مولانا محمد مرشد صاحب قاسمی /استاذ جامعہ اکل کوا
{سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَا، اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo}(بنی اسرائیل)
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندۂ خاص کو رات کے ایک قلیل حصے میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ لے گیا؛ جس کے اردگرد ہم نے برکت دی تاکہ ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بلا شبہ وہ خوب سننے والااور دیکھنے والا ہے ۔
ایک با برکت جگہ:
ّّ بیت المقدس اور اس کے اردگرد اللہ تعالیٰ نے ظاہری اور معنوی بے شمار برکتیں رکھی ہیں۔ ظاہری برکت تو یہ ہے کہ اس کے اردگرد قسم قسم کے پھل ، کھیتیاں اور نہریں ہیں ۔اور معنوی برکت یہ ہے کہ اس کے اردگرد بہت سے صالحین اور حضراتِ انبیائے کرام مدفون ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ انبیائے کرام اس علاقے میں مبعوث ہوئے، اس کے بابرکت ہونے کا تذکرہ متعدد آیتوں میں ہے۔
حضرت لوط اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کی نجات کا ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا : {وَ نَجَّیْنَاہُ وَلُوطًا إِلَی الْأَرْضِ الَّتِي بٰرَکْنَا فِیْہَا لِلْعَالَمِیْن}(الانبیاء) ہم نے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت لوط ؑ کو نجات دے کر اس سرزمین میں پہنچایا ،جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکت رکھی۔
حضرت سلیمانؑ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:{وَلِسُلَیْمَانَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِي بِأَمْرِہٖ إلَی الْأَرْضِ الَّتِي بٰرَکْنَا فِیْہَا}(الانبیاء)
ہم نے حضرت سلیمان ؑ کے لیے تیز ہوا کو مسخر کردیا جو اُن کو اس سرزمین کی طرف لے جاتی جس میں ہم نے برکت دی۔
قومِ سبا کی خوش حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایاگیا: {وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ وَبَیْن الْقُرَی الَّتِي بٰرَکنا فِیْہَا قُرَیً ظَاہِرَۃً}(سبا) ہم نے ان کے اور ان کی بستیوں کے درمیان جس میں ہم نے برکت دی، راستہ پر سے نظر آنے والی بستیاں بنائیں۔
ایک مقدس جگہ:
اس سرزمین کو اللہ تعالیٰ نے ارضِ مقدسہ سے تعبیر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کا قول نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:{یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِي کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ}(المائدۃ)
اے میری قوم ! مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ، جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے مقدر کردیاہے۔
وہ رفعت اور بلندی والی سرسبزوشاداب جگہ ہے:
اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو بلندی اور شادابی نصیب فرمائی۔قرآن کریم حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ حضرت مریم کا یوںتذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتاہے:{وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہٗ آیَۃً وَّآوَیْنَاہُمَا إلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْن}(المومنون)
ہم نے حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ کو قدرت کی ایک نشانی بنایا اور دونوں کو ایک بلند قرار اور چشمہ والی جگہ پر ٹھکانہ دیا۔
ہمارے نبی ا کی جائے اسراء ہے:
ہمارے نبی خاتم النبیین ا کے سفرِ اسرا کی انتہااِسی ارضِ مقدس پر ہوئی۔واضح ہوکہ سفر ِمعراج کے دو حصے ہیں۔ ایک زمینی جو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اس کو اسراء کہا جاتا ہے اور دوسرا مسجدِ اقصیٰ سے عالمِ بالا کی طرف اس کو معراج کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس بابرکت جگہ کا انتخاب کیا تاکہ وہاں کی معنوی برکتیں آپ کو حاصل ہوںاور تمام انبیائے کرام کی خوبیاں اور کمالات آپ کے اندر منتقل ہوجائیں، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے تمام خوبیاں آپ ا کے اندر منتقل کردیں۔
ایک شاعر کہتا ہے:
حسنِ یوسف دمِ عیسیٰ یدِ بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اس بابرکت جگہ پر سفر اسرا میں لے جانے کا ایک بڑا مقصد یہ بھی تھا کہ دنیا والوں پر یہ بات روزِروشن کی طرح واضح اورصاف ہوجائے کہ یہ مقدس جگہ اگر آخری نبی کی جائے اسرا ہے، تو اس جگہ کاوارث بھی ان کی آخری امت ہی ہوگی،کوئی دوسری امت صبحِ قیامت تک اس کی وارث نہیں ہوسکتی۔
بیت المقدس ہمارے پیغمبر اکے امامت کی جگہ ہے:
آپ ا جہاں سید الاولین والآخرین اور محبوبِ رب العالمین خاتم النبیین ہیں، وہیں آپ امام النبیین بھی ہیں۔ شبِ اسرامیں آپ ا کا ایک بڑا معجزہ یہ ظاہر ہوا کہ اس رات میں آپ ا کے لیے سارے انبیائے کرام کو زندہ کردیا گیا اور اِس شب میں آپ ا نے مسجدِ اقصیٰ میں سارے انبیا کی امامت بھی فرمائی اور اسی وقت یہ آیت بھی نازل ہوئی:{وَسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَا اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُّعْبَدُوْنَ}(الزخرف)
نبی ا سے پہلے انبیائے کرام سے پوچھ لیں کیا ہم نے رحمن کے سوا کچھ معبود بنائے جن کی پرستش کی جائے؟
وہ ہمارا قبلۂ اول ہے:
ہمارے نبی ا جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں اس وقت یہودیوں کے تین بڑے قبائل آباد تھے۔بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع، تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ انے سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی،تاکہ یہودیوں کو اسلام اور مسلمانوں سے قرب ہو۔ اور وہ اپنا پرانا تعصب وعداوت ختم کرکے آپ اکی رسالت ونبوت کو تسلیم کرلیں، لیکن خاطر خواہ فائدہ اور تبدیلی ان کی زندگی میں نظر نہ آئی۔ دوسری طرف آپ اکی دلی خواہش تھی کہ بیت اللہ کو قبلہ بنا دیا جائے اور بار بار آپ آسمانوں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تھے کہ کب وحی آئے اور تحویلِ قبلہ ہوجائے ؛چناں چہ تحویلِ قبلہ کا حکم آگیا اور بیت اللہ کو قبلہ قرار دیا گیا۔{قدنریٰ تقلب وجہک فی السمآء فلنولینک قبلۃ ترضٰہا فول وجہک شطر المسجد الحرام}البقرۃ
ترجمہ: تحقیق کہ ہم آسمان کی طرف باربارآپ کی نگاہ اٹھتے دیکھ رہے ہیں۔ضرورہم آپ کوایسے قبلہ کی طرف پھیردیںگے،جوآپ پسندفرماتے ہیں۔سوآپ مسجدِحرام کی طرف رخ کرلیں۔
آگے اللہ تعالیٰ نے تحویلِ قبلہ کاایک مقصدبھی بتادیا: {وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِي کُنْتَ عَلَیْہَا إلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ}(البقرۃ)آپ جس قبلہ پر تھے وہ ہم نے اس لیے رکھا تھا ؛تاکہ ہم دیکھ لیں کہ پھر جانے والوں میں سے کون رسول کی پیروی کرنے والے ہیں۔
حشر کے لیے ندا وہیں سے ہوگی:
حضرت اسرافیل ؑ پہلی مرتبہ صور پھونکیں گے تو سارے انسان مرجائیں گے ۔پھر دوسری مرتبہ صور پھونکیں گے تو سب زندہ ہوجائیںگے اور دونوں صوروں کے درمیان ۴۰؍ سال کا فاصلہ ہوگا۔اور جب سارے انسان زندہ ہوں گے؛ تو میدانِ حشر میں جمع کرنے کے لیے وہیں سے ندا ہوگی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاسْتَمِعْ یَومَ یُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَکَانٍ قَرِیْبٍ}
ترجمہ: اے مخاطب سن! جس دن ایک پکارنے والا قریبی جگہ سے پکارے گا۔ قریبی جگہ سے مراد مفسرینؒ کے نزدیک صخرۂ بیت المقدس ہے، جو وسطِ ارض ہے اور زمین کا وہ حصہ آسمان سے زیادہ قریب ہے ۔
ارضِ مقدس اور مسجدِ اقصیٰ کا مستحق اور محافظ کون؟
جب وہ ارضِ مقدس مہبطِ انبیا اور مدفن انبیا ہے توظاہر ہے، ایسی مقدس جگہ کے محافظ قاتل اور ظالم لوگ نہیں ہوسکتے۔ جس قوم نے عام انسانوں کو ہی نہیں ؛ بل کہ کائنات کی عظیم ہستیوں،یعنی انبیائے کرام کو بھی قتل کیا ہے،اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم کو بار بار قرآنِ کریم میںاِن الفاظ میں ذکر کیا ہے: {ذٰلِکَ بَأَنَّہُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِایٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْرِ حَقٍ }(البقرۃ) ان پر یہ سب حالات اس لیے آئے کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا انکار کرتے اور حضراتِ انبیائے کرام کو قتل کرتے تھے۔
وہ جگہ نہایت بابرکت ومقدس ہے تو اس بابرکت جگہ کی مستحق وہ قوم ہرگز نہیں ہوسکتی، جن پر اللہ تعالیٰ نے ذلت ومسکنت کا ٹھپّہ لگا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{ضُرِبَتْ عَلَیِہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ وَباَؤُوْا بِغَضَبِ مِّنَ اللّٰہِ}(آلِ عمران)
ترجمہ: ان پر ذلت ومسکنت کا ٹھپّہ لگا دیا گیا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب کو لے کرلوٹے۔
اس عظیم عبادت گاہ کے مستحق عبادت واطاعت سے روگردانی کرنے والی قوم نہیں ہوسکتی۔ اس قبلۂ اول کے محافظ وہ یہود ونصاریٰ نہیں ہوسکتے ،جنہوں نے ہمیشہ نمازیوں اور قبلوں کی بے حرمتی کی۔ اس حشر کی جگہ کے محافظ‘ حشر اور یومِ آخرت کے منکر نہیں ہوسکتے۔
ارضِ مقدس اور مسجدِ اقصیٰ کے محافظ صرف مسلمان اور اہلِ ایمان ہی ہوسکتے ہیں؛ لیکن آج امریکہ اسلام دشمنی اور اہلِ اسلام سے نفرت کی بنیاد پر ایسے فیصلے کررہا ہے اور مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کررہا ہے۔ افسوس ہے عرب حکمرانوں پر جواس عظیم عبادت گاہ کی فکر نہیں کررہے ، قبلۂ اول کی بازیابی کی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ کاش اللہ تعالیٰ آج ہمارے درمیان کوئی عمرِفاروق ثانیؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ کوپیدا کردے ۔ عرب حکمرانوں کی فکروں میں اتحاد پیدا کرکے ان کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے اور قبلۂ اول کی بازیابی کی شکلیں پیدا فرمادے۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز۔