؍ویں قسط: مفتی مجاہد اشاعتی ؔپھلمبری ؔ /استاذ جامعہ اکل کوا
موجودہ زمانے میں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ ذیل امور پر عمل پیرا ہوں۔
جاہلیت سے اظہار برأت :
ہم میں سے ہر ایک پر ضروری ہے کہ ہم اپنے ماضی کے تمام جاہلی تصورات وخیالات اور موروثی جہالت کوقرآن کریم کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھیں۔ جیسا کہ حضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا تاکہ ہم پاک عالم میں داخل ہوجائیں اور اپنے آپ کو سچا پکا مسلمان بنالیں۔ اور یہ یقین ہوکہ یہی حق ہے اس کے علاوہ حق نہیں ۔
اور حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایسے لوگوں کے لیے اسوہ اور نمونہ ہیں ۔ اصحاب سیر نے بیان کیا ہے کہ جس وقت وہ اپنے بہن اور بہنوئی کے گھر آئے اور آپ نے جو کیا وہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ جب انہوں نے اپنی بہن سے کہا کہ ابھی آپ جو پڑھ رہی تھیں وہ مجھے دکھاؤ اور یہ یقین دلایا کہ میں اسے واپس کردوں گا اور اس کو مٹاؤں گانہیں ۔ جب بہن نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی کتاب اللہ کی حرص کو دیکھا تو فرمایا کہ آپ ناپاک ہیں ، اس لیے پہلے آپ غسل فرمالیجیے۔ اس لیے کہ قرآن کریم کو صرف پاک صاف لوگ ہی چھوسکتے ہیں ۔ چناں چہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا تو بہن نے قرآن کریم کا صحیفہ عطا فرمایا ۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے سورۂ طہٰ پڑھنا شروع کیا ، یہاں تک کہ جب {اننی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدنی واقم الصلاۃ لذکری }(طہ: ۱۴)پر پہنچے تو فرمایا: کیا عمدہ اور بہتر کلام ہے ! مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتا بتائیے ۔آپ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
چناں چہ جب ہم بھی اپنے آپ کو قرآن کریم کے معیار پر ڈھالیںگے تو باطل سے ہٹ کر حق کی طرف گامزن ہوںگے ۔
مکہ ومدینہ کی طرف لوٹنا:
اس دور میں جب کہ پورے خطۂ ارض پر جہالت پھیل چکی ہے اور تاریکی عام ہوچکی ہے ، ہر مسلم کے لیے ضروری ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کریں ۔ وہ مکہ اور مدینہ زادہما اللہ شرفاً وکرماً میں سکھایا جانے والا دین سیکھے ، صفہ کی تعلیم ، حضرات صحابہ کرام کی قربانیاں اور دین اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ سیکھیں ۔ درس گاہ نبوت سے اسلام کی حفاظت کے گُر اور یہود ومنافقین کے ساتھ کیا اور کس طرح کا برتاؤ کیا جائے کی عملی مشق سیکھ کر آئیں۔اور مکہ ومدینہ کی تعلیم ہمیں قرآن وحدیث اورحضرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوںمیں ملے گی ۔ آج ہمیں وہی کام کرنے ہوں گے، جو حضرات صحابہ ؓنے آج سے چودہ سو سال پہلے مکہ ومدینہ میں کئے تھے۔
نفس کی آزادی :
نفس کی اتباع ہویٰ ، حُبّ ِدنیا اور جن وشیاطین کے تسلط سے آزاد کرنا ضروری ہے اورہمارے نفس کاحال وہ ہو ،جو حضرت فضالہ بن عبید سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مذکور ہے ۔’’ المجاہد من جاہد نفسہ ‘‘
جاہلیت جدیدہ کے اسالیب کو جاننا :
جاہلیت جدید ہ کے نئے نئے طرز اور اس کے ہتھکنڈوں کا جاننا بھی ضروری ہے ، تا کہ اس کی کراہت میں مزید اضافہ ہو اور کتاب اللہ سے والہانہ عشق ومحبت پیدا ہوجائے ۔ نیز جب جہالت اس کے طور و طریقہ اور اسالیب کا علم ہوگا تو اس سے نمٹنے اور اس سے مقابلہ کرنے کی استطاعت بھی پیدا ہوگی ۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے : ’’ انما ینقض الاسلام عروۃ عروۃ من نشا فی الاسلام ومن لم یعرف الجاہلیۃ ‘‘ وہ شخص اسلام کا بخیہ ادھیڑ دے گا ،جس کی پرورش اسلام کے ماحول میں ہوئی لیکن وہ جاہلیت سے آگاہ نہ ہوا ہو ۔
مطلب یہ ہے کہ جس نے شر کو جانا اور اس کا مزہ چکھ لیا ۔پھر خیر سے با خبر ہوا اور اس سے لطف اندوز ہوا۔ تو اس کو خیر کی معرفت ومحبت اور شرکی واقفیت اور اس سے بغض اس شخص سے زیادہ حاصل ہوگی ، جس کو خیر وشر کا علم نہ ہو اور نہ ہی اس نے ان دونوں کا مزہ چکھا ہو ۔ اسی وجہ سے حضرات صحابہ رضوا ن اللہ علیہم اجمعین اپنے بعد والوں سے ایمان و یقین اور جذبہ جہاد میں بڑھے ہوئے تھے ، کیوں کہ ان کو کمال معرفت خیر و شر حاصل تھا ۔
وہ اسلام کے حسن و جمال اور ایمان وعمل صالح سے بخوبی واقف تھے ، نیز انہیں کفر و معاصی کی قباحت کا بھی پورا پورا علم تھا ۔
جاہلیت جدیدہ کا مقابلہ :
ہر زمانہ میں امت نے ناموافق حالات اور جہالت کا مقابلہ کیا ہے ۔ دنیا میں اکثر وبیشتر مسلمان آج بھی قرآنی زندگی چاہتے ہیں ۔ کچھ علما نے ان لوگوں کا رد کیا ہے، جو کہتے ہیں کہ قرآن کریم زمانہ ماضی کے ساتھ خاص ہے ۔تو کچھ علما متشابہ کی پیروی کرنے والوںاور محکم کو ترک کرنے والوں کامنہ توڑ جواب دے رہے ہیں ۔ یہ وہ علما ہیں ، جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامنے کی دعوت دیتے اور مستشرقین کی کتابوں میں موجود زہر افشانی سے امت کو آگاہ کرتے ہیں ۔
الحمدللہ ! قرآن کریم کو سننے پڑھنے اور اس کو سمجھنے کے لیے نت نئے آلات وجود میں آچکے ہیں ۔ قرآن کریم کی کثرت طباعت ، حفاظ کرام اور نشرو اشاعت میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم اس کو سمجھ کر پڑھیں ۔ تدبر کریں اور قرآن کریم پر ہونے والے حملہ کے لیے ہم تیار ہوں ۔