قضیہٴ فلسطین ؛حقائق کی روشنی میں
مفتی عبدالقیوم مالیگانوی/استاذجامعہ اکل کوا
خوف نے ڈیرہ ڈال رکھاہے:
جہادِ فلسطین جاری ہے۔مجاہدین سرفروشانہ اورذوقِ شہادت سے معموراپنی پیش رفت اورقربانیاں سرانجام دے کرسرخ روہورہے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِگرامی”لاتزال طائفة من امتی قائمة بامر اللّّٰہ لایضرہم من خذلہم اوخالفہم حتیٰ یاتی امراللّّٰہ وہم ظاہرون علی الناس“ پرپورے اترتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔اُن کی عظیم قربانیاں اورقابل رشک شہادتوں کودیکھ اورسن کردورِ صحابہ کے واقعات اورحالات کااندازہ لگانابہت ممکن ہے ۔ واقعی”فزت ورب الکعبة“کی عملی تصویرنظرآتی ہے ۔
نیندیں حرام ہیں:
ایسالگتاہے کہ اُنھیں اُن کی عظیم ماوٴں نے پالاہی ہے ان دنوں مسجداقصیٰ کی حرمت پرجان دینے اور جام شہادت نوش کرنے کے لیے ۔ان کے جذبہٴ قربانی اورشوقِ شہادت نے دشمنوں کے خیموں میں خوف وہراس اوربے چینی پیداکردی ہے ۔فلسطینی مجاہدین کے دلیرانہ حوصلوں نے ان کی نیندیں حرام کردی ہیں۔جنھیں وہ اب تک لقمہٴ ترسمجھ رہے تھے،وہی اُن کے حلق کا کانٹابن چکے ہیں،جنھیں شکست دینا یوں ہی آسان نہیں۔واقعی ہماری تاریخ ماضیہ بھی یہی بتلاتی ہے۔بہ قول عبدالماجددیوبندی
ہم نے تو سمندر میں بھی دوڑا دیے گھوڑے
یوں ہم کو مٹانا کوئی آسان نہیں ہے
خریدار؛خالق کائنات ہے:
ارشادخداوندی ہے:﴿اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ﴾یقیناہماری جانیں اورہمارے اموال اللہ کی امانت اوربکاہوامال ہیں،جس کاخریدارخودخالق فطرت ہے ۔اس کی خوشی اوراس کے کلمہ کی سربلندی کے لیے اس کوقربان کردیناعینِ بندگی اورغلامی کاتقاضاہے ۔”سرتسلیم خم ہے ،جومزاج یارمیںآ ئے“۔
حلوہ مت سمجھ لینا:
لیکن یہ ہمارے لیے اتناآسان نہیں ہے۔ہاں!ان لوگوں کے لیے آسان ہی نہیں،بلکہ کام یابی،منزل اورفرح وانبساط کی اورمزے کی بات ہے،جنھوں نے جینااورمرناصرف اللہ اوراس کی رضا کے لیے طے کررکھا ہے۔اسی مقصد کواپنی زندگی کااوڑھنابچھونابنالیاہے ۔جن کی نگاہیں صرف رضائے الٰہی اورمرضیٴ مولیٰ پرٹکی ہوئی ہیں،جوموت کی آغوش میں بھی فرط ِمسرت سے جھوم کرکہتے ہیں
مزے کی چیز ہے یہ ذوق جستجو میرا
نشانِ منزلِ جاناں ملے نہ ملے
یہ وہ لوگ ہیں،جنھیں جینے سے زیادہ اپنے مولیٰ کے لیے جانوں کانذرانہ دینااورآخری سانسوں تک عَلم اسلام کوبلندکرناپُرلطف معلوم ہوتاہے۔دراصل موت ان کے لیے ایک پیغام ِلقاء اورعاشق ومعشوق کے سنگم کا واسطہ ہوتی ہے ۔سچ ہی توہے کہ
فنا فی اللہ کی تہ میں بقاء کا راز مضمر ہے
جنھیں مرنا نہیں آتا انھیں جینا نہیں آتا
انھیں جان دے کربھی نہ دینے کااحساس ستاتاہے یاجان کی قربانی بھی مولیٰ کی محبت میں کم معلوم ہوتی ہے۔اسی احساس کوپیش کرکے کہتے ہیں کہ
جان دی ؛ دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
تاریخ خودکودُہرارہی ہے:
فلسطینی بھائیوں اورمجاہدین نے اسی تاریخ کورقم کیااوردہرایاہے ،جس سے ایک بارپھرزندہ دلی، شجاعت وبہادری ،استقلال وپامردی،غیرت وحمیت دین اورجذبہٴ شہادت کی ایسی خوش بوبکھری،جس نے تمام ملت اسلامیہ اوراہل ایمان کو جھنجھوڑکررکھ دیا۔اہل حق وصداقت کاسربلندہوا۔ اہل نفاق وفسادکے خیموں میںآ گ لگ گئی،جواپنی آتش کے سوزوں کوبجھانے کے لیے مجاہدین کے اس اقدام کو غلطی اورجرم سے تعبیرکرنے لگے، کیوں کہ یہ تواُن کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔لیکن جوہوا،وہ تو ہونا ہی تھا۔ کیوں کہ اس راہ میں قربانیاں ہی کام یابی اور منزل تک پہنچنے کازینہ ہے۔اسی چشمہٴ شہادت سے ایسی نہریں پھوٹیں گی ، جو بہت دورتک سیرابی کرے گی اور ایک عظیم الشان انقلاب برپاہوگا۔ان شاء اللہ !مردوخواتین اورمعصوم جانوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائے گی۔ کیوں کہ سچائی یہی ہے کہ ”اسلام زندہ ہوتاہے ہرکربلاکے بعد“۔
تجزیہ نگاروں کے تجربات:
کچھ محقق تجزیہ نگاروں نے اس جاری معرکہ کے کچھ فوائداورایسے ثمرات کی نشاندہی کی ہے،جوقابل قبول بھی ہیں اورقرین قیاس بھی۔کہاجارہاہے کہ سعودی عربیہ اسرائیل کی اس ناجائزقابض وغاصب حکومت کوتسلیم کرنے کے مرحلہ میں ہے ؛چناں چہ اسی خطرے کوبھانپ کرحماس کے سرفروشوں نے اقدامی کارروائی کوضروری سمجھا،تاکہ یہ کٹھ پتلی سرکاریں اس کی جرأت نہ کرسکے اورساری دنیاکے سامنے اس کاموقف آجائے۔اس لیے کہ عرب کااسرائیل کوتسلیم کرلینے کاسیدھامطلب ہے؛مسجداقصیٰ قبلہٴ اول کواپنی رضامندی سے ان کے حوالے کر دینا اور تمام اہل فلسطین کی زندگیوں کواس ظالم درندے کی جھولی میں پھینک دینا؛تاکہ وہ انھیں سمندر اور صحرائے سینا میں جس طرح چاہے،مارے اوران کاخاتمہ آرام سے کردے ۔الحمدللہ !اس حملہ سے سعودیہ اوراس کے ہم نوا اس کی جرأت ہرگز نہیں کریں گے۔
وہ سوبارسوچیں گے:
دوسراعظیم فائدہ اس حالیہ جنگ سے جوحاصل ہوا،وہ اسرائیل اوراس کے آقا”امریکا“کے مدتوں درازسے دیکھے گئے خواب کوچکناچورکرناہے ،جس کے لیے انھوں نے عرصہ درازسے محنت کی اوردنیابھرکے یہودیوں کواِس پاک سرزمین پربسانے کاپروگرام بنایا،تاکہ ان کابھی اپناایک ملک ہو۔لیکن موجودہ صورت حال یہی بتلارہی ہے کہ یہودی دسیوں سال یہاںآ بادہونے کی ہمت نہیں کریں گے۔اس لیے کہ ان مجاہدین کے ابتدائی اقدامات نے ان کے دلوں میں خوف اورموت کے نقشے مرتسم کردیے ہیں؛چناں چہ ان کی بڑی تعداد مختلف علاقوں میں بھاگ کرخیمہ زن ہونے پرمجبورہے۔
حماس کی طاقت کااندازہ ہوگیا:
تیسراایک اورفائدہ یہ بھی ہواکہ دنیاکی تمام بڑی طاقتوں کے سامنے حماس اوران کے مجاہدین کی عسکری قوت اوربے مثال جنگی صلاحیت کامظاہرہ ہوگیا۔وہ سمجھ گئے کہ کل تک جوصرف پتھراورغلیل چلاتے تھے،آج ان کے پاس اتنی قوت اوراسلحہ کہاں سے اورکیسے آگیا،جس سے ان کے اندربھی آئندہ کے لیے ایک فکراورخوف باقی رہے گا۔اورسب سے اہم چیزیہ ہے کہ اہل غزہ اورہمارے ان مجاہدین کے لیے دشمنوں کی طرف سے یہ طے کیا جا چکا تھا کہ انھیں صحرائے سینامیں لے جاکرختم کردیں گے،اس لیے یہی ضروری تھاکہ جب ہمیں ہرحال میں مرناہی ہے، تو پھر کیوں نہ شہادت کی عظیم موت کوترجیح دی جائے ؟
تنگ آمد،بہ جنگ آمد:
اس جذبہٴ شہادت اورتمنائے سرفروشی نے انھیں مجبورکیاکہ خودہی آگے بڑھ کرحملہ کردیاجائے، توگویایہ حملہ ان کی مجبوری بھی بن گیاتھا۔کیوں کہ اپنی جان ،مال،عزت وآبرونیزشعائردین کی حفاظت مقاصدشریعت میں سے ہیں،جس کی گواہی حدیث پاک میں دی گئی ہے ۔اور”تنگ آمد،بہ جنگ آمد“کااصول بھی یہی کہتاہے کہ جب کسی پربھی اس کی جان کے خطرے منڈلائے تواس کوجان بچانے کی فکرہوتی ہے۔ اوردنیاکاہرمذہب اوراس کا نظام اس کی اجازت دیتاہے۔اوراہل فلسطین تو۷۵/سالوں سے اپنی جانیں اوراپنے اموال اس راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ اس لیے بجاطورپران کوحق تھاکہ وہ اپنی حفاظت کی خاطرممکن اقدامات اورکارروائیاں کریں۔
لہٰذااندھوں کو آنکھیں کھولنے اورتعصب وعنادکاچشمہ اتارکردیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہے ،جواُن مظلوم مجاہدین کودہشت گرداوران کے اقدام کودہشت گردی کہنے سے تھکتے نہیں ہیں۔
امریکاکی ناجائزاولاد:
کیاوہ امریکااوراس کاناجائزبچہ اسرائیل؛جس نے قتل وخون کابازار۷۵/سالوں سے گرم کررکھا ہے،ان بے ضمیروں یاضمیرفروشوں اورچندکھوٹے سکوں کی جھنکارپرفن کاربننے والوں کودہشت گردنظرنہیںآ تے ہیں۔ظلم وبے انصافی ،بلکہ بے ضمیری اورغلامی کی بھی ایک حد ہوتی ہے، لیکن کچھ ٹکڑوں پرپلنے والے پالتو کتوں نے تویہاں ساری حدیں پارکررکھی ہیں اوروہ ظالم کومظلوم اورمظلوم کو ظالم کہہ کر بھونکتے ہیں۔خیر اللہ کی ذات علیم وخبیرہے اورعزیزوقہاربھی ہے ،اس کی لاٹھی میں کبھی آواز نہیں ہوتی،اِس لیے نہ کچھ سنائی دیتاہے نہ کچھ سمجھ آتا ہے ۔لیکن چلتی ضرور ہے اوراِن شاء اللہ یہاں بھی چلے گی اوردنیادیکھے گی کہ حق ؛ حق ہی رہے گااورباطل؛ باطل ہی ہو گا،کیوں کہ اللہ پاک کاارشادہے بھی یہی :﴿اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ﴾یعنی باطل کی تقدیر میں ملیامیٹ ہوناہی لکھاہواہے۔
اب ایک اورحقیقت:
ہم اسے بھی سمجھتے چلیں کہ اس خوں ریزصورت حال میں دیگرعرب ممالک مددکیوں نہیں کرتے؟بلکہ جرأت مندانہ گفتگوسے بھی گریزکرتے ہیں۔اس کاجواب بہ چندوجوہ دیاجاسکتاہے ۔
(۱)ان سیاسی شیوخ کے مددنہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی حفاظت کے لیے کوئی وردی نہیں۔ انھوں نے اپنے ملک میں کوئی سامان تیارنہیں کیا۔یہ اپنی حفاظت کے لیے انھیں مغربی طاقتوں کے محتاج ہیں۔ گویا کہ علم اور(Technology)سے ان کے رشتے منقطع ہیں،توپھردولت ومال ان کی حفاظت کیسے کر ے گا؟
(۲)ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے یورپ نے ان عربوں کوہی استعمال کیاتھاکہ اسلام تمھارے پاس آیا۔خلافت تمھاراحق ہے،اس لیے یہ تُرک لوگ تمھارے حاکم وسردارکیسے ہوسکتے ہیں؟چناں چہ بعض عرب اس بہکاوے کاشکاربن کرقومیت کی بنیادپرسقوط ِخلافت ِعثمانیہ کے مجرم ہوئے اوربغاوت کرکے ایک عظیم طاقت ور خلافت کو انھوں نے ختم کردیا۔اورمسلمانوں کے رعب ودبدبہ اوراُن کی شان وشوکت کوٹھیس پہنچانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔
(۳)یہ بھی دوسری بنیادکاہی نتیجہ اور(Result) ہے ۔اس بغاوت سے انگریزوں اوریورپ سے وفاداری کے نتیجے میں ہی سعودی عربیہ کی حکومت ان کی جھولی میں ڈالی گئی،جس کی لگام امریکااوراس کے حلیفوں کے قبضے میں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اگر یہ لوگ فلسطین اوراہل غزہ کی حمایت کریں گے اورکھل کرساتھ دیں گے تو سال بھر کے اندرہی ان سے ان کی حکومت ختم ہوجائے گی،اقتدارکی باگ ڈور چھین لی جائے گی اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں پھانسی کے پھندوں کابھی سامنا کرنا پڑے۔
آتے ہیں،لیکن جاتے نہیں:
اِن کوکرسی سے پیاراس قدرہوجاتاہے کہ پوچھیے نہیں۔اسی وجہ سے انھیں اپنی کرسی اور حکومت کے زوال وسقوط کاخطرہ ہمیشہ درپیش رہتاہے ،جس پر تیس چالیس سال براجمان رہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایک بار جب آتے ہیں تومرتے دم تک جاتے نہیں،سوائے عربستان سے قبرستان تک۔جب کہ دنیایہ بھی جانتی ہے کہ یورپ کااقتدارصرف پانچ سال کے لیے ہوتاہے ، بشرطے کہ درمیان میں ملکی حالات ابترنہ ہو، ورنہ تو پانچ سال بھی مکمل نہیں کرسکتے اور اقتدار کوسلام الوداع پیش کرناپڑتاہے۔
صدق دل سے عمل:
اتنی لمبی مدت تک اقتداروحکومت کی تمنابھی انھیں اس کااسیراوربے دام غلام بنادیتی ہے۔پھرایسے دولت وحکومت کے پجاری کوا تنی جرأت ہی کہاں اورکب ہو سکتی ہے کہ اپنی کرسی اورعیش وآرام کوخطرے میں ڈالے؟اس لیے ارشاد رحمانی :﴿صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْن۔﴾ کوسامنے رکھ کراندھے گونگے بن جاتے ہیں اورخاموشی کی چادر تان لیتے ہیں؛بلکہ دوسرے انداز سے اغیارکی طرف داری وحمایت میں اپنی عافیت اوربرقراری سمجھتے ہیں۔ یعنی ”جان بچے تولاکھوں پائے“پر صدق دل سے عمل کرکے اپناآقائی فریضہ اداکرکے سائڈپکڑلیتے ہیں۔
مفتی احمدخان پوری مدظلہ العالی کی تلقین:
ہم کیاکرسکتے ہیں،جواُن مظلوم بھائیوں اوربہنوں سے بہت دورہیں؟اب ہماری ذمہ داری دعا،رب کریم سے استغفاراوراپنے گناہوں کی معافی مانگناہے۔اس لیے کہ عمومی گناہ کی وجہ سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصرت و رحمت بندکردی جاتی ہے ؛چناں چہ مفتیٴ گجرات حضرت اقدس مفتی احمدصاحب خان پوری مدظلہ العالی نے ان حالات کے لیے ایک وظیفہ تلقین فرمایاہے کہ ہرشخص مردہویاعورت؛کم ازکم تین سومرتبہ ”نَسْتَغْفِرُاللّٰہ “ جمع کے صیغہ کے ساتھ تمام امت کی نیت کرتے ہوئے پڑھے۔اوراگراللہ رب العزت زیادہ کی توفیق دے توایک ہزار مرتبہ پڑھے۔ اِن شاء اللہ !رحمت خداوندی متوجہ ہوگی اورحالات خوش گوارہوں گے۔
بارگاہِ الٰہی میں دعا:
اللہ اُن حکم رانوں کواپنی حقیقت اورفرائضِ منصبی کااحساس عطافرمائے ۔اسی کے ساتھ ان مظلوم بھائیوں اوربہنوں کی نصرت فرمائے۔ان مجاہدین کو طاقت وقوت اورتمام ترصلاحیتوں سے نوازے۔ مظلوموں کو اس پیش آمدہ مصیبت سے مکمل عافیت کے ساتھ نکلنے کی راہ مقدر فرمائے اوردیریاسویراُن کی قربانیاں رنگ لائے ۔آمین یا رب العالمین!