۲۶/ ویں قسط:
مفتی مجاہد اشاعتی پھلمبری/استاذ جامعہ اکل کوا
بعض لوگ قرآن ِکریم کو اپنے عقیدہ اورمذہب کے تابع بناتے ہیں :
ڈاکٹر یوسف القرضاوی اس بارے میں فرماتے ہیں: قرآنِ کریم کا موقف یہ ہے کہ اس کے موقف کو جاننے والا قرآن کریم کے موقف پر عمل کرتا ہے اور اس کی ہدایت سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اوروہ دیکھتاہے کہ ہر اصل، قرآن کریم کی طرف ہی لوٹتی ہے اور وہ اسی پر اعتماد کرتا ہے۔ جھگڑے کے وقت اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے؛لہٰذا قرآن کریم کو متبوع بنائے نہ کہ تابع،وہ اصل ہے نہ کہ فرع؛لہٰذا قرآنِ کریم کو کسی فقہی مذہب، کسی نظریہ، فلسفہ ،یا تصوف کے تابع بنانا نہ تو جائز ہے اور نہ ہی مناسب۔
من مانی تفسیر:
بعض لوگ جن کے پاس خداتعالیٰ کی کتاب کا علم نہیں ہوتا، وہ بعض آیات کے بارے میں بات کرتے ہیں، ان آیات سے جو چاہیں مطلب نکال لیتے ہیں اور جس طرح چاہیں تنقید کرتے ہیں، وہ اس بات کا بالکل خیال نہیں کرتے کہ سلفِ صالحین نے ان آیات کے کیامعنی ومطلب نکالے ہیں ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تفسیر قرآن کریم میں احتیاط:
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: کونسی زمین مجھے جائے پناہ دے گی اور کونساآسمان مجھ پر سایہ کرے گا، اگر میں کسی قرآنی آیت کے بارے میں علم ومعرفت کے بغیر اپنی رائے سے کوئی کلام کروں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک شخص کو تنبیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود کے قول کی روایات صحیحین اور مسند احمد اور ترمذی نسائی وغیرہ میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت مسروق نے روایت کیا ہے کہ ایک روز ہم کوفہ کی مسجد میں داخل ہوئے جو ابواب کندہ کے قریب ہے وہاں دیکھا کہ ایک واعظ لوگوں کو وعظ سنا رہا ہے اور اس آیت یعنی (آیت)﴿ یوم تاتی السمآء بدخان مبین﴾ کے متعلق اس نے مخاطبین سے سوال کیا کہ تم جانتے ہو کہ اس” دخان“ سے کیا مراد ہے؟ پھر فرمایا کہ یہ ایک” دھواں“ ہوگا جو قیامت کے روز نکلے گا، جو منافقین کے کانوں اور آنکھوں کو لے گا اور مومن کو اس سے صرف زکام کی سی کیفیت پیدا ہوگی۔
مسروق کہتے ہیں کہ واعظ کی یہ بات سن کر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود کے پاس گئے، ان سے اس کا ذکر کیا، وہ لیٹے ہوئے تھے گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ ہدایت فرمائی ہے کہ (آیت) ﴿قُلْ مَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ﴾ یعنی میں تم سے تمہاری خدمت تعلیم و تبلیغ کا کوئی معاوضہ نہیں مانگتا اور نہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بتکلف کوئی بات بنائیں، اس لیے علم کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی جس چیز کو نہیں جانتا صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا، اس کا علم اللہ ہی کو ہے (تکلف سے بات نہ بنا دے) پھر فرمایا کہ اب تمہیں اس آیت کی تفسیر کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ جب قریش نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوتِ اسلام کو قبول کرنے سے انکار اور اپنے کفر پر اصرار کیا، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لیے بددعا فرمائی کہ یا اللہ ان پر ایسا قحط ڈال دے جیسا کہ آپ نے یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ میں ڈالا تھا۔ اس بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ یہ لوگ شدید قحط میں مبتلا ہو گئے یہاں تک کہ ہڈیاں اور مردار جانور تک کھانے لگے۔ یہ لوگ آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے تھے تو دھوئیں کے سواکچھ نہیں آتا اور ایک روایت میں ہے کہ ان کا کوئی آدمی آسمان کی طرف نظر اٹھاتا تو بھوک کی شدت سے اس کو دھواں سا نظر آتا تھا۔
اس کے بعد عبداللہ ابن مسعود نے استدلال میں یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت)﴿ فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ﴾ جب واقعہ پیش آیا تو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ اپنے قبیلہ مضر کے لیے اللہ سے بارش کی دعا کریں، ورنہ وہ سب ہلاک ہو جاویں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا فرمائی تو اللہ نے بارش دے دی، اس پر آیت نازل ہوئی (آیت)﴿ اِنَّا کَاشِفُ الْعَذَابِ قَلِیْلاً اِنَّکُمْ عَائِدُوْنَ﴾ یعنی ہم تمہارے اس عذاب کو چند روز کے لیے ہٹائے لیتے ہیں (مگر جب تم مصیبت سے نکل جاؤ گے) تو پھر اپنے کفر کی طرف لوٹ جاؤ گے؛ چناں چہ ایسا ہی ہوا پھر وہ اپنے پچھلے حال کی طرف لوٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت)﴿ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرٰی اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ﴾ یعنی جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے اس دن سے ڈرو، پھر ابن مسعود نے فرمایا کہ یہ بطشہ ٴکبریٰ یعنی بڑی سخت پکڑ غزوہ بدر میں ہو چکی۔
تفسیر بالرائے کرنے پر سخت وعید:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری طرف سے کوئی بات اس وقت تک نہ بیان کرو جب تک کہ تم (اچھی طرح) جان نہ لو؛ کیوں کہ جس نے جان بوجھ کر جھوٹی بات میری طرف منسوب کی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے اور جس نے قرآن میں اپنی عقل و رائے سے کچھ کہا وہ بھی اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔(ترمذی شریف2951)(جاری…)