بعد ِ عصرطلبۂ جامعہ کے سوالات اور مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کے جوابات
قارئین !جیساکہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ ۴؍مئ۲۰۲۵ء کو اس باغ کے مالی جامعہ اکل کوا کے بانی اور ہم سب کے مربی اپنی عمر ِمستعار اور ایک کامیاب ترین ،مثالی زندگی گزار کر،اپنے رب کے حضور اس دارِ فانی میں کیے گئے بے شمار دینی،قومی،ملی ،رفاہی ہر طرح کی بے مثال خدمات کا انعام پانے دار باقی کی طرف رحلت کرگئے۔آپ اس قدر اپنے کام میں مخلص تھے کہ آپ نے کبھی کسی بھی کام کی نسبت اپنی طرف نہیں کی ،آپ کی زبان سے بیماری کے ایام میں بھی لفظ ’’میں‘‘ نہیں نکلا ؛ہر کام کو آپ جامعہ کی طرف منسوب کرتے اور آپ نے اپنی حیات میں ہی جامعہ کے نظام کو اپنے بعد بغیر کسی خلل کے جاری وساری رہنے کا مکمل نظام وانتظام منجانب اللہ کر دیاتھا اور اپنے پیچھے نہایت ہی قابل و ہونہار خلف رشید اور فرزندان چھوڑگئے ، جو آپ کے لگائے ہوئے ، تمام باغات علمی ،قومی وملی کی بحسن وخوبی باغبانی کر رہے ہیں۔
اسی کی ایک کڑی بعد نماز عصر طلبۂ شعبۂ کتب کے مابین تربیتی مجلس ہے ، جس سے قارئین شاہراہ ’’ملفوظات وستانوی ‘‘کے عنوان سے مستفید ہوتے آرہے ہیں اور اب اسی کڑی کی ایک جھلک سے آپ بعنوان’’ مجالس وستانوی‘‘ مستفید ہوں گے ،جس کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ حضرت پہلے کچھ اصلاحی بات کرتے ہیں، پھر طلبہ کے کچھ علمی سوالات ہوتے ہیں،جس کے اطمینان بخش عقلی ونقلی جوابات آپ طلبہ کو دیتے ہیں ،جو ان شاء اللہ قارئین شاہراہ کے حق میں بھی نہایت مفید ہوں گے۔
نوجوانوں کی علما سے دوری، اسباب و تجاویز:
ابھی نماز سے پہلے کچھ لوگ ملنے کے لیے آئے۔ نوجوان علما کا ایک وفد تھا۔ وہ اپنے علاقے کے بارے میں بیان کر رہے تھے کہ ایسا شہر ہے جہاں علما کی بھی کثرت ہے، اور اطراف میں مدارس بھی ہیں، مگر اس کے باوجود نوجوانوں میں نشہ عام ہو رہا ہے، نوجوان دین سے دور ہو رہے ہیں۔
رمضان سے پہلے بھی ملک کے مختلف خطوں کا سفر ہوا، تو بہت سارے علاقوں میں لوگوں نے یہ شکایت کی کہ نوجوان، علما اور دین سے دور ہو رہے ہیں۔
اس کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں؟
اس کی ایک سب سے بڑی وجہ تو یہ سمجھ میں آئی کہ:
’’ ہمارے مکاتب کا تعلیمی نظام مؤثر نہیں ہے۔ مکاتب کے نصاب اور طریقے ہر دوکو مؤثر بنانے کی از حدضرورت ہے۔‘‘
ایک اور وفد آیا۔ انہوں نے کہا:
’’ہم کو مفتی صاحب چاہیے، قاری صاحب چاہیے۔‘‘
میں نے کہا کہ آپ کے یہاں تو مفتی ہیں۔ تو انہوں نے کہا:
’’دو چار مفتی ہیں اور ایسے علما بھی ہیں جنہوں نے ( نصاب ِدرس نظامی سے )فارغ ہونے کے بعد ایک ایک سال بھی لگایا ہے، مگر ان کا مزاج عجیب ہے۔ وہ نوجوانوں اور عامۃ الناس سے مربوط نہیں ہو پاتے ۔ چھوٹی چھوٹی بات میں غصہ آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگ ان سے جڑتے نہیں ہیں۔‘‘
اس طرح کے مسائل ہمارے سامنے آئے تو ہمیں فکر ہوئی کہ ہمارے فضلاء کو یہ بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ:
وہ عوام میں جا کر کیسے محنت کریں؟
وہ نوجوانوں کے ساتھ اپنا ربط کیسے قائم کریں؟
وہ بچوں کی نفسیات کو کیسے سمجھیں؟
وہ عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کریں؟
زمانے کی صورتِ حال اور فتنۂ ارتداد: علامہ بنوریؒ کے چشم کشا افکار کی روشنی میں:
