مولانا عبد العظیم صاحب /استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا
اللہ تعالی نے انسان کو جو بے شمار نعمتیں عطا کیں، ان میں سے ایک عظیم نعمت قرآن مجید ہے، جس کا کوئی بدل نہیں۔ دنیا میں انسان کو جو بھی نعمت ملی ہے اس کو زوال یقینی ہے۔خواہ وہ نعمت کتنی ہی بڑی ہو، کتنی ہی حسین، دلکش، جاذب ِنظر اور کتنی ہی قیمتی ہو، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نعمت کو زوال آہی جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دنیا کی قیمتی سے قیمتی شئی ہو ،اس میں کوئی نہ کوئی نقص یا عیب ضرور ہوتا ہے۔ قرآن مجید ہی ایک ایسی لازوال نعمت ہے جو ہر نقص اور ہر شک و شبہ سے پاک ہے۔ اس کتاب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ ہدایت اور رحمت کے حصول کا سب سے اہم اور واحد ذریعہ ہے۔
قرآنِ کریم پوری انسانیت کا ہادی و رہبر اور زندگی کا نور و دستور ہے، انسانی ضروریات کی ساری تفصیلات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کے اندر وضاحت کے ساتھ یا اشارے و کنائے میں بیان فرما دیا ہے، خواہ کسی کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔اسی لئے صحابہ کرام اور تابعین قرآن کو پڑھنے یاد کرنے اس کی آیات کو سمجھنے، غور و فکر کرنے اور ان پر عمل کرنے کا خاص اہتمام کرتے تھے، یہی حال اور یہی معمول بعد کے تمام سلف صالحین کا تھا۔بعد کے زمانے میں جس قدر امت کے اندر کمزوری آتی گئی، قرآن کے ساتھ اس خاص تعلق و اہتمام سے لوگ دور ہوتے چلے گئے اور اکثر مسلمان قرآن کو بلا سمجھے صرف تلاوت کرنے اور تجوید کے ساتھ یاد کرنے کی طرف توجہ دینے لگے، جس کے نتیجے میں لوگوں نے قرآن پر عمل کرنا ترک کر دیا یا عملی زندگی میں کمی اور کوتاہی در آئی؛ حالاں کہ اللہ تعالی نے قرآن کو نازل فرمایا اور ہمیں اس میں غور و فکر کا حکم دیا اور خود اس کی حفاظت کی ذمے داری لی؛ لیکن ہم قرآن کو صرف حفظ کرنے میں مصروف ہو گئے اور اس میں غور و تدبر کرنا چھوڑ دیا۔
(حول التربیة والتعلیم د/عبد الکریم بکار ص 226)
واضح رہے یہاں یہ پیغام دینا مقصود نہیں ہے کہ قرآن کو حفظ کرنے، اسے تجوید کے ساتھ پڑھنے اور تلاوت کرنے کو ترک کر دیا جائے، بلاشبہ یہ بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے، بلکہ یہاں یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ ایک طرف حفظ و تجوید کی رعایت کرتے ہوئے غور و فکر کے ساتھ تلاوت کی جائے اور دوسری طرف اسے عملی زندگی میں نافذ کیا جائے؛ جیسا کہ سلف ِصالحین کا طریقہٴ کار تھا؛اسی لئے ذیل کے سطور میں قرآن و سنت کے نصوص اور سلف ِصالحین کی سیرت کی روشنی میں کچھ چیزیں ذکر کی جا رہی ہیں، جن سے قرآن میں غور و تدبر کی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔
تدبر کا مفہوم:
1- معانی و مطالب تک رسائی کے لئے طویل غور و خوض اور فہم و ادراک کے لئے مکمل توجہ۔
2- تمام نواحی پر مشتمل ایسی تفکیر جو الفاظ کے عمیق و دور رس معانی تک پہونچائے۔
(قواعد التدبر الامثل للمیدانی ص: 10)
قرآنی آیات کی روشنی میں غور و تدبر کا مقام:
1- ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿کِتَابٌ اَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُو الْاَلْبَابِ﴾۔ (ص – الآیة 29)
