لالچ کے سمندر میں ایمان کی کشتی ہے

افتخار احمد قاسمی #بستوی#          

 استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر

            اللہ رب العزت نے اس جہانِ رنگ و بو کی تخلیق اس لیے فرمائی ہے کہ اس کی ذات کا عرفان حاصل کیا جائے، اور اس پر ایمان لاکر دونوں جہاں کی کا مرانی کا پھول دامن میں سمیٹ کر حیات ِجاودانی میں اللہ کی مرضیات سے سرخ روئی پائی جا ئے،اسی منزلِ جاناں کی تلاش میں پوری زیست صرف ہوجائے، جان کی بازی لگ جائے اور زندگی کی آخری سانس تک اس ذات پر ایمان وعرفان کے تقاضے کی جستجو میں مصروف ِعمل رہا جائے کہ  

نشان ِمنزل جاناں ملے ، ملے نہ ملے

مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجومیرا

            اللہ رب العزت کی اس کائنات میں تخلیق انسان کا یہ ہی مقصد ہے کہ خداوند ذوالجلال کی ذات پر ایمان و عر فان کے بعد تا دمِ واپسیں ایمان کے تقاضے اور اعمال صالحہ کی مشغولیت میں زندگی کی شام کی جائے؛ لہذا یہاں جاننا چاہیے کہ ایمان کی صحیح سالم کشتی موج کے بھنور میں پھنس کر تباہ و بر باد ہو نے سے بچا نے کے لیے اللہ کے بندے پر کیا کیا فرائض و ذمے داریا ں عائد ہو تی ہیں ،انہیں ہم ایک تمہید چار ابواب اور ایک خاتمے کے عنوان سے بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔

تمہید:

             بندہ دل سے اللہ کی ذات و صفات کو مانے اور زبان سے اس کا اقرار کر ے کہ جتنے احکام اللہ رب العزت نے ہمیں انبیا ئے کرام کے واسطے سے بالخصوص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے عطا فر ما ئے ہیں ان پر عمل پیرا ہو کر زندگی گزا ریں تویہی ایمان کہلاتا ہے ۔شہادت ِایمان ،ایمان کے لیے شرط ہے اگر کوئی شخص اللہ کی ذات و صفات اور اس کے احکام کو مانتا تو ہے، لیکن زبان سے اس کا اقرار نہیں کرتا،شہادت سے اس کا ایمان خالی ہے تو وہ ایمان والا بندہ نہیں مانا جائے گا،اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہ ہو گا؛ لیکن اگر اللہ رب العزت کی ذات و صفات اور اس کے ا حکام کو مانتا ہے اور عمل بھی کرتا ہے تو وہ پکا مومن ہے البتہ اعمال میں کوتاہی سے وہ ایمان والا تو رہتا ہے؛ لیکن اس کا درجہ نیچے ہو جاتا ہے وہ کم درجے کا ایمان والا کہلائے گا ۔

            ہاں ایمان کی بنیاد پر اسے جنت میں ہمیشہ کے لیے داخل کیا جائے گا؛ البتہ اعمال میں کوتاہی کی سزا اسے ضرور بھگتنا پڑے گی ،اس کے لیے جہنم میں داخل ہونا ناگزیر ہے،ہاں اللہ اپنا فضل فرمائے اور نافرمان بندے کو بھی جنت میں بغیر سزا دیے داخل فرما لے تو یہ اللہ کافضل و کرم ہے، جس کی قدرے گفتگو با ب اول میں آرہی ہے۔

باب اول : اللہ کے احکام سے بے اعتنائی اور ہماراایمان

            حضرت ابو ہریرہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            زنا کر نے والا جب زنا کرتا ہے تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا ،شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اس وقت اسکا ایمان باقی نہیں رہتا ،چھینا جھپٹی کرتا ہے اور لوگ اس کو چھینا جھپٹی کر تے دیکھتے ہیں تو اس وقت اس کا ایمان باقی نہیں رہتا، بس تم ان سب گناہو ں سے بچتے رہو (متفق علیہ)

