قصہٴ اصحابِ کہف کے ایجابی پہلو!

انوار قرآنی:                                                                      دوسری قسط:

مفتی عبد المتین صاحب اشاعتی# کانڑ گانوی#

(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)

گذشتہ سے پیوستہ:

            پہلی قسط میں یہ بتایا گیا کہ تقسیمِ وضعی یا موضوعی کے اعتبار سے سورہٴ کہف ایک مقدمہ اور چھ قسموں پر مشتمل ہے،چناں چہ اس قسط میں قصہٴ اصحابِ کہف کےایجابی پہلووں پر روشنی کے ساتھ ساتھ شروع کی آٹھ آیتوں میں مذکور مقدمہ کا ذکر ہوگا، جس میں ابتدا بالحمد، وصفِ قرآن،انزالِ قرآن، خاص بندہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر شفقت وعنایتِ باری تعالیٰ، زینتِ حیاتِ دنیوی کی حکمت اور اس کا انجام بیان کیا گیاہے۔(عم)

(۱۴) قصہٴ اصحابِ کہف کے ایجابی پہلو!

(۱) نوجوانوں کا ایمان لانا اور کافر معاشرہ سے اعتزال:

جو شخص اپنا دین بچانے کی خاطر فتنوں سے بھاگتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔

جو شخص عافیت کا طلب گار ہو، اسے اللہ پاک عافیت سے نوازتے ہیں۔

جو اللہ کی پناہ میں آتا ہے، اسے اللہ پاک پناہ عطا فرماتے ہیں اور اسے دوسروں کی ہدایت کا ذریعہ بناتے ہیں۔

            جو شخص راہِ خدا میں تکلیفوں اور مشقتوں پر صبر کرتا ہے اور مقصد صرف رضائے خداوندی ہو، تواللہ پاک اس کی طرف سے دفاع فرماتے ہیں اور اس کا اتنا بہترین انجام ہوگا کہ اسے گمان بھی نہ ہوگا۔لہٰذا ایک مسلمان داعی کواس قصہ سے یہ سبق ملا کہ بصیرت وہدایت کے ساتھ دعوتِ الی اللہ کا فریضہ انجام دے، اللہ کے دین کے سلسلے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرے، کیوں کہ ابتلا وآزمائش یہ انبیا علیہم السلام اور علمائے کرام اور اولیائے عظام کی سنت ہے اور اس طرح کی آزمائشوں کے بعد ضرور نصرتِ خداوندی ہوتی ہے۔

(۲) اصحابِ کہف اور اُن کی تعداد کے بارے میں عدمِ خوض:

            اصحابِ کہف کی تفصیلات جاننے میں نہ کوئی فائدہ ہے، اور نہ، نہ جاننے میں کوئی نقصان۔ قرآنِ کریم تو صرف عبرت وموعظت کے لیے قصے بیان کرتا ہے،لہٰذاجس بحث کا کوئی فائدہ نہ ہو اسے ترک کردینا چاہیے اور فائدہ کی بات کرنا چاہیے۔

            مسئلہ: بحث ومباحثہ اور مجادلہ اگر فضول وبے فائدہ ہے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے، البتہ دین کی حقانیت سے متعلق مجادلہ ومباحثہ کرنے میں پیچھے نہ ہٹے، ورنہ دینِ حق ہزیمت کا شکار ہوگا۔

(۳) امرِ مستقبل کو مشیتِ الٰہی پر معلق کرنا:

            آیتِ کریمہ ﴿وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَیْءٍ اِنِّیْ فَاْعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا اِلَّآ اَنْ یَشَآءَ اللّٰہ﴾ میں اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا استدراک اور تعدیلِ قول فرمایا، تو جہاں یہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک درس تھا، وہیں امتِ مسلمہ کے لیے اس میں تربیت کا پہلو بھی ہے کہ مُرَبیٰ مُربی کی تربیت سے عار محسوس نہ کرے۔استدراکِ مسلم علیٰ مسلم ایک امرِ طبیعی اور امرِ مقبول ہے، مثلاً دو قاضیوں کی رائے میں اختلاف کا ہونا۔

            انسان اپنے مستقبل کے لیے ایک خاکہ اور لائحہٴ عمل تیار کرتا ہے، مستقبل میں اُمورِ مطلوبہ کی انجام دہی اور کام یابی کے حصول کے لیے تدبیریں کرتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تمام اُمور مشیتِ الٰہی پر معلق کرے، خواہ وہ چیز چھوٹی ہو یا بڑی،جیسا کہ ﴿لِشَیْء﴾ کی تنوینِ تنکیر سے پتہ چلتا ہے۔

 جب مسلمان کسی سے مستقبل میں کوئی کام کرنے کا وعدہ کرے تو ”إن شاء اللّٰہ“کہے، کیوں کہ اگر کام نہ ہوسکا تو وہ جھوٹا شمار ہوگا، اس لیے یہ حکم از قبیل بابِ حمایت ہے تاکہ وہ جھوٹا شمار نہ ہونے لگے، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اُمورِ غیبیہ کا اختیار صرف اللہ پاک کو ہے، اور تعلیقِ امر بہ مشیتِ الٰہی بندے کو حرج سے نکالنے کے لیے ہے۔

(۴) بنائے مسجد در موضعِ اصحابِ کہف:

            لوگوں نے اس عجیب وغریب تاریخی قصہ کو عبرت وموعظت کی یاد دہانی اور تذکیر آخرت وبعث بعد الموت کے لیے محفوظ کرنا چاہا، تاکہ آنے والی نسل اور دنیا والوں کو پتہ چلے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے عقیدہٴ توحید کی خاطر قربانیاں دیں، اور اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لیے دنیاوی زندگی کی وسعتوں اور عیش وعشرت کو تج کرکے کہف وغار کی تنگی کو گوارا کیا، تاکہ آئندہ آنے والے اہلِ توحید وعقیدہ کے لیے وہ ایک مثال ونمونہ بن جائیں، اور دلیل بن جائیں اس بات کی کہ اللہ پاک اپنے اولیاء کی نصرت ومدد کرتے ہیں، ان کا دفاع فرماتے ہیں، اور تاقیامت اُن کے ذکرِ خیر کو باقی رکھتے ہیں۔نیز قوم کے ورثہ کو باقی رکھنے کی کوششیں کی جانی چاہیے۔

(۵)صحبتِ صالح ترا صالح کند:

            قصہٴ اصحابِ کہف سے صحبتِ صالحین اختیار کرنے کی ترغیب ملتی ہے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے مومنین فقراء کے ساتھ صحبت اختیار کرنے کا حکم فرمایا تھا، ارشاد ہے:

            ﴿وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ﴾

            ”اور اپنےآپ کو استقامت سے اُن لوگوں کےساتھ رکھو جو صبح وشام اپنےرب کو پکارتےہیں“ انسان کو بھی چاہیے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیارکرے، یعنی ایسے لوگ جو پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں، صبح وشام عبادت اور ذکر واذکار میں لگے رہتے ہیں، نیک کاموں کو اخلاص وللہیت کے ساتھ انجام دیتے ہیں،کیوں کہ نیک لوگوں کی صبحت دینی کاموں کے التزام میں معین ومددگار ہوا کرتی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:

            ﴿ ”اَلْمَرْءُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہ فَلْیَنْظُرْ اَحَدُکُمْ مَنْ یُّخَالِلُ“﴾

            کہ آدمی اپنے جگری دوست کے مذہب پر ہوتا ہے، پس جس کو بھی دوست بنائے دیکھ بھال کر بنائیں!

امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            نیک لوگوں کی مصاحبت خوب غور وفکر اور چھان بین کے بعد اختیار کریں، اس لیے کہ مصاحبت اگر اچھی ہو تو شریر کو شریف بناتی ہے، اور اگر مصاحبت بری ہو تو شریف کو بھی شریر بنادیتی ہے۔

            حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ا رشاد فرمایا:

”إِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِیْسِ الصَّالِحِ وَالسُّوْءِ کَحَامِلِ الْمِسْکِ وَنَافِخِ الْکِیْرِ، فَحَامِلُ الْمِسْکِ: إِمَّا انْ یُحْذِیَکَ وِإمَّا انْ تَبْتَاعَ مِنْہُ وَإمَّا انْ تَجِدَ مِنْہُ رِیْحًا طَیِّبَةً۔ وَنَافِخُ الْکِیْرِ: إمَّا انْ یُحْرِقَ ثِیَابَکَ، وَإمَّا انْ تَجِدَ رِیْحًا مُنْتِنَةً “ (متفق علیہ)

            ”اچھے ہم نشیں اور برے ہم نشیں کی مثال بعینہ ایسی ہی ہے جیسے کہ عطر فروش اور بھٹی پھونکنےوالا، عطر فروش یا تو تمہیں عطر تحفے میں دے دے گا یا پھر تم اس سےخرید لوگے، یا کم از کم تمہیں اس سے خوش بُو تو آئے گی ہی، جب کہ بھٹی میں پھونکنےوالا یا تو تمہارے کپڑے جلا ڈالے گا یا پھر تمہیں اس سے بدبُو آئے گی۔“

            چناں چہ ایسے لوگوں کی صحبت سے پرہیز کریں، جو ذکر واذکار اور عبادتِ خداوندی سے غافل رہتے ہیں، نمازوں کا اہتمام نہیں کرتے،اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔

مقدمہ سورہٴ کہف(آیت:1 تا 8)

پہلی پانچ آیتوں میں بطورِ مقدمہ پانچ باتیں ذکر کی گئیں:

            (1)…حمدِ باری تعالیٰ۔

            (2)…عظمتِصاحبِ قرآن(صلی اللہ علیہ وسلم)۔

            (3)…عظمتِ قرآنِ کریم۔

            (4)…مقاصدِ نزولِ قرآنِ کریم۔

            (5)…مجرمین کو آگاہی اور مومنین صالحین کو بشارت۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی اَنزَلَ عَلَیٰ عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہُ عِوَجًا (1) قَیِّمًا لِّیُنذِرَ بَاْسًا شَدِیدًا مِّن لَّدُنْہُ وَیُبَشِّرَ الْمُوْمِنِینَ الَّذِینَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا حَسَنًا (2) مَّاکِثِینَ فِیہِ اَبَدًا (3) وَیُنذِرَ الَّذِینَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا (4) مَّا لَہُم بِہِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا لِآبَائِہِمْ کَبُرَتْ کَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ إِن یَقُولُونَ إِلَّا کَذِبًا (5)

            ترجمہ: ”تمام تعریفیں اللہ کی ہیں، جس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی، اور اس میں کسی قسم کی کوئی خامی نہیں رکھیOایک سیدھی سیدھی کتاب جو اُس نے اس لیے نازل کی ہے کہ لوگوں کو اپنی طرف سے ایک سخت عذاب سے آگاہ کرے، اور جو مومن نیک عمل کرتے ہیں اُن کو خو ش خبری دے کہ اُن کو بہترین اَجر ملنے والا ہےO جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گےO اور تاکہ اُن لوگوں کو متنبہ کرے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنا رکھا ہےO اس بات کا کوئی علمی ثبوت نہ خود اُن کے پاس ہے، نہ اُن کے باپ دادوں کے پاس تھا۔ بڑی سنگین بات ہے جو اُن کے منہ سے نکل رہی ہے۔ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں، وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیںO“

تفسیر:

            ﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی اَنزَلَ﴾ میں حمدِ باری تعالیٰ کا بیان ہے۔

            ﴿عَلَیٰ عَبْدِہِ﴾میں صاحبِ قرآن حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمتِ شان بیان کی گئی ہے۔

﴿الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہُ عِوَجًا (1) قَیِّمًا﴾میں قرآنِ کریم کی صفات کا بیان ہے:

             (۱) پہلی صفت ”لَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا“ہے،یعنی بے شک اس کتاب میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں ہے،یہ افراط وتفریط سے پاک فصیح وبلیغ کلام ہے، اس کی عبارت انتہائی سلیس و فصیح، اسلوبِ بیان نہایت موثر وشگفتہ ہے، اس کی تعلیم انقلابی،نہایت متوسط و معتدل جو ہر زمانہ اور ہر طبیعت کے مناسب اور عقلِ سلیم کے بالکل مطابق ہے۔ الغرض! کسی قسم کی افراط وتفریط کا اس میں شائبہ نہیں۔ (تفسیر عثمانی)

علامہ دریابادی علیہ الرحمة فرماتےہیں:

            ”لَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا“: اس میں ہرقسم اور ہر درجہ کے عیب سے نفی آگئی، یعنی ایسی کتاب جو ہر پہلو اور ہر جہت سے کامل وجامع، پاکیزہ واجمل ہے۔ نہ کہیں مبالغہ شاعرانہ، نہ عبارت میں کہیں سے تناقص، نہ عقائد میں کوئی پہلو رمزیت اور پراسرار ہونے کا۔ ہر بیان مدلل، ہرحکم واضح۔ اس حقیقت پر اپنوں ہی کی نہیں غیروں کی شہادتیں موجود ہیں کہ دینِ اسلام کے اندر کسی قسم کا اینچ پینچ، کوئی کجی و انحراف اور افراط وتفریط نہیں۔(تفسیر ماجدی)

            تفسیر مظہری میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت ”قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ“(سورة الزمر: 28)کی تفسیر میں ”غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ“ کاترجمہ ”غیر مخلوق“ کیا ہے۔ اس تفسیر کی روشنی میں بعض علماء نے ”لَمْ یَجْعَلْ لَّہُ عِوَجًا“ کا ترجمہ اور مرادی معنیٰ یہ بیان کیا کہ اللہ نے قرآن کو مخلوق نہیں کیا، یعنی قرآن اللہ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔(تفسیر مظہری)

            (۲) دوسری صفت ” قَیِّمًا “ یعنی مستقیم ہے، جو کہ صراطِ مستقیم کی تشریح وتوضیح بیان کرتی ہے، اور بقول بعض مفسرین: قیم کے معنیٰ یہ ہیں کہ اس میں کوئی تناقض وتعارض نہیں۔

پھر اگلے حصوں میں نزولِقرآنِ کریم کےمقاصد بیان کیے گئے ہیں:

            پہلا مقصد:           ﴿ لِّیُنذِرَ بَاْسًا شَدِیدًا مِّن لَّدُنْہ﴾کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافرین ومنکرین کو عذابِ الٰہی سے ڈرائیں، اور مومنوں کو دنیا وآخرت کی بشارت سنائیں۔

دوسرا مقصد:

            ﴿وَیُبَشِّرَ الْمُوْمِنِینَ﴾ کہ مومنین جو اعمالِ صالحہ کرتے ہیں، قرآن پر عمل کرتے ہیں انہیں جنت کی خوش خبری دیجیے۔

تیسرا مقصد:

            ﴿مَا لَہُمْ بِہ مِنْ عِلْمٍ﴾ میں خصوصی لوگوں کی تخویف ہے، جو اللہ کے لیے اولاد تجویز کرتے ہیں۔ان مخصوص لوگوں میں اول قوم یہود اور دوسری قوم نصاریٰ ہے، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

            ﴿وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصَارَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ﴾۔

            ”یہودی تو یہ کہتےہیں کہ عزیر اللہ کےبیٹےہیں اور نصرانی یہ کہتےہیں مسیح اللہ کےبیٹےہیں، یہ سب اُن کی منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔“ (مستفاد:معالم العرفان، ہدایت القرآن)

            (حضرت عزیر (علیہ السلام) اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر تھے، (اُن کو بائبل میں عزرا کے نام سے یاد کیا گیا ہے، اور ایک پوری کتاب ان کے نام سے منسوب ہے) اور جب بخت نصر کے حملے میں تورات کےنسخے ناپید ہوگئے تھے، تو انہوں نے اپنی یاد داشت سے دوبارہ لکھوایا تھا، اور شاید اسی وجہ سے بعض یہودی انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننے لگے تھے، یہاں یہ واضح رہے کہ ان کا بیٹا ماننے کا عقیدہ سب یہودیوں کا نہیں ہے، بل کہ بعض یہودیوں کا ہےجو عرب میں بھی آباد تھے۔) (توضیح القرآن، معارف القرآن ادریسی)

پیغام واحکام:

آیاتِ بالا سے مندرجہ ذیل پیغام واحکام ثابت ہوتےہیں:

            #…قرآنِ کریم کی شکل میں اتنی عظیم الشان نعمت؛ قانونِ الٰہی کی شکل مسلمانوں کو بواسطہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حاصل ہوئی،یہ مسلمانوں کے لیے مقامِ فخر وشکر ہے۔اور صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں، بل کہ پوری انسانیت کے لیے یہ قانونِ الٰہی ہدایت ورحمت ہے۔

            #…ہر مسلمان کو اس قانونِ الٰہی کو پڑھنے، سمجھنے، اور اس میں غور وفکر اور تدبر کرکے، دیگر اقوام میں بھی اس کی دعوت عام کرنی چاہیے، کہ اس کی عبارت انتہائی سلیس وفصیح، اسلوبِ بیان نہایت موثر اور شگفتہ اور تعلیم نہایت متوسط ومعتدل ہے، جو ہرزمانہ اور ہر مزاج کے مناسب اور عقلِ سلیم کے مطابق ہے۔ وہ بالکل سیدھی ہے، کوئی کتنا ہی غور کرے، بال برابر کجی نہیں پائے گا، اور یہ کتاب لوگوں کو راہِ راست پر لانے والی ہے، وہ بندوں کی تمام ضروریات اور معاد ومعاش کے مصالح کی ضامن ہے، اور مخلوقِ خدا کو کامل ومکمل بنانے والی ہے۔

            #…داعی کو چاہیے کہ راہِ دعوت الی اللہ میں ترغیب وترہیب، اور اِنذار وتبشیر دونوں طریقوں سے کام لے، صرف ایک سے کام نہ چلائے، ورنہ دعوت موثر نہ ہوگی۔مثلاً: اگر عذاب کا تذکرہ کرے، تو ساتھ ہی نعمتوں کا ذکر بھی کرے۔ گناہوں پر مواخذ ہ کا تذکرہ کرے، تو خدائی عفو ودرگزر کا بیان بھی کرے،تاکہ کوئی شخص اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائے۔ جیسا کہ خود قرآن میں ترغیب وترہیب کی مثالیں موجود ہیں:

            ﴿نَبِّءْ عِبَادِیْ اَنِّیْ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُO وَانَّ عذَابیْ ہُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ﴾

             ”میرے بندوں کو بتادو کہ میں ہی بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہوں۔ اور یہ بھی بتادو کہ میرا عذاب ہی درد ناک عذاب ہے۔“(سورة الحجر: 49، 50)

            ﴿غَافِرِالذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِیْدِ الْعِقَابِ﴾(سورة غافر: 3)

            ”جو گناہ کو معاف کرنےوالا، توبہ قبول کرنےوالا، سخت سزا دینےوالا، بڑی طاقت کا مالک ہے۔“

            ﴿اِعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَانَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾

             ”یہ بات بھی جان رکھو کہ اللہ عذاب دینےمیں سخت ہے اور یہ بھی کہ اللہ بہت بخشنےوالا بڑا مہربان ہے۔“

 (سورة المائدة: 98)

            #…گروہِ کافرین کی طرح، غیر اقوام کی؛ غلط کاموں میں، اندھی عقیدت اور اس میں غلو کے پیرونہ بنیں، اور باطل ولغو عقیدوں سے اپنے آپ کو باز رکھیں۔

نزلہ والی چھینکوں کا علاج:

            #…اگر کسی کونزلہ کی وجہ سے چھینکیں بکثرت آتی ہوں، تو گیارہ (۱۱) بار یہ آیت﴿الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی اَنزَلَ عَلَیٰ عَبْدِہِ الْکِتَابَ وَلَمْ یَجْعَل لَّہُ عِوَجًا ﴾

            کسی کھانے کی چیز پر پڑھ کر مریض کو کھلایا جائے۔ (گنجینہ اسرار:ص/۳۲۱، بیاض علامہ کشمیری)

علمیات:

            #…کل پانچ سورتیں ہیں، جن کا آغاز حمدلہ(الحمد للہ) سے ہوتا ہے: (۱) سورہٴ فاتحہ(۱۔ نمبر۔ (۲) سورہٴ انعام(۶۔ نمبر)۔ (۳) سورہٴ کہف(۱۸۔ نمبر)۔ (۴) سورہٴ سبا (۳۴۔ نمبر)۔ (۵) سورہٴ فاطر(۵۳۔ نمبر)۔

#…پورے قرآنِ کریم میں لفظ ”الحمد للّٰہ“ 21 بارمذکور ہے۔

#…اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ازل سے ابد تک وصفِ محمودیت کے ساتھ متصف ہے، پھر خود اپنی تعریف کی، اس کا مقصد ہے:

            (۱) کتابِ عزیز قرآن مجید کی اہمیت وعظمت بتانا اور لوگوں کو تعلیم دینا، کہ قرآن پاک پوری انسانیت کے لیے ایک عظیم نعمت ہے، اور ایسی عظیم نعمت اُتارنے والی ذات بھی عظیم ولائقِ تعریف ہے۔

            (۲)بعض علماء نے ﴿الحمد للّٰہ﴾سے پہلے محذوف ﴿قولوا﴾مقدرمانا ہے، معنیٰ ہے:

            ﴿قولوا الحمد للّٰہ؛ ای احمدوا ربکم علی إنزالہ الکتاب ہادیًا لکم، قائمًا بامورکم، دالا علی کل ما تحتاجون إلیہ، لا اختلاف بین آیاتہ ولا تعارض بینہا﴾۔

            ”تم اپنے رب کی حمد وثنا بیان کرو اور اُس کا شکر ادا کرو کہ اُس نےتمہاری ہدایت اور تمام ضروری اُمور کی راہ نمائی کےلیےکتاب (قرآن مجید) اُتارا۔“ (التسہیل لتاویل التنزیل تفسیر سورة الکہف)

            #…﴿انْزَلَ عَلٰی عَبْدِہ﴾میں ”عبد“ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔

            #…﴿إنذار﴾کے معنیٰ ہیں: الإعلام المقترن بتخویف وتہدید۔ (ایسا سرکاری اعلان یا الٹی میٹم جو تخویف وتہدید کے ساتھ ہو)یعنی ”انجام کی اطلاع، آگاہی، تنبیہ، الارم، آخری وارننگ“ اور إعلام کے معنیٰ ہیں:”سرکاری اعلان، الٹی میٹم، دھمکی، نوٹس، اناوٴنسمنٹ“۔

            #…﴿قَالُوْا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا﴾قولِ اتّخاذِ ولدمیں تین فرقے شامل ہیں:

            (۱) فرقہٴ اُولیٰ؛مشرکینِ عرب،جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے:

            ﴿وَجَعَلُوْا الْمَلَائِکَةَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ إنَاثًا﴾۔

             ”انہوں نے فرشتوں کو جو خدائے رحمن کےبندے ہیں موٴنث بنا دیا ہے“۔(سورة الزخرف: 19)

            ﴿وَقَالُوْا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحَانَہ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَO لَا یَسْبِقُوْنَہ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہ یَعْمَلُوْنَO﴾۔

            ”یہ لوگ کہتےہیں کہ خدائے رحمن (فرشتوں کی شکل میں) اولاد رکھتا ہے، سبحان اللہ! بل کہ (فرشتےتو اللہ کے) بندےہیں جنہیں عزت بخشی گئی ہے۔ وہ اس سےآگے بڑھ کر کوئی بات نہیں کرتے اور وہ اسی کےحکم پر عمل کرتےہیں“۔ (سورة الانبیاء: 26، 27)

             (۲) فرقہٴ ثانیہ؛ یہود بے بہبود،جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے:

            ﴿وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرٌ ن ابْنُ اللّٰہِ﴾۔

             ”یہودی تو یہ کہتےہیں کہ عُزیر اللہ کے بیٹے ہیں“۔(سورة التوبة:۰ ۳)

             (۳)فرقہٴ ثالثہ؛ نصاریٰ،جو حضرت مسیح یعنی عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے تھے:

            ﴿وَقَالَتِ النَّصَارَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ﴾۔(سورة التوبة:۰ ۳)

             ”اور نصرانی یہ کہتےہیں کہ مسیح اللہ کےبیٹے ہیں“۔ (درسِ قرآن، حضرت مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ)

#”ولد“ اور”ابن“میں فرق:

            (۱) ولد: ہر وہ بچہ جسے ماں نے جنا ہو، یعنی صلبی بیٹا۔ ولید اور مولود بھی اسی معنیٰ میں آتے ہیں۔ مذکر وموٴنث دونوں طرح استعمال ہوتے ہیں۔

            ابن:یہ لفظ صرف صلبی بیٹے کے لیے استعمال نہیں ہوتا، بل کہ اس کے استعمال کا دائرہ وسیع ہے، جیسے بنو آدم، بنو اسماعیل وغیرہ۔

            (۲) ابن کا لفظ نسب ورشتہ کو ظاہر کرنے کے لیے آتا ہے، جیسے عیسیٰ ابن مریم، مریم بنت عمران وغیرہ، ولد اس طرح نہیں ہے۔

            (۳) ابن وبنت بطورِ کنیت مستعمل ہیں، ایک ادنیٰ سی مشابہت بھی کافی ہوتی ہے، جیسے؛ ابو تراب، ابوہریرہ، ام الخبائث، ام الامراض، ابن الوقت، ابن السبیل، بنت الکرم وغیرہ، ولد اور اس کے مشتقات کنیت کے لیے مستعمل نہیں ہیں۔(مترادفات القرآن)

آیت نمبر چھ سے آٹھ تک پانچ چیزیں بتائی گئیں:

(1)…انسانیت پر شفقتِنبوی کا حال۔

(2)…حاملِ قرآن کی ذمہ داری۔

(3) …دنیا کی چمک دمک ورونق فانی ہے۔

(4)…خود فراموشی خدا فراموشی کا سبب ہے۔

(5)…دنیا کی پرستش کی مذمت۔

ارشادِخداوندی ہے:

﴿ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلَیٰ آثَارِہِمْ إِن لَّمْ یُوْمِنُوا بِہَٰذَا الْحَدِیثِ اَسَفًا (6)إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِینَةً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (7) وَإِنَّا لَجَاعِلُونَ مَا عَلَیْہَا صَعِیدًا جُرُزًا (8)

            ترجمہ:”اب (اے پیغمبر!) اگر لوگ (قرآن کی) اس بات پر اِیمان نہ لائیں، تو ایسا لگتا ہے جیسے تم افسوس کرکرکے اُن کے پیچھے اپنی جان کو گھُلا بیٹھوگے!O یقین جانو کہ رُوئے زمین پر جتنی چیزیں ہیں، ہم نے اُنہیں زمین کی سجاوٹ کا ذریعہ اس لیے بنایا ہے تاکہ لوگوں کو آزمائیں کہ اُن میں کون زیادہ اچھا عمل کرتا ہےO اور یہ بھی یقین رکھوکہ رُوئے زمین پر جو کچھ ہے، ایک دن ہم اُسے ایک سپاٹ میدان بنادیں گےO“

            تفسیر: پہلی آیت میں حاملِ قرآن کی ذمہ داری بیان کی جارہی ہے، جیسا کہ صاحبِ قرآن؛ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے کفر اور معاندانہ طرزِ عمل سے سخت صدمہ ہوتا تھا، تو آپ کو تسلی دی گئی کہ آپ دعوت وتبلیغ کا فرض ادا کرتے رہیں، دل میں گھُٹنے اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں ہے،نہ اس بات پر پچھتانے کی ضرورت ہے کہ میری کوشش کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے{اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَشَآءُ} داعی کا کام صرف دعوت دینا ہے، وہ اپنی محنت میں کام یاب ہے، کم نصیب اگر دُنیا کی سجاوٹ میں محو ہوکر اللہ تعالیٰ کو بھول جائیں، اور آپ کی نصیحت ودعوت کو قبول نہ کریں، تو انہی کا نقصان ہے،آپ کو اس پر اتنا افسوس بھی نہیں کرنا چاہیے۔

            اور دوسری آیت میں خوش نما کائنات اور دل فریب دنیا کی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ جتنی چیزیں زمین پر سجی ہوئی با رونق نظر آرہی ہیں، ایک دن وہ سب فنا ہوجائیں گی، اور تب پتہ چلے گا کہ دُنیا کی ظاہری خوب صورتی بڑی بے وقعت وناپائیدار تھی۔

پیغام واحکام:

            #…حاملِ قرآن وداعیِ اسلام کو چاہیے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتا رہے، چاہے لوگ اس پر کان نہ دھریں اور طعن وتشنیع کریں، اس لیے کہ ہدایت وتوفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔گویا:

دوستاں را کُجا کنی محروم

توبا دُشمناں نظر داری

(اسرار التنزیل)

            #…آیتِ مذکورہ ﴿بَاخِعٌ نَفْسَکَ﴾سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انتِحَار یعنی خود کشی حرام ہے۔

            #…تعلیم گاہوں کے قیام کا مقصد؛ بہتر سے بہتر کام کرنے والوں کو چھانٹنا اور ممتاز کرنا ہونا چاہیے۔ نہ یہ کہ کس کو اعلیٰ نمبرات حاصل ہوئے؟ یا کس کو طِلائی یا نُقرئی تمغہ ملا؟اگرچہ ضمنًا امتحان کے نتیجے میں بد شوق طلبہ فیل وناکام ہوہی جاتے ہیں، وہ سرزنش کے مستحق بھی ہوتے ہیں، مگر تعلیم گاہ کے قیام کی غرض وہ طلبہ نہیں ہوتے۔

             #…انسان کو چاہیے کہ دنیا کی ظاہری زیب وزینت پر فریفتہ ہوکر نہ رہ جاوے؛کہ یہ خود فریبی وخود فراموشی ہے، اور خود فراموشی خدا فراموشی کا سبب ہے۔دنیا کی زیب وزینت کو بہ نگاہِ عبرت دیکھیں نہ کہ بہ نگاہِ تماشا۔

جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے

 یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

            #…آج مسلم معاشرہ جو مغربی ویورپی اقوام کی مادّی ترقی، دنیوی ٹھاٹ باٹ، زمینی گل وگل زار، ظاہری بناوٴ سنگار، عیش وعشرت دیکھ کر رِیجھ رہا ہے، وہ سمجھ لیں کہ یہ زرق برق دنیا فانی ہے، اور مغربی ویورپی اقوام ترقی کے بامِ عروج پر ہونے کے باوجود آسمانی ہدایت سے تہی دست ہیں، جس کی بنا پر وہ حقیقی سُرور وطمانینت اور ابدی نجات وفلاح سے کوسوں دُور ہیں،لہٰذا اس ناپائیدار زینت پر فریفتہ ہونا کج طبعی اور فتورِ عقل کی دلیل ہے۔

جہاں از رنگ وبو سازد اَسیر است

ولے نزدیک اربابِ بصیرت

نہ رنگ دلکشش را اعتبار یست

نہ بوئے دلفریبش را مدار یست

            (دنیا رنگ وبو کی اسیر ہے۔ لیکن اہلِ بصیرت کے نزدیک نہ اس کے دل کش رنگ کا اعتبار ہے، نہ دل فریب بو پر زندگی کا مدار ہے)

علمیات:

            ﴿فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ﴾اس طرح کے مضمون سے قرآنِ پاک میں اور جگہوں پر بھی آپعلیہ الصلاة والسلام کو تسلی دی گئی ہے،جیسے:

            (1) ﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ اَ لَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ﴾۔

             ”(اے پیغمبر!)شاید تم اس غم میں اپنی جان ہلاک کیے جارہےہو کہ یہ لوگ ایمان (کیوں) نہیں لاتے۔“(سورة الشعراء: ۳)

            (2) ﴿فَلَا تَذْہَبْ نَفْسُکَ عَلَیْہِمْ حَسَرَاتٍ۔﴾ ”(اے پیغمبر!) ایسا نہ ہو کہ ان (کافروں) پر افسوس کےمارے تمہاری جان ہی جاتی رہے۔“(سورة فاطر: ۸)

            (3)﴿وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِمَّا یَمْکُرُوْنَ۔﴾”اور ان (کافروں) پر صدمہ نہ کرو، اور جو مکاریاں یہ لوگ کررہےہیں اُن کی وجہ سے تنگ دل نہ ہوں۔“ (سورة النحل:۱۲۷)

            (4) ﴿فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔﴾”تم اِن کافر لوگوں پر افسوس مت کرنا۔“

(سورة المائدة: ۶۸)

            #… زینة الارض یعنی حیوانات، نباتات، نہریں، معادن وغیرہ سب زینتِ ارض میں شامل ہیں۔

            #…مخلوقاتِ ارضیہ میں جو درندے، موذی جانور اور بہت سی مہلک ومضر چیزیں ہیں، جیسے سانپ، زہر، بچھو وغیرہ، تو وہ سب بھی زینتِ ارض اور رونقِ ارض میں شامل ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں مختلف اقوال ہیں:

            (۱) بروایت سعید ابن جبیر عن ابن عباس: رجال؛ یعنی مرد حضرات مراد ہیں۔

            (۲) بروایت مجاہد عن ابن عباس: علماء وصلحاء مراد ہیں۔ (بقول ابن الانباری: اِن دونوں صورتوں میں ”ما“ بمعنیٰ ”مَنْ“ ہوگا، اس لیے کہ موضعِ ابہام میں ہے)۔

            (۳) بقول مجاہد: جو کوئی چیز رُوئے زمین پر ہے، وہ زینتِ ارض میں شامل ہے۔ کما قال صاحب التفسیر المظہری!

            (۴) بقول مقاتل: نباتات، اشجار، وانہار مراد ہیں۔

            صاحبِ تفسیر مظہری، اور صاحبِ ”التسہیل لتاویل التنزیل“ کی رائے کے مطابق: تیسرے قول میں عموم ہے، کہ لفظ”ما“ عام ہے، یعنی زمین پر موجود تمام چیزوں کو مرادلیا جانا بہتر ہے۔

            نیز یہ چیزیں زینت اس اعتبار سے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی صنعت، قدرت، وحدت اور صفاتِ کاملہ پر دال ہیں، جیسا کہ حکیم الامت علامہ تھانوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَةً لَہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ اس حسنِ عمل میں یہ بھی داخل ہے کہ ان اشیائے ارضیہ، انہار واشجار اور جبال ومعادن کو حق سبحانہ وتعالیٰ کے انوارِ جلال وجمال کے مشاہدہ کا آئینہ بناوے۔ اور ابن عطا نے فرمایا ہے کہ حسنِ عمل یہ ہے کہ کل (حوادث) سے بے التفاتی کرے، اور بعض نے کہا ہے کہ اہلِ معرفت ومحبت، زینتِ ارض ہیں، اورحسنِ عمل ان کی طرف احترام کے ساتھ نظر کرنا ہے۔ (بیان القرآن)

حضرت مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

            مِن وجہٍ تو یہ چیزیں موذی اور خراب ومہلک ہیں، مگر مجموعہٴ عالَم کے لحاظ سے کوئی بھی چیز خراب وتکلیف دہ اور موذی نہیں، کیوں کہ ہر بری چیز میں قدرت نے دیگر بہت سے فوائد رکھے ہیں، جیسا کہ زہریلے جانوروں اور درندوں سے ہزاروں انسانی ضروریات معالجات وغیرہ میں پوری کی جاتی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں

کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

(زاد المسیر لابن الجوزی، تفسیر مظہری، معارف القرآن شفیعی، التسہیل لتاویل التنزیل تفسیر سورة الکہف)

            #…علماء وصلحاء کے زینت ِ ارض ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رجال اللہ،علماء وصلحاء خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں، معرفتِ خداوندی کا سبب بنتے ہیں، مخلوق کا رشتہ خالق سے جوڑتے ہیں۔

            #…نباتات واشجار کے زینتِ ارض ہونے کا مطلب یہ ہےکہ جیسے انسان کے لیے کپڑے اور زیورات زینت ہوتے ہیں، ایسے ہی زمین کے لیے نباتات، شجر وحجر اور نہریں وغیرہ کپڑے اور زیورات کے درجے میں ہیں۔

            #…﴿اَحْسَنُ عَمَلًا﴾سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ:

            (۱)”ان یکونَ العَملُ فی نفسِہ صَحیحًا صَوابًا، وذلک بمُوافَقِتِہ للکتابِ والسُّنةِ، وان یکونَ عامِلہ مُخلِصًا فِیہ للّٰہ یَبتَغِی بِہ وجہَ اللہ“

            یعنی اس جملے سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی نفسہ عمل صحیح ودرست ہو۔ کتاب وسنت کے موافق ہو، اور عامل اس عمل کے کرنے میں مخلص ہو۔ جو بھی کام کیا جائے، اس کا مقصود محض رضائے الٰہی کا حصول ہو۔

            (۲)”العِبرَةُ بحُسْنِ العَمل لَا بِکَثرَتِہ“ یعنی ہم سے ”حسنِ عمل“ کا مطالبہ کیا گیا ہے، کثرتِ عمل کا نہیں۔ (التسہیل لتاویل التنزیل)

            اسی طرح کا مضمون سورہٴ ملک میں مذکور ہے، ارشاد ہے:

            ﴿اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾۔             ”جس نےموت اور زندگی اس لیےپیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے۔“ (سورة الملک:2)