قرآنِ کریم اور صحابہ کرام کے شب و روز

مفتی حمید الرحمن سمستی پوری/استاذ جامعہ اکل کوا

                تمام آسمانی کتابوں میں قرآنِ کریم وہ عظیم المرتبت ورفیع الشان کتاب ہے، جسے کتاب اللہ ہونے کے ساتھ ساتھ کلام اللہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے، اس کی تعلیمات پرعمل پیرا ہونا ہی ایک کامیاب زندگی کی ضمانت ہے،نزول ِقرآن سے قبل عرب ایک ایسی قوم تھی، جو تہذیب و تمدن سے عاری اور خالی تھی، تمام قسم کے علوم وفنون سے تہی دامن،نہ ایرانی تہذیب سے کچھ غرض،نہ ہی روم کی تمدن کی کچھ پرواہ،تعلیم وتہذیب کے سرمایہ سے تہی دست ودامن تھی۔

                ان کے پاس اگر کچھ تھا تو وہ بکریوں کے ریوڑ،اونٹوں کی قطاریں اورپہاڑیوں کی سنگلاخ چٹانیں، دامن کوہ کی چوٹیوں سے ابھرتا ہوا سورج اورافق کے حوض میں ڈوبتا ہوا آفتاب تھا،صحرا کی تپتی زمین تھی،سب سے بڑھ کر ان کے پاس قوتِ بیان کا بے پناہ ملکہ تھا، ان کی فصاحت وبلاغت کے آگے تمام دنیا کے اہل زبان عجمی یعنی گونگے تھے اور ان کو اس پر ناز تھا۔

                گرد ونواح کی اقوام میں قوم ِعرب کے لئے جاہل و وحشی قوم کا تصور تھا،ایسی قوم کے پاس اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر اور رسول پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کا آخری پیغام لے کرآئے،جس کے معیاری انداز بیاں اور معجزانہ فصاحت و بلاغت کے سامنے اپنی فصاحت پرنازکرنے والے اہل زبان بے زباں ہوگئے،پھر قرآن فقط معجزانہ فصاحت و بلاغت کی بنیادپر باکمال نہیں بلکہ اپنے علم و حکمت کی موتیوں میں بھی بے مثال کمال رکھتاہے، جن سے قرآن کا دامن بھرا ہوا ہے،تو ایسی قوم جو اخلاق سے عاری،تہذیب وتمدن سے نہ آشنا اور راز ِانسانیت سے ناواقف تھی، فطرتاً جب اس کے سامنے ایسی فصیح و بلیغ کتاب آئی تو اس کی حالت کیا ہوگی؟

                جب یہ قوم دامن ِاسلام میں داخل ہوئی تو جوچیز ان کے دل ودماغ میں رچی وبسی تھی وہ قرآن اور صاحب ِقرآن کی ذات ِبابرکت تھی،ایک طرف ان کے سامنے قرآن تھا تو دوسری طرف رسول ِرحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں چلتا پھرتا حامل قرآن تھا۔جیساکہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات و اطوار قرآن کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے ؛ تو اس سے اس بات میں مزید نکھار آتا ہے کہ ان کاقرآن سے لگاؤ اور شغف کس قدر ہوگا،کیوں کہ قرآن سے محبت و الفت صاحب ِقرآن سے اٹوٹ وابستگی سے ہی ممکن ہے۔

                صحابہ کرام کے توسط سے ہی ہم تک یہ بیش بہا نعمت پہنچی،اس مقدس جماعت کا قرآن مجید سے بے پناہ لگاؤ تھا،قرآن کی تلاوت سے ان حضرات کو بڑا شغف تھا۔تلاوت ِقرآن ان کی زندگیوں کا ایک روشن ترین باب ہے۔قرآن کے نزول سے پہلے یہ لوگ اشعارگنگنایا کرتے تھے، لیکن قرآن کے نزول کے بعد اشعار پھیکے پڑ گئے،اب کلام ِالٰہی کی چاشنی نے ان کے قلوب کو اپناگرویدہ بنا دیا،اب ذوق تھا تو تلاوتِ قرآن کا،اور ذوق بھی ایسا کہ تیر پے تیرکھائے جارہے ہیں،خون کی دھاریں بہہ رہی ہیں،مگرتلاوت کلام کی مٹھاس میں دنیا کی کوئی چیز حائل نہ ہو سکی۔۔ اللہ اکبر۔۔ قرآن کریم سے کس قدر لگاؤ اور محبت تھی۔

                خلیفہٴ اول،غارِیار حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت ِقرآن کی آواز سن کر مشرکین کی عورتیں اور بچے اکٹھے ہوجاتے تھے اور بڑے انہماک سے قرآن کی تلاوت سننے میں اس قدر مشغول ہو جاتے تھے کہ مشرکین نے یہ دیکھ کر کہ کہیں قرآن سن کر ان کے بچے اور عورتیں مسلمان نہ ہو جائیں، مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنہ جس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی ضمان دی ہوئی تھی کو شکایت کی۔تو اس نے حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالی عنہ کو روکنا چاہا تو آپ نے ضمان واپس کردی۔

بحوالہ (ابو ہشام ۳۴۴)

                وہ ذواتِ مقدسہ جب قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے تو ان پر بے خودی کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہو جاتے تھے۔ آیاتِ رحمت کی تلاوت کرتے تو خوشی سے جھوم اُٹھتے اور اس آیت کو باربار دہراتے۔اور آیات ِعذاب پڑھتے تو اس سے اللہ کی پناہ چاہتے اور شدت سے گریہ زاری کی حالت ہوجاتی۔چناں چہ ایک مرتبہ یمن سے کچھ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملنے آئے تو آپ نے ان کے سامنے قرآن مجید کی کچھ آیات تلاوت کی تو وہ رونے لگ گئے۔حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا ہمارا حال بھی کچھ یوں ہی ہے۔

                حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں سورہٴ یوسف پڑھی تو زارو قطار رونے لگے۔اور رونے کی آواز اتنی بلند ہوئی کہ پیچھے مقتدی حضرات بھی سنتے تھے۔

                صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے غایت ِشوق کا عالم یہ تھا کہ وہ کم سے کم وقت میں ختم قرآن کرنا چاہتے تھے۔اس قدر تلاوت قرآن میں انہماک تھا کہ غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش قائم رکھنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔

                حضرت عبداللہ بن عمر بن العاص فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یارسول اللہ! میں کتنے دنوں میں قرآن کریم ختم کروں؟

                 آپ علیہ السلام نے فرمایا:ایک ماہ میں، میں نے عرض کیا کہ مجھے اس سے زیادہ کی قوت ہے۔آپ نے فرمایا: بیس دن میں ختم کرلو ،میں نے اس سے بھی کم دنوں میں ختم ِقرآن کی طاقت ظاہر کی تو آپ علیہ السلام نے میری رعایت کرتے ہوئے پندرہ دن،پھردس دن، پھر سات دن میں ختم کرنے کی اجازت دی،ساتھ ہی آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو۔

                بحوالہ(سنن ابی داؤود۱۳۷۷،صحیح للبخاری۵۰۵۲، صحیح للمسلم۱۱۵۹)

                قرآن پر عمل اور تعلق کا ہی حاصل تھا کہ وہ قوم جو تہذیب و تمدن سے آشنا نہ تھی،جنگ وجدال اور لوٹ مار کی خوگر حلال وحرام کی تمیز سے بے گانہ تھی وہ ایک دم تہذیب و تمدن،شرافت وامانت اور صداقت ودیانت کی علمبردار بنی،جو جہالت کی ناکافور ہونے والی تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی تھی،علم کے نور کی شمعیں جلانے لگی، جو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھی،دوسرے کے لیے اپنا خون دینے لگی، جی ہاں یہ قرآنی تعلیمات ہی تھیں جس نے ان کو قعر مذلت سے نکال کر عزت و تکریم کی بلندیوں تک پہنچادیاتھا۔آج امت ِمسلمہ بھی اگر اپنے ٹوٹے ہوے تعلق کو قرآن سے وابستہ اور جوڑ لے تو انقلاب کی نوید سنائی دینے میں دیر نہ لگے گی۔

اقبال نہ کیا ہی خوب کہاتھا:

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

 اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

محترم قارئین کرام!

                سوال یہ پیدا ہوتا ہے،کہ عرب کے لوگوں میں یہ حیران کن اور سریع الاثر انقلاب کس طرح رونما ہوا تو اس کا ایک ہی جواب ہے،قرآن وسنت سے گہرا تعلق۔قرآن کریم تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی زندگی کا محورتھا۔کوئی قرآن ِکریم کی تلاوت کررہا ہے۔کوئی اس کو لکھ رہا ہے،کوئی اس کو حفظ کررہا ہے،کوئی اس کو نماز میں پڑھ رہا ہے۔کوئی اس کے مفہوم ومطالب سیکھ رہاہے۔کوئی اس کی تفسیر دوسروں کو سمجھارہا ہے۔کوئی تجوید وترتیل سے پڑھ رہا ہے۔

                حضرت سعید بن جبیر ایک دفعہ ساری رات ایک آیت بار بار تلاوت کرتے رہے؛ حتیٰ کہ صبح ہوگئی،اس طرح کے واقعات روایات میں بکثرت ملتے ہیں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن ِکریم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:”خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہُ“۔

                 یعنی تم میں سے بہترین شخص وہ ہے، جو قرآن کو اپنی ہدایت کے لیے سیکھتا ہے، پھر آگے دوسروں کوسکھاتاہے۔

                نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”رشک صرف دو آدمیوں پر جائز ہے۔ایک وہ شخص ہے جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا ہو پھر وہ شب ورز اس کی تبلیغ وتلقین کرنے اور اس کی اشاعت کرنے میں مصروف ہو اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ نے مال دیا اور وہ شب وروز اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہو۔“چناں چہ قرآن کریم ان کی زندگی کامرکز ومحور بن چکا تھا۔وہ پڑھتے تھے تو دل اللہ کے رعب سے بھر جاتا،جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی اور رونگٹے کھڑے ہوجاتے۔

                آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مختلف طریقوں سے اور مختلف مثالوں سے سمجھاتے تھے کہ قرآن کریم کی ایک آیت دنیا جہاں کی بڑی سے بڑی دولت سے بڑھ کر باعث برکت اور باعث رحمت ہے۔اسی وجہ سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے قرآنِ کریم کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالیا ،ان کے دلوں میں قرآنِ کریم کی عظمت وجلالت جاگزین ہوگئی۔وہ صفائی اور پاکیزگی کی حالت میں نہایت ادب واحترام سے اسے چھوتے تھے،تلاوت ومطالعہ کے وقت کسی سے بات نہ کرتے۔ایک دفعہ کسی نے قرآن ِمجید ہاتھوں میں پکڑے ہوئے اپنا جسم کھجایا تو حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت ناراض ہوئے اور تادیباً وضو کرنے کا حکم دیا۔

عمل بالقرآن!

                اسی طرح قرآن ِمجید پر عمل کرنے میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اپنی نظیر آپ تھے۔وہ ہر آیت اور ہرحکم پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن آمادہ رہتے تھے۔تحویل قبلہ کاحکم سنتے ہی فوراً نماز کے اندر ہی چہرے نئے قبلے کی طرف پھیرلیے۔شراب کی حرمت کا حکم آیا تو ہونٹوں تک آئے جام واپس چلے گئے اور مدینہ کی تمام گلیاں شراب سے رنگین ہوگئیں اور اس کے برتن تک توڑ دیے گئے۔چار سے زائد بیویاں رکھنے کی ممانعت آئی تو لوگوں نے اپنی پیاری بیویوں کو فوراً رخصت کردیا۔

                اسی طرح حکم آتے ہی مشرک بیویوں کو چھوڑ دیا گیا۔جب یہ آیت نازل ہوئی:

                 لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّیٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ“۔

                یعنی تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیز راہ ِخدا میں خرچ نہ کرو۔