            اس حدیث کی تشریح میں علما ئے کرام نے تحریر کیا ہے کہ مومن کا دل ایک صاف آئینہ اور پاکیزہ ظرف ہے جس میں ایمان کی روشنی ہی ٹھہر سکتی ہے ،ایمان کے علاوہ اس کے دل میں گھر کرنے والی پلیدی اس روشنی کو بجھانا چاہتی ،توایمان والے کا دل اسکو برداشت کر نے کا روادار نہیں رہتا اور نورایمان اس ظلمت کی تاب نہیں لاتا ،اس کے دل سے باہر نکل کر اس پر سایہ فگن ہو کر اس کی حفاظت کرتا ہے ۔اس لیے امام ابن ابی شیبہ  فرماتے ہیں کہ ”معصیت کے ارتکاب کے وقت ایمان رخصت ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بندہ کامل مومن نہیں رہتا ،اس کا ایمان ناقص ہو جاتا ہے “چنا ں چہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”جب بندہ زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے اور اسکے سر پر سائبان کی طرح معلق ہو جاتا ہے اور جب بند ااس گناہ سے ہٹ جاتا ہے تو اس کاایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے “(ترمذی ،ابو داوٴد کمافی مشکوٰة ۱/۱۸)۔

            علامہ ابن تیمیہ نے اس کی ایک انوکھی مثال دی ہے ،فرماتے ہیں کہ ایک گناہ گار کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھیں بند کر نے والا بینا شخص جب آنکھیں موند لے تو اس کو کچھ نہیں دکھائی دیتا ،تو نابینا اور بینا دونوں عدم رویت میں برابر ہو گئے کہ نہ یہ آنکھیں موندنے والا دیکھتا ہے نہ نابینا دیکھتا ہے ،اسی طرح جب ایک مومن گناہ کرتا ہے توکافر کی طرح معصیت و طاعت میں فرق نہیں کرتا ۔اسی لیے فقیہ ابو اللیث  کا فرمان ہے کہ گناہو ں میں انہماک سے اخیر میں ایسی نوبت آجاتی ہے کہ مکمل سلبِ ایمان کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے ،اس لیے ایما ن کی حفاظت ا سی میں ہے کہ بندہ گناہوں سے دور ہو۔

یہی خیر ہے کہیں شر نہ ہو

کوئی بے گناہ ادھر نہ ہو

وہ چلے ہیں کرتے ہوئے نظر

کبھی اِس طرف ،کبھی اُس طرف

گناہ کرتا ہے برملا تو

کسی سے کرتا نہیں حیا تو

خدا کو کیا منہ دکھا ئے گا تو

ذرا اے بے حیا حیا کرتو

             ایمان کو بچانے کے لیے غصے سے بچنا بھی ضروری ہے ،ارشاد نبوی ہے ”غصہ ایمان کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے ایلو ا شہد کو“(بیہقی) ایک دوسری حدیث ہے ”جو شخص کسی ظالم کی مدد اور نصرت کے لیے نکلتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ وہ شخص ظالم ہے تو بلا شبہ وہ دائرہٴ اسلا م سے خارج ہو گیا “(بیہقی) یہ دونو ں حدیثیں ایمان کو خراب کر نے والی اشیاء غصہ اور ظلم سے بندے کو روکتی ہیں ۔

            لیکن جب ایمان کامل ہوتا ہے تو بندہ کو ایمانِ کامل گناہوں سے روک دیتا ہے ،ارشاد ہے ”جو شخص اخلاص کے ساتھ لا الہ الااللہ کہے وہ جنت میں داخل ہو گا کسی نے پوچھا کہ کلمہ کے اخلاص کے کہنے کی علامت کیا ہے ؟توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ”حرام کاموں سے اس کو رو ک دے “۔

(معارف الحدیث از مولانا منظور نعمانی)

            اسی لیے ابن حجرنے منبہات میں محمد بن دردی  کا قول نقل کیا ہے کہ شیطان میں بد بختی عدم اقرار گناہ،عدم ندامت ،عدم ملامت ،عدم ارادہ توبہ اور قنوط از رحمت خد ا، ان پانچ وجوہات سے آئی اور حضرت آدم  نے اقرا ر ِخطا، ندامت ،ملامت ،توبہ اور عدمِ قنوط سے خوش بختی کا اعلیٰ درجہ حاصل کیا ۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یا ر ہوتا

اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

اورشیطان کے حق میں یہ ہوا کہ

کسی کے تم ہو کسی کا خدا ہے دنیا میں

میرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں

             جو بندے ایمان کے تقاضوں پر عمل کرتے ہیں اور شیطان کے ہتھکنڈوں سے بچتے ہیں،شیطان ان کے بارے میں کہتا ہے۔

میرے نصیب میں تم بھی نہیں خدا بھی نہیں

            لہذا آئیے غور کریں!طے کریں اور دعا مانگیں کہ اے اللہ! ہم سب کو ایمانِ کامل کی دولت نصیب فرما! جس میں گناہوں کا اختلاط نہ ہو اور ہم تجھے دیکھیں کہ

 تیرا آئینہ عالم رنگ و بو ہے

جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

ہزاروں حجاب اور اس پر یہ عالم

کہ چرچا جا بجا کو بہ کو ہے

            گناہ بے فکری کے سبب سے وجود میں آتے ہیں،آدمی کے اندر فکر ہو اور ہمت و عظمت جواں ہو تو گناہ نہیں ہوتے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص بے فکر ہے، رات دن گناہوں میں غرق ہے اور ا سے کوئی احساس نہیں تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ” جیسے کوئی شخص پیدائش کے وقت سے اب تک اندھیری کوٹھری میں رہا ہو اور کبھی روشنی کی کرن کا نظارہ نہ کیا ہو، تو ایسے شخص کو اندھیرے سے وحشت نہیں ہوتی، بلکہ اسی میں راحت و فرحت محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو دن رات گناہوں میں مبتلا ہیں وہ ایسے مرض میں مبتلا ہیں جن سے ان کو کبھی صحت نصیب نہیں ہوئی ،اس لیے ان میں مرض کی تکلیف اور صحت کی راحت کا احساس با قی نہ رہا“(ضرورةالعلم بالدین ازحکیم الامت)اس لیے ایمان پر استقامت کی خاطر اعمال ِصالحہ پر استقامت بھی ضروری ہے۔

باب دوم: استقامت ِایمان اور استقامت ِاعمال

            ایمان سب سے بڑی دولت ہے جس کا عوض اللہ رب العزت نے مر نے کے بعد سب سے بڑی نعمت جنت کو مقرر کیا ہے اس لیے ایمان کو تمام آلائشوں سے پاک رکھنا اشد ضروری ہے اور اس کا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں اعمال پر مستقل جمے رہنے کو بتلایا ہے۔ ایمان کی حفاظت و تقویت اعمالِ صالحہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ ایمان ایسا خزانہ ہے جس کوقفل میں رکھنے کے لیے شریعت اسلامیہ کے اعمال کو بجا لاناضروری ہے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے اسی لیے تصوف کا خلاصہ عمل کرنے ہی کو بتلایا ہے ۔          #

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

            عمل کی ترغیب کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

            ”بنی الاسلام علی خمس ،شہادة أن لاإلٰہ الااللہ و اقام الصلوٰة،و ایتاء الزکاة وصوم رمضان والحج“

            حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔

             ۱) اللہ کے ایک ہونے کی گواہی دینا اور اللہ کے رسول کو آخری رسول ماننا۔۲) نماز قائم کرنا۔۳) زکوة دینا۔ ۴)حج کرنا۔۵) رمضان کے روزے رکھنا۔ (بخاری فی اوئل الایمان۔)

            منبہات ابن حجر صفحہ نمبر۱۳پر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا دنیا کی عزت تو مال و اسباب سے حاصل ہوتی ہے اور آخرت کی عزت اعمال ِصالحہ کے ساتھ ہے۔

 نیکی و خیر و متانت، وقف و انفاق و زکاة

ہرچہ فرمودہ رسول اللہ،بودراہِ نجات

            اعمالِ صالحہ میں او ل درجہ نماز کا ہے ،اللہ کے رسول نے دنیا سے جاتے جاتے اپنی زبان ِرسالت مآب پر نماز نماز ہی کا تذکرہ فرمایا ہے ،نماز کا ذکر قران کریم میں” اقیمواالصلو ة“ کے ذریعہ تقریبا ۸۲ /مرتبہ آیا ہے لیکن امت میں اس سے بڑی بے اعتنائی پائی جاتی ہے،حالاں کہ محشر میں سب سے پہلے نماز ہی کا سوال ہو گا ۔

            روز محشر کہ جاں گداز بود         اولیں پُرشش نماز بود

            حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں :”مقام افسوس ہے کہ دور حاضر میں بعض لوگ یوں کہتے ہیں کہ نماز کی اب کیا ضرورت ہے؟ہم تو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں ۔ابتدائے اسلام میں چوں کہ بت پرستی کا غلبہ تھا ،اس لئے عقیدہٴ توحید کے راسخ کر نے کے لیے نماز کا حکم ہوا ،روزے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ابتدا ئے اسلام میں رزق کی تنگی کے سبب اس کا حکم کیا گیا تھا ۔اب فراخی کے زمانے میں فاقے کی کیا ضرورت ہے،غرض زکوٰة ،قربانی ،فطرانہ ہر ایک حکم کو نکالنا چاہتے ہے۔

