قرآن کریم سے متعلق اہم وجدید مسائل

مفتی جعفر ملی رحمانی صاحب

صدر دار الافتاء جامعہ اکل کوا

ڈیجیٹل قرآن پربغیر متن کے ترجمہ کا حکم:        ڈیجیٹل قرآن اس طرح تیار کیا جائے کہ نہ قرآن کا متن ظاہر ہو، اور نہ اس کی تلاوت ظاہر ہو، بلکہ انسان صرف اسکرین پر آیتوں کا ترجمہ دیکھ سکے، تو واضح ہو کہ بغیر متن کے صرف قرآن مجید کا ترجمہ جائز نہیں ہے،کیوں کہ اس سے تحریف فی القرآن کا دروازہ کھلتا ہے، اور اگر قرآن مجید متن وترجمہ کے ساتھ اَپ لوڈ کیا گیا ہے، تو جائز ہے۔   (ارشاد المفتین:۱/۱۹۱)

قرآن پاک کو عمدہ اور بہتر آواز سے پڑھنا:         قرآن مجید کو عمدہ اور بہتر آواز سے پڑھنا مطلوب اور پسندیدہ ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’زینوا القرآن بأصواتکم‘‘،لیکن قرآن مجید میں بے جا تکلف اور غنائیت اور موسیقیت پیدا کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے۔   (ارشاد المفتین:۱/۱۹۲، ۱۹۳ )

ڈیجیٹل قرآنِ کریم کی اسکرین کو بغیر وضو کے چھونا:     ڈیجیٹل قرآنِ کریم جس وقت کھول کر چلایا جارہا ہو، او راس کی اسکرین پر قرآنی آیات نمایاں ہوں، تواس کا حکم مطبوعہ قرآن پاک کے مانند ہے، لہٰذا اس حالت میں اس کو بلا وضو ہاتھ لگانا اور اسکرین پر انگلی پھیر کر اوراق پلٹنا جائز نہ ہوگا؛ البتہ کسی مخصوص قلم یا اسی مقصد سے بنائی گئی تیلی وغیرہ کے اشارہ سے اوراق پلٹتے ہوئے موبائل کو چھوئے بغیر اس میں قرآن پڑھا جائے، تو اس کی گنجائش ہوگی، نیز جب آلہ کو اس طرح بند کردیا جائے کہ قرآنی حروف اسکرین پر نظر نہ آئیں، بلکہ صرف آواز آتی رہے، تو اس کا حکم ٹیپ ریکارڈ کی طرح ہوگا، اور اسے بلا وضو چھونے اور اس سے قرآن سننے کی اجازت ہوگی۔  (کتاب النوازل:۳/ ۱۰۶، ۱۰۷)

قرآن پاک کو انگلش یا ہندی وغیرہ لہجے میں پڑھنا :  قرآن پاک چوں کہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے، اس لیے قرآن پاک کو عربی زبان میں، عربی لہجے میں پڑھنا ضروری ہے، عربی زبان کے علاوہ محض انگلش، ہندی، مراٹھی، گجراتی یا کسی اور زبان میں قرآن پاک پڑھنا جائز نہیں ہے، اسی طرح متنِ قرآن کے بغیر کسی بھی زبان میں تنہا ترجمۂ قرآن کی اشاعت ناجائز ہے، اس لیے اسے خریدنا، تقسیم کرنا، او رہدیہ کرنا درست نہیں ہے، ہاں! اصل متنِ عربی کے ساتھ انگلش یا کسی اور زبان میں قرآن کریم کی مستند تفسیر وترجمہ کو شائع کرنا جائز ہے، اس لیے اس کا خریدنا ، تقسیم کرنا اور ہدیہ کرنا بھی جائز ودرست ہے۔   (المسائل المہمۃ:۸/۵۰)