آج دوپہر میں حضرت علامہ یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا (وہ دراصل حضرت کی تقریر تھی جو آپ نے انیس سو ساٹھ (1960ء)میں، یعنی آج سے پینسٹھ (65)سال پہلے کی تھی، کسی اور نے اس کو لکھ کر شائع کیا ہے)۔ اس مضمون میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے تذکرہ کیا کہ:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر آج تک اسلام پر اور خاص طور پر مسلمانوں پر ایسا دور نہیں آیا، جیسا دور اس وقت آیا ہے کہ مسلمان اپنے عقائد سے بھی واقف نہیں۔‘‘
اس کو یہ بھی نہیں معلوم کہ بحیثیت ِمسلمان اس کا عقیدہ کیا ہونا چاہیے؟! اور جب عقیدہ نہیں معلوم ، تو اعمال اور اخلاق تو کجا۔ اور جب اعمال اور اخلاق نہیں ، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ اسلام پر باقی بھی نہیں رہ سکتا ۔
فتنۂ ارتداد، ایک بڑا المیہ:
فتنۂ ارتداد ہمارے معاشرے میں عام ہو چکا ہے۔ ابھی دو دن پہلے کچھ لوگوں نے بتایا کہ:
’’مولانا! ہمارے علاقے میں ہر تھوڑے دن میں کسی نہ کسی کے مرتد ہونے کا واقعہ پیش آتا ہے۔‘‘
چار دن پہلے ایک عالم صاحب آئے، انہوں نے کہا کہ ایک لڑکی، جس کے والد عالم، بھائی عالم اور قاری، اس کی والدہ عالمہ، اور وہ غیر کے ساتھ چلی گئی۔ پورے گھر میں دین ہے، والد بھی عالم ہیں، بھائی بھی عالم ہیں، یہاں تک کہ اس کی والدہ بھی عالمہ ہیں، اس کی شادی بھی ہوچکی ہے، اس کے باوجود وہ کسی غیر کے ساتھ بھاگ گئی۔
اور وہ غیر بھی کون؟! جو صاف صفائی کا کام کرتا ہے! آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کتنا گھٹیا ہوگا! یہ مسائل ہمارے معاشرے میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے علما، مدارس، ہمارے مدرسے میں پڑھنے والے طلبہ سب کو فکر مند ہونا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
اس سلسلے میںدو بنیادی اور مئوثرکام یہ سمجھ میں آئے کہ:
٭…ایک تو مکاتب کے نظام کو مؤثر بنانا ہے۔
٭…دوسرا یہ کہ بچہ جب گیارہ بارہ سال کا ہوتا ہے اور وہ مکاتب سے جڑا ہوتا ہے تو اس کا ناظرہ قرآن پورا ہو جاتا ہے۔ وہ بچہ ساتویں، آٹھویں، نویں، دسویں، گیارھویں، بارھویں — پانچ سال مزید پڑھتا ہے، مگر وہ ناظرہ مکمل ہونے کے بعد مکتب نہیں آتا۔
اور یہ وقت اس کا عینِ شباب کا ہوتا ہے، اس کی نئ جوانی کی عمر ہوتی ہے، جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، جس کو ہمارے فقہا نے مراہقت کی عمر کہا ہے، ’’مراہق‘‘ہو گیا، بلوغت کے قریب پہنچ گیا۔ اس وقت اس کو زیادہ سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے، مگر وہ علما کے پاس نہیں جاتا، مکتب میں بھی نہیں آتا،اور گھر میں ہمارے تعلیم وتربیت کا ماحول تو جگ ظاہر ہے ، تو لازمی ہے کہ گناہوں میں پڑ جائے گا یا بے راہ روی کا شکار ہو جائے گا۔
رمضان سے پہلے بھی بہت سارے علاقوں میں جانا ہوا، تو وہاں بھی یہی بات آئی۔ تو ہم نے کہا کہ:
ہم آٹھویں، نویں، دسویں، گیارھویں اور بارھویں پڑھنے والے طلبہ کے لیے ایک مختصر سا کورس بنائیں گے۔ ان بچوں کو بھی مکتب میں لایا جائے، مسجد میں لایا جائے، اور انہیں پڑھایا جائے، جس میں ان کو اردو میں کچھ احادیثِ مبارکہ پڑھائی جائیں، روزمرہ کی زندگی اور آج کل کے حالات کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ وہ مسائل انہیں بتائے جائیں۔
علما اور نوجوان کے مابین: سوال و جواب کے ذریعے فکری و ایمانی ربط کی اہمیت:
سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ ہمارا نوجوانوں کے ساتھ ایسا ربط ہونا چاہیے کہ ہمارے علما نوجوانوں سے کہیں کہ:
’’آپ سوال کرو، ہم آپ کے سوالات کے جواب دیں گے۔‘‘
کہتے ہیں کہ ’’حسن السوال نصف العلم‘‘ — سوال کرنا آدھا علم ہے۔( دروس للشیخ ابی اسحاق الحوینی، ج:۷، ص:۳، شرح حدیث صفوان بن عسال فی المسح علی الخفین)لیکن ہمارے معاشرے سے سوال کرنا اورکچھ سیکھنا ہی ختم ہو گیا ہے۔ سوال کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ جو کرتا ہے، وہ بھی شرماتا ہے۔اور ادھر مختلف چیزیں دیکھ کر سن کر ظاہر سی بات ہے کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے ذہنوں میں سوالات آ رہے ہیں، اور اگر ان سوالات کا جواب ہم نہیں دیں گے، تو پھر وہ سوال شکوک و شبہات میں تبدیل ہو جائیں گے،اوروہ انٹرنیٹ پر جا کر اپنے سوالوں کے جواب تلاش کریں گے، الامہ گوگل کے پاس جا کر۔
ابھی نیا مفتی آیا ہے: مفتی چیٹ، جی پی ٹی وغیرہ — وہ ان سے جا کر اپنے سوالوں کے جواب تلاش کریں گے، اور وہ انہیں کچھ بھی بتائیں گے!یہ ہمارے نوجوان کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
’’کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ آنے والے پانچ یا دس سال بعد ہمارا معاشرہ کس سمت جا رہا ہوگا؟
اگر ہم نے آج دین پر سنجیدگی سے محنت نہ کی، تو آئندہ نسل کا ایمان پر قائم رہنا بے حد مشکل ہو جائے گا۔ فتنوں کی آندھیاں تیز ہو چکی ہیں، چیلنجز ہر طرف سے آ رہے ہیں، اور ٹیکنالوجی کی ایسی ایسی شکلیں سامنے آرہی ہیں، جو انسان کے عقیدے، سوچ اور کردار کو جڑ سے ہلا دینے کی طاقت رکھتی ہیں۔ اگر ہم نے بروقت اس کا ادراک نہ کیا، تو آنے والے دن ہمارے لیے صرف تماشائی بن کر دیکھنے کے دن ہوں گے—اور شاید ندامت اور خون کے آنسوئوں سے بھی تلافی نہیں ہوگی!‘‘
آج ہی دوپہر میں ہم لوگ گھر میں بیٹھے یہ گفتگو کر رہے تھے کہ:
’’آج کل کے بچے پڑھنے کے لیے تیار نہیں، کتاب کو ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہیں۔تو آئندہ پانچ، دس سال بعد جو بچے آئیں گے، ان کا کیا ہوگا؟‘‘
بڑے مسائل ہیں!ان مسائل کو حل کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
بہر حال ہم لوگ اس کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور ان شاء اللہ کوشش بھی کریں گے کہ
ان مسائل کو کیسے حل کیا جائے؟
نوجوانوں کو علما سے کیسے قریب کیا جائے؟
نوجوانوں کو دین سے کیسے قریب کیا جائے؟
اس کے لیے محنت، فکر، جدوجہد کرنا ہمارا دینی، اخلاقی اور مذہبی فریضہ ہے۔ ہمیں اپنے مسائل کو سوچنا چاہیے، اور آدمی جب اخلاص کے ساتھ صحیح فکر لے کر کھڑا ہوتا ہے، تو اللہ اس پر راہ کھول دیتے ہیں ۔ لہذا سب سے پہلے اپنی نیتوں کا خالص ہونا ضروری ہے۔
شہروں میں ٹیوشن کا نظام اور علمِ دین کی بے وقعتی:
اب دین سکھانے کو بھی ہم نے دنیا بنا لیا۔ شہروں میں ہوتا یہ ہے کہ علما گھروں پر جا کر ٹیوشن پڑھاتے ہیں، وہی پانچ سو، ہزار روپے ٹیوشن کے ملتے ہیں۔ یہاں گئے، وہاں گئے۔جب کہ ہمارے سلفِ صالحین کا طریقہ یہ رہا کہ:
’’جس کو طلب ہے وہ دین سیکھنے کے لیے آئے، ہم اس کے پاس نہ جائیں۔‘‘
’’ہارون رشید‘‘ نے اپنے زمانے میں ’’امین‘‘ اور’’ مامون‘‘ کو پڑھانے کا مطالبہ کیا، تو اس زمانے کے علما نے کہا:
’’ہم تمہارے محل میں پڑھانے کے لیے نہیں آئیں گے، آپ کو پڑھانا ہے تو ان کو ہمارے پاس بھیجو۔‘‘
وہ بادشاہوں کے بچوں کو بھی ٹیوشن دینے اور پڑھانے کے لیے نہیں جاتے تھے۔ اور آج ہم حقیر سی دنیا کے لیے ٹیوشن پڑھانے چلے جاتے ہیں، تو علما کی وقعت کم ہو جاتی ہے۔
آن لائن تعلیم میں صحبتِ علمیہ کا فقدان:
اب تو ایک اور نئی بدعت اور آفت آئی ہے:’’ آن لائن پڑھائی۔‘‘
کہ جہاں بھی رہتے ہیں، وہیں سے آن لائن پڑھاتے ہیں، اور آن لائن پڑھا کر وہی بزنس چل رہا ہے۔
ناظرۂ قرآن پڑھانے کے ہزار روپے۔
پارہ پڑھانے کے ہزار روپے۔
دین کی فلاں کتاب پڑھانے کے اتنے روپے۔
جب وہ عالم کی صحبت میں بیٹھے گا نہیں تو اس پر دین کا رنگ کیسے چڑھے گا؟
کہیں نہ کہیں ہم — یعنی علما اور طلبا — بھی ان سب چیزوں کے ذمہ دار ہیں کہ ہم لوگوں نے دنیا کے پیچھے لگ کر اپنے دین کو جیسے سکھانا چاہیے ویسا نہ سکھایا اور نہ سکھا رہے ہیں۔
مدارس، تحفظِ اسلام کی عالمگیر تحریک:
بہرحال عوام سے ملنا جلنا اور ان کے مسائل کو سن کر اس کے بارے میں غور کرنا ہم علماء کی ذمہ داری ہے۔
جب ’’دارالعلوم دیوبند‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی، تو کسی نے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو خبر دی کہ دیوبند میں ایک مدرسہ بنایا گیا ہے، تو حضرت نے فرمایا:
’’یہ مدرسہ نہیں ہے، یہ اسلام کے تحفظ کی ایک تحریک ہے، اور اس کے فوائد صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہوں گے، بل کہ پوری دنیا میں اس کے فوائد پہنچیں گے۔ اور اللہ نے قیامت تک کے لیے نہ صرف اس ملک ،بل کہ پوری دنیا کے اہلِ سنت والجماعت کے صحیح مسلک کی حفاظت کا انتظام کر دیا ہے۔‘‘
تو اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے مدارس کی ذمہ داری کیا ہے؟
ہماری ذمہ داری صرف اپنے گاؤں، اپنے ملک کے مسائل یا مسلمانوں کے مسائل تک محدود نہیں، بل کہ پوری دنیا کے لوگوں کی فکر کرنا ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔
نماز میں تصورِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ:
میں نے اس سے قبل کہا تھا کہ طلبہ بھی سوال کر سکتے ہیں۔ ایک طالب علم نے سوال کیا ہے:
سوال: ’’اگر نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آ جائے تو نماز کے فساد کا کیا مسئلہ ہے؟ ہمارا اور بریلوی حضرات کا اس میں بہت بڑا اختلاف ہے، واضح فرمائیں!‘‘
جواب: اس اختلاف کی وجہ ایک صاف ستھری بات کو نہ سمجھنے پر ہے۔صراط مستقیم حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒکی لکھی ہوئی ایک اہم ترین کتاب ہے۔اس میں حضرت مولانا نے تصوف کے آخری احسان کو سمجھایا ہے،جو صوفیائے کرام کے یہاں ”صَرْفِ ہِمّتْ“ کہلاتا ہے یہ وہ منزل ہوتی ہے جو صحابہ کرام کو اور بڑے بڑے اولیاء کرام کو حاصل ہوتی ہے، اس منزل تک وہی پہنچے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت رکھے گا اور ان کی ہرہر سنت کا اتباع کرے گا، احسان کی منزل کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے’’ الاحسان أن تعبد اللہ کأنک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک‘‘، یعنی اس منزل پر پہنچ جانے کے بعد آدمی اس طرح نماز پڑھتا ہے کہ وہ براہ راست اللہ سے مناجات کرتا ہے، جس عظیم شخصیت کی محبت و عظمت واطاعت کی بدولت اللہ کا ولی احسان کے مقام پر پہنچا ہے ظاہر ہے کہ جب اللہ کا ولی نماز کی حالت میں اللہ سے ڈائرکٹ مناجات اور ہم کلامی کررہا ہوتو حقیر اشیاء کا خیال آنے سے اس توجہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا لیکن جب سب سے عظیم اور بزرگ و مقدس اور سب سے بڑے محسن کا تصور آجائے گا تو پورے ادب و احترام اور پوری عظمت کے ساتھ آئے گا، تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی شان و شوکت او ر عظمت کی وجہ سے ولی کی جو ہم کلامی او رمناجات اللہ سے پوری توجہ کے ساتھ نماز میں جاری تھی وہ توجہ اللہ کی طرف سے ہٹ جائے گی، یہی چیز حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒنے بیان فرمائی ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی عظمت و رفعت کو بیان فرمایا ہے، جس کو ہمارے کرم فرماؤںنے حضور کا خیال آنے کو گھوڑے گدھے سے بدتر لکھ دیا ہے، صراط مستقیم پوری کتاب آپ پڑھ جائیے پور ی کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منقبت و تعریف سے بھری ہوئی ہے ۔علمائے دیوبند تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور اقدس میں توہین کرنے والے کو کافر اور اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور نماز میں جان بوجھ کر لانا درست نہیں۔ حدیثِ پاک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’أَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَہُمْ‘‘(سنن ابوداؤد: ۴، ص: ۲۶۱، رقم الحدیث: ۴۸۴۲، کتاب الأدب، باب تنزیل الناس منازلہم، المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
یعنی:’’ ہر چیز کو اس کا جتنا مقام اور مرتبہ ہے، وہاں پر رکھو۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر ہیں، امام الانبیاء ہیں، سید المرسلین ہیں، افضل الخلائق ہیں؛ مگر ایک اللہ کا مقام ہے اور ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کے بعد اگر کوئی افضل ترین شخصیت ہے تو وہ اللہ کے رسول ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں’’ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘لیکن آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ،خود آپ کی سب سے افضل ترین صفت عبدیت ہے اسی کو واقعہ اسراء ومعراج میں اللہ نے ذکر کیا ہے سُبْحَانَ الَّذِیٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی ۔ عبادت تو صرف اللہ کی ہوگی یہی مقصدر رسالت ہے۔
’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘‘ — اللہ کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
نماز میں بار بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہلوایا جاتا ہے — اللہ سب سے بڑا ہے۔
اس نماز کے اندر بار بار اللہ رب العزت کی تعریف کی جاتی ہے۔
سورۂ فاتحہ پڑھائی جاتی ہے۔
قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے۔
’’سُبْحَانَ ربّیَ الْعَظِیْم‘‘، ’’سُبْحَانَ رَبّیَ الْأَعْلیٰ‘‘ —
تو نماز خالص توحید کا مظہر ہے، جس کی وجہ سے آدمی کی توحید خالص رہتی ہے، جس پر آخرت کی کامیابی موقوف ہے۔
نماز کے ہر رکن میں اللہ کی کبریائی بیان کی جاتی ہے ،اب اگرنماز میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال لایا جائے تشہد کے سلام کے علاوہ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرح سے اللہ کے ساتھ شرک ہو رہا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
{إِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَائُ} (سورۃ النساء:۸ ۴)
اللہ شرک کو برداشت نہیں کرتا، اور اس کے علاوہ جسے چاہے معاف فرما دیتا ہے۔
صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور نہیں، بل کہ کسی بھی چیز کا اس طرح سے تصور کرنا کہ شرک کی بو آئے — نماز میں جائز نہیں ہے۔
لیکن ہمارے بریلوی حضرات نے ایک غلط فہمی لوگوں میں عام کر دی کہ دیوبندی ایسا کہتے ہیں کہ:
’’حضور کا تصور اگر ذہن میں آئے تو نماز فاسد ہو جاتی ہے!‘‘
نہیں! کسی بھی چیز کا ایسے تصور کرنا کہ وہ اللہ کے شرک کے مترادف بن جائے، تو ظاہر سی بات ہے اس سے نماز نماز نہ رہے گی ۔
کیوں؟
اس لیے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کا شریک کرنا کبھی بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے نماز کا فساد لازم آتا ہے، نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آنے سے۔
بریلوی حضرات کی کوتاہی، شخصیت پرستی میں غلو:
اب ہمارے بریلوی حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے یہاں پر اہلِ سنت والجماعت کے مسلک کے مطابق یہ کمی پائی جاتی ہے کہ وہ شخصیت پرستی میں غلو کرتے ہیں، چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور مرتبہ ہو۔ سجدہ اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں کیا جائے گا۔ ہماری شریعت میں سجدۂ تعظیمی بھی روا نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: ’’لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَۃَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا‘‘ (ترمذی)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے، تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔‘‘
مگر ہماری شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
مقام توحید ورسالت اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارے عقیدے کو بڑے اچھے انداز میںڈاکٹر نواز دیوبندی صاحب نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہے؎
در کبریا پر جھکاؤ سردر مصطفی سے لگاؤ دل
یہ جو سر ہے اسے بناؤ سر یہ جو دل ہے اسے بناؤدل
اب ظاہر سی بات ہے، اگر کوئی شیخ یا کوئی بابا قبر میں سویا ہے، اس کو آپ سجدہ کر رہے ہیں، تو شریعت میں اس کی کہاں گنجائش ہو سکتی ہے؟ یہ شخصیت پرستی میں غلو ہے، کہ آپ نے ’’ولی اللہ‘‘ کو ’’اللہ‘‘ کے مقام تک پہنچانے کی کوشش کی۔
اگر ان چیزوں میں علما نرمی کرنا شروع کر دیں، تو دین اور صراطِ مستقیم باقی نہیں رہے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ لوگ پہلے قبر پر سجدہ کرتے تھے۔ اب بہت سارے جاہل لوگوں کی ایسی ایسی ویڈیوز آتی ہیں کہ وہ اپنے ’’بابا‘‘ کو بھی سجدہ کرتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ ہماری شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسی بہت ساری چیزیں آپ کو ملیں گی، جیسے:
قربانی کرنا — اللہ کے علاوہ کسی اور کے نام پر قربانی کر سکتے ہیں؟ نہیں کر سکتے۔
دعا — اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا مانگ سکتے ہیں؟ نہیں۔
اولاد — اللہ کے علاوہ کسی اور سے اولاد مانگ سکتے ہیں؟ نہیں مانگ سکتے۔
اسی لیے ہمارے علمائے دیوبند نے یہ کوشش کی ہے کہ دین اپنی صحیح صورت میںباقی رہے، اس میں ذرہ برابر بھی کمی یا زیادتی نہ ہو۔
اب آپ اندازہ لگائیں:
’’دارالعلوم‘‘ کے پڑھے ہوئے ڈاکٹر خالد محمود صاحب ایک بہت بڑے عالم گزرے ہیں۔ انہوں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل تحقیق کے ساتھ، ان (بریلوی حضرات)کے تمام مسائل کا رد کیا ہے۔
’’مطالعۂ بریلویت‘‘ کتنی جلدوں میں ہے؟ آپ حیران ہو جائیں گے! آٹھ جلدوں میں کتاب لکھی ہے، جس میں ان کے ایک ایک مسئلے کو لے کر کتاب و سنت کی روشنی میں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے:
وہ حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ کیوں صحیح نہیں؟
آپ نے ان کو دیکھا ہوگا کہ نماز کے بعد کھڑے ہو جاتے ہیں، اور پھر ’’صلاۃ و سلام علیک یا رسول اللّٰہ‘‘ شروع کر دیتے ہیں ۔
تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر مانتے ہیں۔
حاضر و ناظر اللہ کے علاوہ کوئی ہو سکتا ہے؟ نہیں ہو سکتا۔
ایسے بہت سارے مسائل ہیں۔ ان مسائل میں سے یہ بھی ایک مسئلہ ہے؛ لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا تصور،بل کہ کسی کا بھی ایسا تصور جو شرک کے قریب پہنچا دے، وہ نماز کو خراب کر دیتا ہے۔