۲۳/ ویں قسط:
مفتی مجاہد اشاعتی# پھلمبری
قرآن کریم سے ہمارا تعلق:
جب کسی مسلمان کے مرنے کا وقت قریب ہوتا ہے یا وہ مرجاتا ہے اور لوگ موت کو یادکرتے ہیں اور ان کے دل کچھ ڈرتے ہیں تو وہ قرآن کریم کی کچھ تلاوت کرلیتے ہیں۔ خصوصاً سورہٴ یٰس کی تلاوت کی جاتی ہے۔ اس حدیث کی روشنی میں؛ جس کو حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ تم اپنے مردوں پر یٰس شریف پڑھا کرو!
نیزامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے صفوان رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے مشائخ نے بیان کیا کہ وہ غضیف بن الحارث الثمالی (جو کہ صحابی ہیں) کی موت کے وقت ان کے پاس حاضر ہوئے تو وہ کہنے لگے: کیا تم میں سے کوئی سورہٴ یٰس تلاوت کرتا ہے؟ تو صالح بن شریح السکونی نے سورة یٰس کی تلاوت شروع کی اور جب وہ چالیس آیت کی تلاوت کر چکے تو ان کی روح قبض ہوگئی۔ راوی کہتے ہیں: تو مشائخ کہا کرتے تھے: جب میت کے پاس سورة یٰس کی تلاوت کی جائے تو اس کی وجہ سے اس کی روح نکلنے میں تخفیف ہو جاتی ہے۔
اور شاید اس میں حکمت یہ ہو کہ مرنے والے کے پاس سورہٴ یٰس کی تلاوت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ذکر قیامت اور بعث بعد الموت کے احوال سے اس کوکچھ انسیت حاصل ہوجائے۔
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قریب المرگ شخص کے پاس سورہٴ یٰس پڑھنا فرمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم”لکل شیء قلب، وقلب القرآن یٰس“ کے ساتھ اس بات کی طرف بھی ا شارہ ہے کہ اس وقت زبان کم زور ہوجاتی ہے، لیکن دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔پھر اس کے سامنے تلاوت کی جائے تو اس سے اس کے دل کو تقویت ملتی ہے اور اس کی تصدیق میں اضافہ ہوتا ہے۔لیکن یہ بات ہمارے لیے نامناسب ہے کہ ہم قرآن کریم کو صرف اسی حد تک محدود رکھیں کہ ہم قرآن کی تلاوت صرف قریب المرگ شخص کے پاس پڑھیں۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال نے فرمایا تھا:”کہ جو کتاب تمہارے لیے مصدر حیات تھی اور تمہاری قوت کا سرچشمہ تھی اب تمہارا رشتہ اس سے اتنا ہی رہ گیا ہے کہ کوئی مرض الموت میں مبتلا ہو اور اس کے پاس یٰس کی تلاوت کردی جائے۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ جس کا نزول اس لیے ہوا تھا کہ تمہیں حیات وقوت نصیب ہو اب اس کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ مرنے والا سکون سے مرجائے“۔
اور بعض لوگ قرآن کریم کو محفلوں میں الحان محرمہ کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ چناں چہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:الحان محرمہ ایک ایسی مصیبت ہے کہ بعض جاہل اس کو جنازوں اور محفلوں میں بھی پڑھتے ہیں جو بدعت محرمہ ہے۔ ہر سننے والا گنہ گار ہوتا ہے، جس کو اس کے ختم کرنے پر قدرت ہواوروہ اس کو ختم نہ کرے تو وہ بھی گنہ گار ہوگا۔
بعض لوگوں نے قرآن کریم کو بانسری اورمثل گیت بنادیا ہے:
بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کو بغیر تجوید کے احکام وقواعد جانے گانے اور گیت کے انداز میں پڑھتے ہیں۔ انھیں قرآن کریم کے امر ونواہی سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، وہ محض آواز کی بنیاد پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔جب کہ مسند احمد کی ایک روایت ہے،جس میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ روایت کے الفاظ مع ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
”بادروا بالموت ستاً إمرة السفہاء وکثرة الشرط وبیع الحکم واستخفافا بالدم و قطیعة الرحم ونشوا یتخذون القرآن مزامیر یقدمونہ یغنیہم وإن کان اقل منہم فقہا۔ً“