عربی زبان کے علاوہ زبان میں قرآن کریم کی طباعت:       قرآن کریم کی طباعت عربی زبان کے علاوہ صوبائی زبان میں، مثلاً؛ ہندی، مراٹھی، گجراتی وغیرہ میں کرنایا لکھنا، باجماعِ امت حرام وناجائز ہے، اور مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر تحریفِ قرآن کے حکم میں ہے:

۱-            ایسا کرنامصاحفِ عثمانی کے رسم الخط کی تبدیل وتغییر ہے، جو باجماعِ امت حرام ہے۔

۲-            صوبائی زبان ؛ ہندی، مراٹھی، گجراتی وغیرہ میں بہت سے ایسے حروف موجود نہیں، جو قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں، مثلاً -’’ ذ، ز، ض، ظ، الف، ع‘‘- ان سب حروف کو مذکورہ زبانوں میں الگ الگ نقش اور تلفظ کے ساتھ نہیں ادا کیا جاتا، بلکہ ایک ہی نقش کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے، حالاں کہ ان حروف کے تلفظ کے بدلنے سے عربی میں معانی بدل جاتے ہیں، اور ایسا کرنا قرآن مجید کی کھلی تحریف ہے۔

۳-            اگر صوبائی زبان میں حرکات؛ زبر، زیر وپیش کو بہ شکلِ حروف لکھا جائے، تو یہ ایک اور تحریف ہے۔

۴-            نیز اس میں عجم کے کفار کے ساتھ مشابہت بھی ہے، کیوں کہ یہ ان کا مخصوص رسم الخط ہے۔

۵-            نیز اکثر علاقائی زبانوں کی شروعات بائیں جانب سے ہوتی ہے، بنا بریں قرآن پاک کی شروعات بھی بائیں جانب سے ہوگی، جوکہ خلافِ سنت وخلافِ ادب ہے، کیوں کہ دائیں جانب سے کام کی شروعات کرنا پسندیدہ اور مسنون ہے۔اس لیے جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ عربی سیکھیں، اور عربی ہی میں قرآن مجید کی تلاوت کریں!   (المسائل المہمۃ:۸/۵۱،۵۲)

موبائل ولیپ ٹاپ سے آیتِ قرآن ڈیلیٹ کرنا:   آج کل موبائل اور لیپ ٹاپ میں قرآن کریم کی آیات یا سورت، لوگ پڑھنے کی نیت سے رکھتے ہیں، اور اپنے دوستوں کو ثواب کی نیت سے شیئر (Share) بھی کرتے ہیں، لیکن موبائل یا لیپ ٹاپ میں وائرس آنے، یا موبائل میں جگہ نہ ہونے پر سارا ڈاٹا(Data) ڈیلیٹ (Delete) کرنا پڑتا ہے، جس کے متعلق لوگوں میں یہ افواہ عام ہو رہی ہے کہ اس فعل یعنی ڈیلیٹ کرنے سے آدمی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے، ان کی یہ بات درست نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ ضرورۃً موبائل یا لیپ ٹاپ میں موجود قرآن کریم کی آیات یا سورت کا ڈیلیٹ کرنا جائز ودرست ہے۔  (المسائل المہمۃ:۸/۵۴)

ٹیبلیٹ پر قرآن کریم کی تلاوت اور اسلامی کتابیںپڑھنا:       قرآن کریم کی تلاوت اور اسلامی کتابوں کے پڑھنے کے لیے ٹیبلیٹ (لیپ ٹاپ) کااستعمال جائز ہے، البتہ اُس میں اسلامی اور دینی کتابوں کے ساتھ گندی وناجائز چیزیں نہ رکھی جائیں، کیوں کہ یہ ناجائز ہے، اور اِس میں دینی کتابوں کی بے حرمتی بھی ہے۔اگر ٹیبلیٹ کی اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو، تو بلا وضو یا ناپاکی کی حالت میں اسکرین پر ہاتھ لگانا ، یا ٹیبلیٹ کو چھونا جائز نہیں ہوگا، اور اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا نہ ہو، بلکہ کوئی دینی کتاب ہو، یا اسکرین پر کچھ نہ ہو، تو بلا وضو یا ناپاکی کی حالت میں اسے چھو سکتے ہیں، البتہ بہتر نہیں ہے، اگر اسکرین پر کھلی ہوئی کتاب میں کوئی قرآنی آیت ہے، تو بلا وضو یا ناپاکی کی حالت میں اس آیت پر ہاتھ لگانا جائز نہیں ہے۔ (المسائل المہمۃ:۸/۵۵)

