قرآن کریم سے مسلمانوں میں بیداری کیسے آئے؟

؍ ویںقسط:

مفتی محمد مجاہد صاحب اشاعتیؔ پھلمبری ؔ/استاذ جامعہ اکل کوا

حفاظت قرآن کا خدائی وعدہ :

            قرآن مجید کو دیگر تمام کتابوں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ اس کا منجانب اللہ محفوظ ہونا ہے ۔ چناں چہ قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ملأ اعلیٰ میں محفوظ فرمایا ۔ ارشاد خداوندی ہے :

             {بَلْ ہُوَ قُرْآنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ}(بروج: ۲۱-۲۲)

            ترجمہ : بل کہ یہ بزرگی والا قرآن لوح محفوظ میں ہے ۔

            اور ایک مقام پر ہے : {وَاِنَّہُ فِیْ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ }(الزخرف: ۴)

            ترجمہ: یقینا یہ ہمارے پاس لوح محفوظ میں ہے ، بہت ہی بلند مرتبہ حکمت والی کتاب ہے ۔

شیطانوں سے قرآن کریم کی حفاظت :

            آسمانوں کو بڑے بڑے معزز اور طاقت ور فرشتوں سے سخت پہریداری اور نگہبانی کے لیے مقرر فرمادیا اوربڑے بڑے شعلے نما ستارے بنادیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : { وَاَنَّا لَمَسْنَا السَّمَآئَ  فَوَجَدْنٰھَا  مُلِئَتْ حَرَسًا  شَدِیْدًا  وَّ شُھُبًا O وَّاَنَّا  کُنَّا  نَقْعُدُ  مِنْہَا  مَقَاعِدَ   لِلسَّمْعِ ط فَمَنْ  یَّسْتَمِعِ  الْاٰنَ یَجِدْ  لَہٗ  شِھَابًا رَّصَدًا  }(الجن: ۸-۹)

            ترجمہ: اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو ہم نے اس کو بھرا ہوا پایا مضبوط چوکیداروں سے اور انگاروں سے اور یہ کہ ہم نے وہاں پر سننے کی جگہ بیٹھتے تو پھر اب جو کوئی کان ـلگاتا ہے تو اپنے لیے ایک تاکنے والا انگارہ پاتا ہے ۔

            ارشاد خداوندی ہے : { نَزَلَ  بِہِ  الرُّوْحُ  الْاَمِیْنُ o  عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَo بِلِسَانٍ  عَرَبِیٍّ  مُّبِیْنٍ }(الشعراء:۱۹۳-۱۹۵)

            ترجمہ:  امانت دار فرشتہ اسے لے کراترا ہے۔(اے پیغمبر!)تمہارے قلب پر اترا ہے تاکہ تم ان (پیغمبروں) میں شامل ہوجاؤ جو لوگوں کو خبردار کرتے ہیں۔ایسی عربی زبان میں اتراہے جو پیغام کو واضح کردینے والی ہے۔

            پھر خود رب ذوالجلال نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک میں قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا ۔ ارشاد ہے : {اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْاٰنَہٗ}(القیامۃ: ۱۷۰)

            ترجمہ:  یقین رکھو کہ اس کو یاکرانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے ۔

            اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کریم کی حفاظت فرمائی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے یا اس کی تبلیغ کرتے کہ اس میں کسی طرح کی کوئی مداخلت نہ ہو۔چناں چہ ارشاد ہے :

            {عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلاَ  یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا o اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا o لِّیَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّھِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْھِمْ  وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْْئٍ عَدَدًا }(الجن: ۲۶-۲۸)

            ترجمہ:  وہی سارے بھید جاننے والا ہے ، چناں چہ وہ اپنے بھید پرکسی کو مطلع نہیں کرتا ۔سوائے کسی پیغمبر کے جسے اس نے (اس کام کے لیے) پسند فرمالیا ہو۔ایسی صورت میں وہ اس پیغمبر کے آگے اورپیچھے کچھ محافظ لگا دیتا ہے۔تاکہ جان لے کہ انہو ں نے اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچادیے ہیں، اور وہ ان کے سارے حالات کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، اور اس نے ہرہر چیز کی پوری پوری گنتی کر رکھی ہے۔

            اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی فرشتوں کے ذریعہ حفاظت فرماتا ہے تاکہ وہ لوگوں تک پیغام خداوندی کو پہنچانے پر قدرت پا سکے ۔

تبدیل وتحریف سے قرآن کریم کی حفاظت :

            اللہ رب العزت نے کرہ ارض پر قرآن کریم میں تبدیل وتحریف اور کمی زیادتی سے حفاظت کا ذمہ بھی خود ہی لیا ہے ۔ ارشاد ہے : {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ}

