بہ قلم :مولانامسعودعالم مظاہری/استاذجامعہ اکل کوا
مسلمان خوش قسمت بھی اوربدقسمت بھی:
دنیا میں اس وقت مسلمان ہی وہ خوش قسمت قوم ہے، جس کے پاس اللہ کا کلام بالکل محفوظ اورتمام تحریفات سے پاک اُن ہی الفاظ میں موجود ہے ،جن الفاظ میں وہ اللہ کے رسولِ بر حق صلی اللہ علیہ وسلم پر اترا تھا۔ اور دنیا میں اِس وقت مسلمان ہی وہ بدقسمت قوم ہے ،جو اپنے پاس اللہ کا کلام رکھتی ہے اور پھر بھی اس کی برکتوں اور بے حساب نعمتوں سے محروم ہے ۔قرآن ان کو اس لیے دیاگیا تھا کہ اس کو پڑھیں اورسمجھ کراس کے مطابق عمل کریں ۔وہ ان کو عزت و طاقت بخشنے اور انہیں زمین پر خدا کا اصلی خلیفہ بنانے آیا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب انہوں نے قرآنی ہدایت کے مطابق عمل کیا تو اس نے ان کو دنیا کا امام اور پیشوا بنا کر دکھا دیا؛مگر اب ان کے ہاں اس کا مصرف اس کے سوا کچھ نہیں رہا کہ گھر میں اس کو رکھ کر جن بھوت بھگائیں ، آیتوں کو لکھ کر گلے میں باندھیں ، گھول کر پئیں اور محض ثواب کے لیے پڑھ لیا کریں ۔اب یہ اس سے اپنی زندگی کے معاملات میں ہدایت نہیں مانگتے۔اس سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ہمارے عقائد کیا ہونے چاہئیں ؟دوستی اور دشمنی میں کس قانون کی پابندی کریں؟ بندہٴ خدااور اپنے نفس کے حقوق ہم پر کیا ہیں اور ہم کس طرح ان کوادا کریں؟ حق کیا اورباطل کیاہے؟ اطاعت ہمیں کس کی کرنی چاہئے اور نافرمانی کس کی؟تعلق کس سے رکھنا چاہیے اور کس سے نہیں؟ ہمارادوست کون ہے اور دشمن کون؟ ہمارے لیے عزت و فلاح اور نفع کس میں ہے اور ذلت و نامرادی اور نقصان کس چیز میں؟
قرآن سے پوچھنے کی ضرورت نہیں:
اب توحال یہ ہے کہ مسلمانوں نے یہ ساری باتیں قرآن سے پوچھنی چھوڑ دی ہیں،کیوں کہ ضرورت ہی محسوس نہیں کررہے ہیں۔اب یہ کافروں ، مشرکوں ،گمراہوں، بدعقیدوں ،بے دینوں،الحادپرستوں،خود غرض اور مفادپرست لوگوں اور خود اپنے نفس کے شیطان سے پوچھتے اور ان ہی کے کہے پر شوق سے چلتے ہیں۔اس لیے خدا کو چھوڑ کر دوسروں کے حکم پر چلنے کا جو انجام ہونا چاہئے وہی ان کا ہورہاہے۔اس کو یہ آج ہندستان، چین، جاوا ، فلسطین ، شام،بحرین،الجزائر اور مراکش میں،ہر جگہ بری طرح بھگت رہے ہیں۔قرآن تو خیر کا سر چشمہ ہے ۔جتنی اور جیسی خیر تم اس سے مانگو گے یہ تمہیں دینے کو ہروقت اورہرجگہ تیارملے گا۔
ہم تودوبوندیں ہی مانگتے ہیں:
ہم اس سے محض جن بھوت بھگا نا ، کھانسی بخار کا علاج ، قرآن خوانی کرکے جلیبی،مقدمہ کی کام یابی ، نوکری کا حصول اور ایسی ہی گھٹیا،چھوٹی اور بے حقیقت چیزیں مانگیں گے تو یہی ملیں گی۔اگر دنیا کی بادشاہی اور روئے زمیں کی حکومت مانگیں گے تو وہ بھی ملے گی اور اگر عرش الٰہی کی قریب پہنچنا چاہیں گے تو یہ ہمیں وہاں بھی آسانی سے پہنچادے گا۔یہ ہمارے اپنی ظرف کی بات ہے کہ سمندر سے پانی کی دوبوندیں مانگتے ہیں،ورنہ سمندر تو دریا بخشنے کے لیے بھی تیار ہے۔
اگرکوئی دوسراکرے توپاگل کی سندپائے:
جو ستم ظریفیاں ہمارے مسلمان بھائی اللہ کی اس کتاب پاک کے ساتھ کرتے ہیں ،وہ اس قدر مضحکہ انگیز ہیں کہ اگر یہ خود کسی دوسرے معاملہ میں کسی شخص کو ایسے حرکتیں کرتے دیکھیں تو اس کی ہنسی اڑ ائیں، بل کہ اس کو پاگل قرار دینے میں بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔بتائیے اگر کوئی شخص حکیم سے نسخہ لکھوا کر لائے اور اسے کپڑے میں لپیٹ کر گلے میں باندھ لے یا اسے پانی میں گھول کر پی جائے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟کیا آپ اسے بے وقوف نہیں سمجھیں گے؟مگر حکیم الحکما نے آپ کے امراض کے لیے شفا اور رحمت کا جو بے نظیر نسخہ لکھ کر دیا ،اس کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے رات دن یہی سلوک ہو رہا ہے اور کسی کو اس پر ہنسی نہیں آتی ۔کوئی نہیں سوچتا کہ نسخہ صرف گلے میں لٹکا نے اور گھول کر پینے کی چیز نہیں ،بل کہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی ہدایت کے مطابق دوا استعمال کی جائے۔
قرآن کے ساتھ ہمارا سلوک:
آج ہمارے پاس وہی قرآن ہے، جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پاس تھا۔قرآن نے صحابہ کو ایک منفرد انسانی گروہ میں بدل دیا۔کیا قرآن اب اس طرح کی تبدیلی لانے سے قاصر ہے؟کیا قرآن کی کارکردگی اب ختم ہو گئی ہے؟ایسا ہر گز نہیں۔تو پھر بات کیا ہے؟قرآنِ مجید تو ایک دائمی اورلازوال معجزہ ہے۔ یقینا نقص ہمارے اندر اور کوتاہی ہماری ہے۔آج مسلمانوں پراللہ کابے انتہاکرم ہے کہ قرآن کریم ہر گھر میں موجود ہے ۔ ریڈیو اسٹیشن اور ٹیلی ویژن سنٹرس؛ مختلف مسلم ممالک میں اپنے چینل سے رات دن قرآن کریم نشر کر رہے ہیں۔
الحمدللہ!پوری امت ِاسلامیہ میں اس وقت لاکھوں قرآن مجید کے حفاظ کرام موجودہیں،اتنے حفاظ تو عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں بھی نہ تھے۔موجودہ زمانے میں سائنسی ایجادات واکتشافات کی بہ دولت آلات طباعت کی ارزانی وفراوانی بھی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ۔اب تومطابع(Press)میں بجلی کے استعمال کی وجہ سے کام اتنی تیزی سے ہوتاہے کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے؛ یہ جان کریقیناآپ تھوڑی دیر ہی کے لیے سہی؛ لیکن حیران ہوں گے کہ آج کل ایک مشین پرفی گھنٹہ۴۵/ہزارکاپیاں چھپ سکتی ہیں۔ کاغذ ۵۴/ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے مشینوں کے اندرجاتااورخودبہ خود چھپ کرباہربھی آجاتاہے ۔مشینوں سے خودبہ خود کٹائی ہو جاتی ہے ، یہاں تک کہ تہیں بھی مشینیں ہی لگادیتی ہیں۔اس سب کے باوجود اس قدر اہتمام کے ہوتے ہوئے بھی ہماری زندگی میں قرآن کریم کے ذریعہ مطلوبہ تبدیلی؛کیوں عمل میں نہیں آرہی ہے؟ کبھی ہم نے غورکرنے کی کوشش بھی کی کہ آخر اس کی وجہ کیاہے؟ابھی توہم ہروقت فرصت ہی کوڈھونڈڈھونڈ کرترس رہے ہیں،جب ملاقات ہو جائے گی تو غور کر لیں گے۔
واضح بات ہے :
کہ ہم ان شرطوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں،جو قرآن کے معجزانہ اثرات کے ظہور کے لیے ضروری اور جن کی تکمیل سے قرآن تبدیلی کا عمل سر انجام دیتا ہے۔ہماری ساری توجہ قرآن کے الفاظ پر ہی مرکوزہے ”تعلیم قرآن“کا مطلب ہم نے صرف یہ سمجھ لیا ہے کہ قرآن کے الفاظ سیکھے جائیں اور قرآن کو پڑھنے کی کیفیت سیکھ لی جائے۔ اس کے الفاظ کو صحیح مخارج سے ادا کرنے کا طریقہ ہمیں آتا ہو اور ان حروف کی صفات کو صوتی لحاظ سے درست اد ا کیا جائے ۔ہم نے قرآن کی معانی تک رسائی پر توجہ دی ہے نہ اس میں کچھ زیادہ دل چسپی لی ہے اور عمل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو جواب کہاں سے آئے گا ؟
ہم تو قرآں سجاتے ہیں بس طاق پر
کب ہے فرصت جہاں سے ، جو اِس کو پڑھیں
آگے بریک لگاہواہے:
قرآن کے ساتھ ہمارے اس ظاہر ی شکل تک محدود طرز عمل نے ہمارے قرآن کی حقیقی منافع پانے پر بریک لگا رکھا ہے ۔کتابِ زندہ کے ساتھ ہمارے اس عجیب وغریب رویے کا نتیجہ ہمارے لیے نہایت ہی خطرناک ہے۔ قرآن کریم کا یہ اعجاز کہ وہ نفوس میں تبدیلی پیدا کر دیتا ہے ،لیکن افسوس کہ ہماری بے عملی و کاہلی کی وجہ سے ظاہر نہیں ہو رہا ہے۔
ہمارے قول وفعل اوراعمال وکردارمیں تضاد بڑھ چکااوریکسانیت روٹھ کرہم سے کوسوں دور جا چکی ہے۔”منہ پررام رام،بغل میں چھری“دبائے رکھتے ہیں، ہم گفتارکے غازی ہیں،کردارکے نہیں،اِس لیے ہماری دل چسپیاں بدل چکی ہیں،دنیا سے تعلق اور اس کی محبت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ آج ہماری حالت ٹھیک وہی ہو چکی ہے، جس کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں دی تھی ۔ ”یوشک الامم أن تداعی علیکم کما تداعی الأکلة إلیٰ قصعتہا“۔فقال قائل:ومن قلة نحن یومئذ؟ قال:”بل أنتم یومئذ کثیر، و لٰکنکم غثاء کغثاء السیل، ولینزعن اللّٰہ من صدورعدوکم المہابة منکم ، و لیقذفن اللّٰہ فی قلوبکم الوہن“فقال قائل:یارسول اللّٰہ ! وما الوہن ؟ قال: ”حب الدنیاوکراہیة الموت“۔
یعنی قریب ہے کہ قومیں تم پر حملہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کو ایسے بلائیں ،جیسے کھانا کھانے والے دستر خوان پر ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہیں۔ایک شخص نے عرض کیا: ”کیا ہم اس دن تھوڑی تعداد میں ہوں گے؟ فرمایا نہیں! بل کہ اس وقت تم لوگ بہت ہوگے۔مگر تم لوگ سیلاب کے جھاگ کی مانند ہوگے،اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں میں تمہارا دبدبہ ختم کر دے گا اور تمہارے دلوں میں وہن ڈال دے گا۔ایک کہنے والے نے کہا:یا رسول اللہ! وہن کیا چیز ہے ؟فرمایا !دنیا کی محبت اور موت سے نفرت “۔
(ابوداوٴد:ص۵۹۰)
کچھ افسوس بھی نہیں ہوتا:
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔یہ اس کا پہلا اور حقیقی شرف ہے۔ دوسرا شرف یہ ہے کہ جنابِ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جیسے جلیل القدر نبی کے سپرد اِس کی تعلیم و تشریح اور تذکیر کا کام ہوا، ان نسبتوں کی عظمت اوربلندی کاتقاضا یہ تھاکہ قرآن مجیدہماری توجہات کا مرکزبن جاتااورزندگی کے نشیب وفرازمیں اُسی کی رہ نمائیاں ہمارے لئے مشعل راہ بنتیں؛ مگرافسوس کا مقام ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ اِس مقدس صحیفہ کے مضامین اور مطالب سے نا آشنا ہے اور صدمہ یہ ہے کہ اِس دوری و مہجوری پر اُن کو کچھ افسوس بھی نہیں ہے۔ ان کو بھول کر یہ بھی خیال نہیں آتا کہ اُ ن کی میزوں پر ،الماریوں میں اور گھروں کے طاقچوں پر قرآن مجید کے جو نسخے رکھے ہوئے ہیں، وہ اپنے اندر کوئی پیغام بھی رکھتے ہیں اور زندگی کے مسائل کاان کے پاس کوئی حل ہے۔اور وہ ایک خاص دعوت کے داعی اور بنیاد ہیں ۔دوسرا گروہ وہ ہے جو اپنے ذ ہنوں میں اسلام کا خود ایک تصور رکھتا ہے اس کے پاس کچھ خود ساختہ خاکے اور اپنے ہاتھوں بنائے ہوئے نقشے ہیں یہ گروہ قرآن کی آیات کو اپنے اِنہیں تصورات کی روشنی میں دیکھنا چاہتا ہے اور اسلام کے نظامِ حیات کو انہی خاکوں اور نقشوں کے مطابق مرتب کرنا چاہتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ لوگ اپنی فکر کو قرآن کا پابند نہیں کرنا چاہتے ہیں، بل کہ قرآن کو اپنی فکر کا پابند کرنا چاہتے ہیں۔
دونوں طبقے حرماں نصیب ہیں:
اُن کو غور کرنا چاہئے کہ قرآن مجید؛جس سے ہم نے اپنی سیاہ بختی کی وجہ سے منھ موڑ رکھایا جس کو ہم نے غلط طریقوں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے در حقیقت یہی وہ نسخہٴ کیمیا ہے، جس کے استعمال سے قزاق و رہزن ؛ جبرئیل امین کے اسرار کے امین و ہم راز بن گئے تھے ۔یہی وہ گنج گرا ں مایہ ہے، جس کو پا کر بادیہ نشینوں میں لعل و گہرخزف ریزوں سے زیادہ قیمت نہ رکھتے تھے ۔یہی علم و حکمت کا بیش بہا خزانہ ہے کہ بڑے بڑے عقلا ئے روزگار کو اُسی کی رہ نما ئی کے سہارے اپنی زندگی کی منزل کو طے کرنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ اور اُس کے حکیمانہ نظریات کے مقابلہ میں اپنی محدود عقل و خرد کی شکست کے اعتراف ہی میں ان کولذت محسوس ہوئی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے روح کو اسی قبلہٴ مقصود کی طرف موڑا جائے۔ اِس آہوئے رم خوردہ کو پھر سوئے حرم لے جایا جائے اور اُس مقدس آسمانی صحیفہ کی وساطت سے اپنے بخت خفتہ کو پھر بیدار کیا جائے ۔
گذشتہ سطروں میں جو کچھ لکھا گیا ہے اُس کااصلی مقصد صرف یہی ہے کہ آج کے نام نہادمسلمانوں کو قرآن مجید سے استفادہ کی طرف متوجہ کیا جائے اور ان کو اِس راہ ِ صواب میں پیش آنے والی مشکلات سے بھی آگاہ کرکے وہ طریقہ بتلایا جائے ، جس سے درِّ مقصود یاگوہرمطلوب ہاتھ آئے اور پھرمنزلِ مطلوب تک آسانی کے ساتھ رسائی ہو۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے:
دین کی بنیاد قرآن مجید پر ہے ا ور سنت ِرسول اس کی تشریح ہے۔دنیامیں یہی دوایسے ذرائع ہیں ،جن سے دین کی تعلیمات حاصل ہوتی ہیں اورقیامت تک ہوں گی؛لیکن حیرت و افسوس کی بات یہ ہے کہ مدارس میں (اور عام لوگوں کے درمیان میں بھی)دینی علوم پر گفتگو کرتے ہوئے ان مآخذ ہی کو عملاً آخر میں رکھا جاتا ہے اور لوگوں کے افکار و نظریات قرآن و سنت پر غالب آ جاتے ہیں۔اس صورتِ حال کو بدلنا ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے ۔
مطالعہٴ قرآن کے بارے میں پہلی بات یہی ہے کہ اس کی عظمت محسوس کی جائے۔اس کی حقیقت وعظمت یہ ہے کہ ہم اسے ہر چیز پر مقدم رکھیں اور یہ سمجھیں کہ یہ فائنل (Authority)ہے،اس سے آگے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔یہ بات ہمارے ذہنوں میں پوری طرح بیٹھنی چاہیے۔اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن جگہ جگہ اپنی عظمت کا اظہار کرتا ہے ،جیسا کہ سورة البروج میں کہاگیا ہے:﴿بَلْ ھُوَ قُرْاٰن’‘ مَّجِیْد’‘ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ﴾۔
ایسی غلطی مت کرو:
”یہ قرآن مجید ؛لوح محفوظ میں موجود ہے“۔یعنی اس کا تعلق زمین سے نہیں،بل کہ آسمان کی بلندیوں سے ہے ،اس لیے دنیامیں رہتے ہوئے عام کتاب سمجھنے کی غلطی نہ کرو ۔ظاہر ہے کہ یہ سورئہ بروج کی آیت ہے، جو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔ اس میں اہل مکہ سے کہا گیا کہ تم جو معاملہ قرآن کریم کے ساتھ کر رہے ہو وہ تو انسانوں کے کلام کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ بتلائی جارہی ہے کہ اس کتاب کو اس طرح پڑھنا چاہیے، جیسے اس کے پڑھنے کا حق ہے ۔ جبھی اس کتاب سے آدمی اپنی زندگی میں کما حقہ فائدہ اٹھاکراپنے دارین کوسنوار سکتا ہے ،ورنہ نہیں۔ایک جگہ قرآنِ کریم نے اس کا ذکر جس طرح پیش کیاہے،اسے سورہٴ بقرہ کی آیت نمبر۱۲۱/ میں ملاحظہ کرلیجیے : ﴿اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہ حَقَّ تِلَاوَتِہ اُولٰٓئِکَ یُوٴْمِنُوْنَ بِہ﴾ مطلب یہ کہ جو لوگ اللہ کی کتاب کو صحیح معنوں میں پڑھیں گے وہی اللہ پر ایمان بھی لائیں گے۔
اور یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ یہ عظیم الشان خطاب ہم کلمہ گو اورایمان والوں سے بھی ہے کہ ایمان وایقان کی دولت اسی وقت نصیب ہوگی جب اسے اسی طرح پڑھا جائے جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے۔
ذاکروں سے پوچھیے:
قرآن یہ کہتا ہے کہ اس کتاب کوغوروفکر کے ساتھ پڑھو گے تبھی تمہاری زندگی میں تبدیلی آئے گی،ا گر بادصباکی طرح چلوگے توکچھ بھی ہاتھ نہیںآ ئے گا۔اکیسویں پارے کی شروعات ہی میں ہمیں اس بات کی دعوت دی گئی ہے کہ ﴿اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰب﴾یعنی اللہ کی کتاب کی تلاوت کرو۔اور اس کے فوراً بعد کہا گیا:﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ﴾یقینا نماز ،فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔یہ انقلاب کیوں آئے گا؟اس کا جواب بھی قرآن کریم ہی ﴿ وَ لَذِکْرُاللّٰہِ اَکْبَرُ﴾سے دے رہاہے ۔ اس لیے کہ نماز ذکر ہے اورہمیں یہ معلوم ہوناچاہیے کہ ذکر بہت بڑی چیز اورانمول دولت ہے۔ اللہ کی یاد کسی دل میں رچ بس جائے تو اس میں یقینا انقلاب آکرہی رہے گا؛کیوں کہ ذکرکی اہمیت ہمیں نہیں معلوم ہے۔یہ تو
”ذکرِرب میں کیامزہ ہے ذاکروں سے پوچھیے“
تمھارے محافظ کی ضرورت نہیں ہے:
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ قرآن کے علاوہ دنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں ہے ،جس کے بارے میں کسی دعویٰ کے ساتھ کہا جائے کہ اس کا لفظ بلفظ ؛اسی طرح صحیح ہے،جس طرح پرآسمان سے نازل ہواتھا ۔وجہ اِس کی صرف یہ ہے کہ کسی بھی کتاب کے حفاظت کی گارنٹی رب کائنات نے نہیں لی ہے ،اس لیے خردبرداوراتباعِ ہویٰ کاشکارہوکرمعدومیت کے غارمیں کھوگئی ۔ لیکن جب قرآن کریم کی باری آئی تو ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَوَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ﴾کہ ہم خودقرآن کریم کی حفاظت کریں گے ، تمھاری فوج یا پولیس اور(Security) کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔
ایک ایسی کتاب ہمارے ہاتھ میں ہے :
جو آسمان کی بلندیوں سے اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کا احساس اگرہم جیسے ناقدرے انسانوں کو ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی خوشی کی کوئی انتہانہیں رہے گی۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنی کتاب ہمارے ہاتھ میں دی ہے۔پھر اسی طرح قرآن کریم ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ قومیں کس طرح عروج پاتی ہیں اور کس طرح زوال پذیر ہوتی ہیں؟یہ دنیا کے فلسفہٴ تاریخ سے بھی مشکل فلسفہ ہے اور اس وقت سے یہ فلسفہ سامنے آ رہا ہے ،جب کہ تاریخ دانوں کا دنیا میں ابھی تک وجودبھی نہیں ہوا تھا۔قرآن کہتا ہے کہ قومیں عروج و زوال سے جو دوچار ہوتی ہیں، اس کے کچھ قواعد ہیں ان پر غور کرو۔ اگر ان کی پابندی کروگے تو ترقی کروگے ،ورنہ زوال کا شکارہونے سے بچ نہیں پاوٴ گے۔پھریہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ﴿وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًاغَیْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ ﴾کاکرشمہ دکھادے۔
ایک غلط خیال کاازالہ:
اِس وقت ہمارے بیشتر مسلمان بھائی قرآ ن سے غافل ، اس کی تعلیمات سے بے خبر اور نا آشنا ہیں، ان کی دینی مجالس اور مساجد میں دیگر کتابیں بڑے اہتمام سے پڑھی اورسنی جاتی ہیں، مگر قرآن کا ترجمہ اور تفسیر کا اہتمام نہیں ۔غیر مسلم بھائیوں تک یہ قیمتی نسخہ ٴحیات اور سارے جہانوں کے رب کا یہ پیغام پہنچانا تو الگ رہا وہ خود بھی اس سے استفادے کو غلط سمجھنے کی غلطی میں مبتلا ہیں۔نہ جانے کیوں اور کیسے یہ غلط خیال ان کے دل میں بیٹھ گیا ہے کہ قرآن غیر مسلموں کو مطالعہ کے لیے نہیں دینا چاہیے ۔