قرآن کریم کو چھونے کے لیے باوضو ہونے کا ثبوت: بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو چھونے کے لیے باوضو ہونا ضروری نہیں ہے، کیوں کہ قرآن کریم میں یہ بات کہیں بھی نہیں ملتی، بلکہ یہ فقہ اسلامی کی پیداوار ہے، جو بعد میں مدوّن ہوا، اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جس آیت سے فقہاء نے باوضو قرآن کریم چھونے کا حکم ثابت کیا ہے، اس میں خبر کا ذکر ہے ، حکم کا نہیں، اور مراد فرشتے ہیں، انسان نہیں، ان کی یہ دونوں باتیں بالکل غلط ہیں، جس پر فرمانِ باری تعالیٰ : {لا یَمَسُّہٗ اِلا الْمُطَہَّرُوْن}، اور فرمانِ رسول ا: ’’ لا تَمَسُّ الْقُرْآنَ إلا وَأنتَ طَاہِرٌ‘‘ شاہد عدل ہیں، لہٰذا اس طرح کی ہفوات وبکواس قابلِ ا لتفات نہیں ہے۔ (المسائل المہمۃ:۸/۵۷)

قرآن وحدیث محفوظ کیے گئے موبائل کو بیت الخلا میں لے جانا:  موبائل میں قرآن وحدیث اور اَدعیۂ ماثورہ وغیرہ محفوظ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ اگر یہ اسکرین پر ظاہر ہوں، تو اس حالت میں اسے بیت الخلاء اور استنجا خانہ وغیرہ میں لے جانا ، بے ادبی شمار ہوگا، اور اگر یہ پروگرام بند ہوں، اسکرین پر ظاہر نہ ہوں، تو اسے بیت الخلاء اور استنجاخانہ وغیرہ میں لے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(المسائل المہمۃ:۸/۵۹)

اتنی بلند آواز سے تلاوت جس سے دوسروں کو تکلیف ہو:  دورانِ سفر کسی ایک ساتھی کا موبائل وغیرہ پر اتنی بلند آواز سے تلاوتِ کلام پاک سننا کہ اُس سے دوسرے ساتھیوں کو تکلیف ہو رہی ہو، یا وہ کسی اور کام ، یا بات چیت وغیرہ میں مشغول ہوں، مکروہ ہے۔   (المسائل المہمۃ:۸/۶۰)

مسابقاتِ قرآنیہ وعلمیہ کا انعقاد:             طلبۂ علومِ دینیہ کے مابین ان کی ذہن سازی ، ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے، اور ان کے اندر علم وعمل کے میدان میں سبقت حاصل کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے، مسابقاتِ علمیہ کے انعقاد کے جواز پر علماء وفقہاء کا اتفاق ہے، کیوں کہ آپ انے جہاد کی تیاری اور اس پر اُبھارنے کے لیے اپنے اصحاب کے درمیان گھوڑ دوڑ کا مسابقہ کرایا، تاکہ دین کا قیام مضبوط ومستحکم ہوجائے، اور یہ علت مسابقاتِ علمیہ کے انعقاد میں پائی جاتی ہے، وہ اس طور پر کہ جس طرح جہاد، دین کے قیام کا ذریعہ ہے، اسی طرح مسابقاتِ قرآنیہ واحادیثِ نبویہ ، قرآن وحدیث کے علوم کی حفاظت کے ذرائع ہیں، او رمسابقات کے ذریعہ ان ہی علوم کے حاصل کرنے پر اُبھارا جاتا ہے، جو حفاظتِ دین میں مفید ومعاون ہیں، اس لیے مسابقاتِ قرآنیہ وعلمیہ کا انعقاد جائز وممدوح ہے، البتہ شرط یہ ہے کہ مساہمین ومتسابقین سے شرکت کا عوض نہ لیا جائے، اور ان مسابقات کا انعقاد محض اخلاص پر مبنی ہو۔ (المسائل المہمۃ:۸/۶۱)

نابینا اور معذور افراد کے لیے بریل کوڈ(Braille Code) کی ایجاد:  نابینا اور معذور افراد سماج کی خصوصی توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہیں، ان کی تعلیم کے لیے بریل کوڈ (Braille Code/بریل:  اندھوں کے لیے ایک نظام تحریر وطباعت)کی ایجاد نہایت اہم پیش رفت ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رمزی زبان کے ذریعے نابینا حضرات کو زیادہ سے زیادہ علومِ اسلامیہ سے استفادہ کی سہولت فراہم کریں، بریل کوڈ کے مسلمان ماہرین کو چاہیے کہ وہ اس کوڈ کو زیادہ سے زیادہ عربی خط اور رسمِ عثمانی سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں، تاکہ یہ رُموز قرآنِ مجید کے اصل رسم سے زیادہ سے زیادہ ہم آہنگ ہوجائیں۔ (المسائل المہمۃ:۸/۶۳)

قرآن کریم کی طرف پیر کرنا:  قرآن کریم کلامِ الٰہی ہے، اُس کی تعظیم واجب ہے، لہٰذا اُس کی طرف پاؤں کرنا، یا اس کی طرف پیٹھ کرنا، یا قرآن کریم نیچے رکھے ہوئے ہونے کی حالت میں اس کے قریب کرسی یا چارپائی وغیرہ پر بیٹھنا، سب بے ادبی بلکہ مکروہ ہے، اِس سے اجتناب کرنا چاہیے۔(المسائل المہمۃ:۸/۲۵۴)

واٹس ایپ پر سے قرآنی آیت ڈیلیٹ کرنا:              آج کل سوشل میڈیا میں واٹس ایپ کا استعمال بکثرت ہورہا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ واٹس ایپ پر جو قرآنی آیات ہم میسج کرتے ہیں، لوگ اسے ڈیلیٹ کردیتے ہیں، تو یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے، کہ لوگ قرآن کے ا لفاظ مٹائیں گے، اُن کی یہ بات درست نہیں ہے، صحیح بات یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر واٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو قرآنی آیت بھیجنا قرآن کریم کی بے ادبی نہیں ہے، اور ضرورت پڑنے پر قرآنی آیت کو ڈیلیٹ کردینا بھی درست ہے، یہ قیامت کی نشانیوں میں سے نہیں ہے۔  (المسائل المہمۃ:جلد :۱۱)

انٹرنیٹ کے ذریعہ قرآن وحدیث کی تبلیغ واشاعت :            انٹرنیٹ کے ذریعہ قرآنِ کریم ،حدیثِ نبوی ا، عقائد ِاسلام، احکامِ اسلام ونظریاتِ شرع پر غیروں کی طرف سے جو یلغار کی جارہی ہے، اور اسلام واہلِ اسلام کی جو غلط شبیہ پیش کی جارہی ہے، اس کا جواب انٹرنیٹ کے ذریعہ ہی دینا ممکن ہے ، اس لیے اس مقصد کے خاطر انٹرنیٹ کا استعمال جائز ہی نہیں، بلکہ بعض اوقات لازم ہے۔  (المسائل المہمۃ:۱/۱۸۲)

