مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی
حامدا ومصلیا ومسلما وبعد!
اللہ کے فضل و کرم سے جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں” مجمع القاسمی الدولی“ کے زیر اہتمام محترم جناب مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد وستانوی صاحب مدظلہ العالی اور محترم جناب مولانا حکیم فخر الاسلام صاحب مظاہری الٰہ آبادی کی سرپرستی و نگرانی میں جامعہ اکل کوا کی دارالحدیث میں علم ِکلام کے موضوع پر ”حکمتِ حقَّہ اور حکمتِ باطلہ“ کے ذیلی عنوان کے تحت ایک دو روزہ سیمینار بتاریخ یکم ذی الحجہ ۱۴۴۵ھ منعقد ہوا، جس میں جامعہ اکل کوا کے علیا کے اساتذہ اور عربی درجات میں پنجم، ششم، دورہ، افتا اور تخصصات کے طلبہ نے شرکت کی۔
اس سیمینار میں مولانا حذیفہ مولانا غلام وستانوی مدظلہ العالی کی تمہیدی گفتگو کے بعد مولانا حکیم فخر الاسلام مظاہری الٰہ آبادی مدظلہ دو روز کی چار نشستوں میں ”حکمتِ حقہ اور حکمت باطلہ“ کے جامع عنوان کے تحت علمِ جدال کے مختلف پہلووٴں پر چشم کشا اسلوب میں روشنی ڈالی۔
آپ کے محاضرہ میں حکمت ِباطلہ کے تحت فلسفہ کی سمی وتریاقی اقسام پر سیر حاصل گفتگو ہوئی، جس سے واضح طور پر پتہ چلا کہ باطل افکار نے فلسفہ کے سمی پہلوؤں سے حق پر غلبہ پانے کی جو ناکام کوششیں کی ہیں، ان پر متکلمینِ اسلام کے علم جدال کے معرکة الآراء اور قدیم اصولوں سے فلسفے کی ”سمی پہلو“ کو” تریاقی مواد“ سے مغلوب کر کے ﴿لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہ﴾ کا صاف نظارہ کرا دیا ہے۔
حکیم فخر الاسلام صاحب مدظلہ العالی نے تقابل کی اقسام پر گفتگو کرتے ہوئے نہایت موٴثر اسلوب میں فرمایا کہ دو امر متقابل یا وجودی ہوں گے یا وجودی نہ ہوں گے، اگر دونوں امر وجودی ہیں تو ایک کا سمجھنا دوسرے پر موقوف ہے، تو یہ تقابل ”تقابلِ تضایف“ کہلاتا ہے اور دونوں” متضائف“ کے نام سے جانے جاتے ہیں اور اگر ایک کا سمجھنا دوسرے پر موقوف نہیں، تو با ہم اگر تضاد ہے تو یہ تقابل ”تقابلِ تضاد“ اور دونوں باہم متضاد ہوں گے۔
اور اگر دونوں متقابل امر وجودی تو نہیں، بل کہ ایک وجودی اور دوسرا عدمی ہے، تو یہ دیکھا جائے گا کہ محلِ عدمی امرِ وجودی کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں، اگر محلِ عدمی میں وجودی کی صلاحیت موجود ہے، تو دونوں امر میں” تقابلِ عدم و ملکہ“ پایا جائے گا اور اگر امرِ عدمی میں وجودی کی صلاحیت نہیں ہے، تو دونوں امر” ایجاب و سلب“ کا تقابل رکھیں گے۔
حکیم صاحب الٰہ آبادی مدظلہ نے قرآنِ کریم کی آیت ﴿خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا﴾پڑھ کر یہ اقسامِ تقابل سامعین کو گوش گزار کر ائیں اور حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کو لکھا ہوا ایک مکتوب بھی پڑھ کر سنایا۔
آپ نے حکمت کی دو قسمیں کرتے ہوئے” حکمتِ یونانیاں“ اور” حکمتِ ایمانیاں“ کے تحت گفتگو کرتے ہوئے بڑے حسین پیرائے میں”مقو لاتِ عشر“ پر کلام فرمایا، درمیان میں وقفہ ٴسوالات میں طلبہ نے حکمت یونانیان اور حکمتِ ایمانیاں ؛نیز مقولاتِ عشر کے حوالہ سے سوالات بھی کیے، جن کے جوابات بھی حکیم صاحب نے دل چسپ اسلوب میں دیے ، مقولات کے سلسلے میں جواب دیتے ہوئے آپ نے کہا کہ جتنی چیزیں موجود ہیں یا تو جوہر ہیں یا عرض۔
اگر کوئی چیز عرض ہے، تو مقولہ کی۹/ اقسام میں سے ہوگی، وہ نو اقسام حسب ذیل ہیں:
(۱)کم ہے یا (۲) کیف ، (۳) مکان ہے یا(۴) زمان، (۵)اضافت ہے یا (۶) وضع، (۷) ملک ہے یا(۸) فعل و (۹) انفعال۔ جوہر اور عرض کی۹/ اقسام کو شامل کر کے مقولات کل دس ہیں، جن کو”ارسطو“ نے بیان کیا ہے۔
مقولاتِ عشر کی بالترتیب مثالیں یہ ہیں:
(۱)… آدمی جوہر کی مثال ۔
(۲)…بالشت کم کی مثال ۔
(۳)… سفید، سیاہ کیف کی مثال ۔
(۴) …مسجد، بازار مکان کی مثال ۔
(۵) …آج، کل زمان کی مثال ۔
(۶)… نصف، ثلث اضافت کی مثال۔
(۷) …جالس ، قائم وضع کی مثال۔
(۸) …”شاکی السلاح“ ملک کی مثال
(۹)… کھلانا، ہلانا فعل کی مثال ۔
(۱۰)… کٹ جانا، لڑھک جانا انفعال کی مثال۔
۲/ ذی الحجہ ۱۴۴۵ھ یک شنبہ کو تقریباً ساڑھے بارہ بجے تک چوتھی نشست چلی، حکیم صاحب مجمع الفکر القاسمی کے تحت دیوبند میں علمِ کلام کے عنوان پر تیس روزہ ایک سیمینار بھی کر چکے ہیں، آپ کی تربیت میں رہنے والے کچھ طلبہ نے بھی حکیم صاحب کی ایما پر اپنے پروگرام پیش کیے۔
عزیزم عبدالفتاح سلمہ نے شرحِ عقائد نسفی کی عبارت” حقائقِ الاشیاء ثابة“ سے لے کر تقریباً ۳/ صفحے عبارت مع ترجمہ پڑھ کر سنائی، جس میں فرقہ ٴلا ادریہ، عنادیہ، عندیہ کا بھی ذکر آیا اور دو طلبہ حارث اور اس کے ساتھی ثاقب سلمہما نے بھی” حکمتِ حقہ و حکمت ِباطلہ“ کے تحت حکیم صاحب کا تیار کردہ مضمون سامعین کو سنایا۔
الحمدللہ سیمینار کی تمام نشستیں بڑی مفید پُر لطف اور امید سے زیادہ پُر مغز رہیں۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مولانا حکیم فخر الاسلام صاحب کا سایہ امت پر تادیر قائم رکھے اور حضرت مولانا حذیفہ غلام محمد وستانوی مدظلہ العالی کی سرپرستی میں دو نفری کارواں علم جدال کا پرچم لے کر تمام حوادث کا مقابلہ کرتا ہوا چلتا پھرتا اور رواں دواں رہے۔
بقول شاعر
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
۲/ ذی الحجہ۱۴۴۵ ہجری یک شنبہ