قربانی کے وکیل اپنے موٴکل سے معاملہ صاف کرلیں!

مسئلہ: وہ تنظیمیں، ادارے اور افراد ؛ جو دوسروں کی طرف سے وکیل بن کر قربانی کرتے ہیں، اُنہیں چاہیے کہ وہ اپنے موٴکلین سے پہلے سے ہی اپنا معاملہ صاف کرلیں، کہ وہ ان کی یہ قربانی اُجرت لے کر کریں گے، یا بلا اُجرت، اگر اُجرت لے کر کریں گے، تو اُجرت کتنی ہوگی یہ پہلے سے طے کرلیں(۱)، پھر عملِ قربانی کو انجام دینے کے بعد اپنے موٴکل کی طرف سے ملی ہوئی رقم سے اپنی اُجرت نکال لیں، بقیہ رقم اُسے واپس کردیں، یا وہ جس مصرف میں خرچ کی اجازت دیدے اس میں خرچ کریں، اپنی اُجرت طے کیے بغیر کم قیمت والا جانور خرید کر قربانی کردینا اور بقیہ روپیہ کو اپنا نفع یا محنتانہ قرار دے کر رکھ لینا شرعاً جائز ودرست نہیں ہے۔اور اگر بلا اجرت کریں گے، تو جانور کی قیمت اور قصاب کی اُجرت دینے کے بعد جو رقم بچ گئی، وہ موٴکل کی امانت ہے، اس کی اجازت کے بغیر اسے ذاتی استعمال میں لے آنا، یا کسی اور مصرف میں خرچ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔(۲)

مفتی محمد جعفر صاحب ملی رحمانی

صدر دار الافتاء-جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا


الحجة علی ما قلنا: 

(۱) ما في ” الہدایة “ : الإجارة عقد علی المنافع بعوض ۔۔۔۔۔ ولا یصح حتی تکون المنافع معلومة ، والأجرة معلومة ، وتارة تصیر المنفعة معلومة بالتعیین ۔

(۶/۲۶۶ ، کتاب الإجارة ، ط : مکتبہ بشری کراچی)

ما في ” رد المحتار “ : الأجرة إنما تکون في مقابلة العمل ۔ (۴/۳۰۷ ، باب المہر ، ط : زکریا)

(۲) ما في ” درر الحکام شرح مجلة الأحکام “ : : المال الذي قبضہ الوکیل بالبیع والشراء وإیفاء الدین واستیفائہ وقبض العین من جہة الوکالة في حکم الودیعة في یدہ ۔ اہ ۔

(۳/۵۶۱ ، المادة: ۱۴۶۳/ کتاب الوکالة)(” اہم مسائل جن میں ابتلاء عام ہے “ : ۱۳/۱۴۷)