قرآن کریم سے مسلمانوں میں بیداری کیسے آئے ؟

۱۷؍ ویں قسط:

تالیف : الدکتوراحمد حسین عبد الکریم                                                                                                                                                                                                                                                                                                ترجمانی : مفتی مجاہد اشاعتیؔ پھلمبریؔ

شعر وشاعری اور اقوال جاہلیت کا رواج :

            سنن دارمی میں امام دارمی نے فضائل القرآن میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : قرآن کی تلاوت کثرت سے کیا کرو قبل اس کے کہ اس کو اٹھالیا جائے ۔ شاگردوں نے کہا یہ مصحف تو اٹھالیے جائیںگے ، لیکن جو لوگوں کے سینے میں ہے اس کا کیا ہوگا ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس پر ایک رات گزرے گی تو صبح وہ اس سے خالی ہوچکے ہوںگے اوروہ لا الہ الا اللہ کا قول بھی بھول گئے ہوں گے اور وہ جاہلیت کے قول اوران کی شعر وشاعری میں پڑگئے ہوںگے اور وہ وقت ہوگا جب ان پر قول یعنی عذاب کا وعدہ واقع ہوگا ۔

لہو ولعب اور گانے بجانے کے ذریعہ تلاوت قرآن سے روکنا :

            آج بھی بہت سے لوگ ایسی ہی کام کرتے ہیں جس طرح نضر بن حارث کیا کرتا تھا ، وہ گانے والی باندیوں کو خرید کر لا تا اور جولوگ مسلمان ہونا چاہتے ان کے پاس بھیج دیتا اور باندی کو حکم دیتا کہ اس کو کھلا اور پلا اور گا نے کے ذریعہ اس کو خوش کر اور کہتا کہ یہ نماز و روزہ سے بہتر ہے جس کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تم کو بلاتے ہیں، اسی کے پس منظر میں یہ آیت کریمہ:{ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ  یَّشْتَرِیْ  لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍصلے ق وَّیَتَّخِذَھَا ھُزُوًا ط اُولٰٓئِکَ  لَہُمْ  عَذَاب’‘  مُّھِیْن’‘o وَاِذَا  تُتْلٰی عَلَیْہِ  اٰیٰتُنَا  وَلّٰی مُسْتَکْبِرًا  کَاَنْ  لََّمْ  یَسْمَعْھَا کَاَنَّ  فِیْٓ  اُذُنَیْہِ  وَقْرًا ج  فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ }(سورۂ لقمان:۷-۶)  نازل ہوئی ۔

            ترجمہ :  اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں تا کہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں اور اس کا مذاق اڑائیں ۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا ۔ (۶) اور جب ایسے شخص کے سامنے ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ پورے تکبر کے ساتھ منہ موڑ لیتا ہے ، جیسے انہوں نے سنا ہی نہیں ، گویا اس کے دونوں کانوں میں بہرا پن ہے ۔ لہٰذا اس کو ایک دکھ دینے والے عذاب کی خوش خبری سنادو ۔ (۷)

            تو یہ وہ شخص ہے جولہوو لعب اور گانے بجانے کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جب اس کے سامنے آیات قرآنیہ کی تلاوت کی جاتی ہے تو اس سے منھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے اور بتکلف بہرہ بن جاتا ہے ۔ ان کو کوئی بہرہ پن نہیں ہے گویا کہ انہوں نے سنا ہی نہیں ، اس لیے کہ اس کے سننے سے ان کو تکلیف ہوتی ہے ۔اسی طرح ان کو اس کا کوئی نفع اور فائدہ نظر نہیں آتا ہے ۔ اور آج کے زمانے میں کتنے ہی گانے گانے والے مرد و عورت ہیں ،جو لوگوں کو اپنے زہر افشانی کے ذریعہ قرآن کریم سے دور کرتے ہیں اور لوگوں کا بھی بڑا عجیب حال ہے کہ وہ بجائے قرآن کریم پڑھنے اور سننے کے ان کے گانے اور تمسخر آمیز باتیں سنتے ہیں ۔

تحریف قرآن :

            اورہاں آج کل نصوص کی تحریف کے ذریعہ آیات قرآنیہ کو اس کے مقاصد کے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جیسا کہ ’’ الکتاب والقرآن قرأۃ معاصرۃ‘‘ کے مصنف نے آیت کریمہ {ولا یبدین زینتہن الا لبعولتہن ــــــــعلی عورٰت النساء)(النور: ۳۱)کی تفسیر میں کہا ہے کہ :

            جی ہاں مومنہ عورت کے لیے جائز ہے کہ آیت کریمہ میں مذکورہ رشتہ داروں کے سامنے مکمل برہنہ حالت میں ظاہر ہوجائے اوراگر یہ لوگ اس کو منع کرنا چا ہیے تو ان کا منع کرنا ازقبیل عیب و حیا کے ہوگا ۔ اس کا کہنا ہے مسئلہ مذکورہ حلال وحرام کے قبیل سے نہیں ہے ، اس لیے کہ مذکورہ رشتہ داروں ستر کے مسئلے میں شوہر کے ساتھ شامل کیا گیا ہے ۔ یعنی مطلب اس کا یہ ہوا کہ اگر کوئی باپ اپنی بیٹی کو برہنہ حالت میں دیکھ لے تو اس سے یہ نہ کہے کہ یہ حرام ہے ، بل کہ یہ کہے کہ یہ عیب ہے ۔

            مذکورہ آیت کریمہ کی یہ تفسیر کرنے والے کاتب کے نزدیک ستر عورت کی کوئی حدود نہیں ہے، اور نص قرآنی اوراحادیث، جس میں ستر عورت کی حدود متعین ہے اس سے بھی چھلانگ لگا کر اپنے فہم خاطی پر اعتماد کرتے ہوئے یہ با ت کہہ دی کہ مذکورہ رشتہ داروں کو شوہر کے ساتھ شامل کیا گیا ہے اور یہ بھول گیا کہ شریعت نے ستر کے معاملہ میں شوہر کو بعض امور کے ساتھ خاص کیا ہے۔

من گھڑت تفسیر :

            حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جن میں عام لوگ قرآن پڑھیںگے اور عبادت میں ریاضت کریںگے اور اہل بدعت کے ساتھ مشغول ہوںگے ۔ اپنی قرأت پر معاوضہ لیتے ہیں اور ان پر بھاری بوجھ ہے وہ دین کے ذریعہ دنیا کماتے ہیں اوریہی لوگ دجال اعور کے متبعین ہیں ۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیسے ہوگا ؟ حالاں کہ ان کے پاس قرآن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قرآن کریم کی من چاہی تفسیر کریںگے جیسا کہ یہود نے تورات میں تحریف کی تو اللہ نے بعض کے دلوں کو بعض پر دے مارا اور داؤد علیہ السلام اور مریم علیہا السلام کی زبانی ان پر لعنت بھیجی ۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے نافرمانی کی اور سرکشی میں حد سے آگے بڑھ گئے ۔

(جاری ……)