قدیم حفاظ اورنگ آباد کے مابین مسابقة القرآن الکریم

            دانہ پور کے پروگرام سے فارغ ہو کر آپ اورنگ آباد پہنچے۔ یہاں قدیم حفاظِ شہر کے مابین ”مسابقة القرآن الکریم“ کا انعامی جلسہ” پٹیل لانس،بیڑ بائی پاس اورنگ آباد“ میں منعقدہوا تھا۔ یہ مسابقہ مرحوم الحاج شبیر پٹیل کی یاد اور ایصالِ ثواب کی غرض سے منعقد کیا گیا تھا۔

            اس مسابقے کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بلا تفریقِ عمر تمام حفاظِ شہر اورنگ آباد شریک ہوئے۔ الحمدللہ، یہ مسابقہ بڑا کامیاب رہا۔ اس پروگرام میں اول اور دوم درجہ حاصل کرنے والے حفاظ کو عمرہ کی سعادت کا موقع دیا گیا اور تیسرے درجے والے کو۳۰/ ہزار روپے نقد انعام سے نوازا گیا۔

            مولانا اس عظیم پروگرام میں بحیثیتِ مقررِ خصوصی مدعو تھے۔ آپ نے تمام قدیم حفاظ کی حوصلہ افزائی فرمائی، ان کی قرآن سے وابستگی کو سراہا، اور عوام کے درمیان حفظِ قرآن، تلاوتِ قرآن، اور تفسیر قرآن کی اہمیت پر نہایت عمدہ خطاب فرمایا۔

خلاصہٴ خطاب:

قرآن کریم کی اہمیت اور امت کی ذمہ داریاں:

            آپ نے فرمایا:قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،جو امت مسلمہ کے لیے رہنمائی اور نجات کا ذریعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بندہ سورہ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتا ہے، گویا کہ وہ اللہ سے گفتگو کر رہا ہے۔

            آپ نے سورہ فاتحہ کی عظمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایسی سورت ہے، جس کی کوئی نظیر نہ تورات، نہ زبور اور نہ ہی انجیل میں موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ امت اسے طوطے کی طرح پڑھتی ہے، اس کے معنی و مفہوم اور عظمت سے ناواقف ہے۔ امت کا بڑا طبقہ قرآن پڑھنا تو دور، سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتا، جو روحانی پستی کا سبب بنتاجارہا ہے۔

            آپ نے بیان میں قرآن سے امت کی وابستگی پر زور دیا ، کیونکہ یہی امت کی بلندی کا راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو چھوڑنے والوں کو ذلت سے دوچار کرنے کی دھمکی دی ہے۔ امت کو اپنی نسلوں کی ایمانی تربیت کے لیے قرآن سے وابستہ ہونا چاہیے۔

            مزید یہ کہ موجودہ حالات میں امت شدید فتنوں کا شکار ہے، ایمان کا تحفظ سب سے اہم چیلنج ہے۔ موبائل اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال نے ایمان کو خطرے میں ڈال دیا ہے؛ لہٰذا، ہمیں اپنی زندگیوں کو قرآن کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

            بیان میں یہ بھی کہا کہ قرآن کو صحیح تجوید کے ساتھ پڑھنا، اس کے معنی سمجھنا، اس پر عمل کرنا، اور اس کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ تراویح میں قرآن کو مکمل اور تجوید کے ساتھ پڑھنے کی سنت کو زندہ رکھنے اور مزید رواج دینے پر زور دیا۔

            غزہ کے لوگوں کی مثال دیتے ہوئے بیان میں کہاکہ ان کی استقامت کا راز قرآن سے ان کی وابستگی ہے۔ انہوں نے قرآن کے ساتھ ایسا رشتہ جوڑا کہ ہر گھر میں حفاظ موجود ہیں۔ یہ امت کے لیے ایک سبق ہے کہ ایمان اور استقامت قرآن سے وابستہ ہونے میں ہے۔

            آخر میں، دعا کی کہ اللہ تعالیٰ امت کو قرآن کی تلاوت، اس کے سمجھنے، اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے، اور ہماری نسلوں کی ایمانی و قرآنی تربیت میں مدد فرمائے۔