ماہ ِربیع الاول ہم سے کیا چاہتا ہے ؟

مفتی عبدالقیوم مالیگانوی

            اسلامی مہینوں میں ربیع الاول تیسرے نمبر پر ہے، جس میں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ، جسے آج مسلمانانِ عالم نے وجہِ جشن، ذریعۂ جلوس اورکائنات کی محبوب ترین ہستی کی محبت کی آڑ میں موج مستی کاذریعہ بنالیا۔ اور اس مناسبت سے اس پاکیزہ مہینہ اور آپ کی ولادتِ پر وقار کو؛ جن نا معقول اور غیراسلامی، بل کہ غیر انسانی افعال واعمال و حرکات سے آلودہ اور گندہ کیا اسلام اور اس کی ہدایات ان کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے صحابہ کرام رضو ان اللہ علیہم اجمعین کی عملی زندگی اِس کے حق میں نظر آتی ہے ۔

            اس کے باوجود اس غیر اسلامی اور غیر ضروری اعمال اور حرکات میں سال در سال اضافہ ہی ہوتا ہے ، جس کی چندبنیادی وجوہات ہیں ۔ ذیل میں ہم ان وجوہات اور بنیادوں کی تفصیل اور تجزیہ کرنا چاہتے ہیں ، تا کہ ہم اصل کام کی طرف متوجہ ہوکر اپنی ذمہ داری پوری کریں۔

پہلی اوربڑی وجہ :

            علمائے بریلوی اور رضاخانی حضرات کی پرجوش تائید اور عملی شرکت ، بل کہ اسی کو وسیلہ نجات اور ذریعۂ بخشش سمجھنا اور دوسروں کو بھی آس دلاکر اس میں شریک کرنا ۔ او ریہ سب کچھ دین اور وجہ ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے۔

دوسری وجہ :

            چوں کہ انسان سہولت پسند ہے ،اِس لیے آسانی کو ترجیح دیتا ہے ۔ ان غیر اسلامی کاموں میں شریک ہوکر اپنے آپ کو کام یاب اور سرخ رو سمجھ لیا جاتا ہے۔بڑی بڑی امیدیں اور آرزؤںکاتاج محل تعمیر کر کے اصل اعمال نماز ، روزہ، اور دیگر فرائض وواجبات سے غفلت برتی جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں’’ انگلی کٹاکر شہیدوں میں نام لکھوانا‘‘۔ جب کہ اسی محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اعمال؛ مشقتوں اورصرف محنتوں سے عبارت ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے شب و روز اللہ اور اس کے بندوں کی حقوق کی ادائیگی میں صرف ہوتے رہے اور مغفور ہونے کے باوجود اعمال صالحہ اور اپنی ذمہ داریوں سے اپنے آپ کو کبھی سبکدوش نہیں سمجھا ، بل کہ اپنے متبعین سے زیادہ مشقت والے کاموں میں اپنے آپ کو لگایا ۔ پھر بھروسہ اور توکل اللہ کی ذات پر کیا ۔ غزوہ خندق اس کی بڑی عمدہ مثال ہے، جس میں آپ بہ نفس نفیس محنت و مشقت کے لیے شریک ہوئے اور خندق کھودنے میں صحابہ کرام کا بھر پور ساتھ دیا۔ حالاں کہ آپ حکم دے کر کام لے سکتے تھے اور صحابہ کرام کو ناگوار بھی نہ گزرتا ، رہی بات عبادت کی تو اس کاپوچھنا ہی کیا ، اللہ نے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ذوق عبادت عطا فرمایا تھا کہ کبھی ساری رات تو کبھی آدھی رات مصروف عبادت رہتے اور محو تعلق خدا ایسے ہوتے کہ آپ کے قدم مبارک ورم کرجاتے ۔ جس پر آپ سے از راہ ترس کہا گیا کہ آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ، جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مغفور کردیا ہے؟ تو محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب ہوتا کہ’’ افلا اکون عبداً شکوراً ‘‘کہ میں بھی اپنے مولیٰ کا شکر گزار بندہ بننا چاہتا ہوں۔ آج ہم جشن میلاد مناکر اعمال سے راہ ِفرار اختیار کرنا چاہتے ہیں اور امیدیں بڑی لمبی اور دراز باندھے ہوئے ہیں۔ یہ خیال ہے جو محال ہے اور ایک دیوانہ پن ۔کسی نے خوب کہا  ہے کہ    ؎

کام یابی تو کام سے ہوگی    نہ کہ حسن کلام سے ہوگی

تیسری وجہ جذبۂ ریا اور دکھلاوا ہے:

            انسان کو جن کاموں میں حظ اور مزہ آتا ہے، اس میں اس کی طبیعت زیادہ چلتی ہے۔ اور حظ نفس اور لذت انہیں کاموں میں زیادہ آتی ہے، جس میں کچھ لوگ تماشائی بنتے ہوں اور پھر کچھ تعریف اور پذیرائی کے جملے کہتے ہوں۔اس جذبۂ فضول نے ہماری بہت ساری عبادتوں اور نیک اعمال کے ثواب کوضائع اوربرباد ی کے دریا میںغرق کردیا ہے۔ جس میں ہم بندوں کو خوش اوراللہ کو ناراض کرتے ہیں۔خداناراض ہوتوکوئی بات نہیں،لیکن بندۂ خداکوناراض نہیںکرناہے۔ اس ریا کاری کو روایات میں’’الشرک الاصغر‘‘یعنی شرک خفی سے تعبیر کیا گیا ہے ،جس سے بچنے کی حدیثوں میں سخت تاکید موجود ہے ۔کیوںکہ شرک کی یہ قسم تمہارے اندر ایسے دبے پاؤں آئے جیسے چیونٹی کے چلنے کی آواز؛ جو سمجھ میں نہ آسکے اورہماری نیکیوں کو برباد کردے۔

اب تک اصل حیثیت نہیںمل سکی:     

            ربیع الاول کو دنیا میں آتے ہوئے۱۴؍صدیاں گزر گئیں، لیکن قرونِ اولیٰ کے بعد سے آج تک اس کو اس کی حقیقی اور سچی حیثیت نہیں ملی ، جیسا کہ آپ کے جاںنثاروں نے اس کو دی تھی ۔ یہ بھی ایک ناقابل انکار صداقت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اس دنیا کے لیے ایک لازوال تحفۂ خداوندی اور بے مثال انعام ربانی ہے کہ جس کے بعد دنیا خداکی لامحدودرحمتوں سے معمور اور برکتوں سے آباد وشاداب ہوئی ۔ نیز ظلم و بربریت ، جبر و تشدد ، خلفشار وانتشار اور حق تلفیوں کا بازارہمیشہ کے لیے بند ہوا ۔ دنیا کو ایک نوید صبح نو ملی ، امیدوں کی کرن پھیلی ، مایوسیوں کے بادل چھٹے ، انسانیت کا بول بالاہوا اور حیوانیت نے دم توڑا ،امن و سکون ہر سو عام ہوا ، بے سکونی اور بے اطمینانی کی فضا کافور ہوئی ، انسانوں کی غلامی سے نکلنا نصیب ہوا ، رب سے آشنائی، معرفت کے راستے کھلے ، جابروں کی آوازیں پست ہوئیں، غربیوں اوربے کسوں کی صدائیں موثر اور طاقتور بنیں ، انسان ہی نہیں ،بل کہ حیوانوں کو بھی زندگی کا حق اور اس کا صحیح لطف آنے لگا، انسانوںکے ساتھ ساتھ جانور بھی اپنا حق، اپنی بات ، اپنی نکاہت اوراپنا درد پیش کرنے کے قابل اپنے کوسمجھنے لگے ۔ کسی نے کیا خوب ترجمانی کی    ؎

خبر جاکر سنادو شش جہت کے زیر دستوں کو

زبردستی کی جرأت اب نہ ہوگی خود پرستوں کو

            یقینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے نہ صرف دنیا سنورنے لگی ، یہ نہ صرف دنیا میں جینے اور کام یابی کا سلیقہ وقرینہ ملا ، بل کہ آخرت کی لازوال حقیقت سے واقفیت اور اس کام یابی کو یقینی بنانے کی فکریںبھی دامن گیر ہوئیں اور بعدیہ انسان دنیا کا کام یاب بندہ ہونے کے ساتھ آخرت کا بھی کام یاب فرد بننے لگا اور ایسا کام یاب کہ اللہ رب العزت کو بھی اس کی قابل رشک اور قابل دید زندگی پر فخر کرنے اور تخلیق انسان پر سوالیہ نشان اٹھانے والے فرشتوں کو اپنی قدرت اور اپنے علم ازلی کو جتلانے کا موقع ملا کہ {انی اعلم ما لا تعلمون }یہ سب عروج وارتقا ، اقبال و ترقی ، رفعتیں اور اچھی قدریں محض اور صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت وتربیت کے صدقہ طفیل سے ملیں ، ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل

نسیم صبح تیری مہربانی

آئے دنیا میں بہت پاک مکرم بن کر

کوئی آیا نہ مگر رحمت عالم بن کر

            غرض کہ آج دنیا میں ہر چیز اور اس کی حقیقت کو پس پردہ رکھ کرمحض رسمیت اور بے حقیقت نقشوں کو اپنا کر اسی کو حقیقت کا جامہ پہنایا جاتا ہے اور موجودہ اور آنے والی نسلیں اس بے حقیقت کو حقیقت اورغیرضروری کو ہر ضرورت سے زیادہ ضروری سمجھ کر اپنے کو برباد اور اسلام کو بدنام کرتی ہیں   ؎

رہ گئیں رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

وزن اورصاحبِ وزن:       

            کاش ! کہ ہم احساس ذمہ داری کے ساتھ سچائی کو اجاگر کرتے ہوئے اسلام کی صحیح ترجمانی اور اس امانت کو اس حقیقی خدو خال کے ساتھ موجودہ اور آنے والی امت تک پہنچانے کی کوشش اورفکر کریں گے۔کیوں کہ آج دنیا میں ہماری بے وزنی اوربے حیثیتی کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے وزن دار اعمال کو چھوڑ کر ہلکے اور بے وزن افعال کو دین کے نام پر کرنا شروع کردیا اوراسی پراخروی نجات کاتکیہ کرلیاہے ۔ جب کہ اس عمل کی عنداللہ کوئی حقیقت اوروزن ہی نہیںہے ، تو خودہی غور کریں کہ صاحب عمل کیسے وزن دار ہوسکتا ہے ؟

اے کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات

            تو آئیے ہم ربیع الاول اور اس کے مقاصد پر ایک گہری نظر ڈالتے ہوئے ، انہیں اپنی زندگی میں لانے کا عزم کرتے ہیں ۔

پیغام ربیع الاول:

            ماہِ ربیع الاول کی آمدِ مبارک ؛جہاں امام الانبیا ، خاتم المرسلین ، محبوب داور ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنہری یادوں اور پیاری اداؤںکو زندہ کرتی ہے ، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بامقصد زندگی کی بھی یاد دلاتی ہے ۔  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اہم ترین مقصد بیگانوں کو یگانہ بنانا ، غیراللہ کے پرستاروں کو ایک خدا کی چوکھٹ اور آستانہ پر لانااور دین اور خدا بے زار انسانوں کو لذت آشنائی اورتعلق الٰہی سے روشناس کرانا ہے۔

            نیز ربیع الاول کی آمدکا اہم ترین مقصد؛ رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے پیغام اور آپ کی قابل تقلید اور لائق نمونہ زندگی کودردربھٹکتی اورسِسکتی انسانیت کے سامنے اپنے اعمال وکردار کے ذریعے پیش کرنا اوراسے پھیلانا ہے تاکہ اس سایہ دار وپھل دار اور راحت بخش حیات کے ثمرات وفوائد سے دنیا کاکوئی بھی فردمحروم نہ رہے۔

            اب ہم کس طرح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دوسروں تک پہنچاتے ہیں اور اس کے لیے کتنی محنت اور کوشش کرتے ہیں،ایک نظرمیںوہ بھی دیکھ لیتے ہیں ۔

ایک اہم ترین مقصد :

            ربیع الاول کی آمدپر اہم ترین مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا کو آج رحم وکرم ، عفوودرگذر،ایثاروہمدردی اور محبت وپریم کی اشد ضرورت ہے ، جو صرف اور صرف نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات میں موجود ہے ۔ حیات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اہم ترین پہلو کو خوب عام کرنے کی ضرورت ہے ، تاکہ ملک ملک ، خاندان خاندان، فرد فرد ایک دوسرے پررحم وترس سے پیش آئے ۔ اور ایک دوسرے کو معاف کر کے اپنے شر سے دوسرے کو محفوظ رکھنے کی بھرپورکوشش کرے۔

کوئی تیارنہیںہے:

            موجودہ وقت میں بے رحمی ، ہمدردی وخیرخواہی کاقحط اور سخت دلی اس قدر عام اورتام ہوچکی ہے کہ کوئی جماعت وتنظیم کسی جماعت کو، نہ کوئی فرد کسی دوسرے فرد کو ،نہ کوئی اپنا اپنے کو، نہ اپنا پرائے کو معاف کرنے اور در گزر کرنے کے لیے تیارہے ؛بل کہ ہر کوئی انتقام کے جذبہ میں ڈوبا ہوا موقع کی تلاش میں پریشان اوربدلے کی آگ میں جھلس رہاہے۔ جس کا نتیجہ ہے ساری دنیا میں بد امنی، بے سکونی اور خوف و ہراس عام ہوتا جارہا ہے۔آج کی مادی دنیامیںپانی مہنگااورخون سَستاہوگیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ پانی سے زیادہ خون بہہ رہا ہے ۔ جانوروں سے زیادہ انسان مارے جارہے ہیںاورمارنے والے انعام پارہے ہیں ۔

             انہیں سارے جرائم وفساد کے خاتمہ کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد مسعود ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کامل طورپر کام یاب ہوئے تھے ۔

            ہمیں اسی مشنِ نبوت کو آگے بڑھانا اوراپنی اصل ذمہ داری کو نبھانا ہے ، تا کہ ہم نبی کے سامنے جانے کے حقدار ہوسکیں ۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے ۔ آمین!