            عارف رومی  نے اسی حقیقت کو واشگاف کیا ہے:

 شیر بے گوش و سر و شکم کہ دید

 ایں چنیں شیر خدا ہم نآ فرید

 چونداری طاقت سوزن زدن

 ازچنیں شیر زیا بس دم مزن

            ان اشعار کے ذریعہ وہ حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے بدن پر شیر بنانے کو کہا تو جب سوئی رکھی گئی تو کہا کیا بنا رہے ہو؟بنانے والے نے کہا سر بنا رہا ہو ں ۔اس نے کہا بہت درد ہو رہا ہے ،سر کے بغیر بنا دو! اس طرح ایک ایک کر کے اس نے شیر کے سارے اعضا کو بنا نے سے منع کردیا ،تو بنا نے والے نے کہا ،بغیر سارے اعضا کے کون سا شیر بن کر تیار ہوگا؟

            اسی طرح ہمارا حال ہے کہ ہم ایمان و اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں اور مومن و مسلم کہلانے کے لیے پوری تڑپ رکھتے ہیں لیکن اسکے لیے ضروری اعمال نماز ،روزہ ،حج، زکاةوغیرہ اعمال کو خارج کر دیتے ہیں تو ہمارا ایمان و اسلام کیسا ہو گا،با لکل اسی شیر کی طرح ہوگا جو بغیر سر ،دم ،پیٹ،پیٹھ، اور ہاتھ پیر کے تھا۔

            اس لیے ایمان محفوظ رکھنے کے لیے اعمال میں استقامت ضروری ہے ،استقامتِ ایمان کے لیے استقامت ِاعمال ایک ایسا لازوال نسخہ ہے، جو ہدایت کے لا متناہی درجہ تک پہچانے والا ہے ۔زندگی کی آخری سانس تک ہدایت ِ کے لا متناہئی در جہ کو پانے کے لیے غلطاں و پیچا ں افتا ں و خیزاں چلتے رہنا ہے ۔

            ایمان و اسلا م اور اعمالِ صالحہ میں بغیر کسی کاٹ چھانٹ اور افراط و تفریط کے عمل کرنا بندے کی بندگی کی پہچان ہے۔

            حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی فرماتے ہیں :”ایمان اور اسلام اور اس کے سب فروع (نماز،روزہ،حج،زکوة وغیرہ) اور شریعت کا ہر جز ایسا ہے کہ اگر اس میں ایک ذرہ بھی کم کر دیا جائے تو اس کی بدنمائی ہو گی ،اس اختصاص کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے ایک شاہی باز،محل سے اڑ کر ایک بڑھیا کے گھر پہنچ گیا تھا، بڑھیانے اس کو پکڑ لیا اور اس کی چو نچ دیکھی جو بہت بڑی تھی تو اس بڑھیا کے دل میں بہت رحم آیا اور بہت افسوس کیا کہ یہ کھا نا کیسے کھاتا ہو گا ؟چنا ں چہ ہمدر دی کے جوش میں بڑھیا نے قینچی لے کر اس کی چونچ کتر دی ،پنجے اور پاوٴں دیکھے تو وہ بھی لمبے لمبے تھے ؟ کہنے لگی ہائے! یہ چلتا کیسے ہو گا، چناں چہ از راہ ِشفقت اس کے پنجے بھی کاٹ دیے ،غر ض اس کم فہم بڑھیا نے جو چیزیں اس باز میں کمال اور امتیازی شان رکھتی تھیں ،سب اڑادیں“۔

            آج کل کے محبانِ اسلام کا یہی حال ہے کہ نماز ،روزہ ،حج زکوة سب کو ایک ایک کر کے اڑادیتے ہیں اور کوئی اچھی سی وجہ ان کی نظرمیں جو ہو تی ہے اسے بیان کر تے ہیں ،جو حقیقت میں تکمیل ِایمان و اسلام کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہو تی ہے۔

باب سوم :تکمیل ایمان کی ضرورت:

             اللہ رب العزت نے جو دین اتارا ہے وہ مکمل ہے ”الیوم اکملت لکم الخ“والی آیت سے اس کی تکمیل کا اعلان فرما دیا ہے، اب اس دین میں عقائد و اعمال کسی اعتبار سے کمی زیادتی کرنا ظلم ہے ۔حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ”لا ایمان لمن لاامانةلہ“اس آدمی کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں جس میں امانت داری نہیں ہے، جس میں امانت داری کا تخم نہ ہو ،اس تخم سے پودے بار آور نہ ہوں گے ۔

             اسی طرح ارشاد ہے”لا دین لمن لا عہدلہ“کہ اس کا کوئی اعتبار نہیں جو دین دار تو کہلاتاہو لیکن عہد و پیمان کا لحاظ نہیں رکھتا۔

             اللہ رب العزت کی ذات و صفات پر جو ایمان لانا ہے وہ مکمل ایمان مطلوب ہے، اس میں عقائد و اعمال کے اعتبار سے کسی طرح کی کوئی کاٹ چھانٹ اور افراط و تفریط گوارہ نہیں۔

            حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب بھی لادین عناصر غیر مسلم اقوام اپنے روایتی عناد اور ہٹ دھرمی اور چشم پو شی کی بنا پر اسلام کے کسی حکم پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ بیچارے اسلام کے نادان دوست اس اسلامی حکم اور شعائر ہی کا سرے سے انکار کر دیتے ہیں ،اور اسلام کے ساتھ اس ریچھ کی طرح دوستی کا ثبوت دیتے ہیں ،جس نے دیکھا کہ مالک آرام کر رہا ہے اور ایک مکھی بار بار مالک کی ناک پر بیٹھ جاتی ہے ،اس کی نیند خراب ہو رہی ہے تو بار بار اڑانے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ بڑا پتھر لے کر اس ا ڈے یعنی ناک ہی کو اڑا دیا جائے تا کہ مکھی کے لیے جائے شرا رت ہی باقی نہ رہے۔

            چناں چہ اس نے پتھر لے کر جوناک پر مارا تو آقا کا سرکھیل کھیل ہو گیا(ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا) اسے سونے کی حالت ہی میں کچل دیا،یوں اس نادان دوست نے خیرخواہی میں اپنے آقا کی جان لے لی؛ یہی حال آج کل بعض خود رو محققین کا ہے جو اپنے جی میں تو اسلام کے ساتھ ہمدردی کر رہے ہیں، مگر در حقیقت ایمان و اسلام کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ دین ِاسلام مکمل ہو چکا ہے، اس پر ایمان کی تکمیل اسی وقت ہو گی جب اس کے ایک ایک حکم کو اسی درجے پر رکھ کر اس پر عمل پیرا ہوا جائے۔

            فرض و واجب اور سنن ِموٴکدہ و مستحبات کو ان کے اپنے اپنے درجے پر رکھا جائے۔ مجددِدین ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دین کے احکام کی درجہ بندی میں کتربیونت بھی بدعت و گمرا ہی ہے ؛لیکن کچھ اسلام کے نادان دوست اپنے من سے ایسا ہی کرتے ہیں اور ریچھ جیسی دوستی کادم بھرتے ہے۔

 ہوشیاری دل ناداں بہت کرتا ہے

 رنج کم سہتا ہے، اعلان بہت کرتا ہے

            ایسے لوگ اپنی طبیعت کو شریعت پر مقدم رکھ کر تکمیل ایمان کے بجائے نقص ایمان کا پرچم بلند کرتے ہیں، وہ صرف اپنا نقصان نہیں کرتے بلکہ پوری ملت کا نقصان کرتے ہیں۔#

 جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا

             بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب ہم نے کلمہٴ توحید لا الہ الا اللہ پڑھ لیا تو بس یہی کافی ہے تکمیل ایمان و اعمال کی چنداں ضرورت نہیں ۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے” وعظ جلاء القلوب“ میں ۳۷/ ص پر لکھا ہے کہ کلمہ توحید لا الہ الا اللہ یہ ایک عنوان ہے جو تمام اجزائے دین:نماز،روزہ،حج،معاملات، معاشرت، اخلاقیات اور فرائض و مستحبات سب کو شامل ہے ۔اس کلمہ کے اقرار سے سارے اجزائے دین کا اقرار اور ان پر عمل پیرا ہونے کا عہد و پیمان خود بخود ہو گیا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے: کوئی شخص نکاح کرتا ہے تو مجلس ِعقد میں صرف ایجاب و قبول کرتا ہے اور نکاح ہو جاتا ہے۔ چند روز کے بعد اس کی بیوی نان و نفقہ اور مکان وغیرہ کا مطالبہ شروع کردیتی ہے۔ اب اگر میاں یہ کہے کہ میں نے تو مجلسِ عقد میں صرف آپ کو قبول کیا تھا،اتنے سارے بکھیڑے کب اپنے سر لیے تھے، تو اس میاں کو ہر دانا وبیناشخص یہی جواب دے گا، میاں جب تم نے بیوی کو قبول کر لیا تو باقی سب کچھ ضمن میں آگیا ۔نان و نفقہ بھی، گھر بھی، نمک تیل، لکڑی وغیرہ سب ہی(وعظ جلاء القلوب ۳۷/ص بحوالہ فضائل ایمان) ایسے ہی جب ہم نے کلمہ توحید پڑھ لیا تو تکمیل ایمان کی ضرورت ہے۔اس تکمیل ایمان میں سارے اجزا،اخلاقیات معاشرت اور معاملات اور ان کے سارے پیچ و خم آ گئے اسی کو پوری دنیا مانتی ہے اور اسی عہد میں پر فضا کیف اور لطف و مزہ ہے۔         

عہد شباب رفتہ کیا عہدے پر فضا تھا

جینے کا بھی مزا تھا مرنے کا بھی مزہ تھا

            حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ( ”شرح السنة للبغوی“ جلد ایک صفحہ۷۵)” تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک تکمیل ایمان کا پیکر نہیں بن سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسندکرتا ہے۔ اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اللہ کے رسول کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس سے اور اس کے والد اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

( بخاری جلد:۱/۷۰)

 تکمیل ِایمان کا نور :

            ایمان مکمل ہونے پر ایک نور پیدا ہو جاتا ہے جو اتنا قوی ہوتا ہے کہ ہر ظلمت کا قلع قمع کر دیتا ہے ۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ حدیث شریف میں وارد ہے ”جز یا موٴمن! فإن نورک قد أطفأ ناری“(انفاس عیسیٰ ۱۵۱ص بحوالہ فضائل ایمان ۱۱۵ ص) جب نورِ ایمان میں یہ خاصیت ہے کہ دوزخ کی آگ بھی بجھا دیتا ہے تو دنیا کے غموم وہموم اور احزان کی تو حقیقت ہی کیا اگر یہ نور حاصل ہوجائے تو دنیا و آخرت کی راحتیں ہمارے ہی واسطے ہیں پھر ہمارے پاس غم و رنج کا نام و نشان بھی نہ رہے گا ۔ہاں اسے غم رہے گاتوخدا کی رضا کا، سو یہ غم تو ایسا لذیذ ہے کہ اگر یہ حاصل ہو جائے تو ہفت اقلیم کی سلطنت پر لات مار دیں گے عام رنج کے بارے میں کلیم عاجز کا شعر ہے 

غم تو متاع زیست ہے اس سے گریز کیا

جس سے ملے جہاں سے ملے جس قدر ملے

تحصیل ِنور ایمان:

             نور ایمان کی تحصیل کا طریقہ حضرت حکیم الامت علیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں نور ایمان کی تحصیل کا طریقہ ذکر و فکر رہے اور فکر کا طریقہ یہ ہے کہ ہر کام میں سوچ ہو کہ اس سے ہم پر کوئی بلا تو نازل نہ ہوگی، جس کی تکلیف برداشت نہ ہو، اس کے بعد آپ کی زندگی پرلطف ہوگی۔ غرض یہ کہ خلاصہ دستور العمل یہ ہے کہ ہر کام اور ہر بات سوچ کر کرو۔ دوسرے اپنے اعمال کا حساب و کتاب کیا کرو، اپنی نافرمانیوں کو سوچواور ان سے توبہ کرو اور عذاب کو یاد کرو اور اس سے حیا اور خوف پیدا ہوگا اور جنت کی نعمتوں کو سوچو اس سے محبت و شوق پیدا ہوگا۔

باب چہارم : ایمان عظیم انعام خداوندی ہے:

            قرآ ن کریم میں سورہٴ مائدہ کے آغاز میں ہی اللہ رب العزت نے ایمان کو عظیم الشان نعمت اور انعامِ خداوندی قرار دیا ہے،الیوم اکملت لکم دینکم الاخ اس آیت میں ایمان کو عظیم الشان نعمت بتلایا گیا ہے، حضرت علی  کا قول ہے کہ حقیقت میں نعمتیں بس ۶ ہیں۔

             ا) دین اسلام۔ ۲) قران پاک۔ ۳)محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی۔ ۴)امن و عافیت۔ ۵) عیوب پر پردہ پوشی۔ ۶) استغنا۔