قرآنی آیات اور سورتوں والی سی ڈیز وچیپ کو بے وضو چھونا:  وہ کیسٹیں،سی ڈیز اور موبائل کی چیپ (Chip)جن میں قرآنی آیات اور سورتوںکو محفوظ کیا جاتا ہے، اس کو بے وضو چھونا جائز ہے، البتہ بعض فقہائے عصر بے وضو چھونے کو خلافِ ادب قرار دیتے ہیں، کیوںکہ ان میں محض قرآن کریم کی آیتو ں اور سورتوںکی آواز ہوتی ہے، اور آوازِ قرآن کا جسم سے مس ہونے کے لیے با وضو ہونا ضروری نہیں ہے، ورنہ جنبی کے لیے قرآن کا سننا جائز نہیں ہوتا، یہی رائے حضرت حکیم الامت علامہ تھانوی رحمہ اللہ کی ہے۔  (المسائل المہمۃ:۲/۶۰)

جس موبائل فون میں قرآن ڈاؤن لوڈ کیا گیا اسے بے وضو چھونا:       موبائل فون میں قرآن کریم کا ڈاؤن لوڈ (Download) کرنا اور اس قرآن کریم سے پڑھنا اور سننا شرعاً جائز ہے، اور جس وقت اس کی اسکرین (Screen) پر قرآن کریم کے حروف نہ آرہے ہوں ، اسے بے وضو ہونے کی حالت میں اپنے پاس رکھنا یا بیت الخلاء (Toilet) وغیرہ میں لے جانا جائز ہے، کیوں کہ اس حالت میں اس پر قرآن کریم کی تعریف صادق نہیں آتی ہے، ہاں البتہ جس وقت قرآن کریم کے حروف اسکرین (Screen) پر لکھے ہوئے آرہے ہوں، تو اس حالت میں محدث (بے وضو شخص) اور جنبی (جس پر غسل واجب ہے) کے لیے اس کا چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس پر قرآن کریم کی تعریف صادق آتی ہے۔ (المسائل المہمۃ:۳/۵۵)

تلاوتِ قرآن مجید کا سننا لازمی ہے:     عصر کے بعد مجلس تلاوت میں یا کسی اور مجلس میں جب قرآن کریم کی تلاوت کی جارہی ہو تو سامعین پر تلاوتِ قرآن کا سننا واجب ہے، اور تلاوت قرآن کے وقت ہر ایسا مباح کام بھی ممنوع وناجائز ہے، جو تلاوت کے سماع میں مخل ہو، چہ جائیکہ قرآن کی تلاوت کے وقت دنیوی باتیں کرنا، اور موبائل سے گیم کھیلنا ، کیوں کہ فی نفسہ یہ دونوں باتیں مسجد میں ممنوع ہیں، اور تلاوتِ قرآن کے سماع میں مخل ہونے کی وجہ سے اس میں مزید قباحت وشناعت آجاتی ہے، اس لئے عام مصلیوں بالخصوص طلباء عزیز کو اس طرح کی باتوں سے احتراز کرنا لازم ہے۔  (المسائل المہمۃ:۳/۲۷۷،۲۷۸)

مکان دوکان یا سفر کی حالت میں گاڑی میں تلاوت قرآن پاک سننا: مکان ، دکان یا بحالت سفر گاڑی میں تلاوتِ قرآن پاک کو سننا نہ صرف جائز بلکہ باعث اجرو ثواب ہے، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ ٹیپ ریکارڈ کا سِویچ (Switch of the Teprecorder) آن (On) کرکے لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں، اور بعض جگہوں پر تو مجلس یا محفل کے لوگوں کو جوڑنے وجمع کرنے کیلئے قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے، کہ مجمع جڑ جائے، اور اس کے بعد کسی واعظ یا مقرر کی تقریر ہو ، جبکہ قرآن کریم کی تلاوت استماع (خوب غور سے سننے) کے لیے ہے، نہ کہ اجماع (لوگوں کو جمع کرنے )کے لیے، تو ان مذکورہ حالتوں میں تلاوت قرآن کریم بجائے ثواب کے موجب گناہ ہوگی، لہٰذا جب بھی تلاوت قرآن کریم ہورہی ہو تو اسے خوب غور سے سنا جائے، ورنہ ٹیپ ریکارڈ وغیرہ کا سویچ بند کردیں، تاکہ گناہ لازم نہ آئے۔

  (المسائل المہمۃ:۳/۲۷۸،۲۷۹)

مجلس ختم قرآن پر دعوت کرانا:            قرآن کریم کو پڑھنا اور اس کو یاد کرنا انتہائی فضیلت وبزرگی والا عمل ہے، اللہ کے رسول ا کا ارشاد ہے:’’ جو شخص قرآن کریم کو پڑھے گا اور اس کو یاد کرے گا، اللہ رب العزت اسے جنت میں داخل فرمائیں گے، اور اس کے گھر والوں میں سے ایسے دس لوگوں کے حق میں اس کی شفاعت وسفارش قبول فرمائیں گے جن پر دوزخ واجب ہوچکی ہوگی۔‘‘

قرآن کریم کی تکمیلِ حفظ کا موقع، موقعِ مسرت ہے، اس موقع پر شکرانہ کے طور پر احباب ومتعارفین کو دعوت دینا اور غربا واحباب کو کھانا کھلانا، یہ اس عظیم نعمت کی قدر دانی ہے، ممنوع نہیں ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب سورۂ بقرہ یاد کی تھی، تو ایک اونٹ ذبح کرکے احباب وغربا کو کھلادیا تھا۔

لیکن یہ بات یاد رہے کہ اللہ کے یہاں اخلاص کی قدر ہے، ریا وفخر کے لیے جو کام کیا جائے وہ مقبول نہیں ہوتا، اور نیت کا حال خدا ہی کو معلوم ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ مخفی طور پر غربا کو ان کی ضرورت کی اشیا دیدی جائیں، اور بچے نے جہاں ختم کیا، وہاں پڑھنے واـلے بچوں اور ان کے ساتذہ کو شیرینی وغیرہ دیدی جائے، اور مدرسہ کی امداد کی جائے۔

طلبا، اساتذہ اور اہل مدرسہ کا، ختم کرنے والے بچہ کے والیان وسرپرستوں سے شیرینی ، دعوت وہدیہ ، یا امداد کا سوال کرنا درست نہیں ہے،کیوں کہ اساتذہ واہل ادارہ نے یہ خدمت خالصۃً اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے انجام دی، جس کا اجر وہ خود کل قیامت کے دن انہیں عطا کرے گا ۔

  (المسائل المہمۃ:۳/۲۷۹،۲۸۰،۲۸۱)

’’پی ڈی ایف ایکسل‘‘ میں قرآن کریم محفوظ کرنا:  قرآن کریم کو ’’پی ڈی ایف ایکسل‘‘(PDF. Excel)یا کسی بھی الیکٹرونیکل فارمیٹ (Electronical Format)جس کو ختم کیا جاسکتا ہو، میں محفوظ کرنا جائز ہے،  مگر جب تک وہ اس میں محفوظ رہے، اس کا ادب واحترام رکھنا لازم ہے۔  (المسائل المہمۃ:۴/۲۳۷)

موبائل فون پر قرآنی آیات واحادیث کا میسج:        بعض لوگ اپنے دوستوں کو موبائل فون پر قرآنی آیات اور احادیث وغیرہ میسج کرتے ہیں، اور وہ بوقت ضرورت انہیں ڈیلیٹ(Delete) کردیتے ہیں، بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کو ڈلیٹ کرنے سے گناہ ہوتا ہے، ان کا یہ خیال درست نہیں ہے، کیوں کہ موبائل پر لکھے میسج کو مٹانا، کاغذ، دیوار اور کپڑے وغیرہ پر لکھی عبارت کو مٹانے کے حکم میں نہیں ہے ، علاوہ ازیں جب درودیوار پر لکھے اسم باری تعالیٰ کے مٹانے کی اجازت ہے، جس میں بے ادبی کا شائبہ بھی ہے، تو موبائل پر میسج مٹانے میں کیا حرج ہے، جب کہ اس میں اس بے ادبی کا احتمال بھی نہیں ہے، لہٰذا میسج کو مٹانے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔  (المسائل المہمۃ:۴/۲۴۴)