جب کہ دنیا میں خدا کی جتنی نعمتیں ہیں، وہ سب عام ہیں،ان سے استفادے پر کسی کے لیے کوئی پابندی نہیں۔سورج ،چاند،ہوائیں،بارش ،نباتات وجمادات وغیرہ؛ تمام ہی نعمتیں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں اور سب ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ پھر آخر خدا کی سب سے بڑی نعمت ؛یعنی سارے ہی انسانوں کے رب کے آخری ہدایت نامے ”قرآن “ سے استفادے پر پابندی کیوں؟ کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس ہدایت نامے سے انسانوں کو محروم رکھے ،جو تمام انسانوں کے رب کی طرف سے سارے ہی انسانوں کے لیے نازل ہو ا ہے۔
قرآن کریم ہدایت کی کتاب ہے :
یہ کتاب؛زندگی کے ہرموڑپر انسانوں کی رہ نمائی کرتی اور انھیں اندھیروں سے روشنی میں لاتی ہے، وہ اندھیرے خواہ جہالت کے ہوں یا جاہلیت کے ،کفر و عناد کے ہوں یا نفاق اور دوہرے کردار کے ،اوہام و خرافات کے ہوں یا نرے عقلی وفلسفی ،قدامت پرستی اور تحجر(دل کا پتھر سے بھی زیادہ سخت ہونا) کے ہوں یا تجدد اور صارفیت زدہ مدنیت کے ،قرآن کریم کا اعجاز ہی یہی ہے کہ وہ فرقان ہے ،نور اورکتاب مبین ہے ۔یہ تمام اندھیروں کو چھانٹ دیتا ہے اوربھٹکتی سِسکتی انسانیت کی انگلی پکڑ کر اسے دن کی روشنی میں لا کھڑا کرتا ہے ۔یہ دنیا کے تمام انسانوں کی رہ نمائی کر تا ہے۔ خواہ وہ مغرب کے ہوں یا مشرق کے،مرد ہوں یا عورت ،ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر ،محکوم ہوں یا حاکم،ایشیائی ہوں یا یوروپی،پہاڑوں ، صحراؤں اور بیابانوں کے باسی ہوں یا فلک بوس اور شادو آباد عمارتوں میں رہائش پذیر ہوں،قرآن اُن سب کی رہبری کرتا اور سب کے زخموں پر مرہم رکھتا ہے ۔یہ بات کوئی میں نہیں کہہ رہا ہوں ،بل کہ قرآن کریم ہی تواِس بات کا اعلان کررہاہے کہ:﴿ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ﴾۔
جدیدسہولیات کی برکت:
قرآن کریم آسان کتاب ہدایت ہے۔ مگریہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے ،جس سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ سائنسی ایجادات واکتشافات کی بہ دولت ترقی کے گھوڑدوڑ میں اب عام طور پر خواندگی اور مطالعہ کا ذوق کم سے کم ہوتاچلاجا رہا ہے۔ٹیلی ویژن ، انٹر نیٹ ،ای میل اوررہی سہی کسرکو موبائل فون کی فراہم کردہ بے شمارنِت نئی سہولتوں نے آج انسان کو مطالعہ سے دور ہی نہیں،بل کہ بہت دورکر دیا ہے ۔دور جدید کی معاشی الجھنوں کی الجھنیں، کاروباری اور دفتری مصروفیات ، عائلی زندگی کے اضطرابات اور بحران اس پر” سونے پرسہاگہ “ سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔دین دار اور علمی و ادبی گھرانوں میں بھی کتب بینی کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات میں درس قرآن کے حلقوں، دینی اجتماعات اور مذہبی محافل کی اہمیت بڑھ جاتی ہے،جس پرعلمائے امت کو توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
حقوقِ قرآن کی پوری رعایت کریں:
قرآن کریم کی اس عظمت و جلالت کا تقاضا بے دینی کے اِس دورمیں یہ ہے کہ اس کے حقوق کی کماحقہ رعایت کی جائے۔اہل ایمان اسے اپنے لیے حرز جان بنائیں۔اس کی تلاوت سے ذہن و قلب کو شادکام کریں۔ اس پر عمل کر کے اپنی زندگی سنواریں اور اس کی تعلیم و تدریس کو اپنی ترجیحات میں سر فہرست رکھیں۔درس قرآن کی محفلوں کا اہتمام کریں تو ان کی آداب و شرائط کا پورا خیال رکھیں تا کہ ان کا بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ورنہ توزبانی جمع خرچ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔کیوں کہ دیوارپر”روٹی“ کالفظ لکھ کراُس کی گردان کرتے رہنے سے کسی کاپیٹ نہیں بھرسکتا۔
مکمل بنیادہی ہل جائے گی:
قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے ،جس میں کوئی ایسا موقف پیش کیا جائے ،جو اس کے ماننے والوں کو کم زور پوزیشن میں کھڑا کر دے ،یہ بعید از قیاس ہے۔ہاں! موقف میں اُس وقت کم زوری آسکتی ہے جب اللہ کی کتاب کے علاوہ ان دیگر مآخذکو بھی قرآن کا درجہ دے دیاجائے جو غلطیوں سے محفوظ نہیں ہیں۔اور قرآن مجید میں اور ان مآخذمیں جو فرق ہے اس کو نظر انداز کر کے اور سب کو مساویانہ حیثیت دے کر ایسا موقف اختیار کیا جائے، جہاں قرآن مجید کی آواز اپنی شان کے مطابق بلند ہونے کے بجائے روایات و اجتہادات کے سامنے دب جائے۔
اندیشے بجاہیں:
اِس وقت رجوع الی القرآن کے نتیجہ میں جب بعض ان افکار و خیالات کو غلط قرار دینے کی نوبت آتی ہے ،جن کو جمہور امت کے یہاں قبول و اعتبار حاصل رہا ہے،تو دانستہ یاغیردانستہ طورپرکچھ سوالات یا اندیشے بجا طورپرسر ابھارتے ہیں۔ان میں سر فہرست یہ ہے کہ اگر اسی طرح امت کے درمیان مسلم خیالات کو غلط قرار دیا جاتا رہا اورقرآن کریم سے دوری اختیارکی جاتی رہی ہے تو اِس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ صرف ایک اینٹ کے غلط ثابت ہونے سے ساری اینٹوں پر سے ہی اعتبار اٹھ جائے ۔ اورپھرایسی صورت میں دین کی پوری عمارت ہی غیر معتبر قرار دی جانے لگے۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
آخری گذارش:
اب ہماری اپنی ذمہ داری ہے کہ ہم خوداپنے آپ کو اوراپنی قوم؛قومِ مسلم کو قعرمذلت سے نکالنے کی فکر اور اس کے لیے پوری جدوجہدکریں۔ ہم خودقرآن کریم کی طرف رجوع ہوں اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ”خیرالناس من ینفع الناس “ پرعمل کرتے ہوئے امت کے دیگر افرادکوبھی اِس لائن پر لانے کی ذمہ داری کا احساس دل میں پیدا کریں،اس کے حقوق کو جانیں،اس کی ہدایات پر مقدور بھرعمل کریں،کیوں کہ ﴿ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًااِلَّا وُسْعَھَا﴾میں ہمیں اِسی بات کی ترغیب دی گئی ہے۔ تلاوت کا اہتمام اور ترجمہ وتفسیرکا ذوق اپنائیں۔یومیہ کچھ نہ کچھ تفسیرکا مطالعہ ضرور کیا کریں، مجھے امیدہے کہ اگر تحریر کردہ اِن چند باتوں کا ہم اہتمام کرتے ہیں تواللہ تعالیٰ بھی ہماری دست گیری فرمائیں گے ۔ اورپھر انشاء اللہ اپنے اسلاف واکابررحمہم اللہ کی طرح ہم بھی دارین میں کام یاب وکامران ہو سکتے ہیں ۔
دعاکرلیجیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کورجوع الی القرآن کی توفیق وہمت عطافرمائے ۔آمین!
زمانہ آج بھی قرآن ہی سے فیض پائے گا
چھٹے گی ظلمتِ شب اور سورج جگمگائے گا