قصرِ جاناں تک رسائی ہو، کسی تدبیر سے

مولانا افتخار صاحب قاسمی بستوی استاذ جامعہ اکل کوا

قصرِ جاناں تک رسائی ہو، کسی تدبیر سے

            اللہ رب العزت اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے، اس کی ذات وصفات میں کوئی شرکت نہیں۔ اس کا ارشادِ گرامی ہے: ﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہ شَئْ ٌ﴾ اس کے مانند کوئی چیز نہیں ، وہ ازل سے ہے ابد تک رہے گا۔ وہ لازوال ہے، وہ لا متناہی ہے، وہ حاکمِ مطلق ہے، اس کے کسی حکم کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔

            اس نے یہ بزم جہاں سجائی ہے، جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ ساکنانِ بزمِ جہاں کو آزمایا جائے۔ ﴿لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ کہ ہم دیکھیں اس دنیائے رنگ و بو میں کس کا عمل اس کے حکموں کے مطابق ہے اور کس کا عمل اس کے حکموں کے خلاف۔

            بندگانِ خدا اور خداوند ِذوالجلال میں کوئی مماثلت نہیں کہ وہ خالق ہیں اور بندے مخلوق۔ وہ حاکم ہیں بندے محکوم۔ ہاں اس کے حکموں کے جاننے کے لیے اس نے خود ہی اپنے بندوں میں سے کچھ برگزیدہ ہستیوں کو منتخب کیا تاکہ وہ مخلوق جو فانی ہے، اس حاکم کے حکموں پر عمل پیرا ہوسکے، جو باقی ہے، اسے کبھی فنا نہیں۔

اے برتر از خیال وقیاس وگمان ووہم

و زِ ہرچہ گفتہ اند وشنیدیم و خواندہ ایم

مجلس تمام گشت، وبہ بایاں رسید عمر

ماہم چناں در اول وصفِ تو ماندہ ایم

            اسی کا حکم ہے کہ اس فانی دنیا میں اپنی مرضیات پر چلنے کے بجائے رب کی مرضیات پر چلنا ہے، جس سے حیاتِ فانی سے نکل کر حیاتِ جاودانی میں فرحت و سرور اور چین ور احت، ابدی طور پر میسر آئے گی۔ جو بھی اس عالم میں اللہ کی مرضیات پر اپنی حیات مستعار کے خطوط استوار کرے گا ،اسے عالم ِآخرت میں خدائے یکتا وبے ہمتا ایسی لازوال زندگی دیں گے کہ ﴿لَا یَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا﴾ وہاں سے ہٹنے اور منتقل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

            اصل کامیابی یہی ہے کہ جب مقصد مل جائے تو کبھی زائل نہ ہو، ایسی کام یابی کو عربی زبان میں ”فلاح“ کہتے ہیں۔ ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُوٴْمِنُوْنَ﴾ کی آیت میں جس سے اٹھارہواں پارہ شروع ہورہا ہے۔

 اللہ رب العزت نے ”فلاح“ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے کہ اہلِ ایمان فلاح پاگئے۔ جس کا مطلب وہی ہے کہ ایسی کام یابی پاگئے جو کبھی ختم نہ ہوگی۔ اس کے بالمقابل ایک اور کام یابی ہے جس کو ”نجاح “ کہتے ہیں۔ یہ ایسی کام یابی ہوتی ہے کہ کام بننے کے بعد مقصود دیر پا نہ ہو۔ دنیا کی ہر کام یابی ایسی ہی ہے کہ کام یابی کے بعد مقصد دیر پا نہیں ہوتا، کیوں کہ دنیا خود دیر پا نہیں، آنی جانی ہے، تو دنیا کی ہر کام یابی بھی دیر پا کیسے ہوگی ، بس دنیا آنی جانی ہے، تو دنیا کی ہر کام یابی بھی دیر پا کیسے ہوگی۔ بس دنیا آنی جانی ہے تو دنیا کی ہر کام یابی آنی جانی ہوگی۔ تجھے کام یابی تو نظر آئے گی، لیکن وہ نقش بر آب ہوگی۔ آخرت کی کام یابی مثلِ نقش بر حجر ہوتی ہے ، دیر پا اور آبدی ہوتی ہے۔

            دیکھئے اذان میں اللہ تعالیٰ نے اللّہُ اَکْبَرُ ، اَشْہدُ اَنْ لَّا اِلہَ اِلَّااللّہُ اور اَشْہدُ اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اللّہِ کے بعد حَیَّ عَلَی الصَّلوةِ کہنے کے بعد حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ موذن نیابت کے ساتھ کہتا ہے:” آوٴ نماز کے لیے“،” آوٴ کام یابی کے لیے “۔ یہاں بھی کا م یابی کو بتلاتا ہے، جس کے لیے مسلسل تگ و دو اور دو ا دوش کے سفر کی ضرورت ہے 

مل ہی جائے گی کبھی منزلِ مقصود

شرط یہ ہے کہ سفر کرتے رہو، شام کے ساتھ

(عزیز تمنائی )

نشانِ منزلِ جاناں ملے، نہ ملے

مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجو میرا

فلاح ونجاح میں فرق:

            مذکور الصدر سطروں میں آپ نے فلاح ونجاح کا اساسی فرق محسوس کیا کہ مقصود ہاتھ آنے کے بعد کبھی اپنے پاس سے زوال پذیر نہ ہو تو اس کو ”فلاح“ کہتے ہیں۔ اور اگر مقصود مل جانے کے بعد کبھی بھی زوال پذیر ہونے کا خدشہ لگا ہو، تو اس کو ”نجاح“ کہتے ہیں۔ اسلام کے احکام مامورات کی سَمت کے ہوں یا منہیات کی جہت کے، عمل میں آجانے کے بعد اس پر مرتب ہونے والا اجر کبھی زائل نہ ہوگا۔

ایک گمراہ فرقے کا تصور:

            اہل سنت والجماعت اسی وجہ سے فرماتے ہیں کہ نیکیوں کو انجام دینے کے بعد کسی معصیت وگناہ میں یہ طاقت ہی نہیں کہ ان کے اجر و ثواب کو باطل کرے، ہاں کفر ہی کا ارتکاب کرنے تو اور بات ہے۔

            اسی طرح جب ایک مرتبہ اللہ رب العزت اپنی محبت ورضا کا بندے کے لیے فیصلہ فرمادیتے ہیں تو وہ رضائے الٰہی دائمی و لا بدی ہوجاتی ہے، اگر چہ یہ سچے وعدہ حق کے درجے میں ایسا ہوتا ہے کہ﴿ اِنَّ اللّہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد﴾ نہ یہ کہ جیسے فرقہ معتزلہ کا تصور ہے کہ خدا پر اجردینا واجب ہے اور ان کا یہ خیال ہے کہ معاصی نیکیوں کو مٹادیتے ہیں، حالاں کہ قرآن کریم صراحت سے یہ بات نیکیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ﴿اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ﴾ یہ کام تو نیکیوں کا ہے وہ گناہوں کی گندگی اور بدبو کو سرے سے ہی ختم کردے۔ یہ منصب گناہوں کا ہر گز نہیں کہ وہ نیکیوں کو مٹادے۔ اس سلسلے میں معتزلہ غلط راہ پر جا پڑے جس پر چلنے سے صحیح منزل تک رسائی نہ ہوسکے گی ، صحیح منزل تک رسائی تو درست تدبیر سے ہوگی 

قصرِ جاناں تک رسائی ہو کسی تدبیر سے

طائر جاں کے لیے، پَر مانگ لوں میں تیر سے

قرآن میں فلاح کے لیے ۵/شرطیں ہیں:

            قرآن کریم نے فلاح کی بنیاد پر نیکیوں پر رکھی ہے اور نیکیوں کو اتنا مستحکم قلعہ کے طور پر بنادیا ہے کہ اسے طوفان معصیت زمیں بوس نہیں کرسکتا، چناں چہ اللہ رب العزت نے سورہٴ آل عمران کی آخری آیت میں ارشاد فرمایا ہے:

            ﴿یٰآیُّہا الَّذِیْنَ امَنُوْا اصْبِرُوْا ، وَصَابِرُوْا، وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوْا اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾

(سورہٴ آلِ عمران)

