لارڈ میکالے کی خطرناک تعلیمی پالیسی کا مقابلہ مسلمانوں نے کیسے کیا اور اس کی روشنی میں اب ہم کیا کریں؟

            ہندستان میں نظامِ تعلیم کی تاریخ کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

             ۱- لارڈ میکالے اور انگریزوں سے پہلے کا نظام تعلیم۔

            ۲- انگریزوں کی آمد کے بعد کا نظام ِتعلیم۔

            ۳- اور آزادی کے بعد کا نظام۔

            آزادی کے بعد نظام ِتعلیم پر اس سے قبل بات آچکی ہے۔ اب یہاں انگریزوں سے قبل کے مسلمانوں کے سنہرے دور کے نظامِ تعلیم پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

مسلم دور حکومت کا نظامِ تعلیم:

انگریزوں کی آمد سے قبل عہدِ اسلامی میں ہندستان کا شاندار نظام تعلیم :

ڈاکٹر احید حسن صاحب تحریر فرماتے ہیں:

            تاریخِ اسلام سے شناسائی رکھنے والوں اور یونیورسٹی کے طالب علم کو شاید یہ جان کر حیرانی ہو کہ برِعظیم میں دین ِاسلام کی تجدید کے سرخیلِ اول مجدد الف ثانی اور تاج محل کے چیف انجینئر ہم جماعت تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب دینی اور دنیاوی تعلیم اکٹھے چل رہی تھی۔ ملا اور مسٹر پیدا کرنے والے ادارے الگ الگ نہیں تھے۔

            برِعظیم میں اسلام کی سیاسی تاریخ کو 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد انگریز حکمرانوں نے مسخ کرنے کی منصوبہ بندی کی، جس کا بنیادی مقصد یہاں کے نوجوان طبقے کو اپنے شاندار ماضی سے کاٹنا تھا۔ اس سارے عمل کے لیے انگریزوں نے جدید تعلیمی اداروں اور لکھاریوں کا سہارا لیا۔

ہندستان کے اسلامی عہد میں ترقی کا راز نظامِ تعلیم ہے:

            برِصغیر کے نوجوانوں کو تاریخ سے لا تعلق رکھنے کا سلسلہ آزادی تک جاری رہا، بل کہ آزادی کے بعد سے تاریخ کو مسخ کرنے کی حکمتِ عملی برقرار ہے۔ برِصغیر عالمی دُنیا میں سونے کی چڑیا کے نام سے مشہور تھا ،اس کی بنیادی وجہ یہاں پر موجود معاشی وسائل اور ترقی تھی؛ یہاں کی معاشی ترقی دراصل ہندستان کے مقامی نظام تعلیم کے باعث تھی، جس سے یہاں امن تھا اور مذہب سے بالاتر ہوکر سماجی و معاشی مساوات تھی۔

پرائیویٹ ادارے بزرگانِ دین کی نگرانی میں چلتے تھے:

            یہاں پر صرف رسمی تعلیمی ادارے ہی نہیں تھے؛ بل کہ غیر رسمی تعلیمی سسٹم بھی رائج تھا، جس کی نگرانی یہاں کے بڑے بڑے بزرگان دین اور اولیاء اللہ کر رہے تھے۔

محمد شاہ تغلق کے دور میں صرف دہلی میں ایک ہزار مدارس چلتے تھے:

            مقریزی نے کتاب الخطط میں اس خطے کی تعلیمی حالت پر بہت تفصیل سے لکھا ہے، ان کے مطابق بزمانہ محمدشاہ تغلق صرف دہلی میں ہی ایک ہزار درسگاہیں تھیں۔

بنگال میں اسّی ہزار مدارس تھے:

             معروف جرمن اسکالر میکس مولر ہندستان کے علوم کی انگریزی زبان میں ترجمہ کرنے کی غرض سے یہاں آیا، تو اپنے مشاہدے کے بعد یہ لکھا کہ ہندستان پر انگریزی عمل داری سے قبل بنگال میں اسی ہزار درسگاہیں تھیں، جو اُس وقت کی آبادی کے مطابق ہر چار سو لوگوں کے لیے ایک درسگاہ تھی۔

            اس قدر بڑے خطے میں مسلمان حکمران تعلیم کا وسیع ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے، ہر مسلمان حاکم نے اپنے دور میں تعلیمی ترقی کے لیے اقدامات اُٹھائے۔

چھوٹے چھوٹے شہروں میں چار سو چارسو مدارس ہوتے تھے:

            الیگزینڈر ہملٹن کے مطابق اورنگزیب عالمگیر کی حکومت میں سندھ کی تعلیمی حالت کا جائزہ لینے کے لیے سروے کیا گیا۔ تو معلوم ہوا کہ صرف ٹھٹھہ شہر میں چار سو کالج موجود تھے؛ جہاں جدید و قدیم علوم کی تعلیم دی جارہی تھی۔

مسلم دورِ حکومت کی شاندار عمارتیں انجینئرنگ کی شاہکار ہیں:

            موجودہ دور میں مسلم دور کی شاندار عمارات کو دیکھ کر تمام پیشہ وارانہ علوم کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ علم و ہنر کی روشنی میں کس طرح برِصغیر میں عظیم تخلیقی صلاحیت سے فن ِتعمیر میں ترقی کی گئی تھی، جو علمی جدوجہدکے بغیر بالکل ممکن نا تھی۔ جس میں فنِ تعمیر کی تفصیلی مہارت اورجیومیٹری، فزکس، کیمیسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے کے علوم شامل ہوتے ہیں۔

مسلمان دور کے معمار جیومیٹری کے ماہر تھے:

             فنِ تعمیر کی جو تفصیلات تاج محل، شیش محل، شالا مار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوانِ خاص، لال قلعہ دہلی بھارت اور شاہی قلعہ لاہور پاکستان وغیرہ میں نظر آتی ہیں، اس سے لگتا ہے کہ ان کے معمار جیومیٹری کے علوم کی انتہاکو پہنچے ہوئے تھے۔

تعمیری میدان میں مسلمان انگریزوں سے چار سو سال آگے تھے:

            انگریزوں نے تعمیرات میں (ویل فاوٴنڈیشن) بہترین مضبوط بنیاد کا آغاز انیسویں صدی اور (آپٹیکل الوژن) کا آغاز بیسویں صدی عیسوی میں کیا؛ جب کہ برصغیر میں یہ طریقہٴ تعمیر سترھویں صدی کے وسط میں مکمل کر لیا گیا تھا۔اس کے علاوہ ٹائل موزیک ایک فن ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتی ہیں اور دیوار کو منقش کیا جاتا ہے۔ یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلو میٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیر خان میں نظر آتا ہے؛ ان میں جو رنگ استعمال ہوئے ہیں ان کو بنانے کے لیے آپ کو موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کے وسیع علم پر مکمل عبور ہونا ضروری ہے۔ یہی حال فریسکو پینٹنگ کا ہے،جس کے رنگ چار سو سال گزرنے کے بعد بھی آج تک مدھم نہیں ہوئے۔ تمام مغل ادوار میں تعمیر شدہ عمارتوں میں ٹیرا کوٹا (مٹی کو پکانے کا فن) سے بنے زیرِ زمین پائپ ملتے ہیں۔ ان سے سیوریج اور پانی کی ترسیل کا کام لیا جاتا تھا۔ کئی صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔

مسلم فنِ تعمیر کی معلومات کے لیے کئی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں درکار ہوں گی:

            مسلم فنِ تعمیر کا مکمل علم حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور موجودہ دور کے سائنسی پیمانوں پر ایک نصاب کی صورت تشکیل دیا جائے، تو ان تمام علوم کو سیکھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی کئی ڈگریا ں درکار ہوں گی۔

تمام مذاہب کے اپنے تعلیمی ادارے پائے جاتے تھے:

            کثیر المذاہب کے مصداق اس خطے میں، کسی کے ساتھ تفریق نہیں کی جاتی تھی، ہندو، سکھ، پارسی یا دیگر مذاہب کے تمام افراد کے لیے تعلیمی ادارے موجود تھے اور مرکزی و مقامی حکومتیں ان کی سرپرستی کیا کرتی تھیں۔ تعلیم کے فروغ کی خاطر، یہاں کے مقامی افراد تعلیمی اداروں کے لیے زمین وقف کرتے تھے اور ان اداروں کی مالی امداد کرنا بھی فرض سمجھا جاتا تھا۔ برطانوی سامراج کی ہندستان پر حکومت سے قبل یہی سسٹم رائج تھا۔

ایک ایک علاقے میں پانچ پانچ ہزار معلمین ہوتے تھے:

            جب دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹی تو حیات حافظ رحمت کے مطابق صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع میں پانچ ہزار علمائے کرام درس و تدریس پر معمور تھے اور ان کی تنخواہیں حافظ الملک کی ریاست ادا کرتی تھی۔

دینی و سائنسی تعلیم یکجا ہوتی تھی:

            مسلمان حاکموں نے یہاں کے تمام مدارس یا درسگاہوں میں دینی تعلیم اور سائنس کی تعلیم کو یکجا طور پر پڑھانے کا نظام وضع کیا تھا۔ مجدد الفِ ثانی اور تاج محل کے چیف انجینئر کی مثال ثبوت کے لیے کافی ہے۔

            یہ تعلیمی ڈھانچہ ہی تھا کہ جب ہم جماعت مستقبل میں عملی ذمے داریاں سنبھالتے ہیں تو ایک مجددِ وقت ٹھہرا اور دوسرے نے سول انجینئرنگ کے شعبے میں ایسا شاہکار و عجوبہ تخلیق کر ڈالا، جس کی داد دیے بغیر کوئی نہیں رہتا۔ تاج محل کی تعمیر میں سول انجینئرنگ سے لے کر فزکس، جیومیٹری اور ریاضی کے اُصولوں کا ،جس طرح استعمال ہوا ہے، آج بھی لوگ انگشت بدندان ہیں۔

            یہ فنِ تعمیر کا شاہکار یہاں کے تعلیمی نظام کے جامع ہونے کا زندہ ثبوت ہے۔

متحدہ بر صغیر میں ابتدا سے اعلیٰ درجہ تک تعلیم مفت دی جاتی تھی:

            متحدہ برصغیر پرایسٹ انڈیا کمپنی کے سامراجی تسلط(1757ء) سے پہلے مسلم دور حکومت میں باقاعدہ ایک تعلیمی نظام موجود تھا؛ جہاں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک اس کا انتظام بغیر فیس اور معاوضے کے کیا جاتا تھا۔ اہلِ ثروت، امرا، نوجوانوں اور بادشاہوں کی طرف سے جائدادیں بغیر کسی ذاتی مفاد کے تعلیم کے لیے وقف کی جاتی تھیں۔ صوبے بنگال میں صوبہ کا چوتھائی حصہ صرف تعلیم کے لیے وقف تھا،جس کے ٹھوس شواہد تاریخ میں موجود ہیں۔

             اور مسٹر جیمس کرانٹ کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگال میں تمام مدارس کو سرکاری خزانو ں سے امداد ہوتی تھی“۔اس زمانے میں کیفیت یہ تھی کہ والیانِ ملک اور امرا تعلیم کی پوری سر پرستی کرتے تھے، اس کے لیے جاگیریں دیتے اور جائیدادیں وقف کرتے تھے۔ دہلی کی مرکزی حکومت ٹوٹ جانے پر بھی صرف روہیل کھنڈ کے اضلاع کی مثال کافی ہے ؛ جیسا کہ پیچھے بھی ذکر ہوا کہ ”پانچ ہزار علما مختلف مدارس میں درس دیتے تھے اور حافظ رحمت خاں (مرحوم) کی ریاست سے تنخواہیں پاتے تھے“۔

مسلم دور میں تعلیمی نظام انسان دوست سماج تشکیل دیتا تھا:

            اس تعلیمی نظام نے انسان دوست سماج پیدا کرنے میں مدد دی۔ جس میں اُس وقت کے مدارس، اساتذہ اور حکومت برابر کی حصے دار ہیں۔ جس کے باعث لاکھوں میل پر پھیلے اس خطے کو سیاسی طور پر مضبوطی سے جوڑنے میں مدد ملی۔ جنگِ آزادی میں شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت مکمل طور پر ٹوٹ گئی اور انگریز نے پورے ہندستان میں اپنی حکومت کا جھنڈا لہرا دیا۔ اپنی سیاسی حکومت کی تقویت اور نظام ِمملکت کو اپنے تابع بنانے کے لیے تعلیمی ڈھانچے کو از سرنو ترتیب دینے کا آغاز کیا۔

انگریزوں نے تعلیم کے ذریعے نفرت اوردین ودنیا کی تفریق کے بیج بوئے:

            انگریزی سرکار کو خطرہ لاحق ہوا کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت اگر برِصغیر میں رہی تو وہ ہماری حکومت کو گرانے میں دیر نہیں کریں گے۔ جس کے نتیجے میں انگریز نے ایک نئی حکمتِ عملی کے تحت تمام تعلیم گاہوں کو گرا کر نام و نشان مٹا دیا۔ اور تمام تعلیمی جگہوں کو 1838ء میں سرکاری قبضے میں لے لیا؛ کیوں کہ کمپنی سرکار کا بڑا مقصد برصغیر کے قدرتی وسائل کو لوٹنا اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا تھا۔

            لارڈ میکالے کو جب اس ڈھانچے کو بدلنے کی ذمے داری سونپی گئی تو میکالے نے جو تعلیمی سفارشات مرتب کیں اس میں لکھا کہ اگر ہم اس قوم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تو یہاں کے تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا، یہاں کی ثقافتی روایات بھی تبدیل کرنا ہوں گی۔

            اس نے کہا کہ مشرقی علوم پر مزید خرچ کرنا کارِ لاحاصل ہے!اور اسے برِصغیر کے عوام میں انگریز کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کا عنصر قرار دیا؛ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ جب تک برِصغیر کے عوام اپنے ماضی اور مذہب سے وابستہ رہیں گے، انگریز اقتدار خطرے میں رہے گا۔

            انگریز حاکموں نے یہ منظم سوچ بل کہ سازش کے تحت کیا؛ جس کا لامحالہ مقصد اپنی حکومت کو مضبوط کرنا تھا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب کی کچھ رسومات و معلومات تو اگلی نسل کو منتقل ہو گئیں ؛لیکن مدارس سے فارغ التحصیل طلبا عملی سماجی زندگی سے کٹ گئے۔

            اور جو مذہبی ادارے انگریزی سرپرستی میں چل رہے تھے، وہ انہیں کے مفادات کی تکمیل کرنے میں معاون تھے۔ مذہب کی تعلیم کے ساتھ انگریز کا معاملہ یہ تھا؛ تاہم انگریزی تعلیم یعنی کالجوں کے سسٹم کے ذریعے نوجوانوں کی کھیپ تیار کی جانے لگی۔

انگریز کی سازش کا اثر:

            سیداسداللہ طارق نے اپنے مضمون” دینی علم، ایک فطری ضرورت“ میں بخوبی انیسویں صدی کے حالات کا جائزہ لیاہے ۔ جن کے مضر اثرات ہمیں بیسو یں صدی میں ورثے میں ملے ہیں۔ طارق صاحب فرماتے ہیں:

            ”دینی تعلیم مسلمانوں کی سب سے اول اورفطری ضرورت ہے، جسے آج آخری درجہ دینا بھی بوجھ محسوس کیا جاتا ہے۔ دراصل یہ کا فرِ فر نگ کی سحر کاری اور مسلمانوں کی صد سالہ غلامانہ ذہنیت کا کرشمہ ہے۔انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں، حب غلام ہند کے تخت ِاقتدار پر فرنگی سامراج کا دیواِستبدا دعریاں رقص کرنے لگا، تو سب سے پہلاتحفہ جو فرمانبردار رعایا کوعطا ہوا، وہ نئی روشنی کا تحفہ تھا۔ خطرہ تھا کہ مسلمانوں کا دینی مزاج اس تحفہ کو قبول کرنے میں دِقت محسوس کرے گا، اس لیے ہند ستان کی غلامی کو دائمی بنانے کے لیے ؛یہاں کی مروجہ اسلامی تعلیمات کو پا مال کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ مشہور واقعہ ہے کہ ہر لائبریری،ہر مکتب ،ہر مدرسہ حتیٰ کہ گھروں تک کی تلاشی لے کر قرآن ِکریم کے تمام نسخے اکھٹے کیے جانے لگے؛ تا کہ سرے سے قرآن کریم ہی ہندستان سے مفقو دکر دیا جائے ،نہ قرآن ہو گا، نہ مسلمان اسے پڑھ سکیں گے؛ لیکن علما ئے وقت نے دس دس بارہ بارہ سال کے بچوں کو پیش کر کے پورے کا پورا قرآن سنوانا شروع کر دیا۔“

(سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت: ص۶۵)

            مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دور کا نظام ِتعلیم بہت منظم اور مفید تھا،جس میں مذہب اور جدید علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جاتے تھے،جس کا فائدہ یہ تھا کہ ملک ترقی بھی کررہا تھا اور ہندستانی باشندوں میں مذہبی بنیادوں پر لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا تھا، تو آپسی محبت اور ترقی دونوں خوبیوں کا راز مسلمان حکمرانوں کا شاندار نظامِ تعلیم تھا۔

             ملک کی شرحِ خواندگی ۹۰/ فیصد تھی، پھر انگریزوں نے ”آپس میں لڑاوٴ اور حکومت کرو“ کے ناپاک اصول کو اختیار کیا اور فرقہ پرستی کا بیج بویا ؛جیسا کہ موٴرخ ِاسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی نور اللہ مرقدہ نے لکھا ہے” کہ انگریزوں کے آمد سے قبل کسی ہندو مسلم فساد کا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا۔ مسلمان آزادانہ طورپر لوگوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے دیتے تھے، اور مل جل کر محبت کی فضا میں زندگی بسر کرتے تھے، گویا انگریزوں نے ہی دین و دنیا کی تعلیم کو الگ الگ کیا… انگریزوں نے ہی فساد کے بیج بوئے… انگریزوں ہی نے معاشرے میں نفرت پیدا کی۔ لوگوں کو مذہب سے دور کیا اور مادہ پرستی کی جانب ڈھکیل کر معاشی اعتبار سے کمزور کردیا۔ ہندستان معیشت کے اعتبار سے اتنا مستحکم تھا کہ سقوطِ اندلس کے بعد ؛جب یورپ میں صنعتی انقلاب آیا اور ان کو اپنا مال فروخت کرنے کے لیے منڈیوں کی ضرورت پڑی تو اس دور کا سب سے متمول ملک ہندستان تھا۔اس تک پہنچنے کے لیے اقوام مغرب بے تاب ہوئی اور سمندری راستے سے ہندستان کی جانب پہلا قافلہ اسپین اور پرتغال سے ہندستان کے لیے نکلا، مگر راستہ بھٹک گیا اور امریکہ پہنچ گیا۔ ڈاکٹر حقی حق صاحب نے ”ہوئے تم دوست جس کے “ کتاب میں اس کی تفصیل لکھی ہے ، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور وہ امریکہ کی سرزمین کو ہندستان سمجھ کر وہاں اترے تھے، اسی سے دور مسلم میں اس ملک کے مالدار ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

مسلمان علما نے انگریزی کی مخالفت نہیں کی ؛بل کہ مغربی فلسفے کی مخالفت کی :

            مسلمانوں کے ابھرنے کا طریقہ بھی یہی تھا کہ دہ ا نگریزوں کے ان نئے فنون کو سیکھیں، حاجی امداداللہ صاحب اور مولانا محمد قاسم نانوتوی صاحب اور دوسرے علما کی بھی یہی رائے تھی۔ یہ کہنابالکل غلط ہے کہ علما انگریزی پڑھنے کے مخالف تھے، مگرانگریز ہرنئے فنون کے ساتھ کچھ نئے علوم بھی لائے تھے۔

(سرسید اور حالی کا نظریہٴ فطرت:ص۱۱۴)

            خلاصہ یہ ہے کہ تعلیمی نظام اگر اچھا ہو، تو ملک کے تمام شعبوں اور خطوں میں ترقی اور ڈیولپمنٹ ہوتا ہے، ورنہ نہیں۔ اب تک ہندستان انگریزی نظامِ تعلیم کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا اوراب بھی جو نیا نظامِ تعلیم آیا وہ بھی ان ہی کے اشاروں پر مرتب ہے۔ اور ملک کو اس نئی تعلیمی پالیسی سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوسکتا؛ بل کہ نقصان ہی ہوگا۔ بس اللہ ہی محافظ ہو ہمار ا بھی اور ملک کا بھی۔

دینی تعلیم کے الگ نظام کا اثر:

            ۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد حاجی امداد اللہ مہاجر مکی  اور مولانا رحمت اللہ صاحب کیرانوی  اپنے چند نیک اور صالح رفقا کے ساتھ، علما ہی کے کہنے پر حجازِ مقدس مکہ مکرمہ کی جانب ہجرت کر گئے اور وہاں جاکر ہندستان کے مسلمانوں کے لیے ،ان کے ایمان واسلام کی بقا اور حفاظت کے اسباب کے لیے مقامات ِمقدسہ پر آہ و زاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگے، تب اللہ تعالیٰ نے یہاں کے علما کی دل میں یہ بات ڈالی کہ وہ مسلمانوں کی دینی تعلیم میں سرکاری سرپرستی ختم ہونے کے بعد، اب اپنے طور پر عوام الناس سے تعاون حاصل کرکے اپنے دینی تعلیمی نظام کو مرتب کریں۔ اسی غرض سے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی گئی اور ان حجاز مقدس میں دعا کرنے والے بزرگوں کو اس کی اطلاع دی گئی تو؛ جیسا کہ اوپر گزرا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ نے کہا ۔

            ”سبحان اللہ ! آپ کہتے ہو ہم نے مدرسہ قائم کیا ہے! یہ خبر نہیں کہ کتنی پیشانیاں اوقات ِسحر میں سر بسجود ہوکر گڑگڑا کر یہ دعا کرتی رہیں کہ خداوند! ہندستان میں بقائے اسلام اور تحفظ ِعلم کا کوئی ذریعہ پیدا کر۔ یہ مدرسہ انہی سحرگاہی دعاوٴں کا ثمرہ ہے“۔

۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں نے تبلیغِ دین کا کام پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری رکھا:

            یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ہندستان میں اسلامی تبلیغ کی بنیاد جو خواجہ معین الدین چشتی  نے گیارھو یں صدی عیسوی میں رکھی ،اسے مسلمانوں نے ۱۸۵۷ء کے بعد بھی پورے جوش و خروش سے جاری رکھا۔ شوستری نے اس سلسلے میں یوں تحریر کیا ہے کہ”اگرچہ مسلمان اپنی سابقہ سیاسی طاقت اور معاشرے میں درجہ کھو چکے ہیں، وہ اپنے مذہب کو فروغ دینے سے دستبردارنہیں ہوئے ؛بل کہ یوں کہیے کہ عیسائی مشنریوں اور ہندوآر یا سماج کی سرگرمیوں کے پیشِ نظر انہوں نے اپنی کوششوں کو دگنا کر دیا ہے۔ پنجاب، یو پی اور جنوبی ہند میں اسلام کے دفا ع کے لیے اورغیرمسلم اعتراضات کاخاطرخواہ جواب دینے کے لیے متعدد تعلیمی ادارے قائم ہوگئے ہیں، جوا سلامی مسائل کو حالات ِحاضرہ کی روشنی میں سائنسی دلیلوں سے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔“

(سرسید اور حالی کا نظریہ فطرت: ص۶۲)

            اب تک ہم نے تعلیمی پالیسی پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی۔ دورِ اسلامی میں ،انگریزوں کے دور میں، آزادی کے بعد تعلیمی نظام کیا تھا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے اور مسلمانوں نے کس طرح اسلام کے بقا کے خاطر موٴثر تدابیر اختیار کیں۔ تو آییے! اب ا س نئی تعلیمی پالیسی کے بعد ہماری کیا ذمے داری عائد ہوتی ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