۲۲ ویں قسط: مفتی مجاہد اشاعتی پھلمبری /استاذ جامعہ اکل کوا
بعض لوگوں کا یہ حال ہوتاہے کہ ان کے گھروں میں ہر طرح کے گانے اورمیوزک گنگنائے جاتے ہیں؛ بس اگرگھروں میں کوئی چیز نہیں ہوتی ہے تو وہ ہے تلاوت قرآن پاک ۔ایسے ہی گھر ویران اور برباد ہوتے ہیں اور باوجود اپنی کشادگی کے تنگ ہوجاتے ہیں ۔
گانا اور موسیقی سننا:
گانااورموسیقی بہت خطرناک گناہ ہے۔یہ ایسا گناہ ہے ،جو تدبر قرآن سے انسان کو روکتا ہے ،بل کہ موسیقی، گانے اور گانے بجانے کے آلات سے بڑھ کر کوئی گناہ فہم قرآن کے لیے مانع نہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں، جو دلِ انسان کو قرآن پاک کی تلاوت سے روکتی ہے ۔یہ اللہ کے دشمن ؛شیطان کے سب سے بڑے ہتھکنڈے ہیں ، جس کے ذریعہ وہ انسانوں کوفہمِ قرآن اور تدبرِ قرآن سے دور کرتاہے ۔
دل پر گانے کے بہت ہی خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔وہ ایسا گھنا پردہ ہے جو تدبر قرآن سے آڑے آتا ہے، بل کہ گانے سننے کی عادت بنالینا اتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کے لیے شیطان کی بانسریاں اور گانوں کے سُرقرآن کریم سے زیادہ محبوب لگنے لگے۔اگر ایسا شخص جس کو گانے سننے کی عادت ہوجائے قرآن پاک شروع سے آخر تک سنتاہے تو وہ ذرا بھی حرکت میں نہیں آتاہے اورنہ ہی اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور نہ وجد جیسی کیفیت اپناپاتا ہے؛لیکن جیسے ہی شیطانی گانے اور موسیقی سنتاہے تو یہ گانے اور موسیقی کے سُر اس کے اندر داخل ہو جاتے ہیں اوروجد کی کیفیت حاصل کر لیتا ہے۔آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں، قدم تھرکنے لگتے ہیں،ہاتھوں سے تالیاں بجنے لگتی ہیں اور اس کے سارے بدن پر گانے کا ایسا اثر ظاہر ہوتاہے کہ وہ جھوم جھوم اٹھتاہے۔ حالاں کہ یہ کیفیت تو قرآنِ پاک سننے کی وجہ سے ہوناچاہیے تھا کہ جیسے ہی تلاوتِ کلام پاک سنے تو قلب متوجہ ہو۔ وجد کا سماں بندھ جائے، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اورتلاوت کا اثر اس کے بدن پر ظاہر ہونے لگے اور یہی کیفیت حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی قرآن پاک میں پارہ نمبر۷ /کے شروع میں بیان کی گئی ہے۔لیکن ذوق کی بات ہے ،جس کا جیسا ذوق؛کیوں کہ آدمی اسی چیز کو پسند کرتا ہے جو اس کے مناسب ہو اور اسی کی طرف مائل ہوتاہے ،جو اس کے مزاج اور مذق کے موافق ہو۔
گانا بجانا لہو ولعب ہے :
ہم سب جانتے ہیں کہ گانا بجانا شدید قسم کالہو اورقلب کے لیے ضرررساں ہے،کیوں کہ یہ زنا کا زینہ اور پیش خیمہ ہے، اس سے نفاق و شرک پیدا ہوتا ہے ، شیطان کی شراکت ہوتی ہے اور عقل میں خمار پیدا ہو جاتا ہے۔ اور گانا بجانا ایک ایسی چیز ہے ،جو قرآن مجید سے روکنے اور منع کرنے والی باطل قسم کی باتوں میں سب سے زیادہ شدید روکنے والی ہے، کیوں کہ اس کی جانب نفس بہت زیادہ میلان رکھتا اور اس کی رغبت کرتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ جب معصوم بچوں کے سامنے گانے اور موسیقی بجنے لگتی ہے تو وہ اس کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔ ہمیں اپنے آپ کو اور معصوم بچوں کو اس سے بہت زیادہ بچانے کی ضرورت ہے۔
گانے کا خاصہ:
پس گانے کاخاصہ ہے کہ وہ دل کو مسخ کرنے والا،فہم ِقرآن اورتدبر ِقرآن کے لیے مانع اور سب سے بڑھ کر قرآن ِکریم کی تعلیمات پر عمل سے روکنے والا ہوتاہے ۔گانا اور قرآن کبھی بھی ایک دل میں جمع نہیں ہوسکتے کیوں کہ دونوں ایک دوسرے سے متضاد ہیں اور متضاد اشیا ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ۔اس لیے کہ قرآن پاک تو خواہشاتِ نفسانیہ کی پیروی کرنے سے روکتا ،شہواتِ نفسانیہ سے بچنے کاحکم دیتا اورشیطان کے نقش ِقدم پرچلنے سے منع کرتاہے۔ اور گانا میوزک اس کے برعکس حکم کرتا،انسان کے لیے گناہوں کو خوب صورت بناکر پیش کرتا اور نفس کو شہوت پر ابھارتا ہے، بل کہ انسان کے ضمیر میں چھپے گناہ پر آمادہ کرنے والے مادہ کو جگاتا ہے تو شراب اور گانا بجانا یہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔اس لیے کہ جیسے شراب کی وجہ سے انسان مست ہوکرگناہ کر بیٹھتا ہے ایسے ہی گانے کے ذریعہ انسان بے شرم ہوکر گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم گانے اور اس قسم کے لہو ولعب کو چھوڑ تلاوت قرآن کریم کو اپنائیں اور اپنے گھروں میں قرآن کریم کی تلاوت کریں ۔
اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین !
(جاری……)