قرآنِ کریم سے مسلمانوں میں بیداری کیسے آئے؟

۲۵/ ویں قسط:

مفتی مجاہد اشاعتی پھلمبری/استاذ جامعہ اکل کوا

احکامِ قرآن کے مطابق فیصلہ نہ کرنا نفاق ہے:

            ابن جریر  نے شعبی  سے روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی اور ایک منافق میں جھگڑا ہوا، یہودی نے کہا آؤ تمہارے نبی سے فیصلہ کراتے ہیں، کیوں کہ وہ فیصلہ کرنے میں رشوت نہیں لیتے، مگر منافق اس پر راضی نہ ہوا اور دونوں میں اس پر جھگڑا ہوا کہ فیصلہ کس سے کرائیں، آخر کار قبیلہ جہینہ کے ایک کاہن سے فیصلہ کرانے پر دونوں رضا مند ہوئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

            ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطنُ اَنْ یُّضِلَّہمْ ضَللًا بَعِیْدًا.﴾

مسلمان کو قرآن کریم ہی کا فیصلہ ماننا چاہیے:

            ابن جریر نے سلیمان تیمی رحمة اللہ علیہ سے روایت کیا کہ حضرمی کی روایت ہے کہ: ایک آدمی یہود میں سے اسلام لا چکا تھا اور اس کے اور یہود کے آدمی کے درمیان جھگڑا تھا،حق کے بارے میں،یہود نے اس سے کہا اللہ کے نبی کے پاس چلو ، منافق جانتا تھا کہ وہ اس کے خلاف فیصلہ دیں گے تو اس نے انکار کردیا تو دونوں کاہن کے پاس گئے، اس کی طرف اپنا فیصلہ کرایا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ﴾ (الآیہ)۔

منافق کی حکمِ رسول سے روگردانی:

            تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ:(الثعلبی نے ابن عباس  سے روایت کیا کہ یہ آیت ﴿اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ﴾منافقین میں سے ایک آدمی کے بارے میں نازل ہوئی،جس کو بشر کہا جاتا تھا ایک یہودی سے اس کا جھگڑا تھا، یہودی نے اس کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا اور منافق نے اس کو کعب بن اشرف کی طرف بلایا، پھر وہ دونوں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اپنا فیصلہ لے گئے۔ آپ نے یہودی کے حق میں فیصلہ فرما دیا،منافق راضی نہیں ہوا۔ پھر اس نے کہا آجاؤ ہم عمر بن خطاب  کے پاس اپنا فیصلہ لے جاتے ہیں، یہودی نے عمر سے کہا، ہمارا فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کردیا ہے۔ تو یہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی نہیں ہوا۔ حضرت عمر  نے منافق سے پوچھا کیا ایسے ہی ہے؟ اس نے کہا ہاں! حضرت عمر نے فرمایا اپنی جگہ ٹھہرے رہو یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آتا ہوں۔حضرت عمر گھر میں گئے اور اپنی تلوار اٹھا کر لے آئے اور باہر آکر اس منافق کی گردن اڑا دی، پھر انہوں نے فرمایا: میں اسی طرح فیصلہ کرتا ہوں، اس آدمی کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہ ہو۔

            یہ اور اس جیسے دوسرے لوگ آج بھی مصلحت کے نام پر آیاتِ قرآنیہ کی باطل توجیہ کرتے ہیں، اگر ان کی منفعت ومصلحت، حکمِ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے، تو ہم ایسے لوگوں کواس پر عمل کرنے میں جلدی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں کہ وہ قرآن کی حدود میں رہنے والوں میں سے ہے۔ اور وہ دوسروں پر طعن و تشنیع کرنے لگتے ہیں اور اگر ان کی دل چسپی قرآن کے خلاف ہے، تو سب سے پہلی چیز جو ہم دیکھتے ہیں ،وہ یہ ہے کہ وہ اپنے مفاد کی خاطر اپنے دین کو قربان کر دیتے ہیں،دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اور مٹھی بھرمال کی خاطر۔ اور اگر یہ ذکر کیا جائے کہ یہ قرآنِ عظیم کے خلاف ہے تو وہ اپنے آپ کو درست ثابت کر رہے ہوتے ہیں کہ حالات کا یہی تقاضا ہے اور خداتو بخشنے والا،مہربان ہے!! نعوذباللہ من ذلک !

بعض لوگ احکامِ قرآن میں ہیرا پھیری کرتے ہیں:

            بعض لوگ احکامِ قرآن میں ہیرا پھیری کرتے ہیں، بل کہ قرآنِ کریم کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔

            قرآن کے احکام میں ہیرا پھیری اور کھلواڑ کی ایک مثال میں بیان کرتا ہوں؛ جیسا کہ محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتایا گیا، جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے، پھر کہنے لگے: کیا وہ کتاب اللہ سے کھیل رہا ہے، جب کہ میںآ پ لوگوں کے درمیان موجود ہوں؟ یہاں تک کہ ایک آدمی نے اٹھ کر کہا یا رسول اللہ! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ (سنن النسائی فی الطلاق)

            سنت یہ ہے کہ ایک ایک کرکے طلاق دی جائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ﴾ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ساتھ تین طلاق دینے کو کھلواڑ قرار دیا، تو ہماری زندگی کے دیگر تصرفات کا کیا ہوگا؟

بعض احکام ِقرآن پر عمل کرنا اور بعض کو چھوڑ دینا:

            قرآن کریم کے بعض احکام کو مان لینا اور دوسرے بعض احکام کو ترک کردینا یہ قرآن ِکریم پر تعدی اور زیادتی ہے۔اور ہماری زندگی میں ایسا ہو رہا ہے۔

            اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو لیے سخت وعید بیان فرمائی ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:

            ﴿اَفَتُؤمِنُونَ بِبَعضِ الکِتبِ وَ تَکفُرُونَ بِبَعضٍ فَمَا جَزَآءُ مَن یَّفعَلُ ذلِکَ مِنکُم اِلَّا خِزیٌ فِی الحَیوةِ الدُّنیَا وَ یَومَ القِیمَةِ یُرَدُّونَ اِلی اَشَدِّ العَذَابِ وَ مَا اللّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعمَلُونَ ﴾

ترجمہ:

            تو کیا تم کتاب (تورات) کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔             اللہ تعالیٰ اس آیتِ کریمہ میں یہودیوں کی نکیر فرمارہے ہیں۔ دراصل اوس اور خزرج انصار ِمدینہ کے دو قبیلے تھے، اسلام سے پہلے ان دونوں قبیلوں کی آپس میں کبھی بنتی نہ تھی، ہمیشہ آپس میں جنگ وجدال رہتا تھا۔ مدینے کے یہودیوں کے بھی تین قبیلے تھے:بنی قینقاع،بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ بنو قینقاع اور بنو نضیر تو خزرج کے طرف دار اور ان کے بھائی بند بنے ہوئے تھے، بنی قریظہ کا بھائی چارہ اوس کے ساتھ تھا۔ جب اوس و خزرج میں جنگ ٹھن جاتی تو یہودیوں کے یہ تینوں گروہ بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ان سے مل کر ان کے دشمن سے لڑتے، دونوں طرف کے یہودی یہودیوں کے ہاتھ مارے بھی جاتے اور موقعہ پا کر ایک دوسرے کے گھروں کو بھی اجاڑ ڈالتے، دیس نکالا بھی دے دیا کرتے تھے اور مال و دولت پر بھی قبضہ کرلیا کرتے تھے۔ جب لڑائی موقوف ہوتی تو مغلوب فریق کے قیدیوں کا فدیہ دے کر چھڑا لیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ہم میں سے جب کوئی قید ہوجائے تو ہم فدیہ دے کر چھڑا لیں، اس پر جناب باری تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ میرے اس ایک حکم کو تو تم نے مان لیا، لیکن میں نے کہا تھا کہ آپس میں کسی کو قتل نہ کرو، گھروں سے نہ نکالو، اسے کیوں نہیں مانتے؟ کسی حکم پر ایمان لانا اور کسی کے ساتھ کفر کرنا یہ کہاں کی ایمانداری ہے؟

(جاری…)