قرآن کریم سے استفادے کی صورتیں

مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی

استاذ جامعہ اکل کوا

                اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو جہالت اور کفر وشرک کی گھٹاٹوپ تاریکیوں کے دلدل سے نکالنے کے لیے اپنے برگزیدہ پیغمبروں کا ایک بابرکت سلسلہ جاری فرمایا جس کی آخری کڑی اورقصر پیغمبری کی سنہری اینٹ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ آپ ہی کی آمد آمد سے نبوت کے روشن محل کی تکمیل ہوئی اور آپ پر جو کتابِ ہدایت اتری وہ جہالت کی تہ بہ تہ تاریکیوں کو چھانٹنے اورکفر وشرک کے دیوہیکل شیش محل کو چکنا چور کرنے کے لیے کامل ومکمل کتاب ہے ۔

                یہی وہ کتابِ زیست اور نسخۂ ہدایت ہے، جس نے اپنے پیش رو تمام صحائفِ ادیان اور نسخہائے شفاپر خط نسخ کھینچ دیا اور ایسی ہمہ گیر دواپیش کی، جو روح کی ہر لا علاج بیماری کے لیے شفائے کامل کا پیغام اور دائمی صحت کی ضمانت ہے ۔   ؎

یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست

کتب خانۂ چند ملت بشست

                اِس کتاب میں عقائد کی تحسین وتصحیح ، عبادات کی تلقین وتہذیب ، معاشرت کی اصلاح وترویج ، معاملات کی مثبت اور حوصلہ افزا تعلیم اور ظاہری وباطنی تمدن وسیاست کی نتیجہ خیز رہ نمائی سب سے بہتر طریقے پر موجود ہے، جس کا خلاصہ مفسر قرآن حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی علیہ الرحمہ نے تین چیزیں بتلائی ہیں : (۱) توحید (۲) رسالت اور (۳) آخرت

                اِس دنیائے رنگ و بو میں جتنے انسان وجنات کی نسلیں آباد ہیں سب کو اپنے اپنے بہکتے ، ڈگمگاتے ، لرزتے ، کانپتے اور وہمیات کے دلدل میں گھرتے ، ابھرتے ، نکلتے تمام تربے بنیاد خیالات کو صحیح اورسیدھی راہ فراہم کرنے کے لیے استفادے کی سب سے بہتراوربرترشکل کتابِ الٰہی کی وہ آیات ہیں،جن میں اللہ کی وحدانیت کااعلان،اُس کی قدرت کی ہمہ گیری،اُس کے علم کابے پایاںبیاں،اُس کی رحمت کاغضب پربھی غالب آجانے کاتشریحی واصولی مضمون ہے ۔

                خیالات وافکاراوراوہام وباطل نظریات کی پیچیدہ وادی میں رہ نوردی کرنے والے اُن تمام اشخاص وافرادکے لیے بہترین،سیدھی اورصاف سڑک فراہم کرنے والی وہی کتابِ الٰہی ہے ،جومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر؛آج سے چودہ سواڑتیس سال پیشترنازل ہوناشروع ہوچکی تھی۔کتابِ الٰہی کاوحدانیت سے متعلق مضمون ہراُ س شخص کی پیاس بجھانے میںمکمل طورپرممدومعاون ثابت ہوچکاہے ،جواپنی عزیزپیشانی کواللہ کوچھوڑکردنیاکی ہرذلیل شئی کے سامنے جھکاکر،آخرش دنیامیںذلت کے آثاردیکھ چکے ہیںاورآخرت کی دائمی رسوائی کاکیاپوچھنا!

؎وہ ایک سجدہ جسے توگراںسمجھتاہے

ہزارسجدوںسے دیتاہے آدمی کونجات

                قرآنِ کریم کی ابدی آیات سے استفادے کے لیے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت اوراُس کے مثبت وسیع ترتقاضوںکے لیے خودکواِس طرح تیارکرناکہ اپنی جان مال،عزت وآبرو،آل واولاد،بھائی بند،رشتے دار،اعزا واقربا،بل کہ کہناچاہیے کہ دنیاجہاںکی ہرکہترومہترشئے سے زیادہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوطبیعت سے بالاترہوکر،شریعت وعقل کی مہمیزسے،اپنے رگ وریشے میں پنہاںکرلیناکہ بے احترامی کا شائبہ تک کی نسبت حریمِ نازکی طرف نہ ہونے پائے۔

                آپ کی سنت،حدیث،تقریرات اورزندگی بھرکے عملی نمونے کوحرزِ جاںبنانے کے لیے عبادات، معاملات، معاشرت اورعقائدمیں آپ ہی کی دکھائی ہوئی روشنی سے استفادہ کیاجائے ،جس سے سرِ موانحراف کو’’انحرافِ دین‘‘ اور’’کج روی‘‘باورکیاجائے کہ    ؎

خلافِ پیمبرکسے رہ گزید

کہ ہرگزبہ منزل نہ خواہدرسید

                تیسرامضمون جوقرآنِ کریم سے عملی زندگی میں بسانے اورکتابِ الٰہی سے مستفیدہونے کے لیے رہ جاتاہے وہ اخروی آیات واحکام سے متعلق ہے،جن میں بندہ ٔ مومن کواِس بات کامسلسل دھیان چاہیے کہ اِس دنیا میں ہرنقل وحرکت،ہرنشست وبرخاست،ہرسفروحضرکی حالت،اندرونی وبیرونی زندگی،انفرادی واجتماعی عمل اور ہرخردوکلاںکے معاشرت ومعاملات کامرنے کے بعدوالی زندگی میںحساب دیناہوگا،جن میں نیک وبدکافیصلہ سامنے آئے گا۔ظلم وستم کی چکی میں پسنے والوںکوخداتعالیٰ کے یہاںانصاف ملے گا،ظالم وجابرقوتوںکاصحیح فیصلہ آنکھ موندلینے کے بعدجب دوبارہ زندگی ملے گی اُس وقت نظرآئے گا۔

                اللہ رب العزت نے عدل وانصاف ،نیک سیرت ونیک اخلاق ،نیک اطواراورصلاح وتقویٰ کے لیے جنت تیارکررکھی ہے ،جوخداوندِ قدوس کی رضاکامظہرہے ۔اورظلم وجور،بدی وبدخصلت،قتل وخوںریزی ،خدائی دعویٰ اورتمام طرح کی دیگرمعصیتوںکے لیے خداوندِ قہاروجبارنے دوزخ بنارکھی ہے ،جواللہ کے غضب کامظہرہے ۔

                اِس کتابِ الٰہی سے استفادے کی پہلی شکل یہ ہے کہ بچہ جب آنکھیں کھولے تووالدین اُسے وحدانیت کاعقیدے سکھانے کے لیے داہنے کان میں اللہ کی بڑائی کے کلمات پرمشتمل اذان کے مقدس کلمات ڈال دیںاور بائیں کان میں اقامت کی نغمہ سنجی سے بچے کوتوحیدکامجسم پیکربنانے کے لیے تربیت کاسفرشروع کریں۔

                اگرمسلمان اپنے گھرآنگن کی سب سے پہلی اورسب سے بڑی ترجیحات میںاِسی عملی توحیداوروحدانیت کی تربیت کابیڑااٹھالے اورآگے چل کرتوحیدسے خوش نمااوراجلے رنگ میں ہربچے کورنگتاچلاجائے تومحلے کے سارے بچے نشوونماپاکرایک پاکیزہ اورتوحیدکے رنگ میں رنگاہوامعاشرہ پیش کریںگے،جن کی معاشرت میں توحیدکی پوری جھلک اورنبوت ورسالت کے خورشیدکی تابناک کرنیںہرگھرکی فضاؤںکوعطربیزاورمنورکرنے کے لیے کافی ہوںگی۔

                یہی بچے اپنی معاشرت کی خوبیوںکے تقاضے سے جب معاملات کی دہلیزپرقدم رکھیںگے،تواُن کاہرمعاملہ آپسی تنازعات سے کوسوںدور،خیانت کی آلائشوںسے پاک،دھوکہ دِہی کی عفونت سے صاف،شک وشبہات کی گندگی سے طاہرہوگا،ناپ تول میںکمی سے گریز،اعتدال ومیانہ روی سے بہرہ مندی،زن وشوکے تعلقات میںحقوق کی ادائیگی،والدین کے حقوق کوپہچاننا،پڑوس کے حق کی ادائیگی،غرض تدبیرِ منزل اورسیاستِ مدنیہ کی ہرشاخ میں شرعی احکام کی بجاآوری ہی اُن کامطمحِ نظراوراُن کی زندگی کانصبُ العین ہوگا۔

                اسی طرح زندگی کے ہر میدان میں اس کتاب الٰہی کے برکات کی بارش برستی رہے گی اور میدان عمل میں سرسبزی وشادابی سے نیکی کی کھیتیاں لہلہانے لگیںگی اور گلستان عمل میں گوناگوں خوشبو دار پھولوں سے فضائے ایمانی عطر بیز ہوکر اقوام عالم کو بوستان ہدایت کی گلریزی سے متاثر کیے بغیر نہ رہے گی ۔ مختلف النوع تہذیب کے علم بردار اپنی اصل حقیقت سے واقف ہوکر آخرت کی نعمتوں کو یاد کرنے پر مجبور ہوںگے اور انہیں خدا کی رضا جوئی کا ایسا نشہ چڑھے گا جیسا ساحران موسیٰ پر چڑھا تھا کہ یک لخت ہم آواز ہوکر سبھی بول پڑے {فا قض ما انت قاض انما تقضی ہذہ الحیوۃ الدنیا والآخرۃ خیر وابقیٰ }

؎ برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی

ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

تو اسے پیمانۂ امروز وفردا سے نہ ناپ

جاوداں ، پیہم دواں ، ہردم جواں ہے زندگی

                اس کتاب مقدس کی ضیابارکرنوں سے ایک تاجر کو گوناگوں مسائل تجارت کی اندھیریوں میں روشنی ملتی ہے ، کاشت کار کو اس کی زراعت میں یہی کتاب ہدایت رہ نمائی کرتی ہے ، سیاست کی گلیاروں میں ظلم و ستم کے موقعوں پر عدل وانصاف کا سبق یہی کتاب پڑھاتی ہے اور انصاف کا مقام یہاں تک بناتی ہے کہ  {لایجرمنکم شنان قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقویٰ }

                یہی وہ کتاب ہے جس سے ہر ماننے والے کو دنیا پر آخرت کو ، مال پر ثواب کو ، حرص و آز پر فقر کواور محبت دنیا پر محبت دین کو ترجیح دینے کا سبق ملتا ہے ۔اسی کتاب مقدس میں یہ نغمہ گایا جاتا ہے کہ {ولولا ان یکون الناس امۃ واحدۃ لجعلنا لمن یکفر بالرحمن لبیوتہم سقفا من فضۃ ومعارج علیہا یظہرون ، ولبیوتہم وابوابا وسررا علیہا یتکؤن وزخرفا وان کل ذلک لما متاع الحیوۃ الدنیا }(پ: ۲۵ سورہ زخرف )

                اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو بالعموم اور مسلمانان عالم کو بالخصوص یہ تعلیم دیتے ہیں کہ ظاہری حرص و آز کا بندہ اور اس کے ساتھ رہنے والے ظاہر داری پر فیصلہ کرنے کے عادی ہیں۔ اس لیے حقیقت پسندان عالم بھی افسانوی زندگی سے متاثر کرسکتے ہیں ، اس لیے ہم نے دنیا کی رنگ رلیوں میں کافر کو مست ومخمور تو کیا لیکن اس سے زیادہ بھی کردیتے ، چوں کہ یہ خدشہ تھا کہ اہل ایمان دنیا پر فریفتہ نہ ہونے ـلگیں ، ورنہ کافر و مشرک کو دنیا سے اور نوازتے ، ان کے مکانات کی چھت درو دیوار ، دروازے کھڑکیاں ، ان کے پلنگ بستر سب کو سونے چاندی کا بنادیتے اس لیے کہ ان کی یہ ساری چیزیں دنیا میں خدا کی نظر میں مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتیں ۔

                اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ لوکانت الدنیا تعدل جناح بعوضۃ ما سقی منہ کافرا شربۃ ماء ‘‘ اگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت رکھتی تو اللہ تعالیٰ کافر کو ایک قطرہ پانی بھی پینے کو نہ دیتے ۔

                قرآن کریم کا مقصود اصلی اصلاح معاد ہے ۔ اس اساسی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کریم سے استفادے کی کلیدی طور پر دو شکلیں ہیں: (۱) لفظی (۲) معنوی

                 لفظی شکل استفادے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے ۔ اس کی صحت و تجوید اور تحسین وتصحیحِ حروف اور مخارج کا خیال رکھا جائے پھر اس سے آگے پڑھ کر نونہالانِ امت کے لیے تصحیح الفاظِ قرآنی اور تجوید وصحتِ حروف کے لیے پورے ہندوستان ہی میں کیا؛ عالم کے چپے چپے میں مکاتبِ قرآن کا ایسا جال بچھا دیا جائے کہ ہر گلی کوچے سے وحیٔ ربانی کے آسمانی الفاظ کی حلاوت وچاشنی سے ہر انسانی ذہن مخمور ومسحور ہوجائے اور یہ مستی وسحر آفرینی اتنی بڑھے کہ   ؎

قناعت نہ کر عالم رنگ وبو پر

چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں

اگر کھوگیا اک نشیمن تو کیا غم

مقامات آہ وفغاں اور بھی ہیں

اسی روزو شب میں الجھ کر نہ رہ جا

کہ تیرے زماں اور مکاں اور بھی ہیں

                اسلامی مکاتب کے قیام سے اسلام کا بچہ بچہ وحی ربانی کے ترنم سے آشنا ہوکر آبادی کی فضا کو نغمہ سنجی کی خوش بو سے معطر کردے گا، دنیا کی رنگ رلیوں کی وجہ سے شب وروز میں الجھ کر نہ رہ جانے میں ہی عافیت ہے ، چمنستانِ عالم سے آگے بڑھ کر بوستانِ فردوس کی سرمدی خوش بوؤں سے مشام جاں کو معطر کرنا قرآن کریم سے استفادے کا عظیم الشان پہلو ہے ۔

                ماضی کے جھروکے سے دیکھیں تو الفاظِ قرآنی سے اصولِ فقہ کے ماہرین نے کروڑوں کی تعداد میں فقہی مسائل کا استنباط فرماکر امت کے جیالوں کے لیے روحانی بھوک کے موقع پرروحانی غذا فراہم کردی ۔ الفاظ کے خاص وعام ،مشترک ومؤول ، حقیقت و مجاز، صریح وکنایہ ، ظاہر نص ،مفسر ،محکم، خفی، مجمل، متشابہ ، عبارت النص ، اشارۃ النص ، دلالۃ النص اور اقتضاء النص کی قرآنی حد بندیوں کو شرعی و ایمانی حصار میں رہ کر وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ اب امت کو تحریفِ لفظی ومعنوی سے محفوظ رہنے کا ایک نسخہ شفا فراہم کردیا ۔ قرآن کریم کے لفظی استفادے سے یہ اتنہائی عظیم الشان کام انجام پذیر ہوا ۔   ؎

توشاہیں ہے ، پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

                ایک بار پھر ماضی کی یادوں میں اُن مفسرینِ عظام کو تلاش کریں ،جنہوں نے قرآن کے الفاظ کے مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کے لیے قرآنی اصول وضوابط منضبط فرمائے ۔جن سے استفادہ کرکے اللہ تعالیٰ کے احکام تک پوری صحت وضمانت کے لیے قولی وعملی رسائی ممکن ہوسکی ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے الفاظِ قرآنی اور آیاتِ ربانی سے استفادہ فرماکر نصوصِ الٰہی کو پانچ درجہ بندیوں کے ساتھ مخصوص اصطلاحی رنگ دے کر بیان فرمایا ہے، جن سے استفادہ کرکے فقیہ احکام الٰہی کو ، متکلم صفات خداوندی کو اور واعظ وخطیب واقعات وحالات کے پس منظر میں پوری امت کو پورے قرآن سے، اصلاح معاد کے حوالے سے بیدار کرسکتا ہے ۔ اور یہ غفلت سے بیداری کا سفر تاحین حیات چلتا رہے گا    ؎

عشق تری انتہا ، عشق مری انتہا

تو بھی ابھی ناتمام ، میں بھی ابھی ناتمام

                معنوی شکل قرآن کریم سے استفادے کی یہ ہے کہ اللہ کے احکام کو پوری طرح عملی جامہ پہنانے کی کم از کم سب سے پہلے نیت کرلی جائے۔کیوں کہ’’ نیۃ المومن خیر من عملہ‘‘   اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سراپا ارشاد بخاری شریف میں موجود ہے کہ مومن کی نیت ہی اُس کے عمل سے بڑھ جاتی ہے کہ ابھی عمل کا موقع بھی نہیں آیا اور مومن نے کسی حکم پر عمل کرنے کی پختہ اور مستحکم نیت کرلی ہے تو اُسے ایک اجر کی سوغات اور ایک نیکی کے ارمغان سے نوازا جائے گا ۔ اگر قرآن کریم کے اِس معنوی استفادے سے بندۂ مومن استفادہ کرنے لگے اور بیک جنبشِ چشم وابرو لاکھوں کروڑوںخداوندی حکموں پر عمل پیرا ہونے کی نیت کرـلے تو عمل کا موقع بعد میں آئے گا ، اسے ابھی فوراً ہی اپنے نامہ اعمال میں سیکڑوں ہزاروں نیکیاں اوراجر و ثواب کا تمغہ درج کیا ہوا ملے گا۔ اس سے بڑی معنوی استفادۂ قرآنی کی شکل آخر اور کیا ہوسکتی ہے ؟ اِس لیے گلستانِ قرآن کے لفظی و معنوی پھولوں کی خوش بوکو یاد کر کے ان سے عطر بیز ہونا چاہیے ورنہ وقت گزرنے کے بعد یہ ہوگا کہ   ؎

نشاط دل خیاباں در خیاباں یاد آئے گا

بہاریں یاد آئیںگی ، گلستاں یاد آئے گا

عطائے بیکراں اُن کی یہ اپنی تنگ دامانی

بقدر ظرف میخانے کا احساں یاد آئے گا

                قرآن کریم کے معنوی استفادے کی شکل یہ بھی ہے کہ گلدستۂ احادیث سے استفادے کی سعی پیہم کی جائے۔ اس لیے کہ سارے پوشیدہ معانی قرآن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقوال وافعال اور تقریرات سے واضح فرمادیا ہے ۔ صرف احادیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعداد متون کو مدنظر رکھتے ہوئے چالیس ہزار بتلائی گئی ہے ، پھر احادیث کی مختلف اقسام محدثینِ عظام نے فرماکر مختلف النوع کتابیں بھی تحریر فرمائی ہیں ۔ احادیث غیر متواتر ، احادیث صحاح ، مرفوع احادیث ، مسانید، مشہور ، احادیث اور اخبار و آثار پر الگ الگ نوعیت سے کتابیں فراہم ہیں ،جو معانی قرآن سے استفادے کی بہترین شکلیں ہیں ۔ جوا مع، مؤطات، مسانید ، مصنفات ، اجزاء اور اطرافِ حدیث سے استفادہ سہل بنانے کے لیے احادیث کے ذخائر کو اپنا موضوعِ زیست بناکر ، زندگی  کے خطوط درست کرتے ہوئے اپنے شب و روز گزارنے پـڑیںگے ورنہ وقت گزرنے کے بعد کف افسوس ملنا پڑے گا۔   ؎

موسم اچھا ، پانی وافر ، مٹی بھی زرخیز

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا ، وہ کیسا دہقاں؟                 اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم کی مختلف اور گوناگوں شکلوں سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین یارب العالمین