قرب قیامت اور سوشل میڈیا کا کردار

مفتی ابوصفوان نعمان گوگانوی/ استاذ جامعہ اکل کوا

            إِذَا اتُّخِذَ الفَيْئُ دُوَلاً، والأَمَانَۃُ مَغْنَمًا، والزَّکَاۃُ مَغْرَمًا، وتُعُلِّمَ لِغَیْرِ الدّینِ، و أطاعَ الرَّجُلُ امْرأتَہ، و عُقَّ أُمّہُ، و أدْنَی صدِیقَہ، و أقْصی أباہ، و ظَہَرَتْ الأصْواتُ في المساجِدِ، و سادَ القَبِیلۃَ فاسِقُہُم، وکان زَعِیمَ القومِ أرْذَلہَم، و أُکْرِمَ الرَّجُلُ مخافۃَ شَرِّہ، و ظَہَرَتْ القِینَاتُ و المعازِفُ، و شُرِبَتْ الخُمُورُ، و لَعنَ آخِرُ ہذہ الأُمَّۃِ أولَہا، فلْیَتَرَقَّبُوا عند ذلک رِیحًا حَمرائَ، و زَلْزَلَۃً و خَسْفًا و قَذْفًا، و آیاتٍ تَتَابَعُ کَنِظَامٍ بالٍ قُطِعَ سِلْکہُ فَتَتَابَعَ۔

 الراوي: أبو ہریرۃ!

            حضرتِ انسان کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ رب العزت نے انبیائے کرام کا زریں سلسلہ جاری فرمایا۔ اور اس زریں سلسلہ کی اہم اور آخری کڑی حضور اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ با برکت کو قرار دے کر آپ کی تعلیمات کو تا قیامت مشعلِ راہ بنایا۔

            اب جس کسی کو راہ یاب ہونا یا منزلِ مقصود کو پانا ہے، تو اسے آںجناب صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیماتِ مقدسہ کو لازماً اختیار کرنا ہوگی!

            اللہ کے ہر نبی نے اپنی امت کو ایمان کے فضائل، عصیان کے نقصانات، دجالی فتنوں اور ان کی ہولناکیوں سے خوب آگاہ کیا۔ ہر نبی نے اپنی امت کو دجال کے فریب سے بچنے کی تلقین اور طریقۂ تعلیم فرمایا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیائے کرام کے مقابل دجالی فتنے کو بامر خداوندی خوب آشکارا کیا۔ اور اس سے بچنے کی تلقین و طریقہ بھی مکمل طور پر جا بجا فرمایا اور اپنی امت کو اس فتنے کی علامات و مقدمات اور ان سے بچنے کی مختلف تدابیر و اذکار بھی تعلیم فرمائے!

            من جملہ ان علامات و اشارات کے ایک علامت یہ ہے کہ قربِ قیامت دجالیت کا فروغ اور دجال کے سب سے بڑے وصف جھوٹ کا شیوع ہوگا، جگہ جگہ جھوٹ کا پلندہ ملے گا؛ اس کی تازہ عملی تطبیق جدید ذرائع ابلاغ کی شکل میں بدرجۂ اتم مل جائے گی!

            آج کی جدید تکنیکی ترقی اور نت نئی ایجادات نے انسان کو اس مقام پر پہنچایا، جہاں تک پہنچنے کا تصور بھی  چند برسوں پہلے محال تھا، لیکن یہ بات بھی مسلّم ہے کہ جتنی زیادہ ایجادات وجود پذیر ہورہی ہیں اور جتنا ان سے انسانوں کا فائدہ ہو رہا ہے اتنا ہی نقصان بھی کھل کر سامنے آ رہا ہے۔اور یہی بات یہاں بھی صادق آتی ہے۔ آج کی ترقی اور تکنیکی عروج نے ہر کس و ناکس کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون تھما دیے ہیں۔ اب ہر شخص بلا قید و بندش اس کے استعمال میں منہمک ہے، خواہ وہ استعمال سود مند ہو یا ضرر رساں، مثبت ہو یا منفی، نیکی کمانے کے لیے یا نیکی گنوانے کے لیے؛ غرضیکہ ہر شخص اس کے استعمال میں سر سے پاؤں تک غرق ہے۔

            پھر تکنیکی کمالات نے اور اپنے جوہر دکھائے تو قسم قسم کے مختلف ایپلی کیشنز وجود میں آئے اورمختلف اقسام کے پیغام رساں ایپلی کیشنز جلوہ گر ہوئے، جن میں سرِ فہرست واٹس ایپ، ٹویٹر ،فیس بک اور انسٹاگرام ہیں۔ (جن پر لفظ سوشل میڈیا کا اطلاق بھی ہوتا ہے) جہاں ان کا فائدہ مسلّم ہے وہیں ان کے نقصانات سے آنکھیں موند لینا کسی طرح دانش مندی کے شایان شان نہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ ان خانگی ذرائع ابلاغ کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں، انہیں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ جھوٹ و فحاشی اور جنسی بے راہ روی کو خوب فروغ مل رہا ہے۔ کوئی مواد ایک مرتبہ یہاں اپلوڈ کر دیا جائے تو وہ لمحہ بھر میں دنیا کے کونوں میں پھیل جاتا ہے۔

            اول الذکر دونوں ایپلی کیشنز عموماً خبر رسانی کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اور ثانی الذکر دو ایپلی کیشنز کا بے حیائی کے فروغ میں بڑا اور کلیدی کردار ہے۔ جھوٹ کے شیوع، جنسی بے راہ روی اور سب سے بڑھ کر وقت کے ضیاع میں خانگی ذرائع ابلاغ کا بڑا کردار ہے،جھوٹ بولنے والا یا لکھنے والا اسے صرف ایک مرتبہ بولتا یا لکھتا ہے، لیکن ان آلات کا استعمال کنندہ بدوں تحقیق اس جھوٹ کو مزید پھیلانے کا کام کرتا ہے۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں وارد ہے کہ قربِ قیامت جھوٹ پھیل جائے گا، عصر حاضر میں حدیث پاک کی ایک عملی تطبیق یہ بھی ہے!

            مزید یہ بھی ملاحظہ فرمائیں: کہ سوشل میڈیا کا سب سے خراب اور گندا کردار اس کی غلط بیانی ہے؛  یہاں موجود ہر خبر اور معلومات سچی ہوں، ضروری نہیں!

            بات کے انداز کو بدل، توڑ مروڑ کر اور تھوڑا اضافہ کر کے یا بالفاظ دیگر مرچ مصالحہ لگا کر اس میں جھوٹ اور فریبیت کا تڑکا لگا کر خبریں پھیلانا اور افواہوں کا بازار گرم کرنا عام سی بات ہے اور آئے دن سوشل میڈیا کا یہ مکروہ چہرہ سامنے آتا رہتا ہے!

شعر:  سر آئینہ میرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

            کا مصداق یہاںبہ خوبی مل جاتا ہے!

            ایسے ہی ایک کہاوت ہے کہ دیکھنے اور سننے میں بڑا فرق ہوتا ہے، اور’’ جونظرآتا ہے وہ ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے وہ نظر آتا نہیں‘‘!سوشل میڈیا کی کذب بیانی کی ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ جن کی حقیقت کچھ اور تھی، لیکن دکھایا اور درشایا کچھ اور گیا! مثلا: عراق و کویت کی باہمی جنگ کے دوران میڈیا پر ایک ویڈیو نشر کی گئی تھی، جس میں یہ دکھایا گیا کہ عراقی فوج کے افراد حاملہ خواتین کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں اور اس ویڈیو کو افواج کی بے رحمی اور سفاکیت کو بیان کرنے کے لیے خوب عام کیا گیا۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ ان خواتین کے شکموں پر سلیقہ سے روئی کے گدّے وغیرہ باندھ دیے گئے تھے، جس سے یہ تاثر دنیا میں جائے کہ یہ خواتین حاملہ ہیں۔ اور روندنے والے بھی انہی کے اپنے فوجی تھے، لیکن محض کسی گروہ کو برا بتانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں، اس طرح کے مواقع ہی کے لیے عربی زبان میں مثل مشہور ہے کہ’’ لیس الخبر کالمعاینۃ ‘‘۔

کہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ!

            حدیث پاک میں آتا ہے کہ قربِ قیامت انسان صبح کو مومن ہوگا اور شام کو دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر ہوجائے گا!اس کی عملی تطبیق بھی آج کے دور میں سوشل میڈیا پر دیکھنے کو مل جاتی ہے کہ یہ مذہب اور عقیدہ کی خرابی، ذہنی و فکری ارتداد و الحاد کے شیوع کا خطرناک ذریعہ ہے۔ اور سوشل میڈیا پر ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہب کی دعوت دینے کے لیے خاصا مواد اپنی سائٹوں پر رکھتے ہیں، جس کے دجل میں پھنس کر عام طبقہ مذہب بے زار ہو جاتا ہے!

            حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں وارد ہے کہ: قربِ قیامت قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگا!

            سوشل میڈیا کا استعمال جنگی کیفیت پیدا کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے، جو اس کا سب سے خطرناک کردار ہے۔ اس پر قد غن لگانے کے لیے اللہ نے قرآن میں اسی موقع پر ایک آیت اتاری:

            {یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إنْ جَائَ کَُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًا بِجَہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ} (سورۃ الحجرات 6)

            سوشل میڈیا پر موجود مختلف سیریل اور ڈراموں کو دیکھ کر جرائم کی شرح میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے۔ اور قتل و غارت گری عروج پر ہے جب کہ چوری، ڈکیتی اور لوٹ کھسوٹ عام سی بات اور اس کے نت نئے طریقے بھی ایجاد ہو گئے۔ بلا شبہ ان جرائم، اخلاقی فساد کے شیوع میں ان خانگی ذرائع ابلاغ پر موجود سیریلوں اور ڈراموں کا بڑا اہم کردار ہے!!!

            سوشل میڈیا کے اکثر صار فین (یوزرس کی عمریں ۵ ۱سے۳۵ کے درمیان ہوتی ہیں، جو سیریل دیکھتے، چیٹنگ کرتے، آڈیو ویڈیو کلپ سنتے سنتے آدھی رات، تہائی رات اور پوری رات گزار دیتے ہیں اور موبائل کے ہو کر رہ جاتے ہیں، بل کہ انھیں موبو فوبیا ہو جاتا ہے، جس میں بینائی اور توانائی دونوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ ایک طرف اگر عمر سے پہلے بالغ ہوتے ہیں، تو دوسری طرف عنفوانِ شباب میں ہی بڑھاپے کو دعوت دینے لگتے ہیں؛ جسم سکڑ جاتا ہے، چہرہ کھنچ جاتا ہے اور آنکھیں بیٹھ جاتی ہیں؛ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے قیمتی وقت اور صحت کو ضائع کرتے ہیں۔ایسے ہی لوگوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’’نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس الصحۃ والفراغ‘‘۔ أخرجہ البخاري باب لاعیش الا عیش الآخرۃ ۔ حدیث نمبر (6412)

            سوشل میڈیا جس طرح ایک دوسرے کو قریب کرنے کا موثر ذریعہ ہے، ویسے ہی یہ آپس میں جدائیگی اور علیحدگی پیدا کرنے میں بڑا رول ادا کر تا ہے، چناں چہ شوہر بیوی، بھائی بہن، ماں بیٹی اور باپ بیٹے سبھی کے اپنے اپنے گروپ ہوتے ہیں۔ سب کے سب اپنے اپنے دوستوں میں مگن ، مگر اپنوں سے دور، ایک ساتھ اور ایک گھر ،بل کہ ایک کمرہ میں رہتے ہوئے بھی آپس میں بہت کم گفتگو کرتے ہیں؛سبھی اپنے نامعلوم دوستوں میں مست ہو کر سچے دوست اور اہل خانہ سے بالکل بے پرواہ ہو جاتے ہیں۔اس طرح گھر یلو تانا بانا بکھر جاتا ہے!

            حدیثِ رسول علیہ السلام میں یہ ارشادِ عالی قدر موجود ہے کہ قربِ قیامت انسان اپنے دوست کو قریب کرے گا اور باپ کو دور کردے گا!

’’ و أدْنَی صدِیقَہ، و أقْصی أباہ، و ظَہَرَتْ الأصْواتُ في المساجِدِ ‘‘

            حدیثِ پاک میں یہ ارشاد بھی وارد ہے کہ قربِ قیامت مسجدوں میں آوازیں بلند ہونے لگیں گی، جس کا مظاہرہ ان جدید آلات کے ذریعہ دیکھتے ہیںکہ مسجدوں میں موبائل فون کی گھنٹیاں بجتی ہیں!

            اللہ پاک ہم سبھوں کو دجالی فتنہ سے خوب بچاکرہمارا ایمان سلامت رکھے آمین!

            اللہ پاک ہمیں ان جدید ذرائع ابلاغ کو مثبت، تعمیری اور سچائی کے لیے استعمال کی توفیق عطا فرمائے،  ان کے منفی اور تخریبی استعمال سے حفاظت فرمائے ۔ آمین!!!