یہ بابرکت کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف اس لئے نازل فرمایا ہے کہ لوگ اس کی آیتوں پر غور و فکر کریں اور عقلمند اس سے نصیحت حاصل کریں۔
وجہ ِاستدلال: اس آیت ِکریمہ میں اللہ تعالی نے قرآنِ مجید کے اتارنے کا اصل مقصد یہ بتایا کہ اس میں غور و تدبر کیا جائے اور اس سے عبرت و نصیحت حاصل کی جائے ،نہ کہ صرف زبانی تلاوت؛ اگرچہ تلاوت بھی اس کا ایک جزءِ لا ینفک اور اہم حصہ ہے اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! قرآن میں غور و فکر اسے نہیں کہتے کہ اس کے حروف کو تو یاد کیا جائے ،مگر اس کے حدود کو پامال کیا جائے، یہاں تک کہ بعض لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں نے پورا قرآن ختم کر لیا؛ جب کہ ان کے اخلاق و کردار میں قرآن کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔(تفسیر ابن کثیر 7/64)
2- ارشاد باری تعالیٰ ہے:اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ القُراٰن۔َ (سورة النساء 82)
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟
ابن کثیر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو قرآن میں غور و فکر کرنے اور اسے سمجھنے کا حکم دیا ہے اور اس کے الفاظ و معانی کو نہ سمجھنے اور اس سے اعراض کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آیت کریمہ کے اس حکم سے صاف واضح ہے کہ قرآن میں غور و تدبر واجب ہے۔
(تفسیر ابن کثیر 3/364)
3- آیت کریمہ ہے: ﴿الَّذِینَ آتَیْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَتْلُونَہُ حَقَّ تِلَاوَتِہِ اُولَٰئِکَ یُوٴمِنُونَ بِہِ وَمَن یَکْفُرْ بِہِ فَاُولَٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ (البقرة – الآیة 121)
جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔
ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں: قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قرآن کی کما حقہ تلاوت یہ ہے کہ بندہ قرآن کی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھے اور اس کو ویسے ہی پڑھے جیسے اللہ تعالی نے اسے اتارا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر 1/403)
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں تلاوت کرنے کا مطلب اس پر عمل کرنا ہے(فتح القدیر 1/135)اور بغیر سمجھے قرآن پر عمل کرنا ممکن نہیں۔
4- ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ مِنہُم اُمِّیُّونَ لَا یَعلَمُونَ الکِتٰبَ اِلَّآاَمَانِیَّ وَ اِن ہُم اِلَّا یَظُنُّونَ ﴾۔
(سورة البقرة 78)
ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں ،جو کتاب کے صرف ظاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک قول کے مطابق یہاں”امانی“ کا مطلب تلاوت ہے یعنی انہیں کتاب کی صرف زبانی تلاوت معلوم ہے، وہ کتاب کو سمجھنا اور اس میں غور و فکر کر کے پڑھنا نہیں جانتے۔
(فتح القدیر 1 / 156)
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہاں اللہ تعالی نے اپنی کتاب کو بدلنے والوں کی اور ایسے ان پڑھ لوگوں کی مذمت کی ہے، جو صرف لفظی تلاوت کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔(بدائع التفسیر 1/300)
5- آیت کریمہ ہے:﴿ وَ قَالَ الرَّسُولُ یٰرَبِّ اِنَّ قَومِی اتَّخَذُوا ہذَا القُراٰنَ مَہجُورًا﴾۔