            قرآن کریم میں جس فلاح کو ذکر کیا ہے وہ ابدی اور سرمدی فلاح ہے، اس کی تحصیل کے لیے (۱) ایمان (۲) صبر (۳) مصابرہ (۴) مرابطہ یا رباط (۵)اور تقویٰ۔

            ان پانچ کلیدی امور کی ضرورت ہے۔ یہ پانچوں کلیدی امور جب عملی طور پر موجود ہوں گے تو فلاح ابدی یقینا حاصل ہوگی۔ یہ پانچ کلیدی باتیں فلاح اخروی کے لیے ۵ / شرطیں ہیں، جن کی تحصیل ایک لابدی امر ہے۔

فلاح کی پہلی شرط” ایمان“:

            ابدی کام یابی جس کو قرآن کریم نے فلاح کے لفظ سے ﴿لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ فرماکر ذکر کیا ہے۔ اس کی پہلی شرط ”ایمان“ ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سارے احکام کو اللہ کی ذات وصفات کے ساتھ دل سے مانے اور اعتراف کرے، اور اسے قبول واعتراف کی شرط یہ ہے کہ اس اعتراف کا اظہار بھی کرے جس کو شہادت وگواہی سے تعبیر کرتے ہیں، چناں چہ اگر بندہ خدا کی ذات و صفات اور اس کے احکام کا اعتراف شہادت واقرار کے ذریعے کرلیتا ہے، تو وہ اہلِ ایمان کے زمرے میں داخل ہوجاتا ہے اور ہمیشہ کی کام یابی کا پہلا اور اساسی زینہ طے کرلینا ہے۔

مرجانا تکمیلِ وفا میں

ہے معراج کا پہلا زینہ

            اس زینے پر چڑھ جانے کے بعد فلاح وکام رانی کی بلند جہت پر پہنچنے کے لیے چار زینے اور عبور کرنے کا مرحلہ ہے جس کے بعد سرخ روئی قد چومے گی۔ 

سرخ روئی تو دے، رو سیاہی نہ دے

میرے اللہ! عہدِ تباہی نہ دے

فلاح کی دوسری شرط” صبر وثبات“:

            اللہ تعالیٰ نے فلاح ابدی اور دائمی کام یابی کے لیے دوسری شرط ”صبر“و ” ثبات“ ذکر فرمائی ہے، جس کے لیے﴿اِصْبِرُوْا﴾ کا صیغہٴ امر استعمال کیا ہے۔

            ”صَبْر“ کے معنی جم جانے اور ثابت قدم ومستقل مزاج بننے کے ہیں۔ انسان کو جو اعمال انجام دینے ہوتے ہیں، وہ دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ اعمال جو سامنے ہیں، انھیں فوری طور پر انجام دینا ہے اور دوسرے وہ اعمال ہیں، جنھیں ابھی بر وقت نہیں کرنا ہے، بل کہ گھنٹے دو گھنٹے بعد یا ایک دو روز بعد یا ایک دو سال بعد۔ پہلے قسم کے اعمال کو خدا وند عز وجل کے حکموں کے مطابق انجام دینے کے لیے اللہ رب العزت کے اس حکم ﴿اِصْبِرُوْا﴾ (صبرو ثبات سے کام لو) اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ رب العزت کی منشا اور مرضی یہ ہے کہ بندے کو موجودہ اعمال جو اسے فوری طور پر انجام دینا ہے، ان میں مستقل مزاجی، ثبات قدمی اور حد درجے صبرو تحمل کی ضرورت ہے۔ بندے کو ایسے اعمال خدا کے حکم و مرضی کے مطابق انجام دینے کے لیے صبر و ثبات اور تحمل وقوت برداشت کے ساتھ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

            مثال کے طور پر موجودہ وقت نماز ہے، تو بندے کو چاہیے کہ نماز کے عمل کو اللہ رب العزت کے حکم کے مطابق اپنے وقت باجماعت کے ساتھ سنن و آداب کی پوری رعایت کرتے ہوئے، خدا کو راضی کرنے کے مقصد سے انجام دینا چاہیے۔

            اس سلسلے میں اس کو جو دقتیں، پریشانیاں اور تکلیفیں جھیلنی پڑ رہی ہوں، انھیں نہایت خندہ پیشانی سے ثواب سمجھتے ہوئے، برداشت کرنا چاہیے۔

صبر وبرداشت کی مثالیں:

            موجودہ اعمال میں صرف نماز ہی نہیں ہے، جتنے بھی اعمال آدمی انجام دیتا ہے، اس کی انجام دہی میں تن من دھن سے لگ جانا چاہیے اور اس راستے میں آنے والی پریشانی کو اجر وثواب سمجھ کر پوری خوش دلی سے انجام دینا چاہیے۔ اس کی چند مثالیں مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر پیش کی جاتی ہیں:

پہلی مثال:

            حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  نے کان پور کے قیام کے زمانے میں دیکھا کہ اس مدرسے میں آمدنی کی قلت ہے اور مدسے کو پیسوں کی شدید ضرورت ہے،تو پوری تن خواہ جو اس زمانے کے لحاظ سے پچاس روپئے تھی اور یہ بہت بڑی رقم تھی، پوری تن خواہ مدرسے کو دے دی۔ تو یہاں حضرت حکیم الامت  نے پیش آمدہ حالات میں اللہ کے حکم کو سامنے رکھ کر تعاونِ مالی کو ثواب سمجھ کر تعاون کرنا اور پوری تن خواہ مدرسے کی ضرورت میں لگانا ضروری سمجھا۔ اس عملِ تعاون میں آپ کو دقت پیش آئی لیکن اسے صبر و تحمل اور ثبات قدمی سے ثواب کی امید میں گوارا فرمایا۔ یہی وطیرہ ہر آدمی کا اپنے ہر عمل میں قوت برداشت کے بقدر ہونا چاہیے۔ لیکن اس میں اتنی بات ضرور مدنظر رہے کہ اپنے اندر اتنی قوت برداشت ہو، بال بچوں کی کفالت اور نفقے کا خیال بھی ضروری ہے۔

دوسری مثال:

            حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارن پوری رحمة اللہ علیہ مظاہر علوم سہارن پور میں مدرس اول یعنی صدر مدرس کے عہدہ پرفائز خدمت تعلیم و تدریس انجام دے رہے ہیں۔ اس دور میں ان کی تن خواہ ۴۰/ روپئے تھی، حالات بدلے ، خرچ بڑھا، لوگوں کی تن خواہیں زیادہ ہوئیں، لیکن حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری  نے اپنی تن خواہ نہ بڑھنے دی، بل کہ اسی پر اکتفا فرمایا اور اس سلسلے میں آنے والی پریشانی کو خندہ پیشانی اور صبر و ضبط سے برداشت فرمایا۔

تیسری مثال:

            اسی طرح ایشیا کی عظیم اسلامی یونی ورسٹی دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین اور شیخ الحدیث نیز دارالعلوم کے سب سے پہلے طالب علم حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی  جو بعد میں شیخ الہند کے لقب سے عرب و عجم میں مشہور ہوئے، اپنے صدارت کے زمانے میں دارالعلوم دیوبند سے کل پچاس روپئے تن خواہ پاتے تھے۔ آگے چل کر ضروریات بڑھیں، خرچ زیادہ ہوا، پھر بھی دارالعلوم کی ضروریات کو مقدم رکھتے ہوئے کبھی تن خواہ میں اضافے کا سوال نہ کیا، سوال تو کیا کرتے انتظامیہ نے تن خواہ حالات کے اعتبار سے بڑھانا چاہی تو راضی نہ ہوئے اور نہایت صبر و تحمل سے موجودہ حالات کو جھیلتے رہے، اسی صبر وتحمل اور ثبات قدمی کو اپنے لیے آخرت کی کھیتی اور آخرت کا بڑا ذخیرہ جانا۔

آگہی، کرب، وفا، صبر، تمنا، احساس

میرے ہی سینے میں اترے ہیں، یہ خنجر سارے

اخروی فلاح کی تیسری شرط:

            اسی صبر وثبات کو اخروی فلاح کا ذریعہ جان کر صبر و استقلال کا دامن مضبوطی سے تھامے رہے۔ بندگانِ خدا کو اسی طرح ابدی فلاح و کام رانی کے لیے ایمان اور صبر و ثبات کو مضبوطی سے عمل میں لاتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فلاح وکامرانی کی تیسری شرط ﴿صَابِرُوْا﴾کے لفظ سے ذکر فرمائی ہے اور مصابرہ کو عمل میں لانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔

مصابرہ کیا ہے؟

            مصابرہ کہتے ہیں دوسروں کے مقابل میں ثابت قدمی دکھانا اور عمل پر جمے رہنا ۔ مثلاً ایک آدمی سوچتا ہے کہ جب گھر میں شادی کا موقع آئے گا، تو بارات کا مسئلہ بالکل نہیں پیدا ہونے دوں گا، لیکن جب موقع آیا تو عزیز واقارب آڑے آنے لگے کہ شادی بغیر بارات کے کیسی ہوتی ہے؟! اگر بارات نہیں لے جانی ہے تو آپ کا ہمارا کوئی رشتہ نہیں۔ ایسے موقع پر اعزا واقربا کی طرف سے گناہ کرنے پر جو دباوٴ بن رہا ہے کہ بارات لے جانی ضروری ہے، ورنہ رشتے ناطے سب ختم ہوجائیں گے، اس دباوٴ کے وقت آدمی دین پر جم جائے، خوش اسلوبی سے معاملے کو نمٹائے اور صبرو ثبات کے ساتھ گناہ پر اکسانے والوں کے خلاف رہ کر اللہ رب العزت کی نافرمانی سے بچ جائے، تو اس کو ”مصابرہ“ اور ﴿صَابِرُوْا﴾ پر عمل کرنا کہتے ہیں کہ دوسروں کے مقابل میں آنے پر بھی صبرو ثبات، استقلال وپامردی سے کام لے رہا ہے اور رب العزت کی یاد کو اپنی دنیا کی رونق وبہار سمجھتا ہے۔ 

تیری صورت سے ہے عالم میں، بہاروں کو ثبات

تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے!

اخروی فلاح کے لیے چوتھی شرط:

            بندہ مومن کو ابدی فلاح حاصل کرنے کے لیے چوتھی شرط ﴿رَابِطُوْا﴾ کے لفظ سے بیان فرمائی ہے۔ یہ اس بات کی وضاحت کے لیے ہے کہ آدمی دو طرح کے اعمال انجام دیتا ہے کہ ایک عمل فوراً جو سامنے موجود ہو اسے انجام دیتا ہے اوردوسرے وہ عمل جو مستقبل میں انجام دیتا ہے۔ ﴿رَابِطُوْا﴾ کے لفظ کو اللہ رب العزت نے مستقبل کے عمل کی انجام دہی کے لیے ذکر فرمایا ہے کہ جو کام سامنے ہے اسے صبر وثبات اور پامردی کے ساتھ بجا لاوٴ اور جو کام مستقبل میں کرنا ہے اس کی تیاری ابھی سے کرو۔

            مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ظہر کی نماز کا حکم دیا ہے اور ظہر کا وقت موجود ہے تو اس عمل کو انجام دینے میں صبر و استقامت کا ثبوت دو، دل لگے یا نہ لگے ، ۔دونوں حالتوں میں اللہ کا حکم سمجھ کر سر نیاز جھکانے کے لیے تیار رہو اور جب تک عملی جامہ نہ پہنالو ، سکون نہ ہو۔ اور دوسرا رکاوٹ ڈالے تو بھی نماز ظہر کے عمل کو انجام دو۔ یہ صبر اور مصابرہ ہے کہ پہلا اپنے نفس کو عبادت پر جمانے سے انجام دیا جاتا ہے ، یہ ”صبر“ کہلاتا ہے۔ اور دوسرا رکاوٹ ڈالے پھر بھی اس حکم کو عمل میں لایا جاتا ہے تو یہ ” مصابرہ “ ہے۔

            ہاں ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد عصر کی نماز جو مستقبل کا عمل ہے اس کے ادا کرنے کے لیے مسجد میں ہی رہنا، اس کی تیاری و انتظار میں لگے رہنا یہ ”مرابطہ“ اور ”رباط“ کہلاتا ہے۔

            اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت کے ساتھ فرمایا ہے ذلک الرباط ، ذلک الرباط۔(یہی رباط ہے، یہی رباط ہے)

            حاصل یہ نکلا کہ بندے کو دوطرح کے اعمال کو انجام دینا ہے۔ ایک حال کا عمل دوسرے استقبال کا عمل۔ حال کے عمل کے لیے ”صبر“ اور ”مصابرہ“ کا حکم ہے اور استقبال کے عمل کے لیے ”رباط“ و”مرابطے“ کا حکم ہے۔ اسی طرح ”مرابطہ“ یا ”رباط“ ملک کی سرحد پر، ملک کی حفاظت کے لیے پہرہ دینا بھی کہلاتا ہے۔ اسلام کا جو سپاہی ملک کے باڈر پر پہرہ دیتا ہے وہ آنے والے خطرات کی روک تھام کے لیے ہے۔ سرحد پرجان کی بازی لگاکر کھڑا رہتا ہے۔ وہ بھی ”رباط“ کے حکم پر عمل پیرا ہوتا ہے ۔ 

اس ملک کی سرحد کو، کوئی چھو‘ نہیں سکتا

جس ملک کی سرحد کی نگہبان ہو آنکھیں

فلاح دائمی کی پانچویں شرط” تقویٰ“:

            اللہ رب العزت نے انسانوں کو دنیا میں بھیج کر امتحان لینا چاہا ہے، اس امتحان میں کام یابی اور فلاح دائمی کے لیے پانچ شرطیں بتائی ہیں:

            (۱) ایمان (۲) صبر (۳) دوسروں کے مقابل میں صبر جس کو قرآن میں مصابرہ کہا ہے۔ (۴) رباط

(۵) تقویٰ۔

            پانچویں شرط کو ﴿وَاتَّقُوْا اللّہَ ﴾ کہہ کر بیان کیا ہے۔ اگر غور سے دیکھیں تو ایمان، صبر، مصابرہ اور رباط سب میں تقویٰ اورخوفِ خدا پایا جاتا ہے، لیکن اس کو تخصیص کے طور پر دوبارہ صراحتاً ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ایمان لانے اور صبرو مصابرہ اور رباط کے احکام پر عمل کرنے کے بعد کہیں فخر وغرور کی بیماری میں نہ مبتلا ہوجائے اور کہیں یہ نہ سمجھنے لگے کہ یہ سب احکام میں نے اپنی دانش وبینش اور اپنی طرف سے انجام دیے ہیں، اس میں فضلِ خدا اور توفیقِ ایزدی شامل حال نہیں ہے، اگر ایسا سوچا تو یہ سارے اعمال ردی کی ٹوکری میں ڈال دیے جائیں گے اور کبرو غرور کی وجہ سے اسے راندہٴ درگاہ کرتا دیا جائے گا، جیسا کہ اللہ رب العزت نے عزازیل یعنی ابلیس کو راندہٴ درگاہ کردیا۔ 

تکبر عزازیل را خوار کرد

بزندانِ لعنت گرفتار کرد

            اس کے برعکس اگر بندے کے اندر فروتنی، خاکساری اور تواضع ہے اور اس کا یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ بھی عمل کی انجام دہی اورخیر و صلاح کی توفیق مل رہی ہے وہ محض فضلِ ایزدی اور رحمت ِربانی کا صدقہ ہے۔ورنہ