(مسند احمد: 494/3سلسلة الصحیحة: 979)
ترجمہ: ”چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے موت کی تمنا کرو۔بیوقوفوں کی امارت،پولیس کا زیادہ ہونا، فیصلے کا بیچنا، انسانی خون کو ہلکا سمجھ لینا، قطع تعلقی کا عام ہونااور ایسے لوگوں کو آگے کرنا تاکہ وہ گاگاکر قرآن سنائیں، حالاں کہ وہ علم میں کم ہوں گے“۔
جب اس طرح تلات کرنے والا قاری گانے کے سُر میں تلاوت کرتا ہے اور غلطی کرجاتاہے تو ایسے کلمات گنگنا نے لگ جاتا ہے جو قرآن کریم کے الفاظ نہیں ہوتے ہیں اور اس سے اس کا مقصد اپنی تلاوت کی پہلی حالت پر آنا ہوتا ہے۔ اور بعض لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب وہ اس طرح کی تلاوت سنتے ہیں تو بآواز بلند اللہ اللہ کہناشروع کردیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم حسنِ صوت کے ساتھ احکام وقواعد کی رعایت کے ساتھ پڑھنا امر مستحسن ہے اور اس میں اگر فطری آواز اور سر شامل ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔
قرآن کریم جلدی جلدی پڑھنا:
بعض افراد کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت جلدی جلدی کرتے ہیں۔نہ قرآن کریم میں تدبر اور غور فکر کرتے ہیں اور نہ ہی تلاوت قرآن سے ان کے دلوں میں خشوع وخضوع پیدا ہوتا ہے اور بڑی شان سے کہتے ہیں کہ میں نے مختصر سے وقت میں ایک یا ایک سے زائد ختم کیا ہے۔حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امر سے ڈرایا ہے اوراہل کتاب کے متعلق ارشاد فرمایا ہے:
﴿وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتَابَ اِلَّا اَمَانِیَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ﴾ (البقرة: ۷۸)
ترجمہ: اور ان میں سے کچھ لوگ اَن پڑھ ہیں جو کتاب (تورات) کا علم تو رکھتے نہیں۔البتہ کچھ آرزوئیں پکائے بیٹھے ہیں اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم وگمان باندھتے رہتے ہیں۔
یہ بات بہ طور مذمت بیان کی گئی ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”الامانی“ سے مراد تلاوت ہے۔ یعنی انھیں کوئی علم نہیں ہے، وہ محض بغیر سوچے سمجھے تلاوت کرتے ہیں۔ اور اس طرح جلدی جلدی تلاوت کرنے والوں کا تذکرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس کیا گیا کہ کچھ لوگ ہیں جو ایک رات میں ایک یا دو مرتبہ قرآن کریم کی تلاوت کرلیتے ہیں، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا: انھوں نے قرآن پڑھا لیکن جیسا پڑھنا تھا ویسا نہیں پڑھا۔ (گویا کہ پڑھاہی نہیں)میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پوری رات کھڑی رہتی، تو حضور صلی اللہ علیہ سورہٴ بقرہ، آل عمران اور سورہٴ نسا ء کی تلاوت فرماتے۔کسی خوف والی آیت کو تلاوت کرتے تو دعا کرتے اوراللہ کی پناہ طلب کرتے اور کوئی خوش خبری والی آیت کوتلاوت کرتے تو بھی اللہ عز وجل سے دعا کرتے اوراس کی رغبت فرماتے۔ اور جیسا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس شخص کو جواب دیا جس نے کہا کہ میں ایک رکعت میں پوری مفصلات پڑھتا ہوں تو آپ نے فرمایا: شعر کی سی رفتار ی کے ساتھ پڑھتے ہو؟ کچھ لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترتا، لیکن جب وہ دل میں پہنچتا ہے اور راسخ ہوتا ہے تو نفع دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: قرآن کو ردی اور سوکھی کھجوروں کی طرح مت بکھیرو۔ یعنی اتنے جلدی جلدی مت پڑھو، جس طرح ڈالیاں ہلانے سے خشک کھجوریں جلد جلد جھڑ تی ہیں اور شعر کی طرح گھاس نہ کاٹو،بلکہ عجائب کے پاس ٹھہر تے جاوٴ اورقرآن میں غور وفکر اور تدبر کے ذریعہ اپنے دلوں کو حرکت اور جنبش دو اور جلد ختم کرنے میں ہی دھیان مت لگائے رکھو۔