قرآن کریم سے مسلمانوں میں بیداری کیسے آئے ؟

۱۳؍ویں قسط:

تالیف : الدکتور احمد حسین عبد الکریم                                                  ترجمانی : مفتی محمد مجاہد پھلمبری ؔ (استاذ جامعہ اکل کوا )

منافقین کا حال :

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کفارومشرکین اوریہودونصاری کے علاوہ ایک گروہ منافقین کا بھی تھا ،جن کا کام ہی شبہات پیداکرنا ،مسلمانوں کو نیچا دکھانا ،اختلافات کو ہوادینا ،اہل اسلام کے ساتھ مکروفریب کرنااورجھوٹے اورمن گھڑت اعتراضات کرنا ،چاپلوسی اورمکاری کرنا تھا۔

                یہی وہ لوگ تھے جن کی اللہ تعالیٰ نے سورۃ برأت اوردیگرسورتوں میں فضیحت ورسوائی کی۔خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی چالبازیوں اورمکاریوں سے مسلمانوں کو متنبہ کرایا۔

                حضرت عقبہ ابن عامررضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اپنی امت پرکتاب اوردودھ کا خوف کھاتا ہوں۔

                فرماتے ہیں عرض کیا گیا :یارسول اللہ !کتاب کا کیا مطلب ؟آپ نے ارشاد فرمایا :منافقین اِس کو سیکھیں گے پھر اہلِ ایمان سے جھگڑاکریں گے۔

                 پھرپوچھاگیا :دودھ کا کیا مطلب ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کچھ لوگ دودھ کو پسند کریں گے پھروہ جماعت سے نکل جائیں گے اورجمعہ کوچھوڑدیں گے ۔

                یہاں بطور نمونہ وہ چند آیات ذکرکی جاتی ہیں جو منافقین کے احوال پرمشتمل ہیں :اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

                { یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ  تُنَزَّلَ عَلَیْہِمْ  سُوْرَۃ’‘  تُنَبِّئُھُمْ  بِمَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ ط قُلِ اسْتَھْزِئُ وْا ج  اِنَّ اللّٰہَ مُخْرِج’‘ مَّا تَحْذَرُوْنَ o وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُ ط قُلْ اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ  تَسْتَھْزِئُ وْن}

 (التوبۃ:۶۴،۶۵)

                ترجمہ:منافق لوگ اِس بات سے ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کہیں کوئی ایسی سورت نازل نہ کردی جائے جو انھیں ان (منافقین )کے دلوں کی باتیں بتلادے۔ کہہ دو کہ (اچھا)تم مذاق اڑاتے رہو اللہ وہ بات ظاہر کرنے والاہے ،جس سے تم ڈرتے تھے ۔اور اگرتم ان سے پوچھو تو یہ یقینایوں کہیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کررہے تھے ۔کہو کہ کیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کررہے تھے ؟

                حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے غزوۂ تبوک کے موقع پر اپنی مجلس میں کہا :میں نے اُن قراجیسے زیادہ پیٹ کے رغبت رکھنے والے ،زبان کے جھوٹے اورملاقات کے وقت بزدل نہیں دیکھا،تو مجلس میں ایک آدمی نے کہا تو نے جھوٹ کہا تو منافق ہے ۔

                میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبرکردوں گا ۔اورجب یہ با ت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو قرآن کریم کا نزول ہو ا ۔حضرت عبد اللہ بن عمرفرماتے ہیںکہ میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ آپ کی اونٹنی کے پیچھے پیچھے ٹھوکریں کھاتاہواچلتا اورکہتا :اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم تو صرف ہنسی مذاق اوردل لگی کررہے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے {اَبِاللّٰہِ وَاٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ  تَسْتَھْزِئُ وْن} کیا تم اللہ اوراس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ دل لگی کررہے تھے؟

                اورایک مقام پراللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :

                {وَاِذَا  مَآ اُنْزِلَتْ  سُوْرَۃ’‘  فَمِنْھُمْ  مَّنْ  یَّقُوْلُ  اَیُّکُمْ زَادَتْہُ  ھٰذِہٖٓ  اِیْمَانًاج فَاَمَّا  الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  فَزَادَتْہُمْ  اِیْمَانًا وَّھُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ  o  وَاَمَّا  الَّذِیْنَ  فِیْ   قُلُوْبِھِمْ  مَّرَض’‘  فَزَادَتْھُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَھُمْ کٰفِرُوْن} (التوبۃ:۱۲۴،۱۲۵)