(سورة الفرقان 30)
اور رسول کہیں گے کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قرآن میں غور و تدبر نہ کرنا اور اس کو سمجھ کر نہ پڑھنا بھی گویا قرآن کو ترک کرنا اور اسے بالائے طاق رکھنا ہے۔(تفسیر ابن کثیر 6/108)
ابن قیم رحمہ اللہ نے قرآن کو چھوڑے رکھنے کی کئی اقسام بیان کی ہیں ؛چنانچہ فرماتے ہیں: چوتھی قسم یہ ہے کہ بندہ قرآن میں غور و فکر کرنا اور اسے سمجھ کر پڑھنا چھوڑ دے اور قرآن کے ذریعے اللہ تعالی کا کیا مطالبہ ہے اسے جاننے کی کوشش نہ کرے۔(بدائع التفسیر 2/292)
تدبر ِقرآن کی اہمیت و فضیلت احادیث مبارکہ کی روشنی میں:
1- عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:…. وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللَّہِ یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ وَیَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَیْہِمْ السَّکِینَةُ وَغَشِیَتْہُمْ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْہُمْ الْمَلَائِکَةُ وَذَکَرَہُمْ اللَّہُ فِیمَنْ عِنْدَہُ)
جو لوگ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور اسے سمجھ کر پڑھنے پڑھانے اور مذاکرہ کرنے کا اہتمام کرتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے سکون و اطمینان کا نزول ہوتا ہے، رحمت الہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پاس موجود فرشتوں کے درمیان ان کا ذکر ِخیر فرماتے ہیں۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 2699)
یہاں اس حدیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ مذکورہ فضیلتیں یعنی سکون و اطمینان کا نزول، رحمت ِالہی کا ڈھانپنا اور فرشتوں کے درمیان ذکر خیر یہ سب اس تلاوت کے بدلے میں ہے، جس تلاوت میں سمجھنا اور غور و فکر کرنا شامل ہو،مگر آج کل ہماری صورتحال یہ ہے کہ ہم حدیث کے صرف ایک ٹکڑے پر عمل کرتے ہیں یعنی تلاوت، جب کہ سمجھ کر پڑھنے پڑھانے اور غور و تدبر کرنے کو بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے حفظِ قرآن میں زیادہ وقت لگے گا اور تلاوت کی مقدار میں کمی آئے گی؛ لہٰذا اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
2- حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلة فافتتح البقرة فقلت: یرکع عند المائة ثم مضی فقلت: یصلی بہا فی رکعة فمضی فقلت: یرکع بہا ثم افتتح النساء فقراہا ثم افتتح آل عمران فقراہا یقرا مترسلا إذا مر بآیة فیہا تسبیح سبح وإذا مر بسوال سال وإذا مر بتعوذ تعوذ۔
حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک لمبی روایت ہے جس میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اور قرآت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات نماز ادا کی تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹَھَہر ٹَھَہر کَر پڑھ رہے تھے، جب تسبیح کی آیت سے گزرتے تو سبحان اللہ کہتے، دعاء کی آیت پڑھتے تو دعاء مانگتے اور جب پناہ مانگنے والی آیت ہوتی تو پناہ مانگتے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر 772)
پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس واقعے سے تدبر قرآن کا ایک عملی نمونہ ملتا ہے۔
3- ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت:قَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِآیَةٍ حَتَّی اَصْبَحَ یُرَدِّدُہَا، وَالْآیَةُ إِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ- سورة المائدة،آیة 118)(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1350)
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ٴاکرم صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز میں کھڑے ہوئے اور ایک آیت کو صبح تک دہراتے رہے، اور وہ آیت یہ تھی:﴿إن تعذبہم فإنہم عبادک وإن تغفر لہم فإنک أنت العزیز الحکیم﴾ اگر تو ان کو عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو بخش دے، تو تو عزیز (غالب)، اور حکیم (حکمت والا) ہے ۔ (سورة المائدة: 118)۔
یہ پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو غور و تدبر کے ساتھ پڑھنے کو کثرت ِتلاوت پر ترجیح دیتے تھے؛ یہاں تک کہ بسا اوقات ایک آیت پڑھتے ہوئے پوری رات گزار دیتے تھے۔
4- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:ہم لوگ دس آیتیں سیکھتے تھے ،پھر آگے اس وقت تک نہیں بڑھتے تھے جب تک ان دس آیات کے معانی سمجھ نہ لیتے اور ان پر عمل کرنا نہ سیکھ لیتے۔
(رواہ الطبری فی تفسیرہ 1/80)
صحابہ کرام کو قرآن کی تعلیم دینے کے سلسلے میں رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہٴ کار تھا یعنی علم سیکھنا سمجھنا پھر اس پر عمل کرنا یہ تینوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم تھے؛ چنانچہ پہلے سبق کو سمجھے اور اس پر عمل کئے بغیر آگے دوسرا سبق نہیں ملتا تھا۔
5- ایک بار جب عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین رات سے کم میں قرآن ختم کرنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرماتے ہوئے کہا: جو شخص قرآن کو تین رات سے کم میں ختم کرے وہ قرآن کو نہیں سمجھ سکتا۔ (سنن ابی داود حدیث نمبر 1390)
اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس کی آیات میں غور و فکر کرنا ہے نہ کہ صرف لفظی تلاوت کرنا۔
6- موطا امام مالک میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جہری نماز پڑھائی، دوران ِنماز کوئی ایک آیت چھوٹ گئی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے دریافت کیا: کیا نماز میں مجھ سے کوئی آیت چھوٹ گئی ہے؟ اس نے جواب دیا: مجھے نہیں معلوم، اسی طرح دو تین اور لوگوں سے پوچھا سب نے جواب دیا ہمیں نہیں معلوم، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے لوگوں کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے مگر انہیں اتنا نہیں معلوم ہوتا کہ کیا پڑھا گیا اور کیا چھوٹ گیا، بنی اسرائیل کے دلوں سے اللہ کی عظمت و کبریائی اسی وجہ سے جاتی رہی؛ کیوں کہ ان کے بدن حاضر ہوتے تھے، مگر دل و دماغ غائب ہوتے تھے اور اللہ کو وہی عمل مقبول اور پسند ہے، جس میں بدن کے ساتھ دل بھی حاضر ہو۔
سلف صالحین اور تدبر قرآن:
1- ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے سورہٴ بقرہ بارہ سال میں سیکھا ،جب اسے مکمل سیکھ کر فارغ ہوئے تو ایک اونٹ ذبح کیا۔(نزہة الفضلاء تہذیب سیر اعلام النبلاء 1/35)
صرف ایک سورت کو سیکھنے میں اتنی لمبی مدت اس لئے لگی؛ کیونکہ انہوں نے اسے غور و تدبر کے ساتھ پڑھا اور سیکھا تھا۔
2- ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی حاضر ہوا تو عمر رضی اللہ عنہ اس سے لوگوں کے احوال دریافت کرنے لگے انہوں نے کہا: اے امیر المومنین! ان میں سے بعض لوگوں نے اتنا اتنا قرآن پڑھ لیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کی قسم مجھے پسند نہیں کہ لوگ قرآن پڑھنے میں اس قدر جلد بازی سے کام لیں، میری یہ بات سن کر عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈانٹا اور کہا خاموش ہو جاوٴ، میں رنجیدہ خاطر ہو کر گھر واپس لوٹنے لگا تو عمر رضی اللہ عنہ آئے اور پوچھنے لگے: ابھی اس شخص کی کون سی بات تمہیں ناگوار گزری ہے؟ میں نے کہا: اگر یہ لوگ قرآن پڑھنے میں اس قدر جلد بازی کریں گے تو اس کے معانی و مفاہیم کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ سکیں گے، جس کے نتیجے میں باہم اختلاف ہوگا اور اس اختلاف کے نتیجے میں آپس میں لڑائی جھگڑے کریں گے، چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے ابن عباس تم نے سچ کہا یقینا میں اس بات کو لوگوں سے چھپاتا تھا مگر تم نے حقیقت بیان کر دیا۔(نزہة الفضلاء تہذیب سیر اعلام النبلاء 1/278)
یقینا بعد میں وہی کچھ ہوا جس کا اندیشہ عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ظاہر کیا تھا ؛چنانچہ خوارج کا ظہور ہوا جو قرآن کو پڑھتے ہیں مگر یہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔
3- ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس امت کے شروع کے دور میں ایک فاضل صحابی رسول کو صرف بعض سورتیں یاد ہوتی تھیں، مگر انہیں قرآن پر عمل کرنے کی توفیق ملی ہوئی تھی جب کہ بعد کے دور کے لوگوں کا حال یہ ہے کہ یہ سب قرآن کو پڑھتے ہیں یہاں تک کہ بچے اور اندھے بھی مگر انہیں قرآن پر عمل کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔
اسی مفہوم کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان کیا ہے: قرآن حفظ کرنا ہمارے لیے مشکل ہے ،مگر اللہ نے اس پر عمل کرنا آسان بنا دیا ہے؛ جب کہ ہمارے بعد کے لوگوں کے لئے حفظ ِقرآن آسان ہے اور اس پر عمل کرنا مشکل ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن 1/39)
4- حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: بے شک اس قرآن کو غلاموں اور بچوں نے پڑھا، جنہیں قرآن کی نہ کوئی سمجھ ہے اور نہ تفسیر کا کوئی علم،قرآن میں غور و فکر قرآن پر عمل کرنے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ صرف اس کے حروف کو یاد کرنے اور اس کے حدود و احکامات کو پامال کرنے سے، بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ میں نے پورا قرآن پڑھ لیا ایک حرف بھی نہیں چھوڑا ؛حالانکہ اللہ کی قسم اس نے پورا قرآن چھوڑ دیا کیوں کہ قرآن پڑھنے کا کوئی اثر اس کے اخلاق و کردار میں نظر نہیں آتا، بعض لوگ فخریہ انداز میں یہ کہتے پھرتے ہیں: میں ایک سانس میں پوری سورت پڑھ لیتا ہوں، اللہ کی قسم ایسے لوگ نہ قاری ہیں نہ عالم، نہ حکیم و دانا اور نہ متقی و پرہیزگار؛بھلا قرآن پڑھنے والوں کا کب یہ طرز و انداز تھا۔اللہ تعالی ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ نہ کرے۔
(الزہد 276)
