مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانوی
اللہ رب العزت نے کائنات کو پیدا کیااور اسے انسان کے لیے مسخر کردیا ۔ انسان کو آزمائش کے لیے پیدا کیا اور کائنات کو اس کے لیے آزمائش اور امتحان گاہ بنایا ۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: ﴿خَلَقَ الْمَوْتَ و الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً﴾(الملک)”کہ اس ربِ کائنات نے موت وحیات کو پیدا کیا؛ تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرتا ہے“۔ لہٰذا اس دنیا میں اللہ کا دستور یہ ہے کہ ہر مخلوق کو موت سے دو چار کرتے ہیں۔
بڑے کام کی انجام دہی میں ذمے داراور فکرمندافراد کا کلیدی کردار:
بہر حال !ہم انسان ہیں اور انسان کو اللہ نے کم زور بنایا ، وہ اس دنیا میں اپنے کام انجام دینے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتاہے، جب کوئی انسان بڑے کام کا بیڑا اٹھاتا ہے تو اس کی کام یابی کے لیے ذمہ دار اور فکر مند قسم کے افراد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ میرے والد محترم خادم القرآن والسنہ نے پندرہویں صدی ہجری کے آغاز میں ایک تعلیمی مشن کا آغاز کیا ، جو ابتدامیں بہت چھوٹا تھا۔
۱۴۰۰ھ میں جب آپ نے جامعہ شروع کیا تو صرف ۶/ طلبہ تھے اور میرے عمِ محترم حافظ اسحاق صاحب وستانوی دامت برکاتہم جو فی الحال بیمار چل رہے ہیں، قارئین سے ان کی صحت کے لیے دعاوٴں کی درخواست ہے۔ اللہ انہیں صحت کی نعمت سے مالا مال فرمائے۔ اسی طرح مولانا یعقوب خان پوری رحمہ اللہ تھے،اس کے بعد حافظ عبد الصمد صاحب ناظمِ مطبخ جن سے بندے نے احسن القواعد پڑھا۔اسی طرح مولانا ابراہیم صاحب جو میرے والد صاحب کے پھوپھی زاد بھائی اور میرے پھوپھا بھی ہوتے ہیں۔ اس وقت برطانیہ میں مقیم ہیں۔ اس کے بعد حافظ احمد کروڈ یا رحمہ اللہ درجہٴ حفظ کے لیے آئے تھے، جن کے پاس میں نے حفظ شروع کیا تھا اور تقریباً ایک پارہ اور دوسرے پارے کا کچھ حصہ یاد کیا تھا ۔مولانا علی دیولہ جن سے بندے نے فارسی پڑھی ، قاری سلیمان صاحب جن سے بندہ نے ناظرہ کے دور میں تجوید پڑھی ۔ مولانا حسن ستپونی جن سے بندے نے علم النحو ، اصول الشاشی ، ترجمہٴ قرآن ، ہدایہ ، مشکوٰة ، حسامی اور شرح معانی الآثار پڑھی؛ بہر حال والد صاحب پر یہ شعر پوری طرح صادق آتا ہے #
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
ماموں جان مولانا عبد الرحیم صاحب کی جامعہ آمد:
میرے ماموں حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نور اللہ مرقدہ بھی جامعہ سے اس کے ابتدائی دور ہی میں (جب جامعہ” مکرانی پھلی “گاوٴں سے باہر نئی جگہ پر غالباً۱۹۸۵ء میں منتقل ہونے کے دوسال بعد ہی) منسلک ہوگئے تھے۔ آپ جب شروع میں تشریف لائے تھے تو خاص طور پر نورانی قاعدہ کا ماحول جامعہ میں بنایا ۔ اس لیے کہ آپ جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ سے تشریف لائے تھے ، جس کے بانی میرے بڑے ماموں جن کا ابھی کچھ دیر قبل(بوقت آذان فجر ۱۹/محرم الحرام ۱۴۴۲ھ) ہی انتقال ہوا ہے ، انا اللہ وانا الیہ راجعون ،وہ ہردوئی ہوکر آئے تھے۔ اور آپ نے ہر دوئی کے طرز پر گجرات میں نورانی قاعدہ کی تدریس شروع کی تھی۔ اگر چہ آپ عربی درجات کی ابتدائی کتابیں پڑھاتے تھے، مگر بڑی دل چسپی سے نورانی قاعدہ بھی پڑھاتے تھے، بندے نے بھی آپ سے نورانی قاعدہ پڑھا تھا۔ والد محترم کے ساتھ اخلاص کی برکت سے اللہ کا خاص فضل یہ ہوا کہ اللہ آپ کو رجال ِکار فراہم فرماتے رہے اور والد صاحب نے بھی انہیں کھل کر کام کرنے کا موقع دیا اور جم کر ان اساتذہ نے تعلیم وتربیت کے میدان میں کام کیا ۔ آج بھی الحمدللہ ان اساتذہ کی اکثریت ۳۵/ سال سے ۴۰/ سال گزرنے کے بعد بھی جامعہ میں مصروف عمل ہیں۔ اللہ تعالیٰ والد صاحب کے ساتھ پرخلوص تعاون کرنے والوں کی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور جو بقید ِحیات ہیں ،انہیں عافیت اور نافعیت کے ساتھ عمرِ دراز نصیب فرمائے۔ آمین یار ب العالمین!
مولانا عبد الرحیم صاحب کی شادی:
بات چل رہی تھی قافلہٴ وستانوی کے ایک عظیم سپوت ؛ جن کو بندہ بچپن ہی سے جانتا تھا ۔ اس لیے کہ وہ میرے ماموں ہوتے تھے اور ہم انہیں ہماری گجراتی زبان میں ” گورا ماما “ کہتے تھے ۔ گجراتی میں منجھلے چچا اور ماموں کے لیے ” گورا“ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اورجب میں ۶/ یا ۷/ سال کا تھا تووہ ” اکل کوا“ تشریف لائے تھے۔ اس کے بعد ان کی شادی بھی ہمارے والد صاحب کے پھوپھی زاد بھائی حاجی یعقوب صاحب کی صاحب زادی سے ہوئی تھی، مجھے آج بھی ان کی شادی میں شرکت کے مناظر یاد ہیں۔
مولانا مرحوم سے بندے کی نسبی وروحانی نسبتیں:
اتفاق سے حاجی یعقوب صاحب صالح میرے استاذ بھی ہوتے تھے۔ میں نے ان سے احسن القواعد کے بعد پارہ عم پڑھا تھا اور شادی کے بعد مولانا عبد الرحیم صاحب مرحوم ہمارے پڑوسی بھی بنے، تو گویا ایک نہیں دو نہیں بہت ساری رشتہ داریاں ان کے ساتھ جمع ہوگئیں۔ بندہ نے ان سے نورانی قاعدہ ، مشکوٰة، ہدایہ، جلالین، بیضاوی اور مسلم شریف پڑھی۔ بل کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ انہوں نے خارج میں بندے کو” حمد باری“ بھی پڑھائی تھی۔اب ظاہر سی بات ہے کہ اتنی ساری نسبی اور روحانی نسبتوں کی وجہ سے بندے نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ، ان کے علوم سے مستفید بھی ہوا۔ تو ان کا حق بنتا ہے کہ میں ان پر کچھ لکھوں؛ جب اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی توفیق کی نعمت سے نوازا ہے تو آئیے ان کی زندگی کے روشن پہلو کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
حیاتِ مستعارکی ایک جھلک:
ولادت:ماموں جان مولانا عبد الرحیم صاحب کی تاریخ ِولادت۱۸/ اگست ۱۹۶۳ء پاسپورٹ وغیرہ پر ہے ۔ اس اعتبار سے اسلامی تاریخ ۲۸/ ربیع الاول ۱۳۸۳ھ ہوتی ہے۔
آپ نے ایک نیک صالح گھرانے میں پرورش پائی ۔ میرے نانا جان ”حاجی محمد“ بڑے نیک صالح انسان تھے۔ بندے نے انہیں اچھی طرح دیکھا ، عبادت گزار اور تربیت کے اعتبار سے سخت تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کی تمام اولاد صلاح کی حامل ہیں اور تربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اولاد میں بھی تربیت کا وہی انداز جھلکتا ہے۔ جیسے میری والدہ محترمہ اللہ تعالیٰ انہیں دارین میں اجرِ عظیم سے نوازے۔ انہوں نے ہماری تعلیم وتربیت میں بے مثال کردار ادا کیا ہے، کبھی ہمارے اندر صاحب زادگی نہیں آنے دی۔ بچپن میں حفظ میرے لیے دشوار تھا ، مگر والدہ محترمہ –اطال اللہ بقاء ہا علینا بالعافیة والصحة والسلامة– نے اصرار کیا کہ کچھ بھی ہوجائے تمہیں حفظ تو کرنا ہی ہوگا۔اتفاق سے میرے حفظ کا آغاز بھی میرے ماموں مولانا عبد الرحیم صاحب ہی کے پاس ہوا تھا۔ غالباً ۱۹۸۹ء یا۱۹۹۰ء میں ماموں جان مولانا عبد الرحیم صاحب تراویح اور تفسیر کے لیے بلساڑ ضلع کے شہر کلاپارڈی میں رمضان میں جانے لگے، تو والدہ نے مجھے بھی ان کے ساتھ کردیا کہ اس کا حفظ شروع کروا دو ۔ اس طرح تقریباً ۸/ سال کی عمر ہوگی رمضان میں ماموں جان نے مجھے تیسواں پارہ یاد کروایا ۔ اس کے بعد رمضان بعد حافظ احمد کرولیا رحمہ اللہ نے جو غالباً ماموں کے بھی استاذ تھے ، ان کے پاس چندپارے حفظ کیے۔ اور قرآن مکمل حفظ ہمارے والد صاحب کے پھوپی زاد بھائی اور چچا مولانا ابو بکر وستانوی کے پاس کیا۔ گویا بچپن سے میرے تعلیمی سلسلہ میں ان کا اہم رول اور کردار رہا۔
آپ کی تعلیم وتربیت:
حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب کے برادرِ کبیر اور میرے بڑے ماموں مفتی عبد اللہ صاحب دامت برکاتہم چوں کہ عمر میں ان سے پندرہ بیس سال بڑے تھے، لہٰذا ہمارے نانا جان جو اگر چہ خود انگریزی کے ماہر تھے ۔ علاقے کے لوگ اپنے انگریزی خطوط وغیرہ حل کرنے کے لیے ان کے پاس آتے تھے ، مگر ان کی شادی ایک نیک گھرانے میں ہوئی ۔ ہماری نانی جان کے والد گاوٴں کے نیک اور صالح افراد میں شمار ہوتے تھے۔ بندے نے بچپن میں انہیں دیکھا تھا،جب وہ صاحب ِفراش تھے اور بزرگوں سے بہت تعلق رکھتے تھے۔ ہمارے نانا ان کے صلاح وتقویٰ کی وجہ سے ہر مسئلہ میں ان کی بات پر عمل کرتے تھے؛ ورنہ میرے نانا پٹیل خاندان سے تھے، جس کے معنی سردار ہوتا ہے۔ آپ کے آبا ء واجداد اس دور میں شاید گاوٴں کے سردارا نہ حیثیت کے مالک رہے ہوں گے ، جن کا اندازہ ہمارے نانا کو وراثت میں ملی شاندار حویلی سے بھی ہوتا ہے ۔ تقریباً سوسال قبل کی بنی ہوئی یہ بڑی شاندار حویلی ہے جو دو منزلہ ہے اور گاوٴں کا سب سے عالی شان مکان مانا جاتا ہے۔مگر ہماری نانی کے والد کی برکت سے ہمارے نانا نے اپنے تمام بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا۔
مولانا مرحو کو حفظ ِقرآن کی سعادت حضرت ناظم (مولانااسعد اللہ صاحب) سے حاصل ہوئی :
غرض یہ کہ مولانا کے برادرِ کبیر حضرت مفتی عبد اللہ صاحب سہارن پور میں زیر تعلیم تھے۔لہٰذا ۷/ سال کی عمر میں وہ مولانا عبد الرحیم صاحب کو بھی اپنے ساتھ سہارن پور لے گئے اور ان کا حفظ اپنے پاس ہی شروع کر دیا، مگر ایک دن مفتی صاحب نے مولانا عبد الرحیم صاحب کی بہت سخت سرزنش کی ۔ حضرت ناظم صاحب مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری رحمة اللہ علیہ تک یہ بات پہنچی تو حضرت ناظم صاحب نے کہا کہ یہ اب میرے پاس حفظ کرے گا اور ماشاء اللہ مولانا عبد الرحیم صاحب نے بقیہ بیس پارے حضرت ناظم صاحب کے پاس ایک ہی سال میں مکمل کرلیے اور حافظ ہو گئے۔ یہ مولانا کا بلند نصیبہ تھا کہ حضرت ناظم صاحب مظاہر علوم سہارن پور کے پاس آپ کو حفظ کا موقع میسرآیا، اس طرح محض ۸/ سال کی عمر میں آپ حافظ قرآن ہوگئے، اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندگی بھر کے لیے قرآن کریم کی خدمت کے لیے منتخب کرلیا تھا۔
مولانا عبدر الرحیم صاحب کی تعلیم وتربیت میں مفتی عبد اللہ صاحب کا کردار:
مظاہر علوم سے فراغت پاکر بڑے ماموں جان مفتی عبد اللہ صاحب بغرض ِتدریس جامعہ فلاح ِدارین ترکیسر میں استاذ مقرر ہوئے تو اپنے برادرِ صغیر مولانا عبد الرحیم صاحب نور اللہ مرقدہ کو بھی اپنے ساتھ لے آئے اور اس طرح مولانا عبد الرحیم صاحب نے درجہٴ عالمیت وفضیلت یہیں سے مکمل کیا۔ آپ بڑے ذہین تھے، لہٰذا اساتذہ کی خاص توجہ کے حامل رہے۔خاص طور پر مولانا ابرار صاحب دھولیوی نور اللہ مرقدہ سے آپ کے تعلقات بہت گہرے تھے۔
فلاح دارین سے مظاہر علوم سہارنپور:
فراغت کے بعد ایک سال کے لیے پھر سہارن پور آئے اور مظاہر علوم میں دوبارہ دورہٴ حدیث شیخ یونس صاحب کے پاس بخاری پڑھ کر کیا اور دیگر اکابرین ِمظاہر علوم سے بھی کسب فیض کیا۔جن میں خاص طور پر حضرت مفتی مظفر صاحب ، حضرت مفتی یحیٰ صاحب ، حضرت مولانا عاقل صاحب اور حضرت مولانا سلمان صاحب وغیرہ شامل ہیں۔
جماعت میں تبلیغ دین کی خدمت:
اس کے بعد آپ نے جماعت میں ایک سال لگایا اور خاص طور پر عرب جماعتوں کے ساتھ وقت گزارا۔ان کی عربی تقریروں کا ترجمہ کرتے تھے، جن کی وجہ سے آپ حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب کے نور نظر بننے میں کام یاب ہوئے۔
تدریسی سلسلہ کا آغاز:
آپ جب سہارن پور کے دورہٴ حدیث اور جماعت کا سال پورا کرچکے تو اسی عرصہ میں بڑے ماموں مفتی عبد اللہ صاحب نے اپنے گاوٴں ” رویدرا“ سے ۲۵/ کیلومیٹر کے فاصلے پر مغرب کی جانب واقع قصبہ”ہانسوٹ“ میں مدرسہ قائم کیا، جس کا مقصد وہاں کے میاں بھائی برادری کی تعلیم وتربیت تھی، جو جہالت کے شکار تھے، لہٰذا غالباً آغاز تدریس سے دو یا تین سال تک آپ وہیں تدریسی سلسلہ سے منسلک رہے۔
اس کے بعد آپ اکل کوا تشریف لائے اور آپ ہمارے والد صاحب کے خاص مساعد اور دست ِراست بن گئے۔ آپ نے جامعہ میں قیام کے دوران جس کا عرصہ تقریباً ۳۳/ سال ہے، متنوع قسم کی خدمات انجام دیں۔
گوناگوں خوبیوں اور کمالات کے حامل:
مولانا بہت ذہین وفطین اورٹھوس علمی استعداد کے مالک تھے۔انتظامی صلاحیت بھی بہت اچھی تھی اور خطابت ، تقریر اور جلسوں کی نظامت تو آپ کی مثالی تھی ۔ آپ کا م یاب معلم اور استاذ تھے؛ اسی کے ساتھ ساتھ بہترین مربی بھی تھے۔ تربیت میں اپنے والد اوربرادر ِکبیر کی طرح سخت تھے۔ اسی طرح طلبہ پر گرفت بھی بہت اچھی تھی۔ آپ کو شاعری سے بھی دل چسپی تھی ؛ جہاں آپ شان دار خطیب تھے ،وہیں آپ کو اللہ نے زورِ قلم بھی عطا فرمایا تھا۔ صوم وصلاة کے بہت پابند تھے۔
قیامِ جامعہ کے دوران آپ کے شب و روز:
آپ انتہائی درجہ متحرک اورفعال شخص تھے۔ صبح اذان سے قبل جلد بیدار ہوکر طلبہ کو اٹھانے کے لیے ہاسٹل پہنچ جاتے اور اٹھانے والوں اور طلبہ دونوں پرنظر رکھتے۔ یہ کام وہ اپنی مرضی سے کرتے تھے ، جامعہ نے انہیں اس کا مکلف بھی نہیں کیا تھا۔ فجر میں صف ِاول میں بالکل امام کے پیچھے آپ کی تمام نمازیں ہوتی تھیں اور ظہر و عصر کی امامت والد صاحب کے ذمہ تھی ، مگر والد صاحب کی عدم ِموجودگی میں آپ نیابت کرتے تھے۔
فجر کے بعد مجلسِ ذکر میں پابندی سے شریک رہتے۔ اس کے بعد پہلے گھنٹے میں تفسیر ِبیضاوی کا درس دیتے ۔ تیسرے گھنٹے میں مشکوٰة شریف کا درس اور پانچویں گھنٹے میں مسلم شریف۔ دوپہر ظہر بعد پہلے گھنٹے میں ہدایہ پڑھاتے تھے۔ عصر بعد والد صاحب کی عدم ِموجود گی میں طلبہ کو وعظ کرتے۔ مغرب بعد لکھنے پڑھنے اور مطالعہ کا کام کرتے اور عشا جلد ادا کرتے ، کچھ دیر مطالعہ کے بعد سوجاتے تھے۔
مولانا اور تحریکِ مسابقة القرآن الکریم:
مولانا کی طبیعت ہی میں کام کی دھن تھی ، لہٰذا طلبہ سے کوئی نہ کوئی سرگرمی کرواتے رہتے تھے۔ والد صاحب نے جب مسابقات شروع کیے تو آپ نے بڑی قربانیاں دے کراس تحریک کو کا م یاب بنایا اور ہندستان کے چپے چپے میں جاکر قرآن کی تجوید کے ساتھ تلاوت کی طرف متوجہ کرانے میںآ پ نے بڑا رول ادا کیا۔ بندہ حفظ کے آخری سال میں تھا، تو جامعہ نے تحریکِ مسابقات شروع کی تھی ۔ روزِ اول سے ہی آپ اس کے سربراہ رہے ، پھر ہر تین سال کے بعد صوبائی سطح پر ہونے والے مسابقات کے لیے آپ کشمیر سے کنیا کماری تک سفر کرتے تھے۔ گو آپ نے ان مسابقات کی خاطر ۹/ مرتبہ پورے ملک کا سفر کیا ۔ آپ سائل اور اناوٴنسری؛ دونوں خدمت بہ خوبی انجام دیتے تھے۔ اسی لیے آپ کی وفات کے موقع پر ہندستان کے چپے چپے سے لوگوں نے تعزیت کی اور بے شمار متوسلین نے مقالات لکھے ، نظمیں پڑھیں اور اپنے غم کا اظہار کیا۔
نظامت اوراناؤنسری:
نظامت اوراناوٴنسری میں تو آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا ۔مجمع کو جوڑ کر رکھنے میںآ پ بڑے ماہر تھے، آپ کو سیکڑوں اردو کے اشعار یاد تھے اور ہر موقع کے مطابق شان دار اشعار اپنے مخصوص انداز میں پڑھنا آپ کاذوق اور نمایاں وصف تھا۔
مولانا کا ذوق ِمطالعہ:
مولانا کا ذوق مطالعہ بڑا وسیع تھا۔ ہر موضوع پر شان دار کتابوں کا انتخاب کرتے اور خوب مطالعہ کرتے تھے۔ اسی لیے آپ کی تقریروں ، اسباق و دروس اور اناوٴنسری میں بڑی جاذبیت ہوتی تھی۔ باتوں سے باتیں نکالنا نکتہ آفرینی تو گویا آپ کا خاص وصف تھا۔ ہمیشہ خالی گھنٹوں اور رخصت کے وقت میں مطالعہ میں منہمک رہتے تھے۔ سفر کے دوران گاڑی میں بھی زیادہ تر وقت مطالعہ میں ہی صرف کرتے تھے اور مطالعہ میں جو کچھ آتا اس کا مذاکرہ کرتے۔
طبیعت ظریف اور بڑے ملنسار:
ملنسار‘ طبیعت میں ظرافت اور خوش اخلاقی بھری تھی؛لہٰذا ہر ملنے والے کے دل کو جیت لیتے تھے۔ بد نظمی سے آپ کو نفرت تھی ۔کسی بھی وارد مہمان کا پرتپاک استقبال کرتے تھے ۔ اکثر مسجد میمنی سے نکل کردار الضیوف میں جاکر مہمانوں کی خبر گیری کرتے تھے۔ دارالضیوف کے ذمہ دار ہمیشہ ان سے چوکنا رہتے تھے۔
رشتہ داروں سے حسن سلوک:
رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا گویا آپ کی طبیعت کا حصہ تھا۔سب سے ملتے رہنا ،سب کی ہمیشہ خبر گیری کرنا، سب کی خوشی و غمی میں پیش پیش رہنا یہ آپ کا طرہٴ امتیاز تھا۔
طلبہ کی تشجیع:
طلبہ کے ساتھ حسن ِسلوک ہمیشہ استعداد کو پروان چڑھانے کے لیے کوشاں رہنا ، ان کے درمیان علمی مقابلہ کروانا ، کتابوں کی صورت میں ان کو تعلیم پر آمادہ کرنا ، یہ آپ کی طبیعت ِثانیہ تھی ، ذہین اور غریب طلبہ کی مدد کرنا یہ آپ کی طبیعت کا جزء لاینفک تھا۔آپ ایک افراد ساز انسان تھے۔
”اکل کوا“ کے اطراف میں اصلاحی مساعی :
شہر ” اکل کوا“ اور اس کے اطراف کی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں جاکر بیانات کرنا، ان کی اصلاح کے لیے بھر پور کوشش کرنا ان کی دینی ضرورتوں میں تعاون کرنا ؛یہ بھی آپ کا خاص وصف تھا ۔ اکل کوا شہر کی جامع مسجد میں آپ ہفتہ واری درس حضرت مولانا طاہر صاحب نور اللہ مرقدہ کے انتقال کے بعد سے مسلسل بیس سال تک دیتے رہے۔
غریبوں اور حاجت مندوں کی مدد :
حاجت مندوں اور غریب کا تعاون کرنا بھی آپ کا خصوصی مشغلہ تھا۔ کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ نہیں لوٹنے دیتے تھے۔
شادی بیاہ کروانا :
آپ کا ایک خاص وصف شادیاں کروانا بھی تھا۔ معاونین کے ذریعہ اجتماعی شادیاں کرواتے اور نوجوانوں کے لیے لڑکیاں اور اچھا رشتہ تلاش کرکے ان کی شادیاں کروانے کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔
مولانا مرحوم اپنے شاگردوں کے لیے نمونہ تھے:
غرض یہ کہ ماموں جان حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے تلامذہ اور شاگردوں کو چاہیے کہ ان کی خوبیوں کو اپنانے کی بھر پور کوشش کریں اور ان کے لیے صدقہ جاریہ کا سبب بنیں۔
آپ کی غیر متوقع جدائی:
مولانا مختصر ترین حالات کے بعد ہم سے جد ا ہوگئے۔ ابھی بھی ان کی تصویر نظروں سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ ہمارے درمیان موجود ہیں۔ آپ کی وفات کے موقع پر والد صاحب نے اپنے غم کا اظہار کرتے ہوئے اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا:
مولانا وستانوی کے نزدیک آپ کا مقام اور اہمیت:
” میرے تو گویا دونوں ہاتھ کٹ گئے “
اسی سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ماموں جان مولانا عبد الرحیم صاحب نے ۳۳/ سال آپ کا کس طرح تعاون کیا ہوگا؟ اللہ آپ کی خدمات کو شرف ِقبولیت سے نوازے اور آپ سے راضی ہوجائے۔
آپ کی تالیفی خدمات:
آپ جہاں کام یاب مدرس ، بہترین خطیب ومقرر اور جان دار وشان دار اناوٴنسر تھے، وہیں آپ اردو کے بہترین ادیب بھی تھے۔ آپ نے بے شمار مقالات ومضامین ، مختلف موضوعات پر تحریر کیے، جو جامعہ کے ترجمان ”شاہراہِ علم “ اور گجراتی ترجمان ” بیان مصطفی “ میں شائع ہوئے۔ خاص طور پر آپ نے وفیات پرزیادہ مضامین قلم بند کیے ۔ اس کے علاوہ مختلف اصلاحی ،فکری اور علمی موضوعات پر بھی آپ نے بہت لکھا۔ آپ کے بہت سارے مضامین ملک بھر کے مختلف مجلات اور اخبارات میں شائع ہوئے۔
اس کے علاوہ آپ نے چند کتابیں قلم بند کیں ۔ آپ کی تحریر کا ایک خاص انداز ہوتا ، بہت منظم اور مرتب۔
آپ کی وہ کتابیں جو زیور طباعت سے آراستہ ہوئی وہ یہ ہیں:
(۱)…انوارِسعادتِ دارین۔(۲)…تحفہٴ تراویح۔(اردو/انگلش)
(۳)…توشہٴ راہ ِ حیات یعنی تحفہٴ بیٹی۔(۴)…تحفہٴ حفاظ۔
(۵)…مجھ سے دیکھا نہ گیا حسن کا رسوا ہونا۔یعنی تحفہٴ اذان وموٴذنین مع مسائل اذان واقامت۔
(۶)…ہدیة المتسابقین فی کلام سیدالمرسلین۔(۷)…المذکرات التفسیریة ۔
جامعہ کا ایک اہم مشن مسابقات ِقرآنیہ کا انعقاد ہے ؛چناں چہ جامعہ کی زیرنگرانی اب تک ۹/کل ہند مسابقے ہوچکے ہیں۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلٰی ذَالِکَ۔جس میں کئی فروعات ہوتی ہیں،ان میں ایک فرع تفسیر کی بھی ہوتی ہے ۔اس موقع سے حضرت رئیس الجامعہ حفظہ اللہ کے ایما پر تفسیر ی مذکرہ تیار کیا جاتاہے ،ان میں سے زیادہ تر مذکرے حضرت مرحوم ہی کے تیارکردہ ہیں،مثلاً:
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ فاتحہ)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ بقرہ)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ آل عمران)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ یونس)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ ہود)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ یوسف)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ کہف)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ موٴمنون)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ نور)
- …المذکرات التفسیریة (سورہٴ فرقان)
(۸)…قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی ۔ (۹)…فیض وستانوی؛ فکرکاپودروی
کا خوش نمامظہر۔
(۱۰)…افکارپریشاں…یا…افکارذی شاں۔(۱۱)…شہ سوارِ تعبیرات کے تعبیری جواہر پار ے۔
(۱۲)…دورِحاضرکی شش جہات شخصیت ۔(۱۳)…قرآنی قَسَموں کانادراسلوب ؛ایک اجمالی جائزہ ۔
آپ کی غیر مطبوعہ کتابیں :
(۱)اختلافی مسائل اوران کا حل:(فل اسکیپ۱۱/صفحات)
(۲)…معذورکے احکام:(فل اسکیپ۹/صفحات)
(۳)…زبان وادب اوراردو(منظروپس منظر):(فل اسکیپ۱۰/صفحات)(۴)…درس ِمشکاة۔
(۵)…توضیح حدیث تسبیح برموقع تکمیل صحیح للبخاری: (۶)…شرح بیضاوی شریف۔ (۷)…مواد خطابت۔ (۸)…شرح مقدمہٴ مسلم شریف۔(۹)…قطرہ قطرہ سمندر(دوم)
(۱۰)…ہدیة المتسابقین کی ترتیب جدید۔ (۱۱)…خطبات فلاحی ۔ …یہ سب زیرتیب ہیں۔
(۱۳)…الابواب الثمانیة:
(۱۴)…ان کے علاوہ مختلف موضوعات پر سیکڑوں مضامین ومقالات اورقیمتی تحریریں ہیں۔
کامیاب زندگی اور آخرت میں اکاوٴنٹ:
خلاصہ کلام یہ کہ مولانا عبد الرحیم صاحب نے اپنی حیات مستعار کو بہت قیمتی بنایا اور اپنی تمام صلاحیتوں کو علمی ، فکری اور اصلاحی میدانوں میں پر خلوص وللہیت کے ساتھ صرف کیا۔ آپ ایک مردم ساز انسان تھے۔ آپ نے اپنے پیچھے صدقہ جاریہ کی تمام شکلوں کو چھوڑا ، جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا:
” اذا ما ت الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاث : علم ینتفع بہ او ولد صالح یدعو لہ او صدقة جاریة “ آپ کے ہزاروں شاگرد اور آپ کی کتابیں بھی ، آپ کا علمی صدقہ جاریہ ہیں۔
آپ کی اولادیں اور ان کی تربیت:
آپ نے اپنی اولاد کی بہترین تربیت کی اور ماشاء اللہ تینوں صاحبزادے آپ کے حافظ قرآن ہیں۔ گویا آپ نے اپنی خاندانی نجابت کو باقی رکھا۔ ابھی کچھ دنوں قبل ہم نے اپنے ننہالی رشتہ میں حفاظ کو شمار کیا تو ۵۰/ سے زائد پایا اور ددھیالی رشتہ داروں میں ۴۰/ سے زائد پایا ۔ آپ کے بڑے صاحبزادے مفتی ریحان تو ماشاء اللہ عالم اور مفتی بھی ہیں اور جامعہ میں عربی درجات میں استاذ ہیں۔ آپ کی روحانی ہم جیسی اولاد تو دسیوں ہزار سے متجاوز ہیں۔
رفاہی خدمات:
آپ نے بہت سارے مقامات پر مسجدیں تعمیر کروائیں۔ بہت سارے مقامات پر پانی کی ٹنکیاں اور مدرسے بنوائے ، اسی طرح یہ بھی آپ کے لیے صدقہٴ جاریہ ہے ۔ غرض یہ کہ آپ”طبت حیاً وطبت میتا “کے مصداق ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آپ کی قبر کو جنت کا باغ بنائے۔ آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرماتے ہوئے اللہ ہم سب سے راضی ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین !
حذیفہ وستانوی
۱۹/ محرم الحرام
بروزمنگل/ صبح ۴۰:۸