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل

نسیمِ صبح، تیری مہربانی

جگر مرادآبادی کہتے ہیں کہ

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں

فیضانِ محبت عام سہی، عرفانِ محبت عام نہیں

آنا ہے جو بزم جاناں میں پندارِ خودی کو توڑ کے آ

اے عقل وخرد کے دیوانے، یاں عقل وخرد کا کام نہیں

            اللہ رب العزت نے کام یابی کی شرطوں میں تقویٰ کی شرط کا اس لیے اضافہ فرمایا ہے کہ کام یابی کی منزل کو طے کرنے میں اس کا بڑا خطرہ لگا رہتا ہے کہ آدمی جب منزل کے قریب پہنچتا ہے، تو خدا کی ساری مہربانیاں بھول جاتا ہے اور اپنی تمام تر کام یابیوں کا سہرا اپنی محنت، اپنی دَوا دَوِ ش اور اپنی ہی تگ و تاز کو بنانے لگتا ہے اور اس برہم زن نظامِ عالم، خدائے ذو الجلال والاکرام کو یکسر بھلا دیتا ہے جس نے آنکھوں میں تابناکی، کانوں میں شنوائی، ہاتھوں میں طاقتِ گرفت، اعضا وجوارح میں توانائی اور ذہن ودماغ میں صحیح سَمت کی طرف رسائی مرحمت فرمائی۔ وہ چاہتا تو زبان کی طاقت چھین لینا، کان کی شنوائی پرقدغن لگادیتا، ہاتھ پاوٴں بے حس و حرکت کردیتا اور ذہن ودماغ کو ماوٴوف کردیتا، پھر گونگے ،بہرے، اندھے، لولے، لنگڑے اور دیوانے بن کر اندام بے لباس اس کی زمین پر بے شرمی کے ساتھ گھومتے اور احساس وشعور بھی نہ ہوپاتا کہ ہم کیا ہیں ؟ اور کہاں ہیں؟ اور کیا کررہے ہیں؟ 

ہمیں سیراب رکھاہے خدا کا شکر ہے اس نے

جہاں بنجر زمینیں ہوں، انائیں شور کرتی ہیں

احسانِ رب محبتیں اتنی ملیں عدیل

اس عمر مختصر میں نہ لوٹا سکیں گے ہم

تقویٰ کی اقسام:

            قاضی بیضاوی  نے بیضاوی شریف میں تقویٰ کے ذکر میں ﴿ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ کی تشریح تفسیر فرماتے ہوئے تقویٰ کی تین اقسام یا تین درجات کا ذکر فرمایا ہے۔

            پہلا درجہ یہ ہے کہ بندہ خدا کو دل سے مان لے اور کفر کو ہمیشہ کے لیے ترک کردے۔

            دوسرا درجہ تقویٰ کا یہ بیان کیا ہے کہ کفر ترک کرکے، ایمان کے تقاضوں میں بعض طاعات کو انجام دینے لگے اور کچھ ممنوعات سے گریزاں رہنے کا عادی ہوجائے ۔

            اور تقویٰ کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ ایمان قبول کرلینے کے بعد تمام طاعات کی انجام دہی کے لیے کمرِ ہمت کَس لے اور تمام ممنوعات سے قطع تعلق کرتا ہوا فلاحِ جاودانی کی منزلِ راحت کی طرف رواں دواں ہوجائے۔

            حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ نے ”بیان القرآن“ نامی اپنی نہایت ہی معرکة الآرا تفسیر میں تقویٰ کی برکت سے ملنے والی ہدایت کے درجات لامتناہی بتلائے ہیں، جس کے تقاضے سے یہ بات نکلتی ہے کہ قاضی بیضاوی  کی تفسیر کے مطابق جو تقویٰ کے تین درجات ہیں ان کے ضمن میں بے شمار اور لا متناہی درجات نکلتے ہیں، کیوں کہ خدا کو دل سے ماننے کا پہلادرجہ بھی ایک کلی ہے، جس میں کیفیت کی قوت وضعف کے اعتبار سے بے شمار درجات ہوں گے، پھر بعض طاعات کی انجام دہی کی حیثیتِ عرفی پر نظر رکھی جائے تو بعض طاعت کی قلت و کثرت بھی اپنے اندر میں بے شمار درجات رکھتی ہے۔ اسی طرح اعلیٰ درجے کا تقویٰ بھی اپنی کمیت وکیفیت کے اعتبار سے بے شمار درجات کی صاف نشان دہی کرتا ہے، تو جب تقویٰ کی اقسام اور اس کے درجات کو شمار کرنا مشکل سا ہورہا ہے، تو اس کا تقاضا ”ہدایت“ بھی اپنے اندر بے شمار درجات اور لامتناہی منزلیں طے کرنے کی نشان دہی کرے گا۔ اس لیے طے یہی ہوگا کہ خدا کا خوف، تقویٰ اور طہارت جس قدر بڑھتا جائے گا، ہدایت کے لامتناہی درجات کی طرف قدم بڑھتے چلے جائیں گے، یہاں تک زندگی کی کتاب کا آخری ورق آجائے اور شامِ زندگی کے بعد صبحِ زندگی دائمی کا آغاز ہوجائے۔ خوف اور تقویٰ کی بھٹی میں خود کو جلا جلا کر جو مٹایا ہے وہ اسی مقصد سے کہ غمِ جاناں سے گزرا تو نوازشیں اور ربانی عنایتیں بارش کی طرح برسیں گی اور بہارِ جاودانی بن کر سنور جائے گا۔

فنا بلند شہری نے کیا خوب کہا ہے : 

جو مٹا ہے تیرے جمال پر وہ ہر ایک غم سے گزر گیا

ہوئیں جس پہ تیری نوازشیں وہ بہار بن کے سنور گیا

ترا عشق ہے مری زندگی، ترے حسن پہ میں نثار ہوں

ترا رنگ آنکھ میں بس گیا، ترا نور دل میں اتر گیا

کہ خرد کی فتنہ گری وہی، لٹے ہوش چھا گئی بے خودی

وہ نگاہِ مست جہاں اٹھی، مرا جامِ زندگی بھر گیا

درِ یار تو بھی عجیب ہے، ہے عجیب تیرا خیال بھی

رہی خم جبینِ نیاز بھی، مجھے بے نیازبھی کر گیا

مجھے سب خبر ہے مرے صنم کہ رہِ فنا# میں حیات ہے

اسے مل گئی نئی زندگی، ترے آستان پہ جو مرگیا

فلاحِ دائمی کا حصول:

            جب بندے نے آستانہٴ عزت مآب دربارِ خداوندی پر سر جھکاکر، ایمان ، صبر، دوسرے کے مقابل میں صبر، رباط اور تقویٰ کی کٹھن شرطوں کو عمل میں لاکر، نشانِ منزل دیکھتے دیکھتے، پانچوں منزلوں سے گزر گیا اور اپنی جان کو نچھاور کرکے خود کو فنا کے گھاٹ اتار دیا، تو فلاحِ دائمی کی حیاتِ جاودانی اسے مل ہی گئی، بے نیاز ہوکر ہر غم سے گزر کر آخرش بہا بن کر سنور گیا اور ارشاد ِ ربانی ہوا: ﴿لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ ان پانچو شرطوں کو پورا کرنے کے بعد یقینا تم فلاح الٰہی پاوٴگے ، اسی کے تم حق دار تھے۔ حق را بحق دار رسید۔

            اللہ رب العزت نے مذکور الصدر تمام منزلوں کی نشان دہی اوربہاروں کے حصول کے لیے صرف ایک آیت میں سارے مضمون کے موتیوں کو پروتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

            ﴿یآیُّہا الَّذِیْنَ امَنُوْا اصْبِرُوْا ، وَصَابِرُوْا، وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوْا اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾

(سورة آل عمران)

            ”اے ایمان والو! صبر کرو، اور دوسروں کے مقابل میں ثابت قدم رہو اور رباطِ عمل پر دھیان دو اورتقویٰ اختیار کرو ، تاکہ تم فلاح پاجاوٴ۔ “

            معلوم ہوا کہ جیسے دنیا کی کام یابی پانے کے لیے آدمی ہر طرح کی مشقت جھیلتا ہے اور کسی سے شرماتا نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ ایسے ہی آخرت کی دائمی کام یابی کے لیے ایمان اورصبر وثبات کی ہرمشقت جھیلنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کسی کے ہنستے اورمذاق اڑانے کی مطلق پروا نہ کرنا چاہیے۔

             :اسد ملتانی مرحوم کہتے ہیں 

کسی کا آستانہ ہے اتنا اونچا

کہ سرجھک کر بھی اونچا ہی رہے گا

ہنسے جانے سے جب تک تم ڈروگے

زمانہ تم پر ہنستا ہی رہے گا

            دعا ہے کہ اللہ رب العزت عمل کی توفیق عطا فرمائے اور عقائد ِصحیحہ کی روشنی میں زندگی کے خطوط درست کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین !

وصلی اللّٰہ علی النبي الکریم ۔