قرآن کریم سے مسلمانوں میں بیداری کیسے آئے ؟

۱۴؍ ویں قسط :

تالیف : الدکتور احمد حسین عبد الکریم                                  ترجمانی:مفتی محمد مجاہد اشاعتیؔ پھلمبریؔ

جاہلیتِ جدیدہ کا سامنا:

                اب زمانہ گھوم پھر کر پھر واپس لوٹ رہا ہے اور دشمنانِ اسلام کی طرف سے تیر قرآن کی طرف پھینکے جارہے ہیں ، توکیا جب اپنے محبوب کی طرف تیر آتے ہوئے دیکھے تو اس کا دفاع ضروری نہیں ہے ؟ تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے محبوب، قرآن، دین اور اسلام کی طرف تیروں کا رخ ہو اور ہم خاموش بیٹھے رہیں اور اس کا دفاع نہ کریں !

                قرآن کریم ہمارے سامنے ہے ۔ اور جاہلیت ازسر نو اپنے مکر ، خباثت اور ظاہری قوت کے ساتھ پوری دنیا کو پہنچائے جانے والے قرآن کریم کے پیغامات کو بدلنے میںیک جُٹ ہوکر اورسرجوڑکر کوشاں ہیں ۔

جاہلیت نے شرعی قانون کو انسانی قانون سے بدل دیا :

                شاید جاہلیتِ جدیدہ کا قرآنِ کریم اور مسلمانوں پر حملوں میں سے سب سے نمایاں حملہ یہ تھا کہ قرآنِ کریم کو اس کے حکم ِالٰہی سے الگ کردیا جائے ۔یعنی اس کے مفہوم میں تبدیلی پیدا کردی جائے یا قرآن ہی کو بدل دیا جائے۔

                اس وقت جب کہ’’ جمعیۃ الاتحاد والترقی‘‘ نے ترکی میں سلطان عبد الحمید الثانی کو۱۹۰۸ء میں نئے دستور کے اعلان کرنے پر اور اسلامی ممالک میں چلنے والے شرعی قوانین اور قرآنی احکام کو منسوخ کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔

’’خودتوبدلتے نہیں،قرآںکوبدل دیتے ہیں‘‘۔

ایک اور بہتان:

                جاہلیت ِجدیدہ کی طرف سے ایک بہتان تراشی یہ بھی کی گئی کہ قرآن اورشریعت زمانۂ ماضی کے لیے تو ٹھیک تھے، لیکن اب نہیں رہے۔ یعنی بدلتے زمانے کے ساتھ قرآن وشریعت کو بدل دیا جائے ؛حالاں کہ یہ خیال محض غلط اورمبنی بر جہالت ہے ۔کیوں کہ اسلامی شریعت آسمان سے بنایا ہوا ایسا قانون ہے ،جس کو لوگوں کے پروردگار نے لوگوں کے لیے ہی مشروع کیا ہے، جس کا علم بندوں کے تمام حالات پر محیط ہے ۔ وہ ہر ظاہر و باطن کو بہ خوبی جانتا ہے وہ اس بات سے بھی بے خبر نہیں کہ کون سی چیز وجود میں آگئی اور کونسی آنے والی ہے ۔ وہ اللہ ایسا حکیم ہے، جو ہر چیز کو اس کے مقام پرہی رکھتا ہے ۔ ہمارے اندرون کو جانتا ہے اور پھر اس کے لیے سب سے نفع بخش دوا تجویز کرتا ہے ۔

                {لا یضل ربی ولا ینسی }  ’’وہ بھول وچُوک سے پاک ہے ۔ ‘‘

                 اللہ رب العزت کی لوگوں پرآنے والی نعمتوں کے تکملہ اور مخلوق پراس کی حکمت کے مظاہر میں سے بعد اس کے انسانی عقل کے بچپن کے زمانے کو پار کرنے اورفکرِانسانی کے ادبی زندگی کی سیڑھیاں چڑھنے کے یہ ہے کہ اسلام ہی وہ دین ہے، جسے اللہ رب العزت نے بنی آدم کے لیے بہ طور عبادت تجویز کیا ہے۔ اسلامی شریعت ہی وہ شریعت ہے ،جس کے ذریعے اللہ رب العزت نے پہلی تمام شریعت پر مہرتنسیخ لگادی ۔ تواب کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اسلام ہی ایسا قانون ہوکہ جس کی بنیادوں کی تہیں مضبوط ہوں ، جس کا نظام کامل ، ظاہر خوب صورت اور مقاصد بلند ہو۔ فردو جماعت کی تمام تر ضروریات کو پورا کرنے والا ہو ۔ معتدل ہو، بغیر افراط کے؛ عمل میں سہل ہو، بغیر تفریط کے۔ ہمیشہ کے لیے ہو، ہر زمان ومکان میںنافذ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ، لوگوں کی طبیعتوں کو پسند آنے والا ہو ، ان کے لیے تمام خیر کے پہلوؤں کو واضح کرنے اور دنیا و آخرت کی سعادتوں کی دعوت دینے والا ہو ۔

                اسلامی شریعت ہمیشہ رہنے والی شریعت ہے۔لوگوں کے حالات پرایسی وسیع ہے ،جتنا کہ ان کو لے کر دنیا وسیع ہے ۔ شریعتِ اسلامیہ مطہرہ میںجمود کا تو گمان ہی نہیں کیا جاسکتا ، مگریہ کہ کوئی شخص اسلام پر لعن طعن کرنے والوں سے عاجز آکر اس کے اسرار ور موز سے ناواقف ہوکر یااسلام کے کمال اور اس کی سادگی میں نقص نکالنے کی لالچ میں ایسا کرسکتا ہے ۔

خلاصہ :

                خلاصہ یہ کہ شریعتِ اسلامیہ ایسی شریعت ہے ،جو ہرزمان ومکان میں رہنے والی شریعت ہے ۔ قرآن کریم ہر زمانے کے لیے ہے ، خواہ کوئی عقل مند عقل بند ہوکر اس پر اعتراض کرے یا اس میں نقص نکالے ۔ قرآن کریم کا سمجھ میں نہ آنا یہ ان کی کوتاہ فہمی کی دلیل ہے نہ کہ نعوذ باللہ شریعت اورقرآن کے ناقص ہونے کی دلیل ۔