                تو حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا عزیز ترین باغ راہِ خدا میں دے دیا۔جب پردے کا حکم آیا تو سب عورتوں نے اپنی چادریں لے لیں اور اگلے دن مدینہ میں کوئی خاتون پردہ کے بغیر نظر نہ آتی تھی۔جب قرآن میں حکم آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آوازیں پست رکھو تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی آواز اتنی پست کرلی کہ لوگ سن نہ سکتے۔ایک اور صحابی ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز اونچی تھی،وہ گھر میں ہی بیٹھ گئے، اس ڈر سے کہ وہ آپ کے سامنے اونچی آواز سے نہ بول دیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کچھ دن تک ان کو نہ دیکھا تو پوچھا کہیں وہ بیمار تو نہیں؟تفتیش کرنے پر پتہ چلا کہ وہ آواز اونچی ہونے کی بنا پر خانہ نشین ہوگئے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا اور فرمایا کہ تم جنتی ہو۔

اصحابِ صفہ:

                اسی طرح اصحاب ِصفہ کا تو کام ہی دن رات قرآن کریم پڑھنا،پڑھانا،اس کو سیکھنا،اس میں غوروتدبر کرنا پھر آگے لوگوں کو سکھانا تھا،غرض یہ تھا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے تعلق بالقرآن کاحال؛یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر ترین عرصے میں وسیع اسلامی سلطنت قائم کی اور دنیا کو درخشاں تہذیب وتمدن سے ہمکنار کیا؛اسی طرح زندگی کے تمام شعبوں میں رہنمائی وامامت کا حق ادا کردیا۔

                خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین کے دور میں اور بعد میں اموی وعباسی دور میں مسلمان شمعِ قرآن ہاتھ میں لے کر اقصائے عالم تک چھا گئے۔اسلامی سلطنت کی حدود جتنی وسیع ہوئیں،اتنا ہی قرآن کا پیغام عام ہوا،اس کی تعلیم کو فروغ ملا اس پر عمل کرکے دنیا سکون واطمینان اور فوزوفلاح سے دو چار ہوتی رہی۔مسلمانوں نے فکری،معاشی،اخلاقی،سیاسی اور معاشرتی نظام میں اتنی پیش رفت کی اور جدید دنیا کو اس انداز سے متاثر کیا کہ یہ کہنا بالکل بجا ہوا کہ یہ مسلمان کا تعلق بالقرآن ہی جدید یورپ کی نشاة ِثانیہ کاباعث اور محرک بنا۔خصوصاً علم وادب کے میدان میں وہ بنی نوع انسان کو تحقیق وتفتیش کی نئی راہیں سجھا گئے۔

حاملین قرآن کے لیے قرآن پر عمل نہ کرنے کی سزا:

                نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسلمانوں کو قرآن پر عمل کرنے پر بیش قیمت خوش خبریاں سنائیں،وہاں ترک قرآن پر زبردست وعید بھی سنائی۔ارشاد ہے:”إِنَّ اللَّٰہَ یَرْفَعُ بِہَذَا الْکِتَابِ أَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہِ آخَرِینَ“یعنی”اللہ تعالیٰ اس قرآن ِکریم کے ذریعے کچھ اقوام کو سربلند فرماتاہے۔(یعنی ماننے والوں کو) اور(نہ ماننے والوں) کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دیتاہے۔“

                نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”الْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَکَ أَوْ عَلَیْکَ“، ”قرآن تیرے حق میں حجت ہے(اگر تو اس پر عمل کرے) اور تیرے خلاف بھی حجت ہے(جب تو اس پر عمل نہ کرے)“۔

                قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

                ﴿أَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّةِ یَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُوقِنُونَ﴾

                کیا یہ لوگ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں؛ حالاں کہ جو لوگ یقین رکھتے ہیں ان کے لیے اللہ کے قانون سے بڑھ کرکس کا قانون ہوسکتاہے۔

                قرآن ِپاک میں ارشاد ہوتاہے:

                ﴿وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْکَافِرُونَ﴾۔

                 جو لوگ قر آن کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے، تو ایسے لوگ کافر ہیں۔

                ﴿وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ﴾۔

                 جو لوگ قرآن قر آن کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، تو ایسے لوگ ظالم ہیں۔

                ﴿وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ فَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ﴾۔

                جو لوگ قرآن کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں، تو ایسے لوگ فاسق ہیں۔

                مزید ارشاد ہوتا ہے:”کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور ایک حصے کا انکار کرتے ہو، جو شخص تم سے ایسا کرے اس کی بھلا کیا سزا ہوسکتی ہے۔بجز اس کے کہ وہ دنیا میں ذلیل وخوار ہو اور آخرت میں سخت عذاب کی طرف لوٹایا جائے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے“۔

(سورة البقرة)

                تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان قرآن وسنت کے پابند رہے وہ دنیا میں سربلند رہے۔اور دوسری قومیں ان سے دبتی تھیں،ان کے سامنے سرتسلیم خم کرتی تھیں۔وہ خیر امت ہونے کی حیثیت سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ ادا کرتے تھے تو ہندوستان میں،اسپین میں،بلکہ تمام اقصائے عالم میں ان کی حکومت تھی؛مگر جب مسلمانوں کا تعلق قرآن سے کمزور ہوا،ان میں عقیدہ وعمل کی بہت سی خرابیوں نے راہ پائی،بدعات اور رسوم کو فروغ حاصل ہوا،کردار کھوکھلا ہوا،ایمانی قوت زائل ہوئی اور مسلمانوں کا تمام رعب ودبدبہ جاتا رہا تو آہستہ آہستہ دنیا کی سیاست پر ان کی گرفت ڈھیلی ہونی شروع ہوئی۔اسپین اس طرح مسلمانوں کے ہاتھ سے گیا کہ آج وہاں مرثیہ خوانی کے لیے بھی کوئی مسلمان نہ رہا۔اسی طرح ہندوستان ہاتھ سے گیا۔ترکی میں مسلمان حکومت آہستہ آہستہ کمزور ہونا شروع ہوئی اور اسے یورپ کا مرد بیمار کہا جانے لگا۔مختلف لارنس آف عربیہ وجود میں آئے،جنہوں نے حیلوں بہانوں سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا۔مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہرجگہ یورپی قوتیں غالب وفاتح بن گئیں اور مسلمان ہر جگہ مفتوح ومغلوب ہوگئے۔

                قرآن کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک بھی افسوسناک ہے،یوں تو ہر محفل اور ہر جلسہ کی کارروائی کا آغاز قرآن پاک سے ہوتاہے ،مگر عمل سراسر اس کے مخالف ہوتاہے۔قرآن ِکریم کے صرف ناظرہ پڑھنے والے انگلیوں پر گنے جاتے ہیں، پوری عمر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں گزارنے والے لوگ قرآن کو پڑھنے اس کا ترجمہ وتفسیر سیکھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ عربی زبان بہت مشکل ہے۔اس لیے قرآن سمجھنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں وہ بے چارے قرآن وحدیث کو اگر پڑھنا بھی چاہیں تو انگریزی ترجموں کی مدد سے پڑھتے ہیں،اس طرح وہ قرآن واسلام کی روح کوکیسے اخذ کرسکتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جگہ جگہ درسِ قرآن کے حلقے قائم کیے جائیں۔نصاب تعلیم میں اس کو بنیادی اہمیت دی جائے۔سوشلسٹ ممالک کمیونزم کی تعلیم کو اپنی تعلیمی پالیسی میں نمایاں اہمیت دیتے ہیں۔اسرائیلی اپنی تعلیمی پالیسی میں صیہونیت کو نمایاں اہمیت دیتے ہیں۔مگر مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے۔کہ بس اس کے وقتاً فوقتاً ختم کروادیے جائیں۔اور ہر محفل وجلسہ کی کارروائی کا آغاز اس سے کرلیاجائے،اس کے تعویز بنالیے جائیں،عدالتوں میں اس کی ذریعہ قسمیں اور شہادتیں کھائی جائیں،بس یہی اس کا مصرف ہے۔                 یہ قرآن پاک سے صحابہٴ کرام کے تعلق کا اجمالی خاکہ تھا اگر کسی کو تفصیل مطلوب ہو تو کتب احادیث اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہیں،اللہ تعالیٰ ہمیں ان نفوسِ ربانیہ کے نقوشِ پا پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