            یقینا ہم نے ہی نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

            اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

            {لَایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ م بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ}(فصلت: ۴۱)

            ترجمہ : اس میںنہ اس کے آگے سے باطل آسکتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے ، حکمت والے قابل تعریف اللہ کے طرف سے اتاری گئی ہے ۔

            جیسا کہ قرآن کریم پر یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ اس کو نازل کرنے والی ذات اللہ رب العزت کی ہے ، اسی طرح یہ ایمان لانا بھی ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کرنے والی ذات بھی اللہ رب العزت ہی ہے ۔

            اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کس کا ضمان ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے بڑا کفیل کون ہوسکتا ہے ۔ اللہ عزوجل نے کتنا پکا وعدہ فرمایا ہے اور آیت کریمہ {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ}میںکتنی تاکید بیان فرمائی جسے علم نحو اور علوم قرآن کا ادنیٰ طالب علم سمجھ سکتا ہے ۔ چناںچہ آیت کریمہ میں ’’ اِنَّ‘‘ کے ذریعہ تاکید بیان کی پھر لام کے ذریعے لحافظون میں پھر صیغہ جمع نحن بغرض عظمت لائی اور جملہ اسمیہ لے کر آئے جوکہ ثبوت اور دوام پر دلالت کرتا ہے ۔

            خلاصہ یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں تاکید در تاکید بیان فرمائی کہ اس کا محافظ خود اللہ تعالیٰ ہے ۔

قرآن سے تعلق رکھنے والی اشیا کی حفاظت :

            اس عنوان کو سمجھنے کے لیے بہتر ہے کہ’’ اعجاز قرآن کے حیرت انگیز نمونے ‘‘نامی کتاب کا یہ اقتباس کا مطالعہ کیا جائے ۔

            قرآن کریم کو دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز کرنے والا ایک امتیاز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دیگر آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیںلی جب کہ قرآن کی حفاظت کا خود ذمہ لیا۔ خود قرآن مجید میں کہا گیا :

            {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ}(الحجر)

            بے شک ہم ہی نے قرآن کو نازل کیا اور ہم اس کے محافظ ہیں ۔

            اللہ تعالیٰ نے نہ صرف قرآن کی حفاظت فرمائی بل کہ قرآن کے واسطے سے ان تمام چیزوں کی حفاظت فرمائی جو قرآن سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ڈاکٹر محمود احمد شاکر اپنی کتاب محاضرات حدیث میں حفاظت قرآن کا تذکر ہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

            کتاب الٰہی کے تحفظ کے لیے اللہ رب العزت نے دس چیزوں کو تحفظ دیا ۔ یہ دس چیزیں وہ ہیں جو قرآن پاک کے تحفظ کی خاطر محفوظ کی گئی ہیں ۔

            ۱-  متن قرآن کی حفاظت کی ، جو الفاظ اللہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ نازل فرمائے اللہ نے انہیں محفوظ فرمایا ہے ۔

            ۲-  متن قرآن کے ساتھ اس کے معنی ومراد کی بھی حفاظت کی گئی ۔ قرآن میں ارشاد ہے : {ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ }(سورۃ القیٰمۃ)

            ۳-  الفاظ ومعانی کے ساتھ قرآن جس زبان میں نازل ہوا اس زبان کی بھی حفاظت کی گئی ۔

            ۴-  قرآنی الفاظ ومعانی کی عملی صورت کی بھی مکمل حفاظت کی گئی ۔ جو کچھ نازل ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عمل کے ذریعہ بتاتے اور نبی کا عمل محفوظ ہوا ۔

            ۵-  جس ماحول اور جس سیاق و سباق میں قرآن نازل ہوا ، اس ماحول اور سیاق و سباق کی بھی حفاظت کی گئی ۔ حدیث کے ذخیر ہ میں پورا ماحول محفوظ کردیا گیا۔

            ۶-  قرآن کی حفاظت کے لیے صاحب قرآن یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور حالات زندگی محفوظ کردیے گئے ۔

            ۷-  حفاظت قرآن کے لیے صاحب قرآن کے نسب کو بھی محفوظ کردیا گیا ، جب کہ دور حاہلیت کے لوگ امی تھے ۔

            ۸-  حفاظت قرآن کے لیے نزول قرآن کے وقت جو لوگ اس کے اولین مخاطب تھے یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے حالات بھی محفوظ کردیے گئے ۔

            ۹-  صحابہؓ کے حالات ہم تک پہنچنے کے لیے تابعین کا گروہ ضروری تھا ، اس کے لیے تابعین کے حالات بھی محفوظ کردیے گئے۔             ۱۰-  وہ علوم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت سے متعلق ہیں یعنی علوم سیرت ، ارشادات اور سنت اور عمل سے متعلق تو سنت اورحدیث ہوگئی ۔