قرآن کی خدمات نئے نئے زاویے ماضی اور حال کے آئینے میں

ابو عبد الفتاح /استاذجامعہ اکل کوا

                اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کی شکل میںاللہ کی طرف سے ،حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے ،سب سے عظیم الشان اورخدا کے بعدسب سے بڑے اورعظیم، جلیل پیغمبر حضرت محمد مصطفی،سرتاجِ کبریا،سرورِ کائنات،فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم پر،ساری سسکتی انسانیت کی اصلاح معاد کے لیے نازل ہو ئی۔اللہ تعالیٰ نے سارے انس و جنات کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرما کران کے لیے ابدی زندگی میں راحت و آرام اور نقمت و عذاب کانظام بنایا ہے ۔اس لیے دنیامیں رہ کر معاد کی اصلاحی تگ وتاز میں رہنا انسان و جنات کا مقصدِزیست؛ جن پر کاربند رہنے کے لیے انسانوں کی رہنمائی کی خاطر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو عربی زبان میں اتارا ہے۔

                اسی مقصد زیست کو واضح کرنے اور انسانوں کی ابدی فلاح کو بتلانے کے لیے امت کے جیالوںنے ہر  دور میں اس کتاب میں منفرد انداز میں خدمت کی ہے۔تاکہ جہاں ان کی خدمت مرنے کے بعد ان کی اصلاحی ودینی منفعت کا کام دیتیں ،دوسرے حضرات کو ان کی خدمت سے استفادہ کر کے اپنے اصلاحی عمل کو ترقی دے کر خدا کی نظروں میںمحبوب و مراد بننے کا موقع میسر آئے۔

                سب سے پہلے اس کتاب کی سب سے منفرد اورضروری نوعیت کی خدمت توامت سے سب سے پختہ ایمان والے فردفریداورراست بازی کے پیکر مجسم،صدیق اکبر حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے انجام دی کہ کتابِ الٰہی کے مختلف اجزائے مقدس کو مختلف مقامات اور تحریر کردہ ٹکڑوں کو با جماع صحابہ یکجا فرما کر قرآن کو مصحف انسانیت کی شکل میں ایک کتاب میں جمع فرما کر ساری انسانیت پر گراں بار احسان فرمایا۔یہ ایسی منفرد نوعیت کی خدمت ہے کہ اسے محض اللہ کی توفیق سدید ہی کہنا چاہیے کہ ارتدار و بے دینی کے سیلاب میںصدیق اکبر جیسا بہ ظاہرناتواں مصلیٔ رسول پر خلافت کا بوجھ لے کر کھڑا ہونے والا بیرونی فتنوں کی سرکوبی کرے یا اندرونی دروبست کا خیال کرے،یہ تو اللہ کی محض توفیق شاملِ حال رہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس جانب متوجہ فرمایا۔

                بعد ازاں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جب سارے حساس علاقوں میں قرآن کریم کے سات نسخے تیار فرماکر روانہ فرمادیئے تو ایسا منفرد نوعیت کا خدمت قرآن کے حوالے سے کام انجام پذیر ہوا کہ وہ کوئی اور نہیں کر پاتا۔یہ عظیم سعادت اللہ تعالیٰ نے ذوالنورین کے نامہ ٔ اعمال میں ہی لکھی تھی۔

ایں سعادت بزور بازونیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

                ابھی تک اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے یہ حکم نامہ عملی طور پر جاری کرایا تھا کہ احادیثِ رسول کو لکھنے لکھانے کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔سب سے پہلے احادیث رسول جو درحقیقت کتاب ِالٰہی کی بلا واسطے تشریح و تفسیرہیں اور مراد ِخداوندی کے فہم کا سب سے محفوظ راستہ ہے ،اس نوعیت کی خدمت سے خدمتِ قرآن کا گوشہ خالی تھا۔

                چناںچہ ۹۱  ھ میں جب امت مسلمہ کے خلیفۂ راشدخامس حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت و اقتدارکی چابی اپنے ہاتھ میں لی، تو عدل گستری اور انصاف پروری کی بے مثال بنیاد ڈالنے کے ساتھ ساتھ خدمتِ قرآنی کے اس گوشۂ گمنام کی طرف توجہ فرمائی جو ابھی تک تشنۂ تکمیل تھا۔

                آ پ نے اپنے دورِ خلافت و حکومت میں اپنے قلمرومیں جمع حدیث کی خدمت انجام دینے کا اعلان فرمایا۔چپے چپے میں حلقۂ ارباب حدیث و تفسیر میں اس کاخوب اور زود چر چا شروع ہوگیا۔ ہر ایک نے مہارت و سعادت کے مد نظر اس گوشۂ گمنام کو نیک نام بنانے کے لیے خدمت قرآن کی اس نادرجہت کی طرف رخ کرنا چاہا اور کیابھی، لیکن یہ عظیم سعادت وقت کے بزرگ وزاہد محدث حضرت محمد بن شہاب زہری امام زماں کے حق میںنوشتۂ تقدیر بن کر طے ہو چکی تھی ۔

                سب سے پہلے امام محمد بن شہاب زہری رحمتہ اللہ علیہ نے احادیث کے ذخیروں کو یکجاذکرکر کے حضرت عمر بن عبدالعزیزرحمتہ اللہ علیہ کی دیرینہ تمنا کو پورا کرنے، خدمت قرآن کی ایک نا در جہت کوتشنۂ تکمیل سے تکمیل کے مر حلے تک پہنچا ہی دیا ۔آج رہتی دنیا تک پوری دنیا ئے حدیث امام زہری علیہ الرحمہ کی ممنون احسان وتشکر رہے گی کہ انھوں نے قرآن کی خدمت کے اس گو شے کے لیے الگ الگ راہیں کھول دیں ۔

                پھر کیا تھا راستہ کھلتے ہی جمع حدیث کے مختلف اسالیب سامنے آئے۔ کو ئی ایسی احادیث کو جمع کر نے کا بیڑا اٹھارہا ہے، جو صرف متواتر اور اسناد سے بے نیاز ہیں ۔کوئی احادیث رسول میں اُن احادیث کو جمع کر نے کا عزم مصمم کیے ہو ئے ہے، جو احادیث مشہو رہ کے لقب سے جانی جاتی ہیں۔تو کسی نے اخبار وآثار میںسے خبرعزیز،خبر غریب کو اپناموضوع بنا یا اور کسی نے اخبار آحاد کو اپنی خدمت کا میدان بنایا۔

                کسی نے سو چا کہ خدمتِ قرآن ہی کے لیے احادیث کا جمع کرنا سعادت مندی کی اگر حیرت انگیزمثال ہے ،تو میں احادیث رسول کو فقہی ابواب کی ترتیب پر جمع کرکے موطات اور مصنفات کے نام سے کتابیں قلم بند کرتا ہو ں ۔کسی نے ایک ایک صحابی اور ایک ایک راوی کی نقل کردہ تمام احادیث کو ایک ہی مقام پر نقل کر دینے کا بیڑا اٹھا یا اور مسانید کے نام سے کتابیں تحریر فرمائیں ۔پھرمسند امام احمد بن حنبل کا ایک زبر دست ذخیرہ ۴۰ ؍ ہزار احادیث پرمشتمل امت کے سامنے آیا ،جو تفسیر قرآن کے تمام خدمت قرآن کی ایک اچھو تی خدمت ہے ۔

                 کسی نے صرف ایک مضمون کی احادیث کو اکٹھاکرنا اپنا مقصد زیست بنا لیا ،تو انھیں کے اجزا کے نام سے کتب تصنیف فرمائیں ،کسی نے چالیس احادیث شروع کیا تو اربعین تما م کی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔کسی نے احادیث کو مسانید صحابہ کی ترتیب پر یا حدیث کے اساتذہ یا ان کے شہروں کی ترتیب پر جمع کرنا شروع کیا تو معاجم نام سے حدیث کی کتا بیں تیار ہوگئیں ۔ جن میں اکثروبیشترحروف معجمہ کی تر تیب ہوتی۔ ان کی ان خدمات جلیلہ کی بر کت سے بڑے معاجم تیار ہوے جن سے ایک امت فیض یاب ہورہی ہے مشہور معاجم تو آپ نے بھی سنے ہوںگے ۔ المعجم الکبیر،المعجم الصغیر، المعجم الاوسط اور المعجم الصحابہ ،یہ وہ مشہور معاجم ہیں، جن کے حوالہ جات ہر کتب حدیث یا بحث حدیث میں کبھی نہ کبھی آہی جاتے ہیں ۔

                اسی طرح حدیث کے شروع کا حصہ مدنظر رکھ کر کسی نے احادیث کو جمع کیاتو’’ حدیث الاطراف‘‘ نامی کتا بیں سامنے آئیں ۔ابو مسعود دمشقی کی اطراف الصحیحین ،ابو محمد خلف واسطی رحمۃ اللہ علیہ کی اطراف الصحیحین بھی منظر عام پر آئیں اتحاف المہرۃ ،تحفۃ الاشراف یہ سب کتا بیں کتب اطراف کی مثالیں ہیں ،جو خدمت قرآن کی نوعیت سے ایک منفرد نوعیت کا باب ہیں۔ جنہیں تفسیرِ قرآن میں بڑا دخل ہے ،کیو ں کہ نبی کی زبان سے نکلنے والا کلام مراد خداوندی اور تفسیر وحی ربانی ہی ہو تا ہے۔

                اللہ تعا لیٰ نے جس کتا ب الٰہی کو پور ی بنی نو ع انسا ن کی ہدا یت کے لیے انسٹرکشن بک ’’Instruction Book‘‘بنا کر بھیجا ہے۔ اس میں ۱۸؍ہزار یا ۱۲؍ہزار نہیں۔ کل ۶؍ہزار ۶؍سو۶۶؍آیا ت ہیں ۔جن کی تشریحات حدیث کے نصوص میں ۴۰؍ ہزار متن حدیث کی شکل میںامت کے پاس ایک معرکۃ الآرا ذخیرہ موجود ہے۔اس طرح قرآن کی تشریحی شکل نصو ص حدیث میں۴۰؍ہزار کی تعداد میںاور اختصار کی شکل میں’’العدل‘‘کے لفظ میں موجود ہے۔

                ماضی قریب میں ہندوستان کی مایہ ناز شخصیت حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہندوستان کے صوبہ یوپی کے مظفر نگرپھلت نامی قصبے میں جنم لے کرخدمتِ قرآن میں ایک عجیب نوعیت کی خدمت انجام دی کہ ذخائر علمیہ میں سے ایک مختصر عمدہ ترین ذخیرہ ’’اصول تفسیر‘‘کے حوالے سے’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘کے نام سے حلقۂ علم وادب میں چھوڑا ہے۔جو ایسا نادر تحفۂ علمی ہے کہ تفسیر آیات کی وادی میں قدم رکھنے والوں کی افراط تفریط کی ذہنیت کو یکسر بدل کر صراط مستقیم کی معطر خوش بوسے مشام جاں کو مسحورومخمور بنادے۔اس کتاب کو شاہ صاحب نے فارسی زبان مرتب فرما کر اپنے طلبہ عزیز کو خود درس میں پڑھا یا۔بعدمیں مولانا محمد منیردمشقی نے اس کا فارسی زبان سے عربی زبان میں ترجمہ کرکے اس کے افادے کو ادبی ودینی دونوں حلقوں میںعام وتام فرمایا۔ابھی پچھلے دنوںدارالعلوم دیوبند کے موجودہ شیخ الحدیث، صدر المدرسین، استاذ گرامی حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم نے اس کتاب کی تعریب اس منفردنوعیت سے فرمائی کہ عصری اسلوب ادب کو مد نظر رکھنے کے ساتھ تمام مضامین کو فصل در فصل با ب در باب فرماتے ہوئے تمام مختصر مباحث کو ذیلی عناوین اور مفیدسرخیوںسے مزین فرما کرکتاب کے افادے میں چار چاند لگادیے۔

                قرآن کریم کے فارسی اور اردو ترجمہ کی اولین خدمت بھی خانوا دئہ ولی اللٰہی سے وابستہ ہوتی ہے ۔ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ، حضرت شاہ عبد القادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ اسحاق محدث دہلوی وہ جلتے چراغ اور ایسی شمعِ فروزاں رہے ہیں،جن کے ذریعے ہندوستان کی سر زمین میں خدمت قرآن کی نوعیت سے منفرد تبدیلیاںرونماہوئیں اور امت مسلمہ کو اس خاندان کی قرآنی خدمات کا احسان ہمیشہ ماننا ہے کہ اپنا سب کچھ تج دیااور امت کو صراط مستقیم اورعدل وانصاف کے سیدھے راستے پر جماکر استقامت وسنت کا وہ پرچم تھما دیا کہ اس کو لہراتے رہنے سے ایمانی جوش وخروش کو مہمیز ملتی رہے۔

                قرآن کریم میں پانچ سو آیات ایسی ہیں، جن کا تعلق اسلامی احکام سے بلا واسطہ ہے۔لکھنؤ،امیٹھی میں پیداہونے والے حضرت ملاجیون رحمۃ اللہ علیہ نے جہا ں متحدہ ہندوستان کے مسلم ومتفق علیہ بادشاہ حضرت اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ گرامی رہے ہیں،وہیں حضرت ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ نے احکام اسلامیہ سے متعلق قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیربھی لکھی ہے، جو احکام ومسائل کے اصول وفروع سے بحث کناںہیں۔اس کانام ’’التفسیرات الاحمدیۃ‘‘رکھ کر قرآن کریم کی منفر د نوعیت کی خدمت انجام دی ،جس کا احسان امت مسلمہ پر باقی ہے اوریہ بات بالکل بے غبارہے کہ قیامت تک امت اِس سے چھٹکارانہیں پاسکتی۔

                تھانہ بھون مظفر نگر کے رہنے والے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، جو علمی ودینی  حلقوں میں حکیم الامت کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔اپنی خانقاہ تھانہ بھون سے ایک ایسی کتاب لکھوائی ،جو اصلاًحدیث کے موضوع پر ہے،لیکن بنظر غائر دیکھاجائے تو وہ بھی قرآن کریم کی منفرد خدمت کہلائے گی ۔ اس لیے کہ احادیث رسول قرآن پاک ہی کی تفسیر وتشریح کا دوسرانام ہے۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا ظفر احمد تھانوی سے فرمایا کہ احکام اسلامیہ سے متعلق آیات قرآنیہ پر تو کام ہواہے،اب ایسی کتا ب تیار کرو، جو مسائل اسلامیہ کی حدیث وتفسیر سے دلیل پیش کرے۔مولانا ظفر احمد تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کام شروع کیا اور ایک سال میں ایک جلد تیار فرمائی، جس میں مسائل اسلامیہ واحکام دینیہ کوحنفی طرز استنباط پر احادیث سے نکالا گیا۔اِس طرح ۲۰؍سال میں ۲۰؍جلدوںکا ایک ایسا معرکۃ الآرا ذخیرہ تیار کردیاجس کو’’اعلاء السنن‘‘کے نام سے پوری دنیائے اسلام جانتی ہے۔یہ بھی قرآن کریم ہی کی خدمت کا ایک انو کھا انداز ہے ، جو ہندوستان کی سر زمین کے ایک چھوٹے سے خطے کے نام تحریر تھا،اللہ نے اس کام کو انجام دلوایا۔

                حکیم الامت علیہ الرحمہ نے اس کتاب کی طباعت اور نشر واشاعت کی اہمیت واعتنائے شان میں ارشاد فرمایا کہ اگر تھانہ بھون سے ’’اعلاء السنن‘‘کے علاوہ کوئی بھی کتاب نہ چھپتی، تب بھی صرف یہی کتاب میری بخشش کے لیے کافی تھی۔دینی ،علمی اورفقہی بصیرت گاہوںمیں اس کتاب کو کتنی اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتاہے یہ بیان سے باہر ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے ـلیے بھی اس سے استفادہ کا موقع فراہم کرے۔

                علمائے امت نے الفاظ قرآن پر محنت کی تو تجوید وقرأت کے میدان میں وہ کار ہا ئے نمایاں انجام دیے کہ دنیا عش عش کرنے لگی۔بڑے بڑے قرّائے کرام ،مجودین عظام ،بڑے بڑے اسلامی ادارے، یونی ور سیٹیاں،ان میں مخصوص شعبہائے تجوید وقرأت اوراس کے حوالے سے عالمی مسابقات وپروگرام اس بات کی بین دلیل ہیں کہ اس نوعیت کی خدمت اللہ کے یہاںمقبول ہے۔نحوی و صرفی میدان میں قدم رکھا تو پورے پورے قرآن کی ہر ہر آیت اورہر ہر لفظ کی لغوی ،نحوی و صرفی تحقیقات اِس طرح پیش کر ڈالیں کہ دنیا حیرت سے منھ تکتی رہ گئی۔ دامن قرآن سے وابستگان اہل دل نے بس جستجوہی کو میدان و مقصود بنا لیا۔

 نشان منزل جاناں ملے ملے ،نہ ملے

مزے کی چیزہے ،یہ ذوق جستجومیرا

                 اسی لیے قرآن وحدیث سے نکلنے والے احکام میں کس جزوی یا کلی ترمیم کی اجازت مطلق نہیں ہوتی ۔ کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو جہاں ،جیسے اور جس وقت بیان فرمایا ہے،اس کو اسی محمل پر رکھنا اور پھر خدمت قرآن میں قدرت پیدا کرنا عبادت ومحبوب عمل شما ر ہوگا ۔

                قرآن پر مختلف النوع نا در انداز سے خدمت کرنے والو ںکی گونا گو ں خدمات علمیہ ودینیہ کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے۔ جس کی حقیقی و معنوی قدر اللہ کی نگا ہ میں،میدان محشر میں،روزحساب اُس وقت معلوم ہوگی جب ’’ تبلی السرائر ‘‘ کا ظہور ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے’’ علیما قدیرا ‘‘اور ’’شکورا علیما ‘‘کی صفات کے ظہور کا موقع ہو گا ۔

                 قرآن کریم کے مضامین پر علمائے امت نے مستقلاً کا م کرنے کے لیے خود کو متوجہ فرمایا۔ جس میں اس بات کا خاص دھیان رہا کہ قرآنِ کریم کا اللہ رب العزت نے جو موضوع متعین فر مایا ہے، اس سے سر ِموا نحراف نہ ہو نے پائے ، قرآ ن کریم کا موضوع ’’ اصلاح معاد ‘‘ ہے، اس پر عمل کرنے سے اخر وی زندگی کا سنوار نا مقصود ہے، دنیوی زندگی تو خدا ئے عزّ وجل کی نظر میں مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی، نبی آخر الزما ںصلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہے:’’لوکانت الدنیاتعدل عنداللہ جناح بعوضۃ ماسقی منہاکافراً شربۃ ماء‘‘ کہ اگر دنیااللہ کی نظرمیںمچھرکے پرکے برابربھی ہوتی ،تواللہ تعالیٰ کافرکوایک گھونٹ پانی بھی پینے کے لیے نہ دیتے۔

                بعض علمائے امت نے اسی لیے زہدسے متعلق آیات قرآنیہ اوراُن کی تشریحات احادیث شریفہ کی روشنی میںجمع کرکے امت کواِس طرف متوجہ فرمایاکہ دنیاکی رنگ رلیوںمیںمحوہوکرکہیںمقصدِ زیست ہی فوت نہ ہوجائے۔اسی عظیم ترین مقصدکے پیشِ نظرہندستان کے مشہورصوبے یوپی کے ضلع مرادآبادسنبھل کے باسی حضرت مولانامحمدمنظورنعمانیؒ نے احادیثِ پاک کاگراںقدرمجموعہ’’معارف الحدیث‘‘کے نام سے آٹھ ضخیم جلدوںمیںتیارکیاہے ۔جوموضوعِ قرآن اصلاحِ معاد وتحسینِ روح کومدنظررکھتے ہوئے ایک نہایت ہی معرکۃ الآراخدمت ہے ۔اس سے استفادہ امت کے نونہالوںکے لیے بالخصوص اوراردوداںطبقے کے لیے بالعموم ایک گراں قدر استفادہ ہے ۔

                اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی مختلف زاویے سے خدمت کنندگانِ اہل دل کوہماری اورامت کی طرف سے خوب خوب بدلہ عطافرمائے۔اورہم سب کے لیے جنت الفردوس میںجگہ مقدرفرمائے۔آمین!