5- حسن بصری رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں: قرآن اس لئے نازل کیا گیا ؛تاکہ اسے سمجھ کر پڑھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے، لیکن لوگوں نے اس کی تلاوت ہی کو عمل بنا لیا۔ (مدارج السالکین 1/485)
یعنی انہوں نے قرآن کو عمل کی کتاب بنانے کے بجائے صرف لفظی تلاوت کی کتاب بنا لیا ؛چنانچہ بغیر سمجھے اور عمل کئے صرف تلاوت کرتے ہیں۔
6- شعبہ بن حجاج بن الورد حدیث پڑھنے والوں سے کہا کرتے تھے: اے لوگو! حدیث میں تم جتنا آگے بڑھتے جاو ٴگے، اسی کے بقدر قرآن میں پیچھے ہوتے جاوٴ گے۔ (مدارج السالکین 1/485)
یہ ان لوگوں کے لئے ایک تنبیہ اور پیغامِ ہے جو حدیث کی اسانید پر بحث کرنے اور فقہی مسائل کو پڑھنے اور پڑھانے میں حد درجہ مشغول ہوکر قرآن اور تدبرِ قرآن سے بے پروا ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں قرآن و حدیث کے درمیان توازن و اعتدال کھو دیتے ہیں۔
7- محمد بن کعب القرظی فرماتے ہیں: میں رات سے لے کر صبح تک صرف دو سورتیں إذا زلزلت الارض اور القارعة غور و فکر کے ساتھ پڑھتا رہوں یہ میرے لیے اس سے کہیں بہتر ہے کہ پورا قرآن بغیر غور و تدبر کے جلدی جلدی پڑھوں۔
(الزہد لابن المبارک 97)
8- ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ایک انسان کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ سود مند چیز اور اس کی نجات کا سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ وہ قرآن میں غور و فکر کرے اور اس کی آیات کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کے لیے اپنی پوری توجہ اور کوشش صرف کرے ؛کیونکہ تدبر قرآن سے:بندے کو بھلائی اور برائی کی تمام شاہراہوں کے بارے میں واقفیت حاصل ہوتی ہے، خیر و شر کے اسباب و وسائل اور ثمرات و نتائج نیز اچھے اور برے لوگوں کے انجام کا علم ہوتا ہے۔نفع بخش علوم اور سعادت و کامرانی کے خزانوں کی چابیاں اسے ملتی ہیں۔دل میں ایمان کی بنیادیں مزید راسخ و مضبوط ہوتی ہیں۔دنیا و آخرت اور جنت و جہنم کی حقیقت و ماہیت سے اس کا دل روشناس ہوتا ہے؛گذشتہ قوموں کے حالات و واقعات اور ان پر اللہ کی طرف سے آنے والے عذاب اور ان سے ملنے والی عبرت و نصیحت سے آگاہی ہوتی ہے۔اللہ تعالی کے عدل و انصاف اور انعام و اکرام کا نظارہ ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کی ذات اس کے اسمائے و صفات، اس کے افعال، اس کے نزدیک پسندیدہ و ناپسندیدہ اعمال، اس تک پہنچنے کے راستے اور اس کی رکاوٹیں ان ساری چیزوں کے بارے میں معرفت نصیب ہوتی ہے۔انسانی نفس اس کی صفات اور اعمال کو صحیح کرنے والی چیزوں اور خراب کرنے والی آفتوں کا علم ہوتا ہے۔اہل جنت و جہنم کے راستے، ان کے اعمال و احوال اور ان کے مقام و مرتبے سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔آخرت کا ایسا نظارہ ہوتا ہے ،جیسے وہ وہیں ہو اور دنیا سے انسان ایسے غائب ہوجاتا ہے؛ جیسے وہ اس میں ہے ہی نہیں۔اختلاف کے وقت حق و باطل کے درمیان تمییز کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے ایک روشنی ملتی ہے، جس سے وہ ہدایت و گمراہی کے درمیان تفریق کر پاتا ہے۔
دل کو طاقت و قوت ملتی ہے اور اسے ایک خوشحال اور پر سکون زندگی نصیب ہوتی ہے چنانچہ اس کی دنیا دوسروں کی دنیا سے مختلف ہوتی ہے، قرآن کے معانی و مفاہیم خوبصورت وعدے کے سہارے بندے کو اپنے رب کی طرف چلنے اور بھاگنے پر آمادہ کرتے ہیں نیز وعیدوں کے ذریعے اسے دردناک عذاب سے ڈراتے اور خبردار کرتے رہتے ہیں۔
مختلف آراء و مذاہب کی تاریکی میں اسے صحیح راستے کی رہنمائی ملتی ہے، بدعتوں اور گمراہیوں کی دلدل میں پھنسنے سے وہ محفوظ رہتا ہے ۔حلال و حرام کے درمیان تمییز کرنے اور پرکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اس کی حد بندیوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے؛ تاکہ انسان ان حدود کو تجاوز کر کے اپنے آپ کو پریشانی میں مبتلا نہ کرے؛جب بھی انسان سستی اور کاہلی کا شکار ہوتا ہے تو اسے ایک آواز پکارتی اور جگاتی ہے کہ اٹھ! قافلہ آگے نکل چکا ہے، ہادی و رہبر کا دامن تمہارے ہاتھ سے چھوٹ چکا ہے،اس لئے اٹھو چلتے رہو اور رواں دواں قافلے کو پا لینے کی کوشش کرو، اللہ کی پناہ طلب کرتے ہوئے اس سے مدد مانگو اور کہو: حسبی اللہ ونعم الوکیل۔
تدبر ِقرآن کے اصول و آداب:
1- تلاوت ِقرآن کے آداب کا پاس و لحاظ رکھے۔ جیسے با وضو ہونا، مناسب وقت، جگہ اور کیفیت کا اختیار کرنا، استعاذہ و بسملہ کا اہتمام، اپنے آپ کو دوسری مصروفیات سے فارغ کرنا، ذہنی یکسوئی اور خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنا اور آیات سے متاثر ہونا اور یہ تصور کرنا کہ قرآن ہم سے ہم کلام ہے۔
2- وقار و سنجیدگی، غور و فکر اور خشوع و خضوع کی کیفیات کے ساتھ تلاوت کرے سورت یا پارہ ختم کرنے کو اپنا اصل مقصد نہ بنائے۔
3- جس آیت کو پڑھے اس پر ٹھہر کر بار بار خوب باریکی سے اس پر غور و فکر کرے۔
4- آیت ِکریمہ کے سیاق و سباق پر تفصیلی نگاہ رکھے؛ جیسے آیت کی ترکیب، اس کا مفہوم، سبب نزول، مشکل الفاظ، آیت سے حاصل ہونے والے دروس و احکامات۔
5- حالاتِ حاضرہ کو سامنے رکھ کر آیت میں غور و فکر کرے؛ تاکہ وہ آیت اس کی زندگی نیز موجودہ دور کے مسائل و مشکلات کے لیے ذریعہٴ علاج اور حل ثابت ہو سکے۔
6- آیت کو سمجھنے کے لئے سلف ِصالحین کے فہم کی طرف رجوع کرے اور دیکھے کہ کیسے انہوں نے اس آیت پر غور و فکر کیا اور کیسے اسے حقیقی زندگی میں برتا اور عمل کیا۔
7- آیت کے متعلق مفسرین کرام کے اقوال و آراء کو نظر میں رکھے۔
8- قرآن کا ہمہ جہتی مطالعہ کرے۔
9- قرآن کے بنیادی اہداف ومقاصد پر توجہ دے۔
10- نص ِقرآنی پر مکمل یقین و اعتماد کرے اور اگر واقع اس کے خلاف ہو تو اسے نص ِقرآنی کے تابع بنایا جائے۔
11- نص قرآنی میں پوشیدہ اسرار ورموز، اشارات، اور باریکیوں سے ہم آہنگی۔
12- قرآن ِفہمی میں جدید علوم ومعارف کو بروئے کار لایا جائے۔
13- آیات پر ایک ہی بار غور وفکر پر اکتفا کرنے کے بجائے ان پر بار بار نئے نئے زاویہ فکر سے غور وخوض کیا جائے، اس لیے کہ بار بار غور کرنے سے نئے نئے معانی نکلتے رہتے ہیں۔
14- ہر سورت کے مرکزی موضوعات اور مقاصد کو نظر میں رکھے۔
15- تفسیر کے بنیادی علوم و معارف پر دسترس ہو۔
16- خاص اسی موضوع پر لکھی گئی کتابوں کا مطالعہ کرے جیسے:
القواعد الحسان لتفسیر القرآن للسعدی۔
مفاتیح للتعامل مع القرآن للخالدی۔
قواعد التدبر الامثل لکتاب اللہ لعبد الرحمن حبنکة المیدانی۔
دراسات قرآنیة لمحمد قطب۔
توفیق دے کہ پڑھوں روز و شب اسے
روشن ہوکاش دل میرا تیری کتاب سے
ماخوذ از تحریر: تدبر القرآن لماذا و کیف؟ – ابراہیم بن عبد الرحمن الترکی)