آن لائن تعلیمِ قرآن پر اجرت : بعض بیرونی ممالک مثلاً U.S.A. U.K.-وغیرہ میں لوگ اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھوانا چاہتے ہیں، مگر وہاں کوئی مستند ومعتبر سہولت موجود نہیں ہوتی، اگر ہوتی بھی ہے تو بڑی مشکل سے ملتی ہے اور دور ہوتی ہے، اس لئے بعض لوگوں نے آن لائن قرآن کریم پڑھانا اور اس پر اجرت لینا شروع کردیا ، تعلیم قرآن کی اس صورت میں اگر پڑھانے والا قاری یا قاریہ تجوید کے ساتھ قرآن کریم پڑھانے کے ساتھ ساتھ صحیح عقائد ونظریات کے حامل ہیں، نیز کسی اور فتنہ کا اندیشہ نہیں ہے، تو آن لائن پر قرآن کریم کی تعلیم دینا اور حاصل کرنا ، اور اس خدمت میں مشغولیت کی وجہ سے قاری یا قاریہ کا اجرت ومعاوضہ لینا تمام باتیں جائز ہیں۔  (المسائل المہمۃ:۴/۲۴۵)                 

غیر مسلم کو قرآن پاک کا نسخہ دینا:     غیر مسلم کی طرف سے بے ادبی کا اندیشہ نہ ہو ، ہدایت کی توقع ہو اور وہ غسل کرکے قرآن پاک کو چھوئے، تو غیرمسلم کو مطالعہ کے لیے قرآن پاک کا نسخہ دینا ،یا اسے سکھانا جائز ہے، ممکن ہے وہ ہدایت پالے۔  (المسائل المہمۃ:۵/۶۱)

خلافِ ترتیب قرآن کریم کی تلاوت :     قرآن مجید کی بالترتیب تلاوت کرنا آدابِ تلاوت میں سے ہے، اس لیے محققین فقہاء کرام کے نزدیک قرآن کریم کی خلافِ ترتیب تلاوت مطلقاً مکروہ ہے، صرف بچوں کی تعلیم کے لیے منکوس تلاوت بلا کراہت جائز ہے۔  (المسائل المہمۃ:۵/۱۰۰)

نماز میں قرآن مجید کی ترتیب بدل کر پڑھنا:  قرآن مجید کی ترتیب بدل کر اُلٹا پڑھنا مکروہ ہے، اور یہ کراہت قصدًا پڑھنے کی صورت میں ہے، اگر کوئی شخص قصدًا نمازمیں ایسا کرے، تونماز ہوجائے گی مگر مکروہ ہوگی، اور اگر بلا قصد ایسا ہوجائے تو کراہت بھی نہیں، اور نماز بلا کراہت درست اور صحیح ہوگی۔  (المسائل المہمۃ:۵/۱۰۱)

قرآن مجید کی قصدًا خلافِ ترتیب قرأت :             قصدًا قرآن مجید کی کی خلافِ ترتیب قرأت مکروہ ہے، اس لیے اگر کوئی شخص بلا قصد پہلی رکعت میں سورۂ ناس پڑھ لے، تو اُسے چاہیے کہ وہ بقیہ رکعت میں بھی سورۂ ناس ہی پڑھے، کیوں کہ تکرارِ سورۃ منکوس اور اُلٹی قرأت سے اَہون ہے۔ (المسائل المہمۃ:۵/۱۰۲)

