۱۸؍ ویںقسط:
مفتی محمد مجاہد صاحب اشاعتیؔ پھلمبری ؔ/استاذ جامعہ اکل کوا
آیات متشابہات کے پیرو کار :
قرآن کریم میں دو قسم کی آیات پائی جاتی ہیں ۔ ایک قسم کو محکمات اور دوسری کو متشابہات کہتے ہیں ۔ محکمات ان آیات کو کہتے ہیں ،جن کی مراد ایسے شخص پر بالکل ظاہر اور بین ہو جو قواعد عربیہ کو اچھی طرح جاننے والا ہو۔ اور جن آیات کی تفسیر اور معانی ایسے شخص پر ظاہر نہ ہوان کو متشابہات کہتے ہیں ۔
بعض لوگ جن کے دلوں میں کجی اور ٹیڑھا پن ہوتا ہے ، وہ محکمات سے آنکھیں بند کرکے متشابہات ہی کی کھوج میں لگے رہتے ہیں ،ان آیات متشابہات سے اپنی خواہش کے مطابق معانی نکال کر لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ؛یہی وہ لوگ ہیں جو خود بھی فتنہ میں مبتلا ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تشویش کا شکار بنادیتے ہیں ۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل روایت ہے ۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے { ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰت’‘ مُّحْکَمٰت’‘ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰت’‘ط فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغ’‘ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ ج ؔ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ م ؔ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ لا کُلّ’‘ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّا ٓ اُولُوا الْاَلْبَاب}(آل عمران:۷) تلاوت فرمائی اور فرمایا: کہ جب آپ ایسے لوگوں کو دیکھیں جو متشابہات کی تفتیش میں لگے ہوئے ہیں تو آپ ان سے دور بھاگیں ؛کیو ں کہ یہی وہ لوگ ہیں ،جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے۔
متشابہ کی قسمیں :
ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ خطابی کے حوالہ سے فرماتے ہیں کہ متشابہ کی دو قسمیں ہیں :
ایک تو وہ کہ اگر اس کو محکم کی طرف پھیر دو اور اس کو محکم سے ملاکر غور سے دیکھو تو اس متشابہ کا معنی فوراً ظاہر ہوجائے ۔
دوسری قسم وہ ہے کہ اس کی حقیقت پر آگاہ ہونے کی کوئی سبیل ہی نہیں اور اس قسم کی متشابہ کی پیروی کج رفتار لوگوں کا شیوہ ہے، جو اس کی تاویل تلاش کرتے ہیں اور اس کی حقیقت تک نہیں پہنچتے ،اس میں خود بھی شک میں پڑجاتے ہیں اور دوسروں کو بھی فتنہ میں مبتلا کردیتے ہیں ۔
سلیمان بن یسار سے مروی ہے کہ ایک آدمی جس کا نام’’ صبیغ‘‘ تھا مدینہ آیا اور متشابہ آیات کے متعلق سوال کرنے لگا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بلابھیجا اور خشک کھجور کا گچھا اس کے لیے تیار رکھا؛ جب وہ آیا تو اس سے پوچھا کہ تو کون ہے ؟ اس نے کہا میں عبد اللہ صبیغ ہوں ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خشک کھجور کا گچھا لیا اور اس کے سرپر مارا، اس نے کہا میں عبد اللہ ہوں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو پھر مارا یہاں تک کہ اس کے سرسے خون بہنے لگا ، پھر اس نے کہا اے امیر المومنین !بس اتنا کافی ہے میرے دماغ سے وہ سب ختم ہوگیا، جس کی تلاش وجستجو مجھ کو تھی یعنی متشابہ کی تلاش وجستجو ختم ہوگئی ۔
متشابہ آیات کی تلاش وجستجو کرنے والے اکثر ہر زمانہ میں محکم آیات سے بھاگتے ہیں اور متشابہ کے پیچھے پڑجاتے ہیں ، کیوں کہ محکم آیات سے تعلیلات کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور حلال وحرام بالکل واضح ہوتا ہے ۔ اسی لیے یہ لوگ متشابہات کی تلاش وجستجو میں رہتے ہیں تاکہ تعلیلات کا دروازہ کھل جائے اور محرمات کو حلال کرسکے ، کیوں کہ محکمات میں اس کی گنجائش نہیں رہتی ۔ خاص طور پر محکم آیات کو چھوڑ کر متشابہ آیات کے پیچھے پڑنا یہ مستشرقین کا کام ہے ۔
متشابہ اور کج ر و لوگ :
جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہی لوگ متشابہات قرآن کی پیروی کرتے ہیں ۔یعنی جن لوگو ں کو محکمات کا یقین نہیں اور ان کے دل میں شک و شبہ ہے ان کو مشکل اور متشابہ آیتوں کی تلاش و کرید میں ہی آرام ملتا ہے ، حالاں کہ پہلے انہیں محکمات کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے اور اثبات یعنی اصل بات کو مقدم رکھنا چاہیے؛ تاکہ جب یقین کا درجہ حاصل ہوجائے اور علم استوار ہوجائے پھر اس وقت خود ہی مشکل امور میں نہ الجھیںگے اور نہ دین کو سمجھنے میں کوئی دقت پیش آئے گی ۔
لیکن مستشرقین اور مغربی مفکرین کا حال یہ ہے کہ و ہ متشابہات ہی کے تلاش و جستجو میں رہتے ہیں؛ تا کہ اسلام نے جن امور کو حرام کیا ہے ،وہ اس کو حلال کرسکیں اور اسلام نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہے ان کو حرام ٹھہرا سکیں اورجن امور کو اسلام نے فرض قرار دیا ہے ان سے لوگوں کو روکیں ۔ گویا کہ وہ نصوص قرآنیہ کے ذریعہ اپنے فہم ناقص سے قرآنی قوانین کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور نصوص مقدسہ سے کھلواڑ کرکے اپنے باطل افکار ونظریات پر قرآنی دلائل پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ محض متشابہ آیات کی پیروی ، تاویلات کا احتمال اور واضح ومحکم آیات سے اعراض کرنے کی وجہ سے ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم محکم آیات کو جانیں ۔ ان پر عمل کریں اور متشابہ پر ایمان لاکر اس کی تلاش و جستجو میں نہ پڑیں ۔