قرآنِ کریم کے بنیادی حقوق اور ہماری ذمہ داری

مفتی عبد الغفور اشاعتی گوگانوی/استاذ جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا

                آج دنیا میں حقوق کی جنگیں لڑی جارہی ہیں، کہیں خواتین کے حقوق کی بات ہورہی ہے اور کہیں جانوروں کے حقوق کی، لیکن آج کے مسلمان کو یہ نہیں معلوم کہ اس پر قرآن مجید کے کتنے حقوق ہیں۔ جاننا چاہیے کہ ہر مسلمان پر قرآن مجید کے پانچ حقوق ہیں، جس کا ادا کرنا ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے۔ اگر قرآن کریم کے حقوق ادا نہ کیے گئے تو یہ سنگین جرم ہوگا۔

قرآن مجید کے بنیادی پانچ حقوق

                (1) قرآن کریم پر ایمان لانا۔

                (2) قرآن پاک کی تلاوت کرنا۔

                (3) قرآن پاک کے معانی و مفاہیم کو سمجھنا۔

                (4) قرآن مجید پر عمل کرنا۔

                (5) قرآن پاک کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا۔

پہلا حق – قرآن کریم پر ایمان لانا :

                قرآن مجید کا پہلا حق یہ ھے کہ اس پر دل و زبان سے ایمان لایا جائے، کہ یہ اللہ تعالی کی آسمانی کتاب ہے، انبیاء علیہم السلام میں سے سب سے آخری نبی، محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا ہے، اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ قرآن کریم کے متعلق یہ عقیدہ اور ایمان تقریباً ہر مسلمان کے دل میں موجود ھونا ضروری ہے۔

                 ایمان کے دو پہلو ہیں۔ ایک ”اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ“ اور دوسرے ”تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ“ اقرارِ لسانی دائرہٴ اسلام میں داخلے کی شرطِ لازم ہے اور تصدیق قلبی حقیقی ایمان کا لازمہ ہے یعنی قرآن مجید پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے اس کا اقرار کیا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،جو آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوا۔ اس اقرار سے انسان دائرہٴ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے،لیکن حقیقی ایمان اسے اُس وقت نصیب ہوتا ہے جب ان تمام امور پر پختہ یقین اس کے قلب میں پیدا ہو جائے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب یہ صورت پیدا ہو جائے گی تو خودبخود قرآن کی عظمت کا نقش قلب پر قائم ہو جائے گا اور جوں جوں قرآن پر ایمان بڑھتا جائے گا اس کی تعظیم و احترام میں بھی اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ گویا ایمان و تعظیم لازم و ملزوم ہیں۔

                خلاصہٴ کلام یہ کہ قرآن مجید کے جو حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں، ان کی ادائیگی کی اوّلین شرط یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمارے دلوں میں یہ یقین پیدا ہو کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور ہماری ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے۔

                اس یقین کے پیدا ہوتے ہی قرآن کے ساتھ ہمارے تعلق میں ایک انقلاب آجائے گا۔ یہ احساس کہ یہ ہمارے اس خالق و مالک کا کلام ہے، جس کی ذات تبارک و تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے اور جس کا کسی ادنیٰ ترین درجے میں بھی کوئی تصور ہمارے بس میں نہیں، پھر ہمیں محسوس ہو گا کہ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے قرآن پاک سے بڑی کوئی دولت اور اس سے عظیم تر کوئی نعمت موجود نہیں۔

                پھر اس کی تلاوت ہماری روح کی غذا اور اس پر غور و فکر ہمارے قلوب و اذہان کے لیے روشنی بن جائیں گے اور یقینا یہ کیفیت پیدا ہو جائے گی کہ اس کی تلاوت سے ہم کبھی سیرنہ ہو سکیں گے اور اپنی بہترین ذہنی و فکری صلاحیتوں اور اپنی پوری عمر ، اس پر تدبر و تفکر میں کھپا کر بھی ہم کمی ہی محسوس کریں گے۔

تیسرا حق – قرآنِ کریم کو سمجھنا :

                قرآنِ کریم کا تیسرا حق جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد فرمایا ہے یہ ہے کہ ہم اس کتاب کوسمجھیں اور اس سے ہدایت حاصل کریں،اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ہمارے لئے چشمہٴ ہدایت بنایا ہے،اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:﴿ ہُدًی لِلْمُتَّقِینَ ﴾ (البقرہ: ۲)

                ”یہ کتاب متقی لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔“

                جب اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو ہمارے لئے ہدایت بنایا ہے، تو اس کو جزدان میں بند کر کے رکھنا اور اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرنا بھی اس کی حق تلفی ہے۔ اگر کسی کو اس کا محبوب کسی ایسی زبان میں خط لکھے، جس کو وہ سمجھتا نہ ہو تو اس کو اس وقت چین نہیں آئے گا؛ جب تک اس زبان کے سمجھنے والے کے پاس جا کر اس خط کو پڑھوا نہ لے اور یہ پتہ نہ کر لے کہ اس میں کیا لکھا ہے،کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنے محبوب کے خط کو طاق میں سجاکر رکھ د ے اور اس کو کھول کر بھی نہ دیکھے کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ لیکن آج مسلمانوں نے قرآن کریم کو طاق میں سجا کر رکھا ہوا ہے،اس کی تلاوت ہی نہیں کی جاتی، اگر کسی کو تلاوت کی توفیق ہو بھی جائے تو اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا،ہر مسلمان اللہ تعالیٰ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورقرآن پر تو ایمان رکھتا ہے؛ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا،کس قدر غفلت کی بات ہے! یہ بات بھی نہیں کہ اس کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہو۔ الحمد للہ اس دور میں تقریباً ہر زبان میں ہی قرآن ِکریم کے تراجم اور تفاسیر علما کی جانب سے لکھے جا چکے ہیں،اس لیے ہر مسلمان کوشش کرے کہ اپنے پاس کوئی مستند ترجمہ یا تفسیر رکھے اور اس کو پڑھ کر قرآن ِکریم کوسمجھنے کی کوشش کرے؛چوں کہ آج کل بہت سے گمراہ لوگوں نے بھی تراجم وتفاسیر لکھ دی ہیں؛ اس لئے کسی مستند عالم دین سے مشورہ کر کے کوئی ترجمہ یا تفسیر خریدنی چاہئے اور ان ہی کی نگرانی میں اس کو پڑھنے کا معمول بنانا چاہئے۔

                کلام الہٰی میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے؟ اس میں ہمارے لیے کیا کیا خوشخبریاں ہیں؟ یہ کتاب اللہ تعالی کی طرف سے ہمارے لیے ایک پیغام ہے، پیغام جب کسی کے پاس آجائے تو وہ اس کو غور سے مطالعہ کرتا ہے، اگر خود کوئی لفظ سمجھنے میں مشکل ہو تو کسی اور کے پاس جاتا ہے کہ اس کا کیا معنیٰ ہے، لیکن سمجھنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔

                فہم قرآن کا دوسرا مرتبہ ”تدبر قرآن“ کا ہے۔ یعنی یہ کہ قرآن کو گہرے غور و فکر کا موضوع بنایا جائے اور اس کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کی کوشش کی جائے۔ اس لیے کہ قرآن ”ہُدًی لِّلنَّاسِ“ ہے اور جس طرح عوام کو کائنات اور اپنی ذات کے بارے میں صحیح نقطہ نظر اور زندگی بسر کرنے کی واضح ہدایات عطا فرماتا ہے ؛اسی طرح خواص اور اصحاب ِ علم و فکر کے لیے بھی کامل ہدایت اور مکمل رہنمائی ہے اور ان کے ذہنی و فکری سفر کے ہر مرحلے اور ہر موڑ پر ان کی دستگیری فرماتا ہے۔

چنانچہ قرآن نے خود واضح فرمایا ہے کہ:

                ﴿کِتٰبٌ اَنزَلنٰہُ اِلَیکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوا اٰیٰتِہ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الاَلبَابِ﴾(ص)

                ”(یہ قرآن) ایک کتابِ مبارک ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی تاکہ لوگ اس کی آیات پر تدبر کریں اور سمجھ دارلوگ نصیحت حاصل کریں۔“

                اور عدم تدبر کے متعلق قرآن کہتا ہے :

                ﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ القُراٰنَ اَم عَلٰی قُلُوبٍ اَقفَالُہَا﴾ (محمد)

                کیا یہ تدبر نہیں کرتے قرآن پر؟ یا دلوں پر لگے ہوئے ہیں ان کے قفل؟“

                 صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں اس امر کی تصریح ملتی ہے کہ وہ ایک ایک سورت پر تدبر و تفکر میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے؛ حتیٰ کہ ان ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں جن کو آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہفتے میں ایک بار ضرور قرآن مجید ختم کر لینے کی تاکید کی تھی،یہ تصریح ملتی ہے کہ انہوں نے صرف سورة البقرة پر تدبر میں آٹھ سال صرف کیے۔ ذرا غور فرمائیں کہ یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کی اپنی زبان میں اور اپنی آنکھوں کے سامنے قرآن نازل ہوا تھا۔ چنانچہ نہ تو انہیں عربی زبان اور اس کے قواعد کی تحصیل کی کوئی ضرورت تھی نہ شانِ نزول اور سُور و آیات کے تاریخی پس منظر کو جاننے کے لیے کھود کرید کی کوئی حاجت۔ اس کے باوجود ایک ایک سورت پر ان کا سالہا سال غور و فکر کرنا یہ بتلاتا ہے کہ قرآن حکیم کے علم و حکمت کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کوئی آسان کام نہیں؛ بلکہ اس کے لیے سخت محنت اور شدید ریاضت کی ضرورت ہے۔

چوتھا حق – قرآنِ کریم پر عمل کرنا :

                چوتھا حق قرآن مجید کا یہ ہے کہ اس میں جو ہدایات اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں ،ان کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے،ہر مسلمان کے ذمہ لازم ہے کہ قرآن مجید کے اس حق کو پوری طرح ادا کرنے کی کوشش کرے،کیوں کہ سیکھنے کے بعد عمل ہی کا مرحلہ ہے۔ اس کو عملی زندگی میں لانا چاہیے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی۔ قرآن کریم مکمّل ضابطہ ٴحیات ہے، اس نے زندگی کی ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ علم علم نہیں جس پر عمل نہ ہو، عمل کا یہ حکم نبی علیہ السلام کو بھی دیا گیا، جن کی مبارک زندگی ہمارے لیے نمونہ اور ماڈل ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

                ﴿اِتَّبِع مَا اُوحِیَ اِلَیکَ مِن رَّبِّکَ ﴾

                کہ آپ اس وحی کی پیروی فرمائیں، جو آپ کے رب کی طرف سے (نازل) ہوئی۔

                یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:”کَانَ خُلُقُہ الْقُرْآنَ“کہ سارا قرآن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق ہیں۔ بہرحال قرآن کریم تب ذریعہ نجات بنے گا جب اس پر عمل ہو۔ سو قرآن مجید کا چوتھا حق ہر مسلمان پر یہی ہے کہ وہ اس پر عمل کرے۔

                 اور ظاہر ہے کہ ماننا، پڑھنا اور سمجھنا، سب اصل میں عمل ہی کے لیے مطلوب ہیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید نہ تو کوئی جادو یا جنتر منتر کی کتاب ہے، جس کا پڑھ لینا ہی کافی ہو، نہ یہ محض حصولِ برکت کے لیے نازل ہوا ہے کہ بس اس کی تلاوت سے ثواب حاصل کر لیا جائے یا اس کے ذریعے جان کنی کی تکلیف کو کم کر لیا جائے۔ اور نہ ہی یہ محض تحقیق و تدقیق کا موضوع ہے کہ اسے صرف ریاضت ِذہنی کا تخت ِمشق اور نکتہ آفرینیوں اور خیال آرائیوں کی جولا ن گاہ بنا لیا جائے، بل کہ جیسا کہ اس سے پہلے عرض کیا جا چکا ہے، یہ ﴿ھُدًی لِّلنَّاسِ﴾ یعنی انسانوں کے لیے رہنمائی ہے‘اور اس کا مقصد نزول صرف اس طرح پورا ہو سکتا ہے کہ لوگ اسے واقعتا اپنی زندگیوں کا لائحہ عمل بنا لیں۔ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن حکیم اور اُس ذاتِ اقدس نے جس پر یہ نازل ہوا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو بالکل واضح فرما دیا ہے کہ قرآن پر عمل نہ کیا جائے توخود ایمان ہی معتبر نہیں رہتا۔ چنانچہ قرآن مجید نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ:

                ﴿ وَ مَن لَّم یَحکُم بِمَا اَنزَلَ اللّہُ فَاُولئِکَ ہمُ الکافِرُونَ ﴾ (المائدة)

                اور جو فیصلہ نہ کرے اس کے مطابق کہ جو اللہ نے نازل فرما یا تو ایسے ہی لوگ تو کافر ہیں۔“

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید وضاحت فرما دی کہ:

                ”لا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہ “۔

(رواہ البغوی فی شرح السنة)

                ”تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا؛ جب تک اس کی خواہش نفس اس (ہدایت) کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لایا ہوں۔“

                ” مَا اٰمَنَ بِالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہ “۔

(رواہ الترمذی)

                جو شخص قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو حلال ٹھہرائے وہ قرآن پر ایمان نہیں رکھتا۔“

                قرآن مجید پر عمل درحقیقت اسی وقت ہو سکتا ہے جب انسان کی فکر قرآن کے تابع ہو جائے اور قرآن کا بیان کردہ علم حقیقت انسان کے دل اور دماغ دونوں میں جاگزیں ہو جائے۔ اب یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کتابِ الٰہی کے اس حق کی ادائیگی کے لیے کیا عملی تدبیر اختیار کی جائے؟ تو اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ایک فرد میں اسلام کی مطلوبہ تبدیلی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کو اس کے دل و دماغ میں اتارا جائے۔

پانچواں حق- قرآن مجید کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچانا:

                قرآن مجید کا پانچواں حق یہ ہے کہ اس کی تعلیمات کو دوسروں تک پہنچایا جائے۔ یہ فریضہ سب سے پہلے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عائد کیا گیا تھا کہ آپ یہ قرآن دوسروں تک پہنچائیں۔

                ﴿یَآ اَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ (67)﴾

                اے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! جو تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اترا ہے اسے پہنچا دے اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو اس کی رسالت کا حق ادا نہیں کیا اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا، بے شک اللہ کافروں کی قوم کو راستہ نہیں دکھاتا۔

                یعنی آپ کی طرف جو وحی نازل کی گئی ہے اس کو دوسروں تک پہنچائیں، اس کی تبلیغ کریں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دن رات قرآن کی تبلیغ فرمائی ہے، اس کے خاطر تکلیفیں برداشت کیں، جنگیں لڑیں، بدر و اُحد کے معرکے پیش آئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مشن میں مصروف رہے، آج ہر امتی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ قرآن کی تبلیغ کرے، اس کی نشر واشاعت کرے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق قرآن سیکھنے سکھانے والے کا بہت بڑا مقام ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

                ”خیرکم من تعلم العلم وعلمہ“. (رواہ البخاری)

                 تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔

                یعنی ماننے‘ پڑھنے‘ سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ قرآن مجید کا ایک اور حق یعنی اسے دوسروں تک پہنچانا بھی ہر مسلمان پر حسبِ صلاحیت و استعداد عائد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ اسے دوسروں تک پہنچانے کی حتی المقدور کوشش کرے۔

                دوسروں تک پہنچانے کے لیے قرآن حکیم کی اصل اور جامع اصطلاح ”تبلیغ“ ہے‘ لیکن تبلیغ کے پہلو بھی بہت سے ہیں اور مدارج و مراتب بھی۔ حتیٰ کہ تعلیم بھی تبلیغ ہی کا ایک شعبہ اور تبیین بھی اسی کا ایک بلند تر درجہ ہے۔

                قرآن حکیم خود اپنے مقصد نزول کی تعبیر اِن الفاظ میں کرتا ہے:

                ﴿ہٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنذَرُوا بِہ ﴾(ابراہیم)

                ”یہ (قرآن) پہنچا دینا ہے لوگوں کے لیے اور تاکہ وہ اس کے ذریعے خبردار کر دیے جائیں۔“

                بعثت کی پہلی ساعت سے لے کر حیاتِ دُنیوی کی آخری گھڑی تک مسلسل۲۳/ سال آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے محنت و مشقت اٹھاتے اور شدائد و مصائب برداشت کرتے رہے اور اس عرصہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اگرچہ بہت سے مراحل سے گزری جن میں آپ ﷺکی مصروفیات بہت متنوع نظر آتی ہیں، لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پورے عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد کا اصل محور قرآن مجید ہی رہا اور اسی کی تلاوت و تبلیغ اور تعلیم و تبیین میں آپ مسلسل مصروف رہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں چار مقامات پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریق دعوت و تبلیغ اور نہجِ اصلاح و انقلاب کی وضاحت ان الفاظ میں ہوئی ہے کہ

                ﴿ یَتلُوا عَلَیہِم اٰیٰتِہ وَ یُزَکِّیہم وَ یُعَلِّمُہمُ الکِتبَ وَ الحِکمَةَ ﴾(آل عمران – الجمعة )

                ”وہ (آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تلاوت کرتے ہیں ان پر اس (خدا) کی آیات اور تزکیہ کرتے ہیں ان کا‘ اور تعلیم دیتے ہیں ان کو کتاب اور حکمت کی۔“

                 بہرحال اس طریق پر مسلسل تئیس برس محنت کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن مجید کی تبلیغ کا حق ادا فرما دیا اور اللہ کی امانت اس کے بندوں تک پہنچا دی۔ ادائے امانت الٰہی کی اس جدوجہد کے دوران بھی آپ نے اپنے جاں نثاروں سے اپنے اس فرضِ منصبی کی ادائیگی میں اس تاکیدی حکم کے ذریعے تعاون حاصل فرمایا کہ:

                ”بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَةً“. (رواہ البخاری)

                پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت ہو۔

                اور اپنے مشن کی تکمیل پر مستقبل کے لیے فریضہ تبلیغِ قرآن کی پوری ذمہ داری اپنی اُمت کے حوالے فرما دی۔ چنانچہ حجة الوداع کے خطبے میں سوا لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعدد بار یہ شہادت لے کر کہ میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا ہے آئندہ کے لیے یہ مستقل ہدایت جاری فرما دی کہ:

                ” فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ“. (رواہ مسلم)

                یعنی اب جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کا فرض ہے کہ ان تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں۔

                اور اس طرح قیامت تک کے لیے فریضہٴ تبلیغ قرآن کی ذمہ داری اُمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاندھوں پر آ گئی جس کے لیے بحیثیت مجموعی وہ خدا کے ہاں مسئول ہوگی۔ اب ظاہر ہے کہ اُمت افراد ہی پر مشتمل ہے؛ لہذا اس اُمت کا ہر فرد اپنی اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے۔ علما اور فضلا پر ذمہ داری ان کے علم و استعداد کی نسبت سے عائد ہوتی ہے اور عوام پر ان کی صلاحیت کی نسبت سے۔ بہرکیف آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک الفاظ کے عموم سے کہ ((بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ ایَةً)) ثابت ہوتا ہے کہ اس ذمہ داری سے بالکل بَری کوئی بھی نہیں۔ جسے ناظرہ پڑھنا آتا ہے وہ دوسروں کو ناظرہ پڑھنا سکھا دے‘ جسے حفظ ہے وہ دوسروں کو یاد کرائے‘ جسے ترجمہ آتا ہے وہ دوسروں کو ترجمہ پڑھائے اور جسے اس کا کچھ علم و فہم حاصل ہے وہ اسے دوسروں تک پہنچائے؛ حتیٰ کہ اگر کسی کو ایک آیت ہی یاد ہو اور وہ اسے ہی دوسروں کو یاد کرادے یا قرآن کی کسی ایک آیت یا سورت کا مفہوم معلوم ہو اور وہ صرف اسی کا علم دوسروں تک منتقل کر دے تو یہ بھی ”تبلیغ قرآن“ میں شامل ہے۔ اگرچہ اس مقدس اور عظیم الشان فرض کی ادائیگی کی جو ذمہ داری اُمت ِمسلمہ پر بحیثیت ِمجموعی عائد ہوتی ہے وہ صرف اس وقت پوری ہو سکتی ہے، جب قرآن کا متن اور اس کا مفہوم اطراف و اکنافِ عالم تک پہنچا دیا جائے!

                بحالاتِ موجودہ یہ ایک بہت دُور کی بات اور سہانا خواب معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ واقعی صورت حال یہ ہے کہ وہ اُمت جسے قرآن کو اقوام و اُممِ عالم تک پہنچانے کی ذمہ دار دی گئی تھی آج اس کی محتاج ہے کہ خود اسے قرآن ”پہنچایا“ جائے۔ لہٰذا اس وقت اصل ضرورت اس کی ہے کہ خود اُمت مسلمہ میں تعلیم و تعلّم قرآن کی ایک رَو چل نکلے اور مسلمان درجہ بدرجہ قرآن سیکھنے اور سکھانے میں لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

                جیسا کہ عرض کیا گیا کہ تبلیغ ہی کا ایک شعبہ تعلیم بھی ہے اور اسی کا ایک اعلیٰ درجہ وہ ہے جسے قرآن حکیم ”تبیین“ کا نام دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ قرآن مجید کو صرف ”پہنچا“ ہی نہ دیا جائے بلکہ اس کی پوری وضاحت کی جائے اور قرآن کا نورِہدایت لوگوں کی نگاہوں کے عین سامنے روشن کر دیا جائے؛ جیسا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خطاب کرکے فرمایا گیا کہ:

                ﴿وَ اَنزَلنَا اِلَیْکَ الذِّکرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیہِم﴾ (النحل)

                اور اتاری ہم نے تجھ پر یہ ”یاددہانی“ تاکہ تو واضح کر دے لوگوں کے سامنے جو کچھ اترا ہے ان کے لیے۔

                یہ قرآن مجید کے وہ حقوق ہیں جو ہم سب پر بحیثیت مسلمان عائد ہوتے ہیں اور جن کی ادائیگی کی فکر ہمیں کرنی چاہیے۔ ہم وہ خوش قسمت قوم ہیں جس کے پاس اللہ کا کلامِ پاک من و عن محفوظ اور موجود ہے۔ یہ بات جہاں بڑے اعزاز کا باعث ہے وہیں ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں سورة الفرقان کی وہ آیت ِکریمہ جو ماقبل میں ذکر کی گئی اس پر بھی خوب غور وفکر کرنا چاہیے، جس میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ:﴿وَ قَالَ الرَّسُولُ یٰرَبِّ اِنَّ قَومِی اتَّخَذُوا ہٰذَا القُراٰنَ مَہجُورًا ﴾(فرقان)

                ”اور رسول ﷺکہیں گے کہ اے میرے ربّ! میری قوم نے اس قرآن کو نظرانداز کردیا تھا۔“

                اگرچہ آیت ِمبارکہ میں اصلاً تذکرہ ان کفار کا ہے، جن کے نزدیک قرآن سرے سے کوئی قابلِ التفات چیزہے ہی نہیں ،لیکن قرآن کے وہ ماننے والے یقینا اس کے ذیل میں آتے ہیں، جوعملاً قرآن کے ساتھ عدم توجہ و التفات کی روش اختیار کریں۔ (جیسا کہ ماقبل میں مفتی تقی عثمانی مدظلہم العالی کے حوالے سے ذکر کیا گیا) چنانچہ حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

                ”آیت میں اگرچہ ذکر صرف کافروں کا ہے، تاہم قرآن کی تصدیق نہ کرنا،اس میں تدبر نہ کرنا، اس پر عمل نہ کرنا، اس کی تلاوت نہ کرنا، اس کی تصحیح قرا ء ت کی طرف توجہ نہ کرنا اس سے اعراض کر کے دوسری لغویات یا حقیر چیزوں کی طرف متوجہ ہونا،یہ سب صورتیں درجہ بدرجہ ہجرانِ قرآن کے تحت میں داخل ہو سکتی ہیں۔“

                 ہمیں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے؛ تاکہ ہمیں قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کی توفیق بارگاہِ ربّ العزت سے حاصل ہو جائے:

                اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنَا بِالْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَاجْعَلْہُ لَنَا اِمَامًا وَّنُوْرًا وَھُدًی وَّرَحْمَةً‘ اَللّٰھُمَّ ذَکِّرْنَا مِنْہُ مَا نَسِیْنَا وَعَلِّمْنَا مِنْہُ مَا جَھِلْنَا وَارْزُقْنَا تِلَاوَتَہ آنَاءَ اللَّیْلِ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ وَاجْعَلْہُ لَنَا حُجَّةً یَّا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ (آمین)

                ”پروردگار!ہم پرقرآن عظیم کی بدولت رحم فرما اور اسے ہمارے لیے پیشوا، نور اور ہدایت و رحمت بنا دے۔ پروردگار! اس میں سے جو کچھ ہم بھولے ہوئے ہیں وہ ہمیں یاد کرا دے اور جو ہم نہیں جانتے ہمیں سکھا دے۔اور ہمیں توفیق عطا فرما کہ اس کی تلاوت کریں راتوں کو بھی اور دن کے حصوں میں بھی اور بنا دے اسے دلیل ہمارے حق میں اے تمام جہانوں کے پروردگار!“

(آمین یا رب العالمین)