ذات وجود میں تھی، وہی عدم میں ہے ، یہاں آکر کچھ بدل نہیں گئی، کیوں کہ ذات اْن ہی خصوصیات کو کہتے ہیں، جو وجود سے علاوہ ایک شی موجودات میں ہوا کرتی ہے ، یعنی جس سے کہ موجودات آپس میں ایک دوسرے سے عقل کے نزدیک متمیز ہیں، چناں چہ اوپر اِس کا بہت مذکور ہو چکا ہے ۔(۱)
————————————————————
حاشیہ:(۱)تقریر دل پذیرشیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبندص۵۲،۵۳،۵۶،۵۷،۵۹،۶۴۔
غرض کہ جو دوچیزیں ایسی ہوا کرتی ہیں کہ کسی شی میں اکٹھی موجود ہوں(جیسا کہ کسی ایک جسم میں رنگ اور مقدار )، تو (اِس قسم کی دو چیزیں ایسی بھی ہو سکتی ہیں کہ)اْن کواپنی ذات سے اِس بات سے بھی انکار نہیں ہوتا کہ دونوں کے دونوں کسی شی میں موجود نہ ہوں۔(۱) ورنہ لازم ہے کہ ایسی دو چیزیں(جنہیں ایک جگہ ہو نے سے انکار نہیں،) نہ ہونے میں جمع نہ ہوا کریں(جیسے رنج ،راحت، عقل کے اندر رنگ و مقدارنہ ہونے میں جمع نہ ہوں)۔
مثال:
حالاں کہ(یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے ،کیوں کہ)ہم دیکھتے ہیں کہ رنگ اور مقدار ایک جسم میں جیسے اکٹھے موجود ہیں، ویسے ہی رنج و راحت، عقل وغیرہ اشیاء میں دونوں کے دونوں نہیں پائے جاتے ؛ کیوں کہ اِن چیزوں(رنج و راحت اورعقل وغیرہ) میں نہ کوئی رنگ ہے ، نہ ( مقدار کہ) اِن کو یہ کہہ سکیں کہ یہ چیزیں مثلاً: اتنی لمبی، اتنی چوڑی، اتنی موٹی ہیں۔
افتراق کی شکلیں :
علی ہذا القیاس،(جس طرح اجتماع فی الوجود کی صورت سے ایک جسم میں دو چیزوں کا ہونا معلوم ہوا، اْسی طرح اِفتراق فی الوجودمیں) یوں سمجھو کہ اگر ایک شی میں کوئی دو چیزیں دونوں کی دونوں نہ پائی جائیں
مثال:
جیسے پانی میں نہ نور ہے ، نہ گرمی۔ اپنی اصل میں پانی اِن دونوں سے خالی ہے ، تو ایسی دو چیزوں کی ذات میں اِس سے بھی انکار نہ ہوگا کہ دونوں کی دونوں کہیں ایک جگہ فراہم ہو جائیں۔چناں چہ نور اور گرمی دونوں کے دونوں آفتاب میں مجتمع ہیں۔
اور اگر کہیں اِس کے خلاف نظر آتا ہے ، جیسے درخت اور پتھر کہ یہ دونوں عدم میں تو مجتمع ہیں- چناں چہ انسان نہ درخت ہے ، نہ پتھر، پر(یہ دونوں) وجود میں مجتمع نہیں ہوسکتے ۔(یعنی) یہ ممکن نہیں کہ کوئی ایسی شی ہو، کہ درخت بھی ہو اور پتھر بھی ہو-تو اِس(عدم میں مجتمع ہونے ) کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بھی محال کی اْن ہی دو صورتیں مرقومہ بالا (اجتماعِ نقیضین اور ارتفاع نقیضین)میں سے ایک پائی جاتی ہے ۔
(۱)”جو دو کہیں اکٹھے موجود ہوں،وہ کہیں اکٹھے معدوم ہو سکتے ہیں۔“(فخرالحسن گنگوہی :حاشیہ احمدی ص۳۱)
محال دو صورتوں میں منحصر:
حصر کی دلیل
پہلی صورت؛اجتماع نقیضین:
اس لیے کہ جب ہم نے کسی چیز کو یوں کہا کہ یہ درخت ہے ، تو ہم نے اِس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لیا کہ وہ پتھر نہیں، آدمی نہیں، گھوڑا نہیں، کیوں کہ درخت تو وہی شی ہوگی، جو نہ پتھر ہو، نہ آدمی ہو، نہ گھوڑاہو۔ پھر اگر وہ پتھر بھی ہو، تو اْس وقت پتھر کا ہونا، نہ ہونا ایک شی میں ایک وقت اکٹھے ہوگئے ۔سو ،ظاہر ہے کہ یہ محال کی پہلی صورت ہے (یعنی اجتماع نقیضین )۔
دوسری صورت؛ارتفاع نقیضین:
ایسے ہی اگر کوئی دو چیزیں کہ اکٹھی ایک جگہ موجود تو ہو سکتی ہیں، پر اکٹھی کی اکٹھی کسی شی سے زائل نہیں ہو سکتیں، تو وہاں بھی وہی پہلی صورت محال کی ہوگی۔مثلاً: جان دار ہونا اور آدمی نہ ہونا۔ یہ دونوں مضمون ایسے ہیں کہ وجود میں تو مجتمع ہو سکتے ہیں- چناں چہ گھوڑا، ہاتھی وغیرہ جان دار بھی ہیں اور آدمی بھی نہیں-پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ (جان دار ہونا اور آدمی نہ ہونادونوں)عدم میں بھی مجتمع ہوں،(یعنی کسی شی سے اکٹھی زائل ہوجائیں)، کیوں کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ جان دار نہ ہو اور آدمی ہو۔(اگر ایسا ہو تو یہ ارتفاعِ نقیضین کی شکل میں محال کی دوسری صورت ہے )۔
اِس میں بھی وہی نکتہ ہے کہ جب تم نے کسی چیز کو یوں سمجھا کہ یہ آدمی ہے ، تو اِس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لیا کہ وہ جان دار بھی ہے ۔ پھر اگر اْس کو یوں کہو گے کہ جان دار نہیں، تو وہی لازم آگیا کہ (آدمی)جان دار بھی ہے اور جان دار بھی نہیں۔سو ،یہ بھی وہی صورت محال کی ہے۔
(یعنی اجتماعِ نقیضین)
محال ہونا منحصر ہے اِجتماعِ نقیضین اور اِرتفاعِ نقیضین میں
غرض کہ، محال اگر لازم آئے گا، تو اِن ہی دو صورتوں (اِجتماعِ نقیضین اور اِرتفاعِ نقیضین) کے پیش آنے کے سبب لازم آئے گا۔ نہیں تو کوئی سی، دو چیزیں لے لو،(کہ) اْن کا وجودمیں مجتمع ہونا محال ہے اور نہ عدم میں،(لیکن ایسی کوئی بھی صورت لی ہی نہیں جا سکتی، محال ہونے کے لیے اِجتماعِ نقیضین اور اِرتفاعِ نقیضین میں سے کوئی نہ کوئی ایک صورت ضرور ہو گی،یا تو وجود میں اجتماع محال ہو گا یا عدم میں ،بغیر اِن دو صورتوں کے کوئی صورت بھی محال ہو نے کی نہیں نکل سکتی ۔)
اصول:دو چیزیں جن کا اجتماع ممکن ہو،
اُن کا علاحدہ ہونا بھی ممکن ہے
اب سنیے !کہ جیسا اِن دو چیزوں کا -جووجود میں مجتمع ہیں- عدم میں مجتمع ہونا محال نہیں یا برعکس(عدم میں مجتمع ہیں، وجود میں مجتمع ہونا محال نہیں) ،ایسا ہی اِن کا جدا جدا ہونا بھی محال نہیں۔(۱)کیوں کہ جب اِن(دو چیزوں ) کو دو کہا، تو یہ معنی ہوئے کہ اِن کی ذات جدا جدا ہے ۔ اور ذات کے وہی معنی ہیں، جو اوپر مذکور ہوئے۔(۲)اور جب ذات جدا ہوئی، تو اکٹھے ہونے کے پھر یہی معنی ہیں کہ ایک وجود اِن دونوں کو لپٹ رہا ہے ، ورنہ حقیقت میں جدا جدا دو چیزیں ہیں۔سو ،ایسی دو چیزوں میں سے (جن کی ذات جدا جدا ہیں ) اگر ایک کو نکال لیں اور ایک کو رہنے دیں، تو کچھ خلاف ِعقل(اور محال ) نہیں ۔
اجتماع وجودو عدم،اِفتراق وجودو عدم
اِس واسطے (کہ)ہم بہت سی (دو)چیزوں کو دیکھتے ہیں کہ: وہ وجود میں مجتمع ہیں، جیسے :سرخی اور خوش بو گلاب کے پھول میں۔ یاعدم میں مجتمع ہیں،جیسے : گرمی اور نور بہت سے پانیوں میں(کہ جن میں نہ گرمی ہے ،نہ روشنی)اور پھر وہ علاحدہ علاحدہ پائے جاتے ہیں۔ علی ہذا القیاس(اِسی پر قیاس کرتے ہوئے اجتماع فی الوجود،اِجتماع فی العدم کی دیگرنوعیتوں کو سمجھا جا سکتا ہے ۔)
چناں چہ(سرخی اور خو ش بو ہی کو لیجیے کہ) بہت سے پھول اور کپڑے وغیرہ سرخ ہوتے ہیں، اُن میں خوش بو نہیں ہوتی۔گلاب کے عرق میں خوش بو ہے ، تو سرخی نہیں، گرم پانی میں گرمی ہے ، تو نور نہیں، کرم شب تاب(جگنو) کی دم میں نور ہے ، تو گرمی نہیں۔
ثابت شدہ اصول:اجراوانطباق:
( یہیں سے یہ اصول معلوم ہوا کہ )، جو چیزیں جدا جدا پائی جاتی ہیں، اْن کا وجود اورعدم میں مجتمع ہونا بھی محال نہیں۔ اگر کہیں محال نظر آتاہے ، تو محال کی ان ہی دو صورتوں (اجتماع نقیضین یا اِرتفاعِ نقیضین)میں سے کوئی نہ کوئی ہے ۔
————————————-
حواشی:(۱)اُسی اصول پر بنا قائم ہے کہ شی کی ”ذات “اور” وجود“الگ الگ ہیں،پھر اگر دونوں کا جمع ہونا ممکن ہے ،تو جدا ہو نا بھی ممکن ہے۔ دیکھیے :تقریر دل پذیرشیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبندص۵۲،۵۳،۵۶،۵۷تا۶۰۔
(۲)کہ شی کی خصوصیات کو ہی ”ذات“کہتے ہیں جو ”وجود “سے علحدہ ہے ۔(ایضاً حوالہ بالا)
احتمالات بالا سے متجاوز کوئی احتمال نہیں:
اب غور کرنے کی جاہے کہ ماسوا ایسی چیزوں کے ، جن میں ایسی مخالفت اور دشمنی ہو کہ نہ وہ وجود میں اکٹھی ہو سکیں، نہ عدم میں، اِس سے زیادہ احتمال نہیں ہوسکتے کہ جتنے میں نے بیان کیے ،چناں چہ اہل عقل پر مثل آفتاب روشن ہے ۔پھر اْن میں بھی اگر کوئی صورت محال ہے ، تو اِسی سبب سے ہے کہ وہی محال کی پہلی صورت(اجتماع نقیضین ) یا دوسری (صورت ارتفاع نقیضین) ہے ۔
اصول:وجود و عدم کا اجتماع محال، اس لیے موجود اصلی کا معدوم ہونا محال
ہر اس چیز کا معدوم ہونا ممکن جس کی ذات اور وجود الگ الگ ہوں۔
تو اب اگر یہ کم ترین یوں کہے کہ موجود اصلی (خدا)کا معدوم ہونا تو محال ہے اور آسمان کا (بل کہ ہر شی کا)معدوم ہونا ممکن، تو کوئی ظلم کی بات نہیں، کیوں کہ موجود اصلی یعنی خداوند کریم کا وجود تو عین ذات ہے ۔سو، اگر وہ معدوم ہو ،تو یہ معنی ہوں کہ وجود معدوم ہے ۔اور چوں کہ معدوم ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وجودنہیں، تو وجو د کے معدوم ہونے کے یہ معنی ہوئے کہ وجود، وجود نہیں۔ اور یہ وہی پہلی صورت محال کی ہے (یعنی اجتماع نقیضین کہ وجود اور عدم دونوں کا اقرار ہے )۔
(حاصلِ گفتگو یہ کہ ”وجود“اور ”ذات“ کے ایک ہونے کی وجہ سے موجود اصلی کا معدوم ہونا تو محال ہوا)، بہ خلاف آسمان(یا کسی بھی دیگر شی ) کے ، اس لیے کہ اُس کا” وجود“ اور(ہے )” ذات“ اور ہے -چناں چہ اچھی طرح واضح ہوچکا- تو وہ(آسمان یا کائنات کی کوئی بھی بہ ظاہردائمی نظرآنے والی چیز) اگر معدوم ہو، تو یہ معنی ہوں(گے ) کہ اُس کی ذات سے یہ وجود ظاہری الگ ہوگیا۔ اور ظاہر ہے کہ (یہ بات محال نہیں،کیوں کہ)اِس میں اْن دونوں محال کی صورتوں(اجتماع نقیضین وارتفاع نقیضین) میں سے ایک بھی نہیں۔
نتیجہ بحث : القصہ،محال اْسے کہتے ہیں کہ عقل اْسے قبول نہ کرے اور وہ فقط ایک بات سے حاصل نہیں ہوتا، اِس کے واسطے ضروری ہے کہ ایسی دو چیزیں جو وجود اور عدم دونوں میں اکٹھی نہ ہو سکیں(اُن کا کسی ایک جگہ یک جا ہو نا لازم آ جائے )،یا تو کہیں وجود میں اکٹھی ہو جائیں یا کہیں عدم میں یعنی کوئی ایسی شی ہو کہ اْس میں وہ دونوں نہ پائی جائیں۔
راقم فخرالاسلام عرض کرتا ہے کہ الامام محمد قاسم نانوتوی کی گفتگو ختم ہوئی۔ اور یہ ثابت ہوا کہ محال کی حقیقت نقیضین کاجمع ہونا اور اُٹھ جانا ہے ،یا کہنا چا ہیے کہ عدم و وجود کا اِجتماع ہے ،جو الامام کے الفاظ میں ”تقریر دل پذیر“میں ہی ایک دوسرے موقع پر اِس طرح ادا ہوا ہے :
”سوائے کسی کے وجود اور اْس کے عدم کے (جمع ہو جانے کے )اور کوئی مفہوم اپنی ذات سے محال ہی نہیں۔اگر محال ہے ،تو وہ اِنہی دونوں کے اِشتمال کے باعث محال ہے ۔“(۱)
———————————–
حاشیہ(۱)تقریر دل پذیرشیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبندص۳۰۹۔