                ترجمہ:اور جب کبھی کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو انہی (منافقین)میں وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اس (سورت)نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے؟ اب جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو (واقعی )ایمان لائے ہیں، ان کے ایمان میں تو اس سورت نے واقعی اضافہ کیا ہے اور وہ (اس پر)خوش ہوتے ہیں ۔رہے وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ ہے تو ؛اس سورت میں ان کی گندگی میں کچھ اور گندگی کا اضافہ کردیاہے اوران کی مو ت بھی کفرہی کی حالت میں آنی ہے ۔

                اورایک مقام پراللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں :

{وَاِذَا  مَآ اُنْزِلَتْ  سُوْرَۃ’‘  نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍط ھَلْ یَرٰئکُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا ط صَرَفَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْم’‘ لَّایَفْقَھُوْن}( التوبۃ:۱۲۷)

                ترجمہ:اورجب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے، تو یہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں (اوراشاروں میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں )کہ کیا تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟پھر وہاں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں اللہ نے ان کا دل پھیر دیا ہے کیوں کہ وہ سمجھ سے کام نہیں لیتے ۔

                جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرکوئی سورت نازل ہوتی تو وہ متوجہ ہوتے ۔پھر حق سے منھ موڑکر پھرجاتے ،یہ ان کی دنیوی حالت تھی کہ حق پرقائم نہیں رہ پاتے اور نہ اس کو قبول کرتے اور نہ اس کو سمجھتے ۔

                اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

                {اَلَمْ  تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ  اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ  قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ  اَنْ  یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی  الطَّاغُوْتِ  وَقَدْ  اُمِرُوْٓا اَنْ  یَّکْفُرُوْا  بِہٖ ط وَیُرِیْدُ  الشَّیْطٰنُ  اَنْ  یُّضِلَّھُمْ  ضَلٰلاً م  بَعِیْدًاo وَاِذَا قِیْلَ  لَھُمْ  تَعَالَوْا اِلٰی مَآ  اَنْزَلَ  اللّٰہُ   وَ اِلَی الرَّسُوْلِ  رَاَیْتَ  الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ  عَنْکَ صُدُوْدًا }

(النساء:۶۰،۶۱)

                ترجمہ: (اے پیغمبر)کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعوی یہ کرتے ہیں کہ اس کلام پربھی ایمان لے آئے ہیں، جو تم پرنازل کیا گیا ہے اور اس پر بھی جو تم سے پہــلے نازل کیا گیا تھا۔ (لیکن)ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے مقدمات فیصلے کے لیے طاغوت کے پاس لے جانا چاہتے ہیں ؟حالاںکہ ان کو حکم یہ دیاگیا تھاکہ وہ اس کا کھل کرانکار کریں ۔

                اور شیطان چاہتاہے کہ انھیں بھٹکاکرپرلے درجہ کی گمراہی میں مبتلاکردے ۔اورجب ان سے کہاجاتاہے کہ آؤ اُس حکم کی طرف، جو اللہ نے اتاراہے اور آؤ رسول کی طرف تو تم ان منافقوں کو دیکھوگے کہ تم سے پوری طرح منھ موڑبیٹھتے ہیں ۔

                شعبی فرماتے ہیں :ایک منافق اوریہودی کے درمیان کسی بات کولے کر جھگڑ اہوگیا ،تو یہودی نے کہا :میں تیرے مذہب کے مطابق فیصلہ کرنا چاہتاہوں ۔اس لیے کہ میں نے سنا ہے کہ وہ فیصلہ میں رشوت نہیں لیتے اورجو بظاہرمسلمان تھا۔ لیکن حقیقۃً منافق تھا ۔وہ اس پرراضی نہ ہوا اورپھر دونوں اس بات پرمتفق ہوگئے کہ فیصلہ قبیلۂ جہینہ کے کاہن کے پاس لے کرجائیں اس موقعہ پریہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