مسجد میں ٹیپ ریکارڈر سے قرآن کی تلاوت:     ٹیپ ریکارڈر سے قرآن کریم کا سننا خواہ مسجد کے باہر ہو یا اندر، فی نفسہٖ درست ہے، لیکن اس سے مسجد میں شور وغل ہوگا، اس کی بجلی استعمال ہوگی، اور دیگر لوگ اسے بنیاد بناکر غلط قسم کی چیزیں بھی سننے سنانے کا جواز نکالیں گے، اس لیے مسجد میں ٹیپ ریکارڈ ر کے ذریعہ قرآن کریم سننے کی اجازت نہیں ہے۔  (المسائل المہمۃ:۵/۱۵۷)

قاریٔ قرآن کا کسی کی تعظیم میں کھڑا ہونا:         اگر کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت کررہا ہو، اور اس درمیان اس کے پاس کوئی شخص آجائے ، توقاریٔ قرآن کے لیے اس کی تعظیم میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے، مگر یہ کہ آنے والا شخص عالمِ دین ہے، یا اس قاری کا باپ ہے، یا اس کا استاذ ہے، جس نے اس کو علمِ دین کی تعلیم دی ، تو اس کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونا جائز ہے۔   (المسائل المہمۃ:۵/۲۳۸)

ہرمسئلہ اور حادثہ کا ثبوت قرآن وحدیث سے:      بعض لوگ ہر مسئلہ اور حادثہ کا حکم قرآن وحدیث سے مانگتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ درست نہیں،کیوں کہ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں ہر پیش آنے والے مسئلہ اور حادثہ کا حکم صاف اور صریح موجود نہیں ہے، البتہ ایسی کلیات اور اصول یقینا موجود ہیں ، جن میں اجتہاد واستنباط کے ذریعہ ، قیامت تک پیش آنے والے ہر مسئلہ وحادثہ کا حکم معلوم کیا جاسکتا ہے، اور یہ اجتہادی واستنباطی احکام بھی دین ہی کا حصہ ہیں، جسے ہم فقہ اسلامی سے تعبیر کرتے ہیں، حضراتِ فقہاء کرام نے کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہا اور اجماعِ امت میں انتہائی غور وفکر کرکے، اِن مسائل کا استنباط فرمایا ہے(فجزاہم اللہ خیر الجزاء) ،اور اس عملِ استنباط واجتہاد کا دلیلِ شرعی ہونا، کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہا سے ثابت ہے۔  (المسائل المہمۃ:۵/۲۹۶،۲۹۷)

کیسٹ سے قرآن کریم کی مشق:            بذاتِ خود قرآن کریم کی تلاوت کرنا انتہائی اجر وثواب کا باعث ہے، لیکن اگر کوئی شخص از خودقرآن کریم کو صحیح نہ پڑھ سکتا ہو، اور صحت کے لیے کیسٹ چلا کر اس کے مطابق قرآن کریم کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہو، تو یقینا اس کا یہ عمل بھی ان شاء اللہ باعثِ اجر وثواب ہوگا۔  (المسائل المہمۃ:۵/۳۰۰)

لڑکی کا قرآن کریم حفظ کرنا:

                قرآن کریم یاد کرنا بڑی سعادت مندی کی بات ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس پر بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، البتہ قرآن کریم یاد کرنے کے بعد بھُلا دینے پر بھی سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، اس لیے اگر کوئی لڑکی قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد پڑھنے اور یاد رکھنے کا اہتمام کرسکتی ہو، تو وہ بلاشبہ حفظ کرسکتی ہے، مگر لڑکیاں عام طور پر گھریلو مصروفیت اور شرعی معذوری کی وجہ سے بھول جاتی ہیں، اس لیے انہیں چاہیے کہ بجائے پورا قرآن کریم حفظ یاد کرنے کے چند مخصوص سورتیں یاد کرلیں، یہ ان کے لیے زیادہ بہتر ہے، اور ان سورتوں کا یاد رکھنا بھی اتنا مشکل نہ ہوگا، جتنا پورے قرآن کریم کو یاد رکھنا۔  (المسائل المہمۃ:۶/۳۲۴)