             در حقیقت علی  کا یہ قول اسی مکمل ایمان کے انعام ہونے کے اجزائے ترکیبی و عناصر تجسیمی ہیں ۔مولانا اشرف علی تھانوی نے ”الاتمام بنعمة الاسلام “نامی اپنے وعظ میں اس کو خوب تفصیل سے بیان کیا ہے: فرماتے ہیں کہ ”اسلام ایسی بڑی نعمت ہے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن ِکریم میں اسلام کو بغیر کسی اشارے وکنایے کے صریحاً نعمت فرمایا، پھر اپنا احسان جتلایا اس کے بعد آیت قرآنی” الیوم اکملت لکم الاخ “ کو نقل فرماکر ارشاد فرمایا ہے کہ ”جب اسلام کا نعمت ہونا نص ِصریح سے ثابت ہو گیاتو اب اس کا تقاضہ یہ تھا کہ اس پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم تھا ،کیو ں کہ ہر نعمت کا تقاضا ہے کہ اس پر شکر کیا جائے تو اتنی بڑی نعمت ِاسلام جو دین و دنیا کی ساری بہبودی و کامیابی کی اساس ہے، اس پر شکر کس حد تک ہونا چاہیے اور حضرت شارع علیہ السلا م نے اس کا کس قدر اہتمام کیا ہے، اگر مستقل اس کا شکر ادانہ کرو تو دوسری نعمتوں جن کو تم روزانہ کئی بار استعمال کر تے ہو، ان کے ساتھ ملاکرہی شکر کرلو،چناں چہ کھانے کے بعد کی دعا میں اسی بات کی تعلیم ہے،دعاکے الفاظ یہ ہیں:”الحمدللہ الذی أطعمنا وسقانا وجعلنا مسلمین“لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جتنی بڑی نعمت تھی اور جتنازیادہ اس پر شکر ہوناچاہیے تھا؛ اسی قدر اس سے غفلت ہے اور اس سے بڑھ کردکھ کی بات تو یہ ہے کہ اس غفلت کا احساس بھی نہیں ۔

وائے ناکامی!متاع کارواں جاتارہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتارہا

            اسی قوت ِفکر کو جب سے ہم نے فناکیا ہمارے اوپر ادبارومذلت کے پہاڑ توڑے جانے لگے اور زوال آگیا #

قوت فکر وعمل پہلے فناہوتی ہے

  پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتاہے

            اگر ہم فکر وسوچ درست رکھتے،ایمان واسلام کو عظیم نعمت سمجھتے اور لا متناہی نعمت کے تصور میں متناہی اور محدود زندگی کے شکرکو کم تر سمجھتے تو یوں گویا ہوتے کہ 

 قیامت تک سجدے میں رہے سر میرا اے خدا!

 کہ تیری نعمتوں کے شکر کے لیے یہ زندگی محدود ہے

            اللہ رب العزت نے انسان کووجود بخشا،اگر چہ خداوند قدوس کا دیا ہوا وجود،ظل ِوجود حقیقی ہے،لیکن اللہ کا دیا ہوا وجود ہے،پھر اللہ نے ہدایت کے راستے واکیے اور ارشاد فرمایا:”قل لا تمنوا علی إسلامکم بل اللہ یمن علیکم أن ھدٰی کم للایمان ان کنتم صٰدقین“(الحجرات:۲۶)

            ترجمہ:آپ کہہ دیجیے کہ مجھ پر اسلام لانے کا احسان نہ رکھو(اس لیے کہ قطع نظر گستاخی کے تمہارے اسلام سے میرا کیا نفع ہوگیااور اسلام نہ لانے سے میرا کیا ضرر ہوگیا،اور تم سچے ہوتے تو تمہاری ہی آخرت کا نفع تھا اور جھوٹے ہونے میں تمہارا اپنا ہی دنیا کا نفع ہے کہ قتل وقید سے بچ گئے؛ سو مجھ پر احسان رکھنا محض جہل ہے)بل کہ اللہ تم پر احسان رکھتاہے کہ اس نے تم کو ایمان کی ہدایت دی بشرطے کہ تم(دعویٴ ایمان میں)سچے ہو،(کیوں کہ ایمان بڑی نعمت ہے اور بدوں تعلیم وتوفیق حق تعالیٰ کے نصیب نہیں ہوتاتو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ ایسی بڑی نعمت عطافرمادی(“معارف القرآن بحوالہ فضائل ایمان(۱۲۵ص)       

سب نعمتیں ہیں شہر میں انسان ہی نہیں

کچھ یوں کہ جیسے یہ کوئی نقصان ہی نہیں

احساس نے بتوں میں خدا کو کیاشریک

اس شرک کے بغیر تو ایمان ہی نہیں

            بتوں کو خدا بنالیا اور اس کو ایمان سمجھ بیٹھے اور بت صرف پتھر کے نہیں خواہشات ِنفسانی کے بت،اور اتنے بت کہ” جتنے کنکر اتنے شنکر“کا مصداق خود اہل ایمان ہوگئے کتنی خواہشات کو معبود بنالیا کہ(الامان والحفیظ)اور خدا کی دی ہوئی ہدایت کی نعمت اور اس پر شکر گزاری کو پس پشت ڈال دیا اورقعر مذلت میں گرتے چلے گئے۔      

 رسوا ہوئے ذلیل ہوئے،دربدرہوئے

 حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے

خاتمہ:ایمان کی کشتی کی حفاظت

            مفصلہ بالاابواب ِایمان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ ایمان کی دولت ایک عظیم الشان نعمت ہے،جس کی تکمیل کے لیے اعمال ِصالحہ نماز،روزہ،حج،زکوٰة،معاملات ومعاشر ت اور اخلاقیات وغیرہ تمام پہلووٴں سے ہم کو کمر بستہ ہونا ضروری ہے،ایمان کی تکمیل کی خاطر اعمال ِصالحہ میں مصروف ہونے کے لیے فکر ونظر کی درستگی اور نگاہ کی بلندی ،سخن کی دل نوازی اور جہد مسلسل وجاں پر سوزی کی از بس ضرورت ہے۔

نگہ بلند،سخن دل نواز جاں پُر سوز

یہی ہے رختِ سفر میرِکارواں کے لیے

            ایمان کی تکمیل کے لیے خدا کی مرضیات کی تحصیل کو دل ونگاہ میں بسانا اور دنیا کو اپنے لیے قید خانہ سمجھاجانا چاہیے،تاکہ دنیا کی رنگ ریلیاں ہم کو اپنے دامِ فریب میں پھنسانہ لیں اور دنیا ہی کو ہم آخری منزل سمجھ کر اسی کو بڑاتصور کرکے اسبابِ عیش وراحت کے لالچ میں ،حرص وآزاور لالچ کے سمندر میں ڈوب جائیں جہاں ایمانی کشتی ڈوبی تو ہمارا کوئی یارومدد گار نہ ہوگا۔      

لالچ کے سمندر میں ایمان کی کشتی ہے

ہر قوم زمانے کی یہ دیکھ کے ہنستی ہے

جس قوم نے اپنی تہذیب مٹاڈالی

وہ قوم زمانے میں عزت کو ترستی ہے

            اللہ رب العزت نے خود قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ”وللہ العزة ولرسولہ وللموٴمنین“اور دوسری جگہ ارشاد ہے”وللہ العزة جمیعا“اور ارشاد ہے”وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین“

            ان سارے ارشادات میں مجموعی طور پر مشترکہ مضمون یہی ہے کہ عزت وغلبہ اللہ ہی کے قبضے میں ہے اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کو عزت وغلبہ عطاکرتے ہیں ،ان پر ایمان لانے والے بندوں اور اہلِ ایمان کو عزت عطاکرتے ہیں،اور شرط بتلاتے ہیں کہ جب تک ایمان کی تکمیل کا دامن ہاتھ میں تھامے رہوگے عزت وسربلندی اور غلبہ تم کو حاصل رہے گااور جب بھی تکمیل ِایمان کے نور کو بجھاکر ایمان میں نقصان پہچاوٴگے تو نقصان وذلت کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا، ایمان کی تکمیل پر انعام اور ہدایت وجزا کے درجے لا محدود اور لامتناہی ہیں، تم ان کے حاصل کرنے میں کوتاہی نہ کرو! دل وجان کو مضبوط رکھو،اپنا دامن تنگ نہ کرو،ہماری طرف سے انعامات کی بارش میں کمی نہ ہوگی۔

 تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

 ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٴ داماں بھی ہے

            اللہ رب العزت سے دعاہے کہ ہم سب کو ایمان کی تکمیل کا نور عطا فرمائے، جس سے دنیا وآخرت کی ذلتوں کو عزت وغلبے میں بدل دیا جائے اور پوری دنیا کو ایمان کی ہدایت اور اعمال ِصالحہ کا نور نصیب ہو”،وماذٰلک علی اللہ بعزیز،وصلی اللہ علی النبی الکریم“

افتخار احمد قاسمی بستوی

 استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹرا