قرآنِ کریم سے مسلمانوں میں بیداری کیسے آئے؟

مفتی مجاہداشاعتی پھلمبری/استاذ جامعہ ہذا

قرآن کریم سے ہمارا تعلق اور اس پر عمل :

            حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے ”قراء “ سے مخاطب ہوکر فرمایا:

            اے قراء! ” تم نے قرأتِ قرآن کو منزلیں اور رات کو اونٹ مقرر کرلیا ہے، جس پر سوار ہوکر اپنی منزلیں طے کرتے ہو، جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ تم اس میں غور وفکر اور تدبر کرو۔ “

            امیر المومنین فی الحدیث شعبہ بن حجاج محدثین سے فرمایا کرتے تھے:

            ”اے میری قوم! تم حدیث میں جتنے آگے بڑھ رہے ہو، قرآنِ کریم کی تلاوت میں اتنے ہی پیچھے ہو۔“

            اس میں تنبیہ ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اسانید حدیث ، مسائلِ فقہ اور دیگر علوم کی درس و تدریس میں مشغول ہوکر قرآنِ کریم کی تلاوت کو ترک کردیا ہے، لہٰذا ان تمام چیزوں کے ساتھ تلاوتِ قرآن کریم اور معانی قرآن میں غور وفکر اور تدبر کرنا چاہیے۔

            دوسری طرف عملی میدان بھی ہم بھول گئے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

            ”قرآن اس لیے نازل کیا گیا؛ تاکہ لوگ اس کے مطابق عمل کریں، لیکن لوگوں نے اس کی درس وتدریس کوعمل ٹھہرالیا ہے۔ یقینا تم میں سے ایک شخص سورہٴ فاتحہ سے ختم ِقرآن تک پورا قرآن پڑھ لیتا ہے اور ایک حرف نہیں چھوڑتا، لیکن قرآن پر عمل کرنا اور اس کے مطابق زندگی گزارنا چھوڑ دیتا ہے۔ “

            یہ بات ان لوگوں کے لیے ہے، جو اس کے حروف تو یاد کرتے ہیں، لیکن اس کے حدود کو ضائع کردیتے ہیں۔

            میمون بن مہران فرماتے ہیں:

            ”اگر اہلِ قرآن درست ہوجائیں، تو تمام لوگ سدھر جائیں گے۔“

            حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

            اس قرآن کو بہت سے بچوں اور غلاموں نے پڑھا، جنہیں تفسیر کا کوئی علم نہیں اور نہ ہی قرآنِ کریم کی آیات میں غور وفکر اور تدبر کرتے ہیں۔

            وہ اس کے حروف کو حفظ کرلیتے ہیں اور اس کے حدود کو ضائع کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض مرتبہ ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے پورا قرآنِ کریم پڑھ لیا اور اس میں سے ایک حرف بھی نہیں چھوڑا، لیکن اللہ کی قسم! اس نے وہ سب کچھ چھوڑ دیا جو اسے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، جیسے اخلاق اور اعمال ؛کہ وہ قرآن کریم کے مطابق عمل کرتا اور قرآنی اخلاق میں رنگ جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے۔

            بعض مرتبہ کوئی کہتا ہے کہ میں پوری سورت ایک ہی سانس میں پڑھ لیتا ہوں، اگر عمل نہ ہو تو نہ یہ قراء ہے اور نہ حکما اور نہ ہی متقی و پرہیز گار علما۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کے لوگوں کی کثرت نہ فرمائے، جو تلاوت تو کرتے ہیں لیکن عمل بالکل نہیں کرتے اور یہ معاملہ بعض افراد کے لیے اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے کہ جس وقت وہ آیاتِ قرآنیہ کی تلاوت کرتے ہیں، اسی وقت کے برخلاف عمل کرتے ہیں ، جیسا کہ امامِ غزالی رحمہ اللہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ :

            ” بہت سے تلاوت کرنے والے تلاوت کرتے ہیں اور قرآن ِکریم ان پر لعنت کرتا ہے۔ “

            بعض مرتبہ بندہ تقرب الی اللہ کی غرض سے تلاوتِ قرآن کرتا ہے اور وہ جانتا بھی نہیں کہ وہ خود پر لعنت بھیجتا ہے۔ وہ پڑھتا ہے:

             ﴿ اَ لَا لَعْنَةُ اللّہِ عَلَی الظّلِمِیْنَ﴾

( ہود:۱۸)

            ”سب لوگ سن لیں کہ اللہ کی لعنت ہے ان ظالموں پر۔“

            حالاں کہ وہ خود پر اور دوسروں پر لعنت کرنے والا ہوتا ہے۔اور بعض حضراتِ علما فرماتے ہیں : کہ ایک بندہ ایک سورت شروع کرتا ہے تو اس کو پوری پڑھ لینے تک فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں اور دوسرا ایک بندہ ایک سورت شروع کرتا ہے، تو اس کو پورا پڑھنے تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔

            عرض کیا گیا یہ کیسے ؟ تو فرمایا: جب وہ بندہ حلال کو حلال قرار دیتا ہے اور حرام کو حرام ، تو فرشتے اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں، ورنہ اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اور یہی لوگ اس وعید کے تحت داخل ہیں، جو روایت حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمائی ہے کہ

            ”ما آمن بالقرآن من استحل محارمہ “

             کہ جس نے قرآن کریم کے حرام کو حلال جانا ، اس کا قرآن پر ایمان نہیں۔

            امامِ غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسی وجہ سے منقول ہے کہ جو شخص اخلاقِ قرآن سے متصف نہ ہو، جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے پکارتے ہیں اور فرماتے ہیں :

             ”تجھے میرے کلام سے کیا مطلب؟ حالاں کہ تو مجھ سے اعراض کرتا ہے، اگرتو مجھ سے توبہ نہیں کرتا تو میرا کلام چھوڑ دے۔“

            اس نافرمان کی مثال جو قرآنِ کریم کو بار بار پڑھتا ہے، ایسی ہے جیسے کوئی بادشاہ کے خط کو دن میں کئی بار پڑھتا ہو اور بادشاہ نے خط میں پیغام دیا ہو کہ ملک کو آباد کرو اور یہ شخص ملک کو ویران کرنے میں مشغول ہو۔یعنی وہ صرف خط پڑھنے پر ہی اکتفا کیے ہوئے ہے،عمل درآمد سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

            اگر وہ اس کے کلام اور خط کو نہ پڑھتا اور پھر عمل نہ کرتا، تو وہ اس کے کلام کا استہزا کرنے والانہ ہوتا اور کم ناراضگی اور سزا کا مستحق ہوتا۔ یہ تو پڑھ کر بھی عمل نہیں کررہا ہے۔یعنی بادشاہ کے کلام کا استہزا کرکے غیض وغضب اور سزا کا مستحق ہورہا ہے، یہی حال اس شخص کا ہے جو قرآنِ کریم تو پڑھتا ہے، لیکن اس پر عمل نہیں کرتا۔

            اسی وجہ سے یوسف ابن اسباط رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

            میں قرآن کریم پڑھنے کا ارادہ کرتا ہوں ، جب مجھے اس کے مضامین یاد آجاتے ہیں تو میں عذاب سے ڈر کر ذکر و اذکار اور تسبیح میں مشغول ہوجاتا ہوں۔

            لہٰذا ہمیں چاہیے کہ تلاوت قرآنِ کریم اور تدبرِ قرآنِ کریم کے ساتھ ہم اخلاقِ قرآن کریم پر بھی عمل کریں۔   

          اللہ تعالیٰ ہمیں اعمالِ صالحہ اور قرآنی اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین!