جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا گیا کہ سیاسی زوال سے پہلے فکری و اعتقادی کمزوری آپسی اختلاف کا باعث ہوتی ہے اور آپسی اختلاف تعلیمی اور علمی کمزوری کا سبب بن جاتا ہے اور تعلیمی اور علمی پسماندگی کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے اورپھر امت سیاسی زوال سے دوچار ہوجاتی ہے ۔
اگر آپ پانچویں صدی ہجری اور گیارہویں صدی عیسوی میں ۲۲؍ شعبان ۴۹۲ھ -۱۵ تموز (۱)(جولائی)۱۰۹۹ئمیں بیت المقدس اورمسجد اقصیٰ کے مسلمانوں کے ہاتھوں سے چلے جانے کے اسباب کا مطالعہ کریں گے ،تومذکورہ اسباب کو ہوبہ ہو پائیںگے ۔ پہلے مسلمانوں میں شیعہ ، سنی اختلاف نے شدت اختیار کی ، مصر میں فاطمی شیعہ خلافت قائم ہوئی اور عراق میں عباسی خلافت قائم تھی۔ پھر مسلمانوں میں قومی اختلاف پیدا ہوئے، ایک طرف عرب دوسری طرف سلاجقہ اور تیسری طرف اتراک ؛ یہاں تک کہ صرف سرزمین ِشام پر دس چھوٹی چھوٹی ریاستیں اوربادشاہتیں وجو د میںآگئیں جو یہ تھیں :
مملکتِ حلب: جس پر ملک رضوان بن تنتش کی حکمرانی تھی۔
مملکتِ دمشق: دقاق بن تنتش اس کے بادشاہ تھے ۔
ریاستِ انطاکیہ: امیریا غی بن مستان اس کے بادشاہ تھے۔
ریاستِ بیت المقدس :الامیران بن سکمان
ریاستِ شیزر: سلطان بن منقذ۔
ریاستِ طرابلس : فخر الملوک ابن عمار۔
ریاستِ حمص: جناح الدولہ ابن ملاعب ۔
سلطنت ِفارس: جو بغداد اور اصفہان پرتھی برکیاروق وہاں کا بادشاہ تھا ۔
سلطنت سلاجقہ روم۔
مملکت ِخراسان: ابو الحرث سنجر بادشاہ تھے۔
ان دس چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے علاوہ دو بڑی بڑی خلافتیں عالم اسلام میں قائم تھیں ۔
خلافتِ عباسیہ عراق اور اس کے گردو نواح میں۔ خلافتِ فاطمہ قاہرہ اور اس کے اطراف میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) سریانی زبان میںجولائی کو تموز کہتے ہیں ۔بعض علاقوں میں مہینوں کے نام آج بھی سریانی مستعمل ہیں مثلاً اردن وغیرہ میں عیسوی مہینوں کو سریانی میں کہتے ہیں :
جنوری -کانون ثانی
مئی -ایار
ستمبر -ایلول
فروری -شباط
جون -حزیران
اکتوبر -تشرین اول
مارچ -آذار
جولائی -تموز
نومبر -تشرین ثانی
اپریل -نیسان
اگست-آب
دسمبر -کانون اول
اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار تھا۔موقع کو غنیمت جان کر یوروپی اقوام نے اپنا اتحاد قائم کیا اور عالمِ اسلام کی طرف ۴۹۰ھ -۱۰۹۷ء میں قدم بڑھانا شروع کیا اور مشکل سے صرف دوسال کے عرصہ میں وہ فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ پر قابض ہوگئے اور ظلم کے وہ پہاڑ توڑے، جس کو بیان کرنے سے بھی بدن توکیا؛ روح بھی کانپ اٹھتی ہے ۔ آج دنیا میں حقوقِ انسانی کا دھنڈورا پیٹنے والے ان ظالموں کے آبا و اجداد کا کردار بھی ہمیشہ سفاکانہ ،قاتلانہ اور جابرانہ رہا ہے ۔
اقوامِ یورپ کے بے پناہ مظالم:
مؤرخین نے لکھا ہے کہ ان ظالم مغربی اقوام نے فلسطین میں موجود تمام لوگوں کو قتل کردیا؛ یہاں تک کہ فتح کے نشے میں دُھت ظالموں نے ان لوگوں کو بھی نہیں بخشا ،جو مسجد اقصیٰ میں پناہ لیے ہوئے تھے ،جن کی تعداد کم ازکم دس ہزار بتلائی جاتی ہے۔ نہ کسی بچے کو بخشا ،نہ کسی عورت کواور نہ کسی معذور کو ۔ایک انگریز مؤرخ’’ فوشیہ دی شارتر ‘‘لکھتاہے جو خود حملہ میں شریک تھا ، کہ جہاںبھی قدم گرتا خون سے لت پت ہوجاتا؛بل کہ نصف ساق تک خون ہوتا تھا۔ا مام ابن اثیرؒنے لکھا ہے کہ مقتولین کی تعداد ۷۰؍ ہزار سے متجاوز تھی، جس میں دس ہزار علما وفقہا تھے ۔
(القدس الشریف ص